سندھ کے اہم منصوبے سی پیک میں شامل
ماہرین کے مطابق چین پاک اقتصادی راہداری منصوبے سے صوبہ سندھ کے تھر جیسے پسماندہ علاقوں کی ترقی ممکن ہو سکے گی
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ نے ملکی ترقی کے لیے بیش قیمت پیش رفت کی ہے۔تقریباً 57 کھرب مالیت کے اس گیم چینجر منصوبہ سے وابستگی کے بعد اب پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے قومی مفاد اور اپنے مقامی عوام کی سہولتوں کا ادراک کرتے ہوئے بیجنگ اجلاس میں جس احسن طریقے سے اپنے معاملات طے کیے اس پر ان رہنماؤں کو دل سے تہنیت پیش کرنے کی ضرورت ہے، اسی جمہوری اسپرٹ اور شفاف انتظامی فیصلوں سے ملکی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ سی پیک کی انفرادیت یہ ہے کہ اس عظیم الشان اور کثیرالجہت منصوبہ سے خدشات رکھنے والے اپنے اور بیگانے بھی اب اس کی افادیت کے قائل ہوچکے ہیں۔
اس جذبہ کو متحرک رکھنا ضروری ہے کہ یہ قومی امور کی انجام دہی میں مین گائیڈ لائن کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ کم اہم پیش رفت نہیں کہ چینی حکام نے سندھ کے3 اہم منصوبوں کراچی سرکلر ریلوے، کیٹی بندر پورٹ اورٹھٹھہ میں اسپیشل اکنامک زون کے قیام کو اصولی طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ سی پیک سے متعلق بیجنگ میں جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کے چھٹے اجلاس میں کیا گیا۔ چینی وفد کی سربراہی وائس چیئرمین مسٹر وانگ ژیاوتاؤ جب کہ سندھ حکومت کے وفد کی قیادت وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کر رہے تھے۔
وزیراعلیٰ نے کراچی سرکلر ریلوے سے متعلق اپنا کیس پیش کرتے ہوئے چینی حکام کو قائل کیا کہ کراچی کا شمار آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے،2016 ء میں اس کی آبادی کا تخمینہ تقریباً 25.1ملین لگایا گیا ہے جو ٹوکیو، گوانگ زو، سیؤل ، دہلی، ممبئی، میکسیکو سٹی، نیویارک ، ساؤ پالو، منیلا اور جکارتہ سے زیادہ ہے۔ کراچی کی آبادی2030ء میں 34.3ملین تک پہنچ جائے گی لہٰذا اس شہر میں سرمایہ کاری کے حوالے سے وسیع مواقع موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ نے شہر قائد اور سندھ سے متعلق جامع تفصیلات پیش کیں، انھوں نے کہا کہ جاپان نے کے سی آر کی لاگت کا تخمینہ تقریباً 2609ملین ڈالر لگایا تھا۔
اپنی پریزنٹیشن کے اختتام پر مراد علی شاہ نے اس منصوبے کو سی پیک میں شامل کرنے کے لیے چین کے تعاون کی درخواست کی۔ جے سی سی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس منصوبے کو سی پیک میں شامل کیا جائے اور سندھ حکومت سے کہا جائے کہ وہ3 ماہ کے اندر اس کی فزیبلٹی پیش کرے۔ بیجنگ میں چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے صوبہ سندھ کے تھر جیسے پسماندہ علاقوں کی ترقی ممکن ہوسکے گی، سی پیک سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے، اداروں اور سی پیک کی صورت میں شراکت داری اور تعاون کا عالمی فورم میسر آیا ہے جس کی مدد سے تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، سی پیک کوکامیابی سے ہمکنارکرنے کے لیے چاروں صوبوںکا ساتھ چلنا بے حد ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق چین پاک اقتصادی راہداری منصوبے سے صوبہ سندھ کے تھر جیسے پسماندہ علاقوں کی ترقی ممکن ہو سکے گی، سی پیک کوکامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے چاروں صوبوںکا ساتھ چلنا بے حد ضروری ہے۔دریں اثنا وفاقی حکومت نے وسطی ایشیائی اکنامک کوریڈور(کیرک)منصوبہ کے تحت وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارت کو بڑھانے کے لیے پاکستان ریلویز کا ٹریک پشاور، طورخم سے جلال آباد کے بعد اب کابل تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ، وزارت ریلویز نے وسطی ایشیائی اکنامک کوریڈور میں شامل 11 ممالک کے سفیروں پر مشتمل ایک میٹنگ آیندہ ماہ اسلام آباد میں طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ذرایع نے بتایا کہ کیرک منصوبہ میں شامل11ممالک جن میں پاکستان ، افغانستان ، چین ، آذر بائیجان ، جارجیا ، کرغستان، منگولیا ، ترکمانستان ، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں،نے ایک بار پھرکیرک منصوبہ کے تحت آپس میں ریلویز کے ذریعے لنک کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ذرایع کے مطابق پاکستان ریلویز کے زیراہتمام پشاور سے طورخم بارڈر اور جلال آباد ریلویز ٹریک بچھانے کے منصوبہ کی فیزیبلیٹی رپورٹ کی تیاری پر کام جاری ہے اور امکان ہے کہ جون ، جولائی 2017ء تک فیزیبلیٹی رپورٹ مکمل کرلی جائے گی ۔ یہ اگرچہ سی پیک سے جدا منصوبہ ہے مگر ملکی ترقی کے لیے اس کی بھی ایک اہمیت ہے۔یہ بھی خوش آیند اطلاع ہے کہ پاکستان اور چین نے سندھ طاس معاہدے پر بھارت سے کشیدگی کے تناظر میں ''واٹر سیکیورٹی'' کو سی پیک کے فریم ورک کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں پانی کے وسائل سے مکمل طور پر استفادہ کرنے کا فیصلہ گزشتہ روز سی پیک کے تحت مشترکہ تعاون کمیٹی کے بیجنگ میں ہونے والے چھٹے مشترکہ اجلاس میں کیا گیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال جب کہ چین کی طرف سے وائس چیئرمین این ڈی آر سی وانگ ژیاؤتاؤ نے اجلاس کی صدارت کی۔ پاکستانی وفد میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور طارق فاطمی، سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ، خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک، بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حفیظ الرحمان بھی موجود تھے، پنجاب کی نمایندگی صوبائی وزیر صنعت شیخ علاؤالدین نے کی۔ اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بتایا کہ معاشی اور فوڈ سیکیورٹی کے لیے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر بہت ضروری ہے، اگر دیامیر بھاشا ڈیم سی پیک کا حصہ بن گیا تو یہ ایک تاریخی کامیابی ہوگی۔
بلاشبہ سی پیک کے تحت سندھ کے منصوبوں سمیت بلوچستان کے12 منصوبے ، انفراسٹرکچرکے دیگر منصوبوں کو سی پیک کا باضابطہ حصہ بنانا ایک اہم کامیابی ہے، علاوہ ازیں چاروں صوبوں کے خصوصی علاقوں، فاٹا،آزاد جموں و کشمیر،گلگت بلتستان اور وفاقی حکومت میں 8صنعتی زونز کی تعمیر بھی سی پیک کی وسعتوں کی ایک کڑی ہے۔اب ضرورت سی پیک کے ضمن میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور سیاسی قائدین کو اعتماد میں لینے کی ہے تاکہ کسی کو پاکستان کے اس گیم چینجر منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کی جرات نہ ہو سکے ۔
چین اور پاکستان نے بھارت سمیت روس اور دیگر ملکوں کو اس میں شمولیت کے لیے جو پیشکش کی ہے وہ خطے کے امن اور ترقی کے اہداف حاصل کرنے کا عزم ہے۔ بلوچستان اس منصوبہ کا قلب ہے، گوادر اس کی دھڑکن ہے اور چاروں صوبائی حکومتوں کے سربراہوں نے جس فقید المثال یکجہتی اور اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اس کو عملی شکل دینے اور منصوبہ کی وقت مقررہ میں تکمیل کے لیے بھی اسی جوش وخروش اور مثالی اشتراک عمل کا ثبوت دیں۔ حقیقت میں سی پیک پاک چین معاشی پیش رفت کا صرف منصوبہ ہی نہیں ایک تاریخی سنگ میل ہے اور سی پیک اس دوستی کا حسیں استعارہ ہے جس سے خطے میں دوطرفہ تعلقات کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔