2016 ء کی آخری شام
انسان کی تاریخ میں تو کئی ماہ و سال پڑے ہیں مگر 2016ء کا بھی اپنا مقام ہے۔
ISLAMABAD:
انسان کی تاریخ میں تو کئی ماہ و سال پڑے ہیں مگر 2016ء کا بھی اپنا مقام ہے۔ آج سورج ڈھلتے وقت اسے الوداع کہے گا اور اس طرح 2016ء تاریخ بنے گا۔ ہم نے جو کھویا اور جو پایا آج جاتے جاتے اس پر نظر تو دوڑائیں گے کہ یہ دنیا کتنی بدل سی گئی ہے۔ آدمی سے آدمی پن کہیں دور ہوتا جا رہا ہے اور جیسے ہم سب جبلتوں میں پڑے حیوان ہیں۔ ''شام کا الیپو'' دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ آدمی نے اب سفر وحشی ہونے کی طرف کیا ہے۔ ریاستیں اور ان کے مفادات اور ان مفادات کا آپس میں ٹکراؤ یہ اس کی شکل ہے جو یمن میں بنی ہے۔
یہ اس کی شکل ہے جو عراق سے لے کر افغانستان، لبنان اور فلسطین میں بنی ہے۔ روس کا پوتن ہو، ترکی کا اردگان ہو یا امریکا میں ٹرمپ ہو۔ یہ تھا 2016ء کہ جس نے 2017ء کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ خود غرض ریاستیں اور ہر ایک ریاست میں خودغرض قیادتیں اور نیلسن منڈیلا کہیں نہیں ہے، فیڈل کاسترو کہیں نہیں ہے۔ 2016ء نے دنیا کے لیڈروں کی جو شکل بنائی ہے وہ بھیڑیے کی مانند ہے۔ یہ ہے وہ آدمی، جو سرمائے کی زد میں ہے اور جب تک سرمائے کو شکست نہیں آئے گی تب تک انسان کا انسان ہونا ممکن نہیں۔
یہ جو حقیقت ہم دیکھتے ہیں، یہ فکری بحث و مباحثوں کا ردعمل ہے۔ جس طرح فیضؔ کہتے ہیںکہ
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا، کئی شامِ حجر کی مدتیں
میں اسے Battle of Ideas کہوں گا۔
روسو سے لے کر ہیوگو تک، قدیم یونان کے فلسفے سے لے کر جرمنی کے رومانوی فلسفے تک، یا بالآخر انسانی حقوق کی حقیقت تک، یہ جو فرنچ انقلاب تھا، یہ اس کی شکل تھی تو روس کا انقلاب ہو یا خود اس انقلاب کا بکھرنا، مگر کال مارکس اب بھی Valid ہے۔
دنیا ایک نئی تشریح چاہتی ہے۔ جو غلام خدا نے نہیں بنائے، انسان نے بنائے ہیں۔ یوں تو اسپارٹیکس کو صلیب پر چڑھے ہوئے ہزاروں سال گزر چکے ہیں، تو خود یسوع کو بھی، مگر اب بھی وہ تضاد ٹوٹے نہیں ہیں، اور اس کی ماہیئت تو بدلی ہو، مگر جو اس کے اندر اصول ہے وہ اب بھی برپا ہے اور جب تک انسان مکمل آزادی نہیں پا لیتا تب تک یہ تضاد کبھی اس رنگ میں کبھی، اس رنگ میں اپنے پردے بدلتا رہے گا۔ 2016ء نے ٹرمپ کو امریکا میں بٹھا کر دنیا کی شکل اور گھناؤنی کر دی ہے اور اوباما والا سیاہ فام امریکا، مارٹن لوتھر کنگ والا امریکا کوسوں دور چلا گیا ہے۔
یوں تو میں نے وقت پر بہت لکھا ہو گا مگر سندھی میں اور ہر سال کی آخری شام سورج کو الوداع کہا ہو گا۔ سندھ کے مختلف تاریخی مقامات پر، ہر شام میں نے کارونجھر کے اور ننگر پارکر، روپو کولی جہاں فرنگی نے پھانسی پر لٹکایا تھا، وہاں بتائی تھی۔
روپو کولی 1857ء کی اس سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ تھا، جس نے 1947ء میں ملی ہوئی آزادی کی بنیادیں ڈالی تھیں۔ ایک شام میں نے موہن جو دڑو پر سورج کو الوداع کہا تھا تو کبھی جام شورو کے المنظر پر بتائی، تو کبھی مکلی کے قبرستان پر، کبھی شاہ بھٹائی کے مزار پر اور اس شام کو میں کراچی میں سمندر کی ایال تھامے اسے بتاؤں گا۔
یہ دن کچھ اس طرح بھی ہے کہ جب عزم کو دہرایا جاتا ہے کہ ہم نے جو کھویا وہ تو اپنی جگہ، مگر اب ہم نے کیا پانا ہے۔ آپ کے وجود سے جب وقت چلا جائے گا تو آپ بھی 2016ء کی طرح ہو جاؤ گے، سب کچھ یہیں رہ جائے گا مگر آپ نہ ہوں گے۔ اسی لیے ہر شے کو سرمائے کی آنکھ سے نہ دیکھیے، نہ ناپیے اور نہ تولیے، اور اگر اس طرح آپ کرتے ہیں تو آپ کے اندر بھی خود ایک ٹرمپ موجود ہے، جو دھن دولت کی ہوس میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آدمی کی عمریں اگر دو سو سال ہوتیں تو کتنا وحشی ہوتا اور یہ بھی سوچتا ہوں کہ اس دو سو سال عمر والے آدمی کی شعوری سطح مارٹر لوتھر کنگ، یا نیلسن منڈیلا جیسی ہوتی تو یہ دنیا کتنی خوبصورت ہوتی۔ بات دو سو سال یا پچاس سال کی نہیں، بات شعور کی ہے۔ اگر ایک بچہ اپنے گھر کے اندر عورتوں کی تذلیل ہوتے دیکھے گا تو یہ اس کا لاشعور بن جائے گا اور اگر ایک بچہ ٹیگور کے پاس پڑھے گا، درختوں کی ڈالیوں پر بیٹھ کر یا بہتی ندیا کی آواز سنتے ہوئے یا پرندوں کے چہچہانے کو محسوس کرتے دیکھے گا تو وہ سوبھوگیان چندانی بن جائے گا۔
میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، سوائے اس قلم کے۔ غالبؔ کی بات کی طرح ''وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں''
یا جس طرح فیضؔ کہتے ہیں
''ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے''
ہر ایک اپنے حصے کا کام کرتا رہے تو یقیناً یہ دنیا بہت خوبصورت بن جائے گی۔ یہ دنیا دھن دولت کی ہوس میں غلطاں ہے۔ یہ دنیا اسی وحشی آدمی کا تسلسل ہے جسے ابھی انسان بننا ہے۔ 2016ء نے جاتے جاتے مجھ کو بڑے واضح انداز میں یہ دکھایا ہے کہ
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
انسان کی تاریخ میں تو کئی ماہ و سال پڑے ہیں مگر 2016ء کا بھی اپنا مقام ہے۔ آج سورج ڈھلتے وقت اسے الوداع کہے گا اور اس طرح 2016ء تاریخ بنے گا۔ ہم نے جو کھویا اور جو پایا آج جاتے جاتے اس پر نظر تو دوڑائیں گے کہ یہ دنیا کتنی بدل سی گئی ہے۔ آدمی سے آدمی پن کہیں دور ہوتا جا رہا ہے اور جیسے ہم سب جبلتوں میں پڑے حیوان ہیں۔ ''شام کا الیپو'' دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ آدمی نے اب سفر وحشی ہونے کی طرف کیا ہے۔ ریاستیں اور ان کے مفادات اور ان مفادات کا آپس میں ٹکراؤ یہ اس کی شکل ہے جو یمن میں بنی ہے۔
یہ اس کی شکل ہے جو عراق سے لے کر افغانستان، لبنان اور فلسطین میں بنی ہے۔ روس کا پوتن ہو، ترکی کا اردگان ہو یا امریکا میں ٹرمپ ہو۔ یہ تھا 2016ء کہ جس نے 2017ء کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ خود غرض ریاستیں اور ہر ایک ریاست میں خودغرض قیادتیں اور نیلسن منڈیلا کہیں نہیں ہے، فیڈل کاسترو کہیں نہیں ہے۔ 2016ء نے دنیا کے لیڈروں کی جو شکل بنائی ہے وہ بھیڑیے کی مانند ہے۔ یہ ہے وہ آدمی، جو سرمائے کی زد میں ہے اور جب تک سرمائے کو شکست نہیں آئے گی تب تک انسان کا انسان ہونا ممکن نہیں۔
یہ جو حقیقت ہم دیکھتے ہیں، یہ فکری بحث و مباحثوں کا ردعمل ہے۔ جس طرح فیضؔ کہتے ہیںکہ
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا، کئی شامِ حجر کی مدتیں
میں اسے Battle of Ideas کہوں گا۔
روسو سے لے کر ہیوگو تک، قدیم یونان کے فلسفے سے لے کر جرمنی کے رومانوی فلسفے تک، یا بالآخر انسانی حقوق کی حقیقت تک، یہ جو فرنچ انقلاب تھا، یہ اس کی شکل تھی تو روس کا انقلاب ہو یا خود اس انقلاب کا بکھرنا، مگر کال مارکس اب بھی Valid ہے۔
دنیا ایک نئی تشریح چاہتی ہے۔ جو غلام خدا نے نہیں بنائے، انسان نے بنائے ہیں۔ یوں تو اسپارٹیکس کو صلیب پر چڑھے ہوئے ہزاروں سال گزر چکے ہیں، تو خود یسوع کو بھی، مگر اب بھی وہ تضاد ٹوٹے نہیں ہیں، اور اس کی ماہیئت تو بدلی ہو، مگر جو اس کے اندر اصول ہے وہ اب بھی برپا ہے اور جب تک انسان مکمل آزادی نہیں پا لیتا تب تک یہ تضاد کبھی اس رنگ میں کبھی، اس رنگ میں اپنے پردے بدلتا رہے گا۔ 2016ء نے ٹرمپ کو امریکا میں بٹھا کر دنیا کی شکل اور گھناؤنی کر دی ہے اور اوباما والا سیاہ فام امریکا، مارٹن لوتھر کنگ والا امریکا کوسوں دور چلا گیا ہے۔
یوں تو میں نے وقت پر بہت لکھا ہو گا مگر سندھی میں اور ہر سال کی آخری شام سورج کو الوداع کہا ہو گا۔ سندھ کے مختلف تاریخی مقامات پر، ہر شام میں نے کارونجھر کے اور ننگر پارکر، روپو کولی جہاں فرنگی نے پھانسی پر لٹکایا تھا، وہاں بتائی تھی۔
روپو کولی 1857ء کی اس سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ تھا، جس نے 1947ء میں ملی ہوئی آزادی کی بنیادیں ڈالی تھیں۔ ایک شام میں نے موہن جو دڑو پر سورج کو الوداع کہا تھا تو کبھی جام شورو کے المنظر پر بتائی، تو کبھی مکلی کے قبرستان پر، کبھی شاہ بھٹائی کے مزار پر اور اس شام کو میں کراچی میں سمندر کی ایال تھامے اسے بتاؤں گا۔
یہ دن کچھ اس طرح بھی ہے کہ جب عزم کو دہرایا جاتا ہے کہ ہم نے جو کھویا وہ تو اپنی جگہ، مگر اب ہم نے کیا پانا ہے۔ آپ کے وجود سے جب وقت چلا جائے گا تو آپ بھی 2016ء کی طرح ہو جاؤ گے، سب کچھ یہیں رہ جائے گا مگر آپ نہ ہوں گے۔ اسی لیے ہر شے کو سرمائے کی آنکھ سے نہ دیکھیے، نہ ناپیے اور نہ تولیے، اور اگر اس طرح آپ کرتے ہیں تو آپ کے اندر بھی خود ایک ٹرمپ موجود ہے، جو دھن دولت کی ہوس میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آدمی کی عمریں اگر دو سو سال ہوتیں تو کتنا وحشی ہوتا اور یہ بھی سوچتا ہوں کہ اس دو سو سال عمر والے آدمی کی شعوری سطح مارٹر لوتھر کنگ، یا نیلسن منڈیلا جیسی ہوتی تو یہ دنیا کتنی خوبصورت ہوتی۔ بات دو سو سال یا پچاس سال کی نہیں، بات شعور کی ہے۔ اگر ایک بچہ اپنے گھر کے اندر عورتوں کی تذلیل ہوتے دیکھے گا تو یہ اس کا لاشعور بن جائے گا اور اگر ایک بچہ ٹیگور کے پاس پڑھے گا، درختوں کی ڈالیوں پر بیٹھ کر یا بہتی ندیا کی آواز سنتے ہوئے یا پرندوں کے چہچہانے کو محسوس کرتے دیکھے گا تو وہ سوبھوگیان چندانی بن جائے گا۔
میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، سوائے اس قلم کے۔ غالبؔ کی بات کی طرح ''وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں''
یا جس طرح فیضؔ کہتے ہیں
''ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے''
ہر ایک اپنے حصے کا کام کرتا رہے تو یقیناً یہ دنیا بہت خوبصورت بن جائے گی۔ یہ دنیا دھن دولت کی ہوس میں غلطاں ہے۔ یہ دنیا اسی وحشی آدمی کا تسلسل ہے جسے ابھی انسان بننا ہے۔ 2016ء نے جاتے جاتے مجھ کو بڑے واضح انداز میں یہ دکھایا ہے کہ
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی