پروفیسر غفور احمد ایک مدبر سیاستدان
پروفیسر غفور قومی اتحاد کی اس مذاکراتی ٹیم میں بھی شامل تھے جس نے ذوالفقار بھٹو سے مارشل لاء سے پہلےمذاکرات کیے تھے
پروفیسرغفوراحمد نے 5 کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ فوٹو : فائل
بزرگ سیاست دان اور جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد طویل علالت کے بعد بدھ کو85سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے۔ پروفیسر غفور احمد کافی عرصے سے بیمار تھے، بدھ کو طبیعت بگڑ جانے پر انھیں گلشن اقبال میں واقع اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے ۔انا للہ وا انا الیہ راجعون ۔پروفیسر غفور احمد نے پاکستانی سیاست میں ایک طویل عرصہ گزارا اور کئی نشیب و فراز دیکھے ۔
پروفیسر غفور احمد کے انتقال پر صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی ، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، مولانا عبدالغفور حیدری، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان،وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور دیگر سیاسی رہنمائوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے انتقال سے ملک ایک مدبر سیاستدان سے محروم ہوگیا ہے ۔
آئین و قانون کی بالادستی پر ان کا ایمان تھا،73 ء کے آئین کی تدوین میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ وہ سیاست میں رواداری، شرافت اوراختلاف رائے کو جمہوری عمل میں بنیادی شرط خیال کرتے تھے، حلقہ یاراں میں ابریشم کی طرح نرم تھے ۔ ان کے مخالفین بھی ان کی سنجیدہ طبیعت، سیاسی تدبر، معاملہ فہمی اور امن دوستی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔ قومی سیاست کے چنیدہ رمز شناسوں میں سے تھے۔ سنجیدہ مسکراہٹ ان کی پہچان تھی۔ کراچی کے مخدوش حالات پر سخت دل گرفتہ تھے چنانچہ طویل علالت کے باعث سیاسی سرگرمیاں محدود کرلی تھی اور تقریباً گوشہ نشین ہوگئے تھے۔
پروفیسر غفور احمد 26جون 1927ء کو بریلی انڈیا میں پیدا ہوئے اور1948 ء میں لکھنو یونیورسٹی سے کامرس میں ماسٹرز کیا اور انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکائونٹس کے فیلو ہو گئے ۔ انھوں نے متعدد تعلیمی اداروں میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیے جن میں انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹنٹ پاکستان،انسٹیٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس اور اردوکالج کراچی شامل ہیں۔پروفیسر غفور احمد1950ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے جب کہ کئی برس تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہے اور ایک مدت سے جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیرکی فرائض انجام دے رہے تھے۔
پروفیسر غفور 1970ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔اعلیٰ پایہ کے قلمکار تھے، انھوں نے پاکستانی سیاست پرپانچ کتابیں بھی لکھیں۔1977ء میں وہ دوبارہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کے قائد بھی بنائے گئے ۔ وہ یونائیٹڈ ڈیموکریٹک الائنس اور پاکستان قومی اتحاد کے سیکریٹری جنرل بھی رہے۔ پروفیسر غفور احمد قومی اتحاد کی اس مذاکراتی ٹیم میں بھی شامل تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو سے مارشل لاء کے نفاذ سے پہلے فیصلہ کن مذاکرات کیے تھے۔
1978سے 1979 تک پروفیسر غفور پاکستان قومی اتحاد کی قیادت کے حکم کی تعمیل میں وفاقی وزیر صنعت رہے ، وہ 2002 میں سینیٹر منتخب ہوئے ۔ مرحوم نے سوگواروں میں تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔پروفیسر غفور کی رحلت سے سیاست میں نتیجہ خیز مکالمہ کا ایک باب بند ہوگیا۔اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔