دیکھا تیرا امریکا گیارہویں قسط

امریکا کے برعکس پاکستان میں یہ خوبی ہے کہ والدین بچوں کے پاس ہی رہتے ہیں اور بچے بھی ان کی خدمت فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔

ہمارا ملک نعمتوں سے مالا مال ہے لیکن ہم یہ کہتے ہوئے ندامت بھی محسوس کرتے ہیں اور دکھ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام درست نہیں ہے بلکہ بدتر ہوتا جارہا ہے۔فوٹو: فائل

دو تہذیبیں


عدیل کے بنائے ہوئے پروگرام کے تحت سفر کرکے کمر تختہ ہوگئی تھی۔ جس پر ہم نے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے کہ اب نیویارک جانے تک کوئی سفر نہیں کیا جائے گا، بس چند روز آرام اور صرف آرام کا ارادہ تھا لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ عدیل کے ایک امریکی دوست کو جب پتہ چلا کہ عدیل کے والدین پاکستان سے آئے ہوئے ہیں تو اُس نے ہمیں ہی نہیں شازیہ اور احرار کے علاوہ اپنی چند دوست فیملیوں کو بھی کھانے پر مدعو کرلیا۔

عدیل نے بتایا کہ اُس کا یہ دوست ورجینیا میں رہتا ہے، وہیں جانا ہے، تین کمروں کے کانڈو میں اس کی رہائش ہے۔ میں نے بہت آنا کانی کی کہ ایک تو میری کمر دُکھنے لگی ہے سفر کر کر کے، اوپر سے تمہارا یہ غیر مسلم گورا، بھوکا ہی آنا پڑے گا۔ بھئی میں وہاں کھانا نہیں کھا سکوں گا، پھر وہاں جانے کا کیا فائدہ؟ لیکن وہ کہاں ماننے والا تھا ابھی میں کچھ اور کچھ کہنے والا تھا کہ رابعہ اور ہماری بیگم بھی تیار ہو کر آگئیں۔

ابو آپ تیار تو ہوجائیں پھر دیکھتے ہیں، احرار بھائی اور شازیہ باجی بھی تیار ہو کر نکلنے والے ہیں۔ ابھی ان کا فون آیا تھا۔

دیکھا تیرا امریکا (پہلی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (دوسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)

اُن سب کو تیار دیکھ کر مجھے بھی تیار ہونا پڑا، پونے گھنٹے بعد ہم مائیکل کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ مائیکل نے تین چار ہی فیملیز کو مدعو کیا تھا۔ مائیکل کے سیٹنگ روم میں خاصی گنجائش تھی کہ سارے گھر والے اور مہمان آسانی سے وہاں سما گئے۔ کھانے میں ابھی کچھ دیر تھی کیونکہ کیٹرر ابھی کھانا لے کر نہیں آئے تھے۔ مائیکل نے بتایا کہ ہوٹل پر مدعو اس لئے نہیں کیا کہ آپ لوگ کھانا کھاتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں اس لئے گھر پر ایک مسلمان کیٹررز سروس سے سے استفادہ کیا ہے۔ یقین کریں دل ہی دل میں ہمیں بہت شرمندگی محسوس ہوئی کہ ہم کیسا گمان کئے ہوئے تھے اور یہاں معاملہ ہی دوسرا تھا۔ سیٹنگ روم میں کھانا لگنے تک گفتگو کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ اِس گفتگو کے دوران میں تقریباََ خاموش ہی رہا۔ عدیل، احرار، مائیکل زیادہ باتیں کر رہے تھے۔ خواتین علیحدہٰ بات چیت میں مصروف تھیں۔ کچھ دیر بعد سب کی ایک دوسرے سے بات چیت شروع ہوگئی۔ مائیکل کے والد نے مجھ سے بات چیت شروع کردی۔ انہوں نے عدیل کی تعریف شروع کردی کہ مائیکل بتارہا تھا کہ عدیل والدین کا بہت خیال رکھتا ہے، یہاں بہت کم ایسا ہوتا ہے۔

کیا یہاں بچے والدین کی کیئر نہیں کرتے؟ میں نے پوچھا۔

آپ نے صحیح سُنا ہے یہاں کے بارے میں، بچے ماں باپ سے اور والدین بچوں سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی زندگی جیتا ہے، آزادی پسند کرتا ہے، یہ رشتوں کا بندھن یہاں ہم امریکیوں کو کم ہی بھاتا ہے، لیکن مسٹر صدیقی سب لوگ ایک طرح کے نہیں ہیں۔ یہاں اکثریت ایسے افراد کی ہے جیسا آپ نے سنا لیکن اب بھی یہاں کچھ فیصد لوگوں میں فیملی سسٹم موجود ہے۔ مائیکل کے والد نے کہا۔

آپ بھی ان چند فیصد میں شامل ہیں؟ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

آف کورس۔

شادی کے معاملے میں تو یہاں ہر کوئی آزاد ہے۔ برسوں سے امریکہ میں مقیم احرار نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔

تو کیا آپ لوگ آزاد نہیں؟ مائیکل کے والد نے حیرانی سے پوچھا۔

ہمارے ہاں عام طور پر ارینجڈ میرج ہوتی ہیں، میں نے کہا۔

کیا مطلب؟ مسز جینٹ جلدی سے بولیں۔

مطلب یہ کہ پاکستان میں ماں باپ، بچوں کے لئے رشتہ پسند کرتے ہیں اور بچے اگر اپنی پسند بتائیں تب بھی رشتہ ماں باپ ہی طے کرتے ہیں۔ میں نے کہا

میری بات سن کر سب حیرانی سے مجھے دیکھنے لگے کچھ دیر بعد مسز جینٹ بولیں

کیا اس زمانے میں یہ بات ممکن ہے؟

بالکل ہماری شادیوں کی اکثریت ارینجڈ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ لڑکی نے لڑکے کو اور لڑکے نے لڑکی کو دیکھا بھی نہیں ہوتا۔ وہ شادی کی رات کو ہی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔

ڈونٹ سے دِس (Don't say This) مسز جینٹ نے سر پکڑ لیا، اُنہیں اِس حالت میں دیکھ کر ہم سب ہنس دئیے۔

یہ کیسے ممکن ہے؟ مسز جینٹ نے سر اُٹھا کر ہماری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔


ہو سکنے کا سوال نہیں، ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے کہا

پھر تو طلاقوں کی شرح آپ کے ہاں بہت زیادہ ہوگی، یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہاں ایسی شادیاں زیادہ دیر چل سکیں؟ مائیکل کے والد جو کافی دیر سے چپ بیٹھے تھے اچانک بولے۔

ہم سب مسکرائے، پھر احرار نے انہیں سمجھایا کہ ہمارے ہاں بھی طلاقیں ہوتی ہیں لیکن بہت ہی کم، نہ ہونے کے برابر اِس کی وجہ بھی ارینجڈ میرج نہیں ہوتی بلکہ دیگر کئی وجوہات ہوتی ہیں۔

وہ کیا؟ مائیکل کے والد بولے۔

معاشی بدحالی، شوہر یا بیوی کا آوارہ ہونا، لڑکی کا بانجھ پن وغیرہ۔ ہماری بیگم نے بھی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے جواب دیا۔

سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! مسز جینٹ نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔ انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔

کافی دیر یہ گفتگو چلی اور ہم سب نے اپنی اپنی مثالیں دیں اور کہا بھئی کہ میاں بیوی کی باہمی رفاقت اِس بات کا ثبوت ہے لیکن وہ سب یقین کرنے کو تیار ہی نہ تھے۔

پھر مسز جینٹ کہنے لگیں، کیا آپ کا ملک بہت بیک ورڈ ہے؟

ہرگز نہیں۔ احرار نے جواب دیا، ہمیں حدود کے اندر ہر قسم کی آزادی حاصل ہے لیکن بے راہ روی کے ہم قائل نہیں۔ ہمارا فیملی سسٹم بہت مضبوط اور مربوط ہے۔ ہمارے بچے اگر ماں باپ کے پاس ہیں تو اُن کا ادب و احترام کرتے ہیں، کمائی کرنے یا نوکری کرنے کہیں چلے جائیں پھر بھی یہ احترام باقی رہتا ہے اور بچے ماں باپ کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

اُن سب نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر اُن کی بیٹی بولی۔

آپ کے ہاں بوڑھوں کے لئے اولڈ ہومز نہیں بنے ہوئے؟ تو پھر وہ اولڈ ایج میں کیا کرتے ہیں؟

اپنے بچوں کے پاس رہتے ہیں، بچے اُنہیں سنبھالتے ہیں، اُن کی خدمت فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔ بزرگ بھی بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں، بچے بھی اُن سے بہت مانوس ہوجاتے ہیں۔ احرار نے جواب دیا۔

گھر میں امن و سکون رہتا ہے؟ مسز جینٹ نے پوچھا۔

بالکل، میں 100 فیصد کی بات نہیں کررہا، لیکن اکثریت ایسی ہی ہے جیسی میں نے بیان کی، میں نے جواب دیا۔

پھر تو آپ کا ملک جنت ہوگا، مسز جینٹ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

جی بالکل ہے، بہت خوبصورت، بہت پیارا، جس میں نباتات کی بھرمار ہے، اعلیٰ نسل کی اجناس اور پھل پیدا ہوتے ہیں، گندم اور چاول کاشت ہوتے ہیں، پاکستانی چاول جیسا تو دنیا میں چاول نہیں ہے۔ اللہ نے ہر قسم کی نعمت عطا کی ہے، دنیا کے بلند ترین 6 پہاڑی سلسلے پاکستان میں ہیں، پاکستانی بالائی علاقوں کا حُسن ایسا کہ سوئٹزرلینڈ کا حُسن شرمائے، زرخیز زمین ہے۔ معدنیات ہیں، دریا ہیں، ندی نالے ہیں اور خاص بات لوگ دل والے ہیں، قدرت بہت مہربان ہے ہم پر۔ احرار خاصا جذباتی ہوگیا تھا۔

اگر ایسا ہی ہے تو آپ کے ہم وطن افراد کی بڑی تعداد دوسرے ملکوں میں کیوں جا رہی ہے؟ مائیکل کے والد نے بڑا چُبھتا ہوا سوال کیا کہ ہم چند لمحوں کے لئے ہم سب چپ ہوگئے، ندامت سی محسوس ہوئی۔

عدیل نے جلدی سے معاملہ سنبھالا، ہجرت تو ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی انسانی فطرت ہے۔ تعلیم اور رزق کے حصول کے لئے دنیا بھر میں پھیل جانا ہمارے مذہب نے سکھایا ہے۔ ہمارے ملک سے اگر لوگ باہر جارہے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہیں اپنا اتنا زرخیز اور شاداب ملک پسند نہیں ہے۔ عدیل کچھ دیر کو رکا، تو میں نے بات آگے بڑھائی۔ بے شک ہمارا ملک نعمتوں سے مالا مال ہے لیکن ہم یہ کہتے ہوئے ندامت بھی محسوس کرتے ہیں اور دکھ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام درست نہیں ہے بلکہ بدتر ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں ایسی قیادت کی کمی رہی جو بگڑے نظام کو سنوار سکے۔ ایوب خان اور بھٹو جیسے جو چند ایک آئے بھی تو انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ سیاسی نظام میں تسلسل اور استحکام نہ رہا، زیادہ تر لالچی اور خود غرض آئے جنہیں اندھا دُھند پیسہ سمیٹنے کے علاوہ کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہ تھی۔ اُن کی دیکھا دیکھی اوپر سے کرپشن اور بدنظمی نیچے تک آتی چلی گئی۔ عوام جو اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں اور اس کی فلاح کی اُمید رکھتے ہیں، مایوسی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان میں مجبور ہوتے ہیں تو اچھے مستقبل کی اُمید پر دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔

اِس سے پہلے کے بحث سیاسی رنگ اختیار کرتی عدیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں کسی کا دل نہیں چاہتا کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے غیروں کو مستفید کرے لیکن ملک میں ہونے والی دہشت گردی نے خوف کی ایک فضا قائم کردی ہے۔ عدم تحفظ کا احساس بھی نقل مکانی کی ایک وجہ ہے۔ پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشیں مُدت سے ہو رہی ہیں، یہ بحث اور لمبی ہوجاتی کہ مسز جینٹ نے عدیل سے قطع کلامی کے لئے معذرت کرتے ہوئے سب کو کھانے پر بلا لیا۔

مسز جینٹ کو مائیکل نے خاص طور بتا دیا تھا کہ ہم لوگ حلال کے سوا کچھ نہیں کھاتے، اِس لئے انہوں نے کراچی کے حلال اسٹور والوں سے کیٹرنگ کروائی تھی۔ کھانا بہت مزیدار تھا اِس لئے سب نے جی بھر کر کھایا۔ کھانے کے بعد پھر گفتگو کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوگیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ احرار کہنے لگا میری یہاں بے شمار فیملیز سے ملاقات رہتی ہے، جن میں سے اکثر کے اپنے بچے اُن سے علیحدٰہ ہوچکے ہیں اور والدین سے اجنبیوں کا سا سلوک کرتے ہیں اور اُس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ماں باپ کو جب اُن کی بہت ضرورت ہوتی ہے تو اُنہیں اولڈ ہومز میں داخل کرا دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں کوئی ایسا سوچتا بھی نہیں بلکہ والدین جتنے بوڑھے اور کمزور ہوتے جائیں بچے اُن کا اتنا ہی زیادہ خیال رکھتے ہیں۔

اُن کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے؟ مائیکل کی بہن بولی۔

کیوں نہیں! ہمارے ہاں عام طور پر خواتین نوکری نہیں کرتیں، گھروں میں رہتی ہیں۔ اِس لئے بوڑھوں کی دیکھ بھال کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، جیسے بچے گھر کا فرد ہوتے ہیں ویسے ہی وہ بھی۔ ہمارے مذہب میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ تمہارے ماں باپ اگر اس عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو۔

مائیکل کی بہن نے حیرانی کے تاثر کے ساتھ احرار کو دیکھا، اور اپنی ہی رو میں کہنے لگی۔ آپ کی عورتوں کو اپنا کچھ احساس نہیں۔ وہ ارینجڈ میرج کرلیتی ہیں، گھروں میں رہتی ہیں، بچے پالتی ہیں، بوڑھوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ اوہ مائی گاڈ! وہ تو مرجاتی ہوں گی، کوئی ایسے حالات میں کیسے جی سکتا ہے؟

ہم اُس کی بات پر ہنس دئیے۔ مسز جینٹ نے مداخلت کرتے ہوئے پوچھا، آپ کے ہاں ایسی دعوتوں کے بعد پشاوری قہوہ پیا جاتا ہے۔ آپ سب پیئیں گے؟

اب حیرت زدہ ہونے کی باری ہماری تھی۔ ضرور، ضرور! ہم نے یک زبان ہو کر کہا، لیکن ساتھ ہی پوچھا پشاوری قہوہ آیا کہاں سے؟

مسز جینٹ نے سوچتے ہوئے کہا، مجھے یاد پڑتا ہے کہ مائیکل کے والد کے ایک دوست نے ایک بار دیا تھا۔ اس میں الائچی بھی ہے۔ مسز جینٹ قہوہ بنانے کچن میں چلی گئیں اور جب قہوہ بن کر آیا تو الائچیوں کی مہک ہر سُو پھیل گئی۔ قہوے کے اِس دور کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story