جدید تہذیب اور ہماری اسلامی روایات

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بے وقعت نہ سمجھو۔


صدقہ اﷲ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ انسان کو ناگہانی اور حادثاتی موت سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ فوٹو : فائل

معاشرے کو خوش حال اور خوش گوار بنانے کے لیے روز ازل سے کئی منصوبے بنائے گئے، باہمی محبت کی فضا کے لیے کئی جتن کیے گئے ، ہزار کوششیں کی گئیں کہ انسانیت کو پُرکیف زندگی بسر کرنے کو ملے۔ لیکن تاریخ عالَم گواہ ہے کہ خوشیوں کے چمن میں بہار نہ آسکی، تہذیب و تمدن کے نام نہاد علم برداروں کے کھوکھلے نعروں میں صداقت کی رمق بھی نظر نہ آئی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ مطلب پرستی، دھوکا دہی اور خود فریبی کو فروغ ملا اور حضرت انسان کی عزت نفس بُری طرح مجروح ہوئی۔ بالآخر قدرت کا وعدہ بعثت محمدیؐ خوب صورت شکل میں رونما ہوا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فطرت انسانی کو خالق انسانیت کے اصولوں کے سانچے میں ڈھالا۔

آپؐ نے حالات کا رخ ابتری سے ترقی کی طرف موڑا۔ آپؐ ہی کی تعلیمات کا اعجاز تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا محبت کے جھونکوں سے مہک اٹھی۔ چہار سُو اْنس، بھائی چارہ، اخوّت، رواداری، ہم دردی اور باہمی الفت کے پھول کِھل اٹھے۔ آپؐ کی سنہری تعلیمات نے انسانیت کو بھائی بھائی ہونے کا احساس دلایا اور اس طرح قابل رشک معاشرہ تشکیل پایا۔ معاشرے کی اخلاقی قدروں کو نمایاں کرتے ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جہاں عالم گیر اصول جہاں بانی ارشاد فرمائے وہاں پر نجی زندگی کی گتھیاں بھی سلجھائیں۔

خوش گوار رہن سہن کے حصول کے لیے آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایک دوسرے سے ملتے وقت مسکراہٹ اور وسیع قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ دوسرے کے دل میں رنجشیں ختم ہوں اور محبت کے جذبات پیدا ہوں، جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ذکر فرمائی کہ خندہ پیشانی سے ملنے کا دنیوی اصول بھی سمجھایا اور اس پر اخروی اجر بھی بتایا۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم اس نبوی اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے بھنویں سکیڑ کر ، تیور بدل کر ملتے ہیں اور غیر مسلم اقوام حکمت نبویؐ کو اپناکر خوش اخلاق بنی ہوئی ہیں۔

خوش گوار معاشرے کے قیام کے لیے آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ معاشرے میں اچھی باتوں کو عام کیا جائے تاکہ لوگوں کے اخلاق اچھے بنیں اور باہمی محبت کو فروغ ملے۔ جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ذکر فرمائی کہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کرنے سے دنیاوی فوائد بھی ملیں گے اور اخروی ثمرات بھی۔

معاشرے میں ہر مزاج کے انسان مل جل کر رہتے ہیں، بعض کے اخلاق عمدہ ہوتے ہیں تو بعض کے تُرش۔ خوش گوار معاشرے کے لیے آج کی دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اچھی باتیں سکھانے کے ساتھ بری باتوں سے روکنا بھی ضروری ہے ورنہ معاشرتی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا جس سے دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا، جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ذکر فرمائی کہ برائی سے روکنا دنیا سے معاشرتی جرائم کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہے اور اخروی انعامات کے حصول کا وسیلہ بھی ہے۔

آج آپ کسی ادارے میں جائیں تو پہلے پہل استقبالیہ والے خیرمقدم کریں گے اور آپ کی راہ نمائی کریں گے، کوئی قافلہ کہیں جائے تو اس کو گائیڈ کرنے والے افراد مہیا ہوں گے جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ذکر فرمائی کہ بھولے بھٹکے شخص کو راستہ بتانے سے جہاں مثالی معاشرہ قائم ہوتا ہے وہاں پر اخروی ثواب بھی ملتا ہے۔

آج کی دنیا میں متمدن اقوام وہ کہلاتی ہیں جو دوسروں کا خیال رکھیں۔ بصارت سے محروم افراد کو اگر کوئی سڑک پار کرادے یا اس کو منزل مقصود تک پہنچا دے تو ایسے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ذکر فرمائی کہ حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے سے جہاں معاشرتی اخلاقی فریضہ ادا ہوتا ہے وہاں پر خدا کی خوش نودی کی بہ دولت آخرت میں اجر بھی ملتا ہے۔

آج کی دنیا شاہ راہوں، گلی کوچوں، چوک چوراہوں، محلوں اور شہروں کو صاف ستھرا رکھتی ہے اور اسے اپنی تہذیب گردانتی ہے، جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ذکر فرمائی کہ راستوں کو صاف ستھرا رکھنا جہاں سکون و راحت کا باعث ہے وہاں پر اﷲ کی طرف سے انعام کا بھی باعث ہے۔

آج کی دنیا انسانیت کی خدمت کے لیے سماجی فلاح و بہبود کے کاموں پر زور اور جذبہ ایثار و ہم دردی کو اجاگر کرنے کی تعلیم دیتی ہے، جب کہ اہل اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ذکر فرمائی کہ اپنی ضروریات پر اپنے بھائیوں کی ضروریات کو ترجیح دینا جہاں باہمی محبت کا باعث ہے وہاں پر خدائی محبت کا حق دار بھی بناتی ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بے وقعت نہ سمجھو۔

مذکورہ بالا باتیں بہ ظاہر تو بہت ہلکی معلوم ہوتی ہیں لیکن روز محشر ان کا وزن ہمارے نیکیوں والے پلڑے کو جھکا دے گا۔ باقی رہا صدقہ ! اس بارے میں ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ صدقہ کبھی اپنے مال سے کرنا فرض و واجب ہوتا ہے جیسے زکوٰۃ، عشر، فطرانہ، قربانی اور کبھی مستحب جیسے نفلی صدقہ۔ مال کے صدقے کے علاوہ بھی اﷲ کے پاک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا امور کو صدقہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ حدیث پاک میں صدقے کے دو بنیادی فوائد ذکر کیے گئے، ایک تو یہ کہ صدقہ اﷲ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ انسان کو ناگہانی اور حادثاتی موت سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں