امریکا سے 35 روسی سفارتکاروں کی ملک بدری
دونوں بڑی طاقتوں کو چاہیے کہ لفظی جنگ کو میدان کارزار میں بدلنے سے پہلے ہی مفاہمت اور بات چیت کا راستہ اختیار کریں
امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے الزامات کے بعد امریکا اور روس کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں، جس کا مظاہرہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے 35 روسی سفارتکاروں کی ملک بدری کی صورت میں سامنے آیا ہے۔گزشتہ روز امریکا نے صدارتی الیکشن میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے ریاست میری لینڈ اور نیویارک میں روسی کمپاؤنڈز بند کردیے جب کہ روس کے 35 سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بارک اوباما کے مطابق یہ 35 روسی سفارت کار انٹیلی جنس اہلکار تھے جنھیں امریکا سے جانے کے لیے 72 گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے۔
سفارت کاروں کی ملک بدری کے ساتھ 9 روسی اداروں بشمول روسی ملٹری انٹیلی جنس اور فیڈرل سیکیورٹی سروسز پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں جب کہ جی آر یو اور تین دیگر روسی کمپنیوں کو سائبر سسٹمز میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والی تین مزید کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایف بی آئی کی جانب سے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کے بعد سے امریکا اور روس کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے تھے، غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی اقدام سے دونوں ملکوں میں جاری سفارتی جنگ میں مزید شدت کا خطرہ ہے جس کے اثرات عالمی سیاسی منظرنامے پر مرتب ہوں گے۔
صائب ہوگا کہ اوباما انتظامیہ دانشمندی کا مظاہرہ کرے کیونکہ نئے امریکی صدر جلد ہی اپنا عہدہ صدارت سنبھال لیں گے اور روسی بیانات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا جھکاؤ روس کی جانب ہوگا۔ امریکا اور روس کے درمیان صدارتی الیکشن میں ہیکنگ کے الزامات کے بعد جو کشیدگی پائی جاتی ہے، وہ کسی طور عالمی سیاست کے منظرنامے پر خوش کن اثرات مرتب نہیں کرے گی۔ امریکی صدر اوباما نے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی سفارتکاروں کی ملک بدری کا اقدام ضروری اور موزوں تھا کیونکہ انھوں نے طے شدہ بین الاقوامی اقدار اور رویوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
انھوں نے اصرار کیا کہ تمام امریکیوں کو روس کے اقدامات سے چوکنا ہونا چاہیے کیونکہ صدارتی الیکشن میں روس نے ہیکنگ کرکے نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کی، صرف یہی نہیں بلکہ ماسکو میں امریکی سفارت کاروں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب روس بھی خاموش نہیں ہے، اس نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ روسی سفارتکاروں کی ملک بدری کا ایسا جواب دیں گے جس سے امریکا کو تکلیف ہوگی۔ کریملین کے ترجمان نے بتایا کہ صدر پوتن ان اقدامات پر جوابی کارروائی کریں گے کیونکہ یہ اقدامات غیر قانونی اور غیر محتاط ہیں اور ناقابل یقین اور اشتعال انگیز خارجہ پالیسی ہیں۔
بلاشبہ امریکا اور روس دو بڑی عالمی طاقتیں ہیں جن کے درمیان مخاصمت کے اثرات دنیا پہلے ہی بھگت چکی ہے، امن عالم مزید کسی بڑی چپقلش کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔ دونوں بڑی طاقتوں کو چاہیے کہ لفظی جنگ کو میدان کارزار میں بدلنے سے پہلے ہی مفاہمت اور بات چیت کا راستہ اختیار کریں، سفارتکاروں کی ملک بدری اور سنگین جوابی کارروائی کی دھمکیاں معاملات کو خراب کرنے میں مہمیز کا کردار ادا کریں گی۔ بلاشبہ صدر ولادی میر پوتن کے ترجمان نے اشارہ دیا ہے کہ روس ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے تک انتظار کرسکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے دونوں ممالک کے مابین تلخیوں کے خاتمے میں اہم کردار ادا کریں گے۔