بھیک مانگنے کی مذمت و ممانعت

مانگنے والے اکثر بھیک کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کا گھر بھرا ہوتا ہے اور انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔


ﷲ پاک ہمیں صرف اپنے در کا سوالی بنائے رکھے، اس لیے کہ در در کے سوالی کبھی خوش حال نہیں ہوتے۔ فوٹو:فائل

رب سے مانگنے والے کبھی مایوس نہیں ہوتے اور جو لوگ ہر ایک سے ہر وقت ہر چیز مانگتے ہیں انہیں ان سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا، لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کو ہی بھیک کہا جاتا ہے اور یہ انسان کی غیرت و حمیت کے خلاف ہے۔ اس سے خودداری ختم اور شرم و حیا جاتی رہتی ہے۔

انسان کاہل و کام چور اور لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہوجاتا ہے۔ وہ جب بھی مانگتا ہے خوشامد کرتے ہوئے مانگتا ہے۔ بھکاری کو سب کچھ سہنا پڑتا ہے کیوں کہ اس کا ہاتھ نیچے ہوتا ہے تو نیچا بن کر رہنا بھی پڑتا ہے، دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے اور اسے معاشرے میں اونچا مانا جاتا ہے۔

نبی کریمؐ کا فرمان ہے: '' اوپر والے کا ہاتھ نچلے ہاتھ والے سے بہتر ہے، اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نچلا ہاتھ مانگنے والا ہے۔''

مانگنے والے اکثر بھیک کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کا گھر بھرا ہوتا ہے اور انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اﷲ پاک کا دیا ہوا سب کچھ ہوتا ہے مگر عادت پڑگئی ہے تو مانگیں گے ضرور۔ شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر، عزت نفس بیچ کر، ڈانٹ پھٹکار سن کر بس مانگے جائیں گے، ہاتھ پھیلاتے جائیں گے، آہ و زاری کرتے جائیں گے۔ جسم توانا ہوگا، ہاتھ پاؤں سلامت ہوں گے مگر بھیک مانگنا نہ چھوڑیں گے۔ حیلے بہانے ، روپ بدل کر، خود کو بیمار و اپاہج ظاہر کرکے اور مختلف تدبیروں سے بھیک مانگنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ خود اور بیوی حتیٰ کہ معصوم بچوں کو بھی بے حمیت بنادیں گے۔ بعض بھیک مانگنے والے یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ ہم کیوں نہ مانگیں یہی ہمارا پیشہ ہے، یہی ہماری روزی ہے، ہم فلاں برادری سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے مانگنا ہمارا حق ہے۔ جب کہ شرعاً بھیک مانگنے کا تعلق کسی ذات برادری اور خاندان و قبیلے سے ہرگز نہیں اس کا تعلق ضرورت و حاجت سے ہے بغیر ضرورت و حاجت جو مانگے گا وہ جہنم کی آگ اکھٹی کرے گا اور اپنی جھولی و کشکول میں انگارے بھرے گا۔

ارشاد نبویؐ ہے: '' جس نے لوگوں سے ان کا مال زیادہ جمع کرنے کی نیت سے مانگا وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے، چاہے کم مانگے یا زیادہ۔ ''

(مسلم شریف)

حجۃ الوداع کے موقع پر دو افراد نبی پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ اس وقت صدقات تقسیم فرما رہے تھے ان دونوں نے بھی مانگا۔ رسول اﷲ ﷺ نے ایک نظر دونوں پر ڈالی دیکھا کہ تن درست، توانا اور کمانے کے لایق ہیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: '' اگر میں چاہوں تو اس میں سے تم دونوں کو بھی دے سکتا ہوں، لیکن سن لو! کہ اس میں کسی مال دار اور کمانے کے لایق تن درست و توانا کا کوئی حصہ نہیں۔'' ( ابوداؤد)

دوسری روایت میں ہے کہ صحیح الاعضاء کے لیے مانگنا جائز نہیں۔ ( ترمذی)

مانگنا ایسے شخص ہی کے لیے جائز ہے جو کنگال و فقیر ہو یا سخت پریشان حال مقروض ہو، جو لوگ ان حالات کے بغیر مانگتے ہیں ان کے منہ پر روز قیامت گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی، سارا چہرہ زخموں سے بھرا ہوگا۔'' (بخاری و مسلم)

سہیل بن حنظلہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا: ''جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس اس قدر مال ہے جواس کو غنی کر دے تو وہ اس سوال کے ذریعے آگ کی کثرت طلب کر رہا ہے۔

صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ غنا کی حد کیا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے سوال کرنا جائز نہیں ؟

آپؐ نے فرمایا: '' اس قدر جو اس کے لیے صبح و شام کی غذا کا کام دے سکے۔''

ایک اور روایت میں ہے کہ: '' ایک دن یا ایک رات اور ایک دن پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہو۔'' ( ابوداؤد)

زبیر بن عوام ؓ سے مروی ہے کہ نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی رسی لے کر لکڑیوں کا گٹّھر اپنی پُشت پر اٹھا کر لائے اور اس کو فروخت کرے اور اﷲ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی آبرو بچالے، یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے وہ اس کو دیں یا نہ دیں۔'' ( بخاری )

حدیث پاک میں ہے کہ جو شخص مانگنے اور سوال کرنے سے بچتا ہے اﷲ اس کو بچاتا ہے جو لوگوں کے مال سے بے پروائی ظاہر کرتا ہے اﷲ اس کو بے نیاز بنا دیتا ہے، جو صبر کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو صبر عطا کرتا ہے اور کسی شخص کو صبر سے بہتر اور فراخ عطیہ کوئی نہیں ملا۔ لالچ کے ساتھ مال کو لینا بے برکتی پیدا کرتا ہے، گویا کھاتا جارہا ہے اور پیٹ بھرنے کا نام نہیں لیتا۔ اس طرح مانگنے کا حریص، ہاتھ پھیلانے کا عادی خواہ کتنا ہی جمع کرلے اس کی حرص نہیں جاتی، ہر وقت مزید مزید کا طلب گار رہتا ہے۔ بے حمیتی کا یہ عالم ہوجاتا ہے کہ پیچھے پڑکر لیتا ہے، جھڑکیاں سہہ کر لیتا ہے، ڈانٹ پڑتی ہے مگر باز نہیں آتا، رسوائی ہوتی ہے، ذلیل و خوار کیا جاتا ہے مگر بھیک مانگنا بند نہیں کرتا۔

ایک مرتبہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے کبھی کوئی سوال نہیں کرے گا، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبان ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: ''میں ضمانت دیتا ہوں'' اس کے بعد حضرت ثوبان ؓ کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے۔ ( ابوداؤد، نسائی)

یاد رکھیے اسلام میں بھیک مانگنا منع ہے۔ اسلام ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا، وہ محنت مزدوری کر کے کمانے کھانے پر زور دیتا ہے، دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اجازت بہ درجہ مجبوری ہے۔ اسلام میں پیشہ ورانہ بھیک مانگنے اور اسے اپنا خاندانی حق سمجھنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔

حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی نبی کریمؐ کی خدمت میں آئے اور آپؐ سے سوال کیا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے ؟ جواب دیا، ہاں! ایک ٹاٹ ہے جس کے کچھ حصے کو ہم پہنتے اور اوڑھتے ہیں، کچھ کو بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا دونوں چیزیں لے آؤ! وہ دونوں چیزیں لے کر آئے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ان چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: انہیں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا: میں ان دونوں کوایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دے گا ؟ آپؐ نے یہ بات دو یا تین مرتبہ فرمائی۔ گویا آپؐ یہ چیزیں نیلام فرما رہے تھے۔ ایک دوسرے آدمی نے کہا میں ان دونوں کو دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپؐ نے بولی اسی پر ختم کرد ی اور سامان اس آدمی کودے دیا اور اس سے دو درہم لے کر انصاری صحابی کو دیے اور فرمایا: ایک درہم کا کھانا وغیرہ خرید کر گھر والوں کودے دو اور دوسرے درہم کا کلہاڑی کا پھل خرید کر میرے پاس لاؤ۔ چناں چہ انہوں نے آپؐ کی ہدایت پر عمل کیا۔

رسول اﷲ ﷺ نے اس میں لکڑی کا دستہ اپنے دستِ مبارک سے لگایا اور فرمایا: جاؤ! لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو، اور دیکھو! پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔ چناں چہ وہ جنگل سے لکڑیاں لاکر فروخت کرتے رہے، جب پندرہ دن پورے ہوئے تو وہ دس درہم کما چکے تھے، کچھ کا کپڑا خریدا، کچھ کا کھانا۔ آپؐ نے ان کی محنت مزدوری کی کمائی کودیکھ کر فرمایا: ''یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں بُرا نشان ہو۔''

پھر نبی کریمؐ نے فرمایا کہ سوال کرنا تین اشخاص کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں، ایسا محتاج جس کی بے چارگی نے اسے زمین پر ڈال دیا ہے، ایسا شخص جس کے ذمے بھاری قرض ہے جس کے اتارنے کی اس میں استطاعت نہیں، یا کسی خون والے کے لیے (خون بہا ادا کرنے کے لیے ) جس کی ادائی اس کے لیے سخت مشقت اور تکلیف کا سبب ہو۔

( ترمذی، ابوداؤد)

جس دین نے بھیک مانگنے سے سب سے زیادہ منع کیا ہو، محنت سے کمانے کھانے اور کوشش و جدوجہد سے روزی حاصل کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہو، اسی دین کے نام لیواؤں میں بھکاریوں کا تناسب سب سے زیادہ ہو، ہر چوراہے، گلی کوچے، مسجد کے سامنے بھیک مانگنے والوں کی بھیڑ دکھائی دے تو یہ کس قدر افسوس ناک اور باعث شرم بات ہے ۔ ہم سب کو ہر حال میں اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ ﷲ پاک ہمیں صرف اپنے در کا سوالی بنائے رکھے، اس لیے کہ در در کے سوالی کبھی خوش حال نہیں ہوتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں