الوداع 2016ء

ک سال اور زندگی کا کٹ گیا اور وہ لوگ بہت خوش ہوںگے خاص طور پر پاکستان میں جو زندہ سلامت 2017ء میں داخل ہو رہے ہیں


فرح ناز December 30, 2016
[email protected]

ایک سال اور زندگی کا کٹ گیا اور وہ لوگ بہت خوش ہوںگے خاص طور پر پاکستان میں جو زندہ سلامت 2017ء میں داخل ہو رہے ہیں، صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو زندگی کی نوید ملتی ہے، ورنہ آپ اور ہم سوئے کے سوئے بھی رہ سکتے ہیں اور جن مشکلات اور نامناسب حالات میں ہم اور ہمارا ملک ہے اس میں زندہ رہنا، خوشیوں کی بات کرنا، مسکرانا اور سلامتی کے ساتھ گھر سے جانا اور واپس آ جانا بھی معجزوں سے کم نہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے، اﷲ پاک نے اس کو یہ درجہ دیا ہے، مگر اس کی کم بختی دیکھیے کہ اپنے مقام سے گرنے تک کو تیار ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اﷲ پاک نے اس میں ایسی صلاحیتیں، خصوصیات ڈالی ہے کہ وہ ناکارہ چیز کو بھی کارآمد بنا سکتا ہے۔ ہمارے کالج کی لیڈی پروفیسر کو ان کے شوہر نے ریشم کے کیڑے پال کر ریشم کی ساڑھی بنا کر ان کو سالگرہ کا تحفہ دیا تھا کیڑوں سے بھی محبت کا کام لیا اس کو کہتے ہیں ذہانت۔

ایک افراتفری کا سلسلہ جاری و ساری رہا 2016ء میں، سیاسی طور پر بھی اور معاشی طور پر بھی۔ دسمبر کا آخری مہینہ بے انتہا مصروفیت کا مہینہ ہوتا ہے پاکستان میں، مختلف اداروں کے الیکشنز، نئے سال کی پیش گوئیاں، شادیاں وغیرہ وغیرہ، پھر کرسمس بھی دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے، ہمارے مسلمان بہن بھائی بھی ایک دوسرے کو کرسمس کی مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ کیک بھی کاٹ رہے ہیں قائد اعظم ڈے بھی منایا جا رہا ہے گو کہ دسمبر کا مہینہ ہمارے لوگوں کے لیے بے انتہا مصروف ترین مہینہ بن گیا ہے حالانکہ جس قوم کو ہم فالو کر رہے ہیں وہ تو جمع پونجی لے کر سیر و تفریح کو نکل پڑتے ہیں اور اپنی چھٹیوں کو اپنے لیے سکون کا باعث سمجھتے ہیں۔ بہر حال ایک مثال ہے کہ بندر کے ہاتھ میں ادرک آ گیا اب اس کو سمجھ نہ آئے کہ اس کو باہر رکھے یا اندر۔

سیاسی طور پر یہ سال نواز شریف کے لیے کافی پیچیدہ رہا اور آگے بھی آثار کچھ ایسے ہی نظر آ رہے ہیں، عمران خان کہتے ہیں کہ وہ مرتے دم تک کرپشن کے خاتمے کے لیے لڑیںگے۔ جنرل مشرف اپنے حالیہ انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ان کو باہر جانے کے لیے عدالت پر پریشر ڈالا گیا، عمران خان پاناما لیکس کا کیس لے کر عدالت میں موجود ہیں، حالانکہ کئی ممالک کے وزرائے اعظم پاناما لیکس میں نام آنے پر باعزت طور پر استعفیٰ دے چکے ہیں مگر ہمارے وزیراعظم کی تو بات ہی الگ ہے۔ شہزادوں اور بادشاہوں سے ایسے تعلقات کہ دولت کی ندیاں بہہ رہی ہیں مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کچھ لینے کے لیے کچھ دینا بھی پڑتا ہے اگر اتنی ڈھیر ساری دولت شہزادے نچھاور کرتے ہیں تو بدلے میں پاتے کیا ہیں؟ کیا صرف تلور کا شکار؟ پرویز مشرف کے حالیہ انٹرویو میں ہمیشہ کی طرح جنرل صاحب بااعتماد نظر آئے، ڈریسنگ بھی ہمیشہ کی طرح خوبصورت تھی اور جوابات بھی بہت مدلل تھے۔

99 پرسنٹ لوگ جانتے ہیں کہ پاناما لیکس میں نواز شریف قصور وار ہیں مگر امید ہے ہمیشہ کی طرح عمران خان اور ان کے ساتھی عدالتی فیصلہ پر چیختے ہی رہ جائیںگے۔ گلا خشک کریںگے، لاکھوں روپے جلسوں پر خرچ کریں گے، لاکھوں کا مجمع بھی اکٹھا کر لیں گے، میڈیا پر بھی چھائے رہیںگے مگر جیت نواز شریف کی ہی ہو گی۔ الحمدﷲ! حسین نواز با آواز بلند کہتے ہیں کہ یہ سب دولت ہماری ہے۔ الحمدﷲ، لیکن بے چاری قوم ہی ان کی نہیں، ننگی بھوکی، بے چاری، مفلس قوم!

جنرل راحیل شریف ایک تہلکہ خیز دور گزار کر باعزت طریقے سے اپنا عہدہ چھوڑ چکے ہیں اور ان کی پوری ٹیم بھی اپنے اپنے عہدوں سے آگے جا چکی ہے۔ موجودہ باجوہ صاحب تیزی سے اپنی ٹیم بنا رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ 2017ء اس نئے جنرل اور ان کی ٹیم کے ساتھ کیا پیغام لاتا ہے۔

اینٹ سے اینٹ بجانے والے سابق صدر بھی بے نظیر کی 9 ویں برسی پر پاکستان تشریف لا چکے ہیں، ہاں ان کے الفاظ میں ''بلا'' اب بھی باہر ہے، پیپلزپارٹی کے حوالے سے آیندہ نئے الیکشنز کے حوالے سے بلاول بھٹو کے حوالے سے آصف زرداری کافی فیصلے کریں گے۔ 2016ء پورا سال باہر خود ساختہ جلاوطنی میں گزار کر واپس آنے والے آصف زرداری 2017ء میں کتنا وقت پاکستان میں رہ کر گزاریں گے اور کتنا مشکل ٹاسک دیںگے نواز شریف کو۔ حالانکہ عمران خان بار بار کہہ چکے ہیں کہ یہ دونوں مل کر قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں پہلے ایک کی باری پھر دوسرے کی باری اب چونکہ جنرل راحیل شریف جا چکے ہیں اور نواز شریف جنرل باجوہ کے ساتھ زیادہ کمفرٹیبل نظر آتے ہیں اس لیے لگتا ایسا ہے کہ شاید اب اپنی باری لینے کے لیے آصف زرداری کو کافی محنت درکار ہو گی، پنجاب میں پیپلزپارٹی اپنا اثر و رسوخ بے نظیر کے دور والا نہیں رکھتی، بلکہ بہت حد تک کمزور پوزیشن میں ہے۔

سندھ پر حکومت پیپلزپارٹی کی ہے، KPK پر عمران خان کی گرفت مضبوط ہے، بھٹو اور بے نظیر کے چاہنے والے بلاول کی شکل میں اپنے لیڈران کی یاد تازہ کرتے ہیں، بلاول بھٹو کی سیاسی تربیت پورا سال ہی جاری رہی، بلاول بھٹو کو اپنی بہترین صلاحیتوں سے خود کو منوانا چاہیے۔ بلاول بھٹو کو بلاول بھٹو ہی ہونا چاہیے نا کہ کوئی ایسی شخصیت جو پرچھائیوں کی یاد تازہ کرے۔ 2016ء میں CPEC بہت زیادہ توجہ کا حامل رہا، بہت زیادہ توقع لگائے بیٹھے ہیں ہم سب، بلوچستان کے لوگ بھی اپنی ترقی، کامیابی کے لیے بہت پر امید ہیں مگر ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ کہیں تمام Jobs پر چائنیز ہی قابض نہ ہو جائیں اور ہمارا پاکستانی منہ ہی تکتا رہ جائے۔ پوری دنیا ہمارے گوادر منصوبے پر نظریں لگائی بیٹھی ہے اور ہم سب بھی ہماری افواج ہو یا ہماری عدالتیں یا ہمارے سیاست دان ہم سب کو اب دیانت داری سے، خلوص سے اپنی اپنی ذات سے آگے بڑھ کر پاکستان کے لیے کام کرنا ہو گا، سیاسی جنگیں اور اختلافات اپنی جگہ مگر ملک تو سانجھا ہے، پاکستان ہے تو ہم ہیں اور ہم نے یہی مرنا اور یہی جینا ہے۔ آخر کب تک لوٹ کھسوٹ اور عوام کا خون چوستی ہوئی حکومتیں ہم پر سوار رہیںگے، اﷲ کرے کہ 2017ء کا سورج روشن و تابندہ ہو۔

اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے؟

ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی

آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی

آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زمیں

ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں

اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے

کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے

تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی

ورنہ اِن آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی

(فیض احمد فیضؔ)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں