تیمارداری اسلامی طریقہ اور ثواب
کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب قیامت کے دن دوسرے لوگ چھین کرلے جائیں گے مگر ایسے اعمال بھی ہیں جن کو نہیں چھینا جاسکےگا
بخاری شریف میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں ان اوامر و احکام پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے:
۱۔ بیمار کی تیمارداری کرنا
۲۔ جنازے کے پیچھے چلنا
۳۔ چھینک مارنے والے کے جواب میں ''یرحمک اللہ'' کہنا
۴۔ قسم اُٹھانے والے کی قسم کو پورا کرنا
۵۔ مظلوم کی مدد کرنا
۶۔ دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرنا
۷۔ سب کو السلام علیکم کہنا
شرح و تفصیل
یہ وہ با برکت اور نتیجہ خیز اوامر و احکام ہیں، جن پر عمل کیا جائے تو معاشرے میں صالح انقلاب آجاتا ہے اور دلوں میں محبت کا قلزم بہنے لگ جاتا ہے۔ کدورت سے بھر ے سینے اور عداوت سے لبریز دل، بغض و عناد بھول کر ایک دوسرے کی بھلائی اور بہتری کے لیے دھڑ کنے لگ جاتے ہیں اور دل کی سرزمین میں چاہت اور پیار کا خوشبودار بیج بو دیتے ہیں ۔ اسی لیے ان احکامات پر سختی سے کار بند رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سرِ دست سب کی تفصیل ممکن نہیں ، اس لیے صرف پہلے حکم کی تشریح کر تے ہیں ۔
تیمار داری کیا ہے؟
تیمارداری مریض کی دل جوئی کرنے کا نام ہے، بیمار ی کی حالت میں انسان جسمانی حرارت، درد و الم یا زخم کی ٹیسوں کی وجہ سے بڑا ہی بے چین ہو جاتا ہے، اسے کسی پل قرار نہیں آتا ہے اور وہ زندگی سے بیزار ہوجاتا ہے۔
تیمار دار کا کام یہ ہے کہ مریض کے پاس جاکر مایوسی، موت اور ناامیدی کی باتیں کرنے کے بجائے امید افزا باتیں کرے جس سے مریض کی ڈھارس بندھے اور اس میں جینے کی امنگ پیدا ہو۔ بے چینی کے عالم میں عموماً مریض کے منہ سے ہائے ہائے نکلتا ہے ۔ اگر ممکن ہو تو تیماردار مریض کو تلقین کرے کہ وہ ہائے ہائے کرنے کے بجائے اللہ اللہ کرے، اس نازک حالت میں اسے ذکر اللہ سے وہ فوائد حاصل ہو ں گے جو زندگی کے دیگر اوقات میں دیر بعد حاصل ہو تے ہیں۔ اسے اپنے اور دوسرے مسلمانوں کے لیے دعا کرنے کی بھی نصیحت کرے، کیونکہ اس وقت وہ فرشتوں کی طرح گناہوں سے پاک ہوتا ہے، جو دعا کرے وہ قبول ہو تی ہے۔
تیمارداری کی اہمیت
انسان اس دنیا میں نیکیوں کا ذخیرہ کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے، تاکہ نیکیوں کے انبار لے کر قبر اور میدان آخرت میں جائے اور میزان پر جب نیکیاں تولنے کا وقت آئے تو نیکیوں کا پلڑا بھاری رہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''پس وہ شخص کہ جس ( کے اعمال) کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہ خوش گوار عیش و مسرت میں ہوگا'' ( القارعۃ، ۶،۷)
چناں چہ جس کا پلڑا بھاری ہوگا، اسے پسندیدہ ترین زندگی نصیب ہو گی اور وہ بھاری نمبروں کے ساتھ کام یاب ہوگا۔
نیکیوں کی اقسام
نیکیوں کی کئی اقسام ہیں اور ان کی تقسیم کا باقاعدہ ایک نظام ہے ۔نیک اعمال بھی یکساں نوعیت کے نہیں بلکہ فرائض، واجبات، مستحبات اور مباحات کی شکل میں مختلف ہیں، اس لیے ان پر ملنے والی نیکیاں بھی مختلف ہیں۔ بعض اعمال ایسے ہیں جن پر کوئی خاص قسم کی نیکی عطا کی جاتی ہے جو کسی اور عمل سے حاصل نہیں ہو سکتی، اسی طرح ایسے بابر کت اعمال بھی ہیں کہ جب ان میں سے کوئی عمل کیا جائے تو ایک عمل پر بے حد و حساب نیکیاں ملتی ہیں۔
کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب قیامت کے دن دوسرے لوگ چھین کر لے جائیں گے، مگر ایسے اعمال بھی ہیں جن کو نہیں چھینا جاسکے گا۔ اس سلسلے کا ضابطہ اور قانون حضور نبی اکرم ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
ایک مجلس میں آپ ﷺ نے حاضرین سے پوچھا : مفلس کسے کہتے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا، جس کے پاس مال و دولت نہ ہو۔
آپ ﷺ نے فرمایا: مفلس وہ ہو گا جو قیامت کے دن نیکیوں کے انبار لے کر آئے گا مگر اس نے دنیا میں لوگوں کی حق تلفی کی ہو گی، اس لیے وہ آکر کہیں گے ہمارا حق دو! وہ کہے گا دولت دنیا وہیں رہ گئی، اب میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں۔
وہ کہیں گے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تیرے پاس دولت دنیا نہیں، سونا، چاندی، کرنسی نوٹ وہیں رہ گئے ہیں مگر اس جہاں کی کرنسی تو تیرے پاس ہے اور وہ تیری نیکیاں ہیں۔ دنیا میں ہم غریبوں پر تو نے جو مظالم ڈھائے تھے اب اس کے بدلے میں یہ نیکیاں ہمیں دو اور پھر وہ نیکیاں لے کر چلے جائیں گے اور یہ منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ یہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔ انسان کے اوسان خطا ہو جائیں گے اور آنکھوں کے سامنے اندھیر ے رقص کرنے لگیں گے، کیونکہ نیکیوں کی جمع شدہ پونجی لٹ جانے کے باعث بھیانک انجام نظر آنے لگے گا۔
نیکیوں کی اس پونجی کو محفوظ رکھنے اور لٹنے سے بچانے کے لیے دنیا ہی میں ایک طریقہ بتا دیا گیا ہے۔ حدیث پاک میں ایسے اعمال کی نشان دہی فرما دی گئی ہے، جن سے حاصل ہونے والے ثواب اور نیکیوں کو میدان حشر میں دنیا کے مظلوم لوگ نہیں لے سکیں گے۔ ان اعمال میں سے ایک تیمارداری کا ثواب بھی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تیمارداری ایک منفرد اور خاص نوعیت کی نیکی ہے، جسے دیگر اعمال سے حاصل ہونے والی نیکیوں میں سے ایک ممتاز مقام حاصل ہے اور وہ یہ کہ اسے کوئی چھین نہیں سکے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ آخرت کا محفوظ خزانہ ہے، جو اُس خوش نصیب کے کام آئے گا جس نے بیماروں کی تیمارداری کی ہو گی اور ان کے پاس پہنچ کر ڈھارس بندھائی ہوگی۔ بیمار کے پاس پہنچ کر اس کی تیمارداری اور دل جوئی کرنا کتنا بڑا عمل ہے، اس کا اندازہ اس حدیث قدسی سے بھی لگایا جاسکتا ہے ، اس کے راوی حضرت ابو ہریرہؓ ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک شخص سے فرمائے گا۔ '' اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو تونے میری عیادت اور تیمارداری نہ کی! ( تو کیسا بندہ ہے؟) وہ عرض کر ے گا: اے میرے پیارے رب! تو، تو رب اللعالمین ہے( بیمار ہونے سے پاک ہے) میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے پتہ نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا لیکن تو اس کی تیمار داری کے لیے نہ گیا۔ یاد رکھ ! اگر تو اس کی عیادت کے لیے جاتا تو، تو مجھے اس کے پاس پاتا ''۔
'' اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا ( تو کتنا کنجوس ہے) ۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے پیارے رب! تو، تو رب العالمین ہے ( کھانے سے پاک ہے ) پھر میں تجھے کیسے کھانا کھلا تا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا! کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تونے اسے کھانا نہ دیا۔ یاد رکھ! اگر تو اسے کھانا دیتا تو آج اسے میرے پاس پاتا''۔
'' اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی مانگا، لیکن تو نے مجھے پانی پینے کے لیے نہ دیا ؟ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب : تو ، تو خود رب العالمین ہے، (پینے سے پاک ہے) پھر میں تجھے کیسے پلاتا؟ وہ فرمائے گا: تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہ دیا، یاد رکھ! اگر تو اسے پانی پلاتا تو آج اسے میرے پاس پاتا''۔
تیمار داری کی اہمیت کو ظاہر کرنے والی ایک اور حدیث حضرت علی المرتضیٰ شیر خداؓ سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں، میں نے خود یہ حدیث نبی اکرمﷺ سے سنی ہے کہ '' جو مسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی تیمارداری کر تا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعا ئے خیر کر تے ہیں اور اگر شام کو کرتا ہے تو صبح تک، ستر ہزار فرشتے دعائے خیر و برکت کر تے رہتے ہیں اور اس کے بدلے میں اسے جنت میں چنے ہوئے پھل ملیں گے''۔ ( ترمذی)
اسی سلسلے کی ایک اور حدیث ہے ۔ ترجمہ: '' جو کسی کی عیادت کرنے کے لیے جاتا ہے، اس وقت پچھتر ہزار فرشتے اس پر سایہ کناں ہوتے ہیں''۔ ( طبرانی)
تیمارداری کا طریقہ
بیمار کو تسلی دینے اور اس کی ڈھارس بندھانے کے لیے اسلامی اور اخلاقی طریقہ یہ ہے کہ تیماردار ، مریض کے پاس مایوسی پھیلانے اور دل کو توڑنے والی باتیں کرنے کے بجائے ایسی احادیث بیان کرے جن میں بیماری کا ثواب اور اس پر ملنے والی نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہو ، اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ اس کا ذہن آخرت اور اللہ کی رحمت کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ تکلیف پر صبر کرنے کا جذبہ بیدار ہوگا جس سے نفسیاتی طورپر بھی مرض میں افاقہ محسوس ہوگا۔
اسلامی نقطہ نظر سے چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تکلیف، مرد مومن کو گناہوں کی گندگی سے اس طرح پاک صاف کر دیتی ہے جس طرح ماہر دھوبی سفید کپڑے کو پٹخ پٹخ کر پاک کر دیتا ہے اور اس پر غلاظت کا ایک دھبہ بھی نہیں رہنے دیتا۔ اس کی تفصیل مختلف احادیث میں اس طرح ہے۔
مرد مومن کو جو بھی جسمانی تھکاوٹ، بیماری یا ذہنی پریشانی لاحق ہوتی ہے اور وہ غم و فکر کا شکار ہوتا ہے ، یہاں تک کہ اگر کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے بیمار کے گناہ مٹا دیتا ہے اور ان تکالیف کو گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے''۔ (بخاری)
٭ '' جب ایمان دار شخص بیمار ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے شفاء عطا فرماتا ہے تو یہ بیماری اس کے سابقہ گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتی ہے''۔ (ابو دائود)
٭ '' جب بندہ تین دن تک بیمار رہتا ہے تو اس طرح پاک ہو جاتا ہے ، جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ''۔ (طبرانی)
٭ ایک شخص کے گناہ احد پہاڑ کے برابر ہوتے ہیں لیکن اندرونی بخار اور درد سر اسے مسلسل بے قرار رکھتے ہیں ( اور اس کے گناہوں کو مٹاتے رہتے ہیں ) یہاں تک کہ گناہوں کا پہاڑ رائی کے دانے کے برابر رہ جاتا ہے''۔ (مسند احمد)
٭ '' جو پیپ کی بیماری سے مر جائے اسے قبر میں عذاب نہیں ہوتا''۔ ( نسائی)
ان احادیث مبارکہ سے یہ روشنی ملتی ہے کہ بیماریاں ، پریشانیاں اور ہر قسم کی چھوٹی بڑی تکالیف، انسان کے گناہوں کو رحمت کے پانی کے ساتھ دھو ڈالتی ہے اور آلائشوں سے اس طرح پاک کر دیتی ہیں گویا وہ ابھی پیدا ہوا ہے ۔ عیادت کرنے والے کے لیے تیمار داری کا طریقہ یہی ہے کہ وہ بیمار کے سامنے اجر و ثواب بیان کرے تاکہ جہاں مریض کو راحت و تسکین نصیب ہو وہاں تیمار دار کو بھی وہ اجر و ثواب ملے جو کسی بھائی کی عیادت کرنے سے ملتا ہے ۔ (طبرانی)
۱۔ بیمار کی تیمارداری کرنا
۲۔ جنازے کے پیچھے چلنا
۳۔ چھینک مارنے والے کے جواب میں ''یرحمک اللہ'' کہنا
۴۔ قسم اُٹھانے والے کی قسم کو پورا کرنا
۵۔ مظلوم کی مدد کرنا
۶۔ دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرنا
۷۔ سب کو السلام علیکم کہنا
شرح و تفصیل
یہ وہ با برکت اور نتیجہ خیز اوامر و احکام ہیں، جن پر عمل کیا جائے تو معاشرے میں صالح انقلاب آجاتا ہے اور دلوں میں محبت کا قلزم بہنے لگ جاتا ہے۔ کدورت سے بھر ے سینے اور عداوت سے لبریز دل، بغض و عناد بھول کر ایک دوسرے کی بھلائی اور بہتری کے لیے دھڑ کنے لگ جاتے ہیں اور دل کی سرزمین میں چاہت اور پیار کا خوشبودار بیج بو دیتے ہیں ۔ اسی لیے ان احکامات پر سختی سے کار بند رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سرِ دست سب کی تفصیل ممکن نہیں ، اس لیے صرف پہلے حکم کی تشریح کر تے ہیں ۔
تیمار داری کیا ہے؟
تیمارداری مریض کی دل جوئی کرنے کا نام ہے، بیمار ی کی حالت میں انسان جسمانی حرارت، درد و الم یا زخم کی ٹیسوں کی وجہ سے بڑا ہی بے چین ہو جاتا ہے، اسے کسی پل قرار نہیں آتا ہے اور وہ زندگی سے بیزار ہوجاتا ہے۔
تیمار دار کا کام یہ ہے کہ مریض کے پاس جاکر مایوسی، موت اور ناامیدی کی باتیں کرنے کے بجائے امید افزا باتیں کرے جس سے مریض کی ڈھارس بندھے اور اس میں جینے کی امنگ پیدا ہو۔ بے چینی کے عالم میں عموماً مریض کے منہ سے ہائے ہائے نکلتا ہے ۔ اگر ممکن ہو تو تیماردار مریض کو تلقین کرے کہ وہ ہائے ہائے کرنے کے بجائے اللہ اللہ کرے، اس نازک حالت میں اسے ذکر اللہ سے وہ فوائد حاصل ہو ں گے جو زندگی کے دیگر اوقات میں دیر بعد حاصل ہو تے ہیں۔ اسے اپنے اور دوسرے مسلمانوں کے لیے دعا کرنے کی بھی نصیحت کرے، کیونکہ اس وقت وہ فرشتوں کی طرح گناہوں سے پاک ہوتا ہے، جو دعا کرے وہ قبول ہو تی ہے۔
تیمارداری کی اہمیت
انسان اس دنیا میں نیکیوں کا ذخیرہ کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے، تاکہ نیکیوں کے انبار لے کر قبر اور میدان آخرت میں جائے اور میزان پر جب نیکیاں تولنے کا وقت آئے تو نیکیوں کا پلڑا بھاری رہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''پس وہ شخص کہ جس ( کے اعمال) کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہ خوش گوار عیش و مسرت میں ہوگا'' ( القارعۃ، ۶،۷)
چناں چہ جس کا پلڑا بھاری ہوگا، اسے پسندیدہ ترین زندگی نصیب ہو گی اور وہ بھاری نمبروں کے ساتھ کام یاب ہوگا۔
نیکیوں کی اقسام
نیکیوں کی کئی اقسام ہیں اور ان کی تقسیم کا باقاعدہ ایک نظام ہے ۔نیک اعمال بھی یکساں نوعیت کے نہیں بلکہ فرائض، واجبات، مستحبات اور مباحات کی شکل میں مختلف ہیں، اس لیے ان پر ملنے والی نیکیاں بھی مختلف ہیں۔ بعض اعمال ایسے ہیں جن پر کوئی خاص قسم کی نیکی عطا کی جاتی ہے جو کسی اور عمل سے حاصل نہیں ہو سکتی، اسی طرح ایسے بابر کت اعمال بھی ہیں کہ جب ان میں سے کوئی عمل کیا جائے تو ایک عمل پر بے حد و حساب نیکیاں ملتی ہیں۔
کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب قیامت کے دن دوسرے لوگ چھین کر لے جائیں گے، مگر ایسے اعمال بھی ہیں جن کو نہیں چھینا جاسکے گا۔ اس سلسلے کا ضابطہ اور قانون حضور نبی اکرم ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
ایک مجلس میں آپ ﷺ نے حاضرین سے پوچھا : مفلس کسے کہتے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا، جس کے پاس مال و دولت نہ ہو۔
آپ ﷺ نے فرمایا: مفلس وہ ہو گا جو قیامت کے دن نیکیوں کے انبار لے کر آئے گا مگر اس نے دنیا میں لوگوں کی حق تلفی کی ہو گی، اس لیے وہ آکر کہیں گے ہمارا حق دو! وہ کہے گا دولت دنیا وہیں رہ گئی، اب میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں۔
وہ کہیں گے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تیرے پاس دولت دنیا نہیں، سونا، چاندی، کرنسی نوٹ وہیں رہ گئے ہیں مگر اس جہاں کی کرنسی تو تیرے پاس ہے اور وہ تیری نیکیاں ہیں۔ دنیا میں ہم غریبوں پر تو نے جو مظالم ڈھائے تھے اب اس کے بدلے میں یہ نیکیاں ہمیں دو اور پھر وہ نیکیاں لے کر چلے جائیں گے اور یہ منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ یہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔ انسان کے اوسان خطا ہو جائیں گے اور آنکھوں کے سامنے اندھیر ے رقص کرنے لگیں گے، کیونکہ نیکیوں کی جمع شدہ پونجی لٹ جانے کے باعث بھیانک انجام نظر آنے لگے گا۔
نیکیوں کی اس پونجی کو محفوظ رکھنے اور لٹنے سے بچانے کے لیے دنیا ہی میں ایک طریقہ بتا دیا گیا ہے۔ حدیث پاک میں ایسے اعمال کی نشان دہی فرما دی گئی ہے، جن سے حاصل ہونے والے ثواب اور نیکیوں کو میدان حشر میں دنیا کے مظلوم لوگ نہیں لے سکیں گے۔ ان اعمال میں سے ایک تیمارداری کا ثواب بھی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تیمارداری ایک منفرد اور خاص نوعیت کی نیکی ہے، جسے دیگر اعمال سے حاصل ہونے والی نیکیوں میں سے ایک ممتاز مقام حاصل ہے اور وہ یہ کہ اسے کوئی چھین نہیں سکے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ آخرت کا محفوظ خزانہ ہے، جو اُس خوش نصیب کے کام آئے گا جس نے بیماروں کی تیمارداری کی ہو گی اور ان کے پاس پہنچ کر ڈھارس بندھائی ہوگی۔ بیمار کے پاس پہنچ کر اس کی تیمارداری اور دل جوئی کرنا کتنا بڑا عمل ہے، اس کا اندازہ اس حدیث قدسی سے بھی لگایا جاسکتا ہے ، اس کے راوی حضرت ابو ہریرہؓ ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک شخص سے فرمائے گا۔ '' اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو تونے میری عیادت اور تیمارداری نہ کی! ( تو کیسا بندہ ہے؟) وہ عرض کر ے گا: اے میرے پیارے رب! تو، تو رب اللعالمین ہے( بیمار ہونے سے پاک ہے) میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے پتہ نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا لیکن تو اس کی تیمار داری کے لیے نہ گیا۔ یاد رکھ ! اگر تو اس کی عیادت کے لیے جاتا تو، تو مجھے اس کے پاس پاتا ''۔
'' اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا ( تو کتنا کنجوس ہے) ۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے پیارے رب! تو، تو رب العالمین ہے ( کھانے سے پاک ہے ) پھر میں تجھے کیسے کھانا کھلا تا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا! کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تونے اسے کھانا نہ دیا۔ یاد رکھ! اگر تو اسے کھانا دیتا تو آج اسے میرے پاس پاتا''۔
'' اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی مانگا، لیکن تو نے مجھے پانی پینے کے لیے نہ دیا ؟ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب : تو ، تو خود رب العالمین ہے، (پینے سے پاک ہے) پھر میں تجھے کیسے پلاتا؟ وہ فرمائے گا: تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہ دیا، یاد رکھ! اگر تو اسے پانی پلاتا تو آج اسے میرے پاس پاتا''۔
تیمار داری کی اہمیت کو ظاہر کرنے والی ایک اور حدیث حضرت علی المرتضیٰ شیر خداؓ سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں، میں نے خود یہ حدیث نبی اکرمﷺ سے سنی ہے کہ '' جو مسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی تیمارداری کر تا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعا ئے خیر کر تے ہیں اور اگر شام کو کرتا ہے تو صبح تک، ستر ہزار فرشتے دعائے خیر و برکت کر تے رہتے ہیں اور اس کے بدلے میں اسے جنت میں چنے ہوئے پھل ملیں گے''۔ ( ترمذی)
اسی سلسلے کی ایک اور حدیث ہے ۔ ترجمہ: '' جو کسی کی عیادت کرنے کے لیے جاتا ہے، اس وقت پچھتر ہزار فرشتے اس پر سایہ کناں ہوتے ہیں''۔ ( طبرانی)
تیمارداری کا طریقہ
بیمار کو تسلی دینے اور اس کی ڈھارس بندھانے کے لیے اسلامی اور اخلاقی طریقہ یہ ہے کہ تیماردار ، مریض کے پاس مایوسی پھیلانے اور دل کو توڑنے والی باتیں کرنے کے بجائے ایسی احادیث بیان کرے جن میں بیماری کا ثواب اور اس پر ملنے والی نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہو ، اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ اس کا ذہن آخرت اور اللہ کی رحمت کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ تکلیف پر صبر کرنے کا جذبہ بیدار ہوگا جس سے نفسیاتی طورپر بھی مرض میں افاقہ محسوس ہوگا۔
اسلامی نقطہ نظر سے چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تکلیف، مرد مومن کو گناہوں کی گندگی سے اس طرح پاک صاف کر دیتی ہے جس طرح ماہر دھوبی سفید کپڑے کو پٹخ پٹخ کر پاک کر دیتا ہے اور اس پر غلاظت کا ایک دھبہ بھی نہیں رہنے دیتا۔ اس کی تفصیل مختلف احادیث میں اس طرح ہے۔
مرد مومن کو جو بھی جسمانی تھکاوٹ، بیماری یا ذہنی پریشانی لاحق ہوتی ہے اور وہ غم و فکر کا شکار ہوتا ہے ، یہاں تک کہ اگر کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے بیمار کے گناہ مٹا دیتا ہے اور ان تکالیف کو گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے''۔ (بخاری)
٭ '' جب ایمان دار شخص بیمار ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے شفاء عطا فرماتا ہے تو یہ بیماری اس کے سابقہ گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتی ہے''۔ (ابو دائود)
٭ '' جب بندہ تین دن تک بیمار رہتا ہے تو اس طرح پاک ہو جاتا ہے ، جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ''۔ (طبرانی)
٭ ایک شخص کے گناہ احد پہاڑ کے برابر ہوتے ہیں لیکن اندرونی بخار اور درد سر اسے مسلسل بے قرار رکھتے ہیں ( اور اس کے گناہوں کو مٹاتے رہتے ہیں ) یہاں تک کہ گناہوں کا پہاڑ رائی کے دانے کے برابر رہ جاتا ہے''۔ (مسند احمد)
٭ '' جو پیپ کی بیماری سے مر جائے اسے قبر میں عذاب نہیں ہوتا''۔ ( نسائی)
ان احادیث مبارکہ سے یہ روشنی ملتی ہے کہ بیماریاں ، پریشانیاں اور ہر قسم کی چھوٹی بڑی تکالیف، انسان کے گناہوں کو رحمت کے پانی کے ساتھ دھو ڈالتی ہے اور آلائشوں سے اس طرح پاک کر دیتی ہیں گویا وہ ابھی پیدا ہوا ہے ۔ عیادت کرنے والے کے لیے تیمار داری کا طریقہ یہی ہے کہ وہ بیمار کے سامنے اجر و ثواب بیان کرے تاکہ جہاں مریض کو راحت و تسکین نصیب ہو وہاں تیمار دار کو بھی وہ اجر و ثواب ملے جو کسی بھائی کی عیادت کرنے سے ملتا ہے ۔ (طبرانی)