پاکستانیت کیا ہے

ریاست کو جھنجھوڑنا ہوگا، حقوق کی مکمل فراہمی تک، ریاست اور شہریت کے اصول میں توازن پیدا ہونے تک۔

پاکستانیت کا تصور نعرے بازی، انفرادی طور پر خود کو مہا پاکستانی اور ریاست کا آخری وفادار ثابت کرنیکی حد تک رہ گیا ہے۔ فوٹو: فائل

آزادی کے 69 برسوں بعد آج ریاستِ پاکستان میں شہریوں کے لئے 'پاکستانیت' کا تصور کیا ہے یا کیا رہ گیا ہے؟ سڑک کے نکڑ پر واقع نذیر مکینک کی دکان پر صبح سے رات گئے تک اوزار تھامے، موٹر سائیکلوں کی مرمت کرتے، گریس سے ہاتھ منہ کالا کرنے والے اسلم چھوٹو کے لئے ہر برس 14 اگست کے دن لال صابن سے چہرہ چمکا کر سبز ہلالی پرچم کا اسٹیکر سانولے پِچکے گالوں پر چپکانا اور ورکشاپ پر کھڑی کسی بھی دستیاب موٹر سائیکل سے سائلنسر نکال کر جان کی پرواہ کئے بنا پورے جوش سے پھٹپھٹی کو الٹے سیدھے ہو کر بھگانا اسلم چھوٹو کی 'پاکستانیت' ہے۔

بیرونِ ملک مقیم اعلیٰ تعلیم یافتہ جمشید 'جِمی' اور شگفتہ 'شیگی' کے لئے سوشل میڈیا پر پاکستان کے معاشی، معاشرتی، داخلی، خارجی اور سیاسی حالات پر ہمہ وقت سخت افسوس و ملال کا اظہار کرنا اور اُن سب پر کڑھتے رہنے کے باوجود ریاست کو زرِ مبادلہ بینکاری نظام کے ذریعے ترسیل کرکے ملکی وسائل میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنا جمی اور شیگی کی 'پاکستانیت' ہے۔

وطنِ عزیز میں بسنے والے بلوِندر سنگھ اور ہری شنکر کے لئے 'پاکستانیت' نام ہے روز و شب کی اس انتھک تگ و دو کا، جس کا واحد مقصد اکثریت کو یہ یقین دلانا ہے کہ اقلیت کے یہ کم حیثیت مشکوک نمائندے بلوِندر اور ہری جو کچھ بھی ہوں لیکن غدار نہیں ہیں، ایجنٹ نہیں ہیں۔ اقلیت کا اکثریت کے تابع رہنا، کم تر حقوق، ناانصافی، جبر و تضحیک کے رویے پر مطمئن و شاد نظر آنا اور کسی بھی قسم کی رنجش کا برملا اظہار نہ کرنا اقلیت کی عمومی 'پاکستانیت' ہے۔

پرانی زنگ آلود سائیکل کے پچھواڑے پر موجود ٹوٹے پھوٹے کیرئیر میں پھنسائے گئے لاغر، لمبے، لچکیلے بانس کو گلی گلی گھسیٹ کر گھروں کے بند گٹر کھولنے والے، پلید ہاتھوں پیروں کے مالک 65 سالہ مِیدے جمعدار کے لئے گندگی سے بھرے گٹروں والے پاکباز معاشرے کی جانب سے تحقیر آمیز رویے کو پورے سکون سے، ماتھے پر شکن لائے بغیر اپنا حق جانتے ہوئے ریزگاری سمیت مسکرا کر وصول کرنا اور کہیں دور پرے سے کمزور پڑ چکے کانوں میں قومی ترانے کی آواز پڑتے ہی پوری عقیدت سے سر جھکالینا مِیدے جمعدار کی 'پاکستانیت' ہے۔ کسی ایک گروہ کے لئے ہر دوسرے دن دشمن کی میلی آنکھیں نکال کر اُسی کے ہاتھوں پر دھر دینے کا عزم دہراتے رہنا 'پاکستانیت' ہے تو دوسرے گروہ کے لئے 'پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہ الاﷲ' کے نعرے بلند کرنا 'پاکستانیت' ہے۔

قائدِاعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کی مسلم اقلیت کے آئینی حقوق کا مقدمہ پاکستان کی صورت میں جیتا تھا۔ پاکستان ابتدائی طور پر ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ریاست کا نام تھا۔ پاکستان ایک وفاقی انتظام ریاست تھا جس کی اکائیاں، صوبوں اور الحاق شدہ ریاستوں کی صورت میں اپنے انتظامی امور چلانے کے لئے سیاسی خود مختاری رکھتی تھیں۔ 'پاکستانیت' نام تھی ریاستِ پاکستان کے شہریوں کے وفاق پر یقین اور اُس سے وفاداری کا جبکہ 'پاکستان' نام تھا وفاق کی جانب سے تمام شہریوں کو مساوی آئینی حقوق، سہولیات و آزادی فراہم کیے جانے کے عہد کا، کیونکہ ریاست اور شہریت دو طرفہ رجحان یا معاملہ ہے لہذا پاکستانیت کے فروغ کا تصور ریاستِ پاکستان کی جانب سے اپنے شہریوں سے متعلق فرائض کی مکمل ادائیگی کے بناء ممکن ہی نہیں تھا۔

کسی بھی ریاست کے فرائض قانون سازی کی بنیاد پر طے پاتے ہیں جبکہ قانون سازی بذاتِ خود اُن متفقہ اصولوں اور مفادات کی ترجمانی کرتی ہے جن کی یقین دہانی پر شہری ریاست کی تخلیق پر اتفاق کرتے ہیں۔ ایک مضبوط اور موثر وفاقی ریاست کی تخلیق کے لئے ریاست اور شہریت کے اِس دو طرفہ بنیادی اصول کی اہمیت قائدِاعظم جیسے کہنہ مشق قانون و سیاست دان سے بہتر کون جان سکتا تھا، اسی بناء پر قائدِاعظم نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے 11 اگست 1947ء کے خطاب میں ریاستِ پاکستان کی آئین سازی سے متعلق ایسے رہنما اصول بیان فرمائے جن کے تحت ریاست کی جانب سے تمام شہریوں کو مساوی حقوق فراہم ہونے تھے۔

قیامِ پاکستان کے وقت 'پاکستانیت' ایک طرف شہریوں کے وفاق پر یقین اور اِس سے وفاداری کا تصور تھی تو دوسری طرف وفاق کی جانب سے شہریوں کے لئے مساوی حقوق کی اُمید تھی، جبکہ جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے خاتمے کا وعدہ تھی، معاشی و معاشرتی و مذہبی آزادی و ہم آہنگی تھی، عوامی نظامِ حکومت اور عوامی مفادات کے تحفظ کا انتظام تھی، تعلیم و ترقی و روزگار کے یکساں مواقعوں کی فراہمی کی نوید تھی۔ ریاست اور شہریت کے اسی دو طرفہ اصول میں پیدا ہونے والے مسلسل عدم توازن نے پاکستانیت کے تصور کو درجہ بہ درجہ مجروح کیا ہے۔ اسی نازک اصول میں بگاڑ کے باعث ریاستی ڈھانچہ کمزور پڑا، عوام کا اعتماد ریاست پر سے جاتا رہا اور سقوطِ ڈھاکہ جیسے قومی سانحہ کے لئے زمین ہموار ہوئی۔

اسی پاکستانیت کے تصور کو مفاد پرست ٹولوں سے لے کر مقتدرِ اعلیٰ اور مطلق العنان حکمرانوں نے اپنے مفادات و اقتدار کے حصول و طوالت کی خاطر نئی سے نئی اشکال میں پیش کرکے شہریوں کے لئے 'پاکستانیت' کو حقوق کے حصول اور ریاست کے فرائض سے مکمل قطع تعلق کرکے اُس کا تار محض ریاست سے وفاداری کے نام پر مخصوص ہیجانی کیفیات اور رجحانات سے جوڑ دیا ہے۔ آج شہریوں کے لئے پاکستانیت کا تصور محض کھوکھلی جذباتی نعرے بازی، انفرادی طور پر اپنے آپ کو مہا پاکستانی اور ریاست کا آخری وفادار ثابت کرنے کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔


عوامی سطح پر اپنے حقوق کا تحفظ اور ریاست سے اپنے حقوق کے مطالبے کا شعور ناصرف انتہائی محدود ہے بلکہ ریاستی بدانتظامی کی بنیادی وجہ بھی بنا ہے۔

  • جاگیردار آج بھی جاگیردار ہے،

  • وڈیرہ وڈیرہ ہی ہے،

  • غلام آزادی کے بعد بھی غلام ہی ہے،

  • ریاستی ادارے شہریوں پر بالا دست ہیں،

  • اسلم چھوٹو اسکول نہیں جاتا کیونکہ ریاست اُسے بنیادی آئینی حقِ تعلیم عملی طور پر فراہم کرنے سے قاصر ہے،

  • بلوِندر اور ہری سر اُٹھا کر سینہ تان کر سڑک پر نہیں چل سکتے کیونکہ ریاستی قوانین مذہبی بنیادوں پر شہریوں سے امتیاز برتتے ہیں،

  • بوڑھے مِیدے جمعدار کو بیماری میں بھی گٹر کھولنے ہوں گے کیونکہ ریاستی اخراجات کی ترجیحات میں مِیدے اور ان جیسے پاکستانیوں کا نمبر نچلی ترین ترجیحات میں بھی کہیں آخر میں منہ چڑاتا ہے،

  • جِمی اور شیگی پاکستان سے محبت کرتے ہیں لیکن اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کر پاتے کیونکہ ریاست انہیں پاکستان سے باہر بیٹھ کر حقِ رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔


ریاستِ پاکستان پر آج 69 برس بعد بھی اپنے شہریوں کے ان تمام حقوق کو لے کر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جن کا وعدہ ریاستِ پاکستان کی تخلیق کے وقت کیا گیا تھا۔ اسی مقصد سے سوال کیا جانا ضروری ہے، ریاست کو جھنجھوڑنا ہوگا، حقوق کی مکمل فراہمی تک، ریاست اور شہریت کے اصول میں توازن پیدا ہونے تک۔

[poll id="1291"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story