مذمت دکھ افسوس تحقیقات
2 ارب 70 کروڑ ڈالر کی امریکی امداد پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں معاون ہے تو اس کا درست استعمال ہونا چاہیے۔
پشاور ایئرپورٹ پر حملے میں 5 افراد جاں بحق اور 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے، اطلاعات کے مطابق 10 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ دہشت گردوں کے اس حملے کا مقصد پشاور ایئرپورٹ سے متصل فوجی ایئر بیس پر قبضہ بتایا جارہا ہے جہاں بڑی تعداد میں فوجی اثاثے موجود تھے۔ پشاور ایئربیس میں داخلے کے لیے دہشت گردوں نے ایئر بیس کی حفاظتی دیواریں بارود سے اڑادیں۔
دہشت گردوں نے پشاور ایئر بیس پر 5 راکٹ داغے تھے جن میں سے 3 ایئر پورٹ کے اندر 2 ملحقہ آبادیوں پر گرے۔ کہا جارہا ہے کہ دہشت گرد ایئرپورٹ سے ملحقہ ایک زیر تعمیر عمارت میں چھپے ہوئے تھے ان کے پاس غذا، دواؤں اور پانی وغیرہ کے ذخیرے موجودہ تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد پوری تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ آئے تھے۔ ان دہشت گردوں میں نصف سے زیادہ تعداد ازبک دہشت گردوں کی تھی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کے پاس ٹنوں بارودی ذخائر موجود تھے۔
پشاور ایئرپورٹ پر حملے کے دوسرے دن رسالپور اکیڈمی کے گیٹ پر دستی بموں سے حملہ کیا گیا ان حملوں میں 19 افراد زخمی ہوئے جن میں وہ 13 نوجوان بھی شامل ہیں جو یہاں ملازمت کے لیے انٹرویو دینے آئے تھے۔ پشاور ایئرپورٹ پر حملے کے دن ہی باڑہ اور رسالپور میں 2 دھماکے کیے گئے جن میں دو اسکول تباہ ہوگئے۔ یہاں 35 کلو بارودی مواد جو ٹینک شکن تھا اور 4 دستی بم ملے جنھیں ناکارہ بنادیا گیا، دہشت گرد اس حملے میں اسکولوں کی کھڑکیاں دروازے اٹھاکر لے گئے۔
رسالپور حملوں ہی کے دن پشاور اور کراچی میں ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کو قتل کردیا گیا جو پولیو ویکسین بچوں کو پلانے کی مہم میں شامل تھیں۔ کراچی پولیو مہم کے ایریا انچارج کا کہنا ہے کہ محسود قبیلے کے کچھ افراد پولیو مہم کے دوران ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ میں جس وقت یہ کالم لکھ رہا ہوں اس وقت بھی چارسدہ میں پولیو مہم میں شامل خاتون سپروائزر سمیت تین افراد کو قتل کرنے کی پٹی ٹی وی پر چل رہی ہے۔
پشاور ایئرپورٹ پر کتنا نقصان ہوا اس کے بارے میں کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آئی، لیکن ائیرپورٹ پر چند گھنٹوں بعد ہی ایئر ٹریفک کی بحالی سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے ، لیکن جس منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گرد سرکاری تنصیبات پولیو مہم کے کارکنوں اور اسکولوں پر حملے کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ دہشت گردوں کی کارروائیاں پورے ملک میں تفریحاً نہیں کی جارہی ہیں بلکہ یہ کارروائیاں ایک دور رس منصوبے کا حصہ ہیں جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
دہشت گردی کے ان واقعات پر صدر و وزیراعظم سمیت ملک کے سیاسی رہنماؤں نے روایت کے مطابق ''مذمت، دکھ، افسوس'' کا اظہار کیا اور ''تحقیقات'' کی رسم ادا کردی ہے۔ امریکا کے محکمہ خارجہ کے ترجمان اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی پولیو مہم کے ارکان کے قتل کی مذمت کی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے پولیو مہم روکنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی دوران دو اہم خبریں بھی ہمارے سامنے آتی ہیں ایک خبر کے مطابق دفاع پاکستان کونسل نے لاہور سے واہگہ تک ایک ریلی نکالی جس میں ہندوستان سے 1971 کا بدلہ لینے، کشمیر کو طاقت کے ذریعے آزاد کرانے اور بھارت سے تجارتی تعلقات ختم کرنے کے نعروں کے ساتھ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ہندوستان کی ''را'' اور امریکا کی ''سی آئی اے''کے ملوث ہونے کے انکشافات بھی کیے گئے ہیں۔
دوسری اہم خبر کے مطابق امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے 2 ارب 70 کروڑ ڈالر دے گا جس میں 70 کروڑ ڈالر کی امداد ان اخراجات کی مد میں ہوگی جو پاک افغان سرحد پر تعینات ایک لاکھ چالیس ہزار فوجیوں پر خرچ کی گئی ہے۔
کیا ایک عام آدمی ان واقعات کے ایک دوسرے سے تعلق ان کی ہمہ گیری گہرائی اور نتائج پر سوچ سکتا ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ اول تو عام آدمی ان اسرار ورموز سے واقف ہی نہیں، دوسرا اس کی ساری توجہ اپنے اور اپنے خاندان کی بقا کی طرف لگی ہوئی ہے کہ دہشت گردوں سے کسی پاکستانی کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ عوام کا یہ خوف اس لیے بجا ہے کہ جس ملک میں جی ایچ کیو، ہوائی اڈے، سیکیورٹی فورسز اور سرکاری ادارے اپنی خیر منا رہے ہوں وہاں عام آدمی کی جان ومال کا تحفظ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے؟
جمرود بازار میں ہونے والے کا بم دھماکے سے لے کر جس میں 21افراد جاں بحق اور 64 زخمی ہوگئے۔ کراچی اور خیبر پختونخوا میں ہیلتھ ورکرز کے قتل تک دہشت گردی کی جو مسلسل کارروائیاں ہورہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کی سنگینی کا ہمارے حکمرانوں کو نہ احساس ہے نہ ادراک، ہمارے سیاستدانوں کی مجرمانہ ذہنیت کا عالم یہ ہے کہ وہ ملک کی بقا کے اس سنگین ترین مسئلے کو پس پشت ڈال کر اپنی الزامات اور جوابی الزامات کی انتخابی مہم پر ہی ساری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
دہشت گردی کی ان لگاتار وارداتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت دہشت گردی کے اس سیلاب کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ حکومت اور دفاعی ادارے اس عفریت سے نمٹنے کے لیے نہ کوئی منصوبہ بندی کرسکے ہیں نہ اس مسئلے پر کوئی قومی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکا ہے۔ اس کے برخلاف اگر ہم دہشت گردوں کی کارروائیوں پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے مقاصد سے ہم لاکھ اختلاف کریں، ان کے نظم و ضبط، ان کی طویل مدتی منصوبہ بندی، سارے ملک میں ان کے کارکنوں کا پھیلاؤ اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ربط و ضبط سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے اب تک یہ طے نہیں کیا جاسکا کہ یہ ہماری جنگ ہے یا امریکا کی جنگ؟ روس کے خلاف امریکا کی جنگ لڑنے والی طاقتیں اس جنگ کو امریکا کی جنگ کا نام دے کر پاکستانی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مقدس مہم کا مقصد یہ ہے کہ ''عرب بہار'' کی طرف پیش قدمی کے لیے رائے عامہ ہموار کی جاسکے، ہمارے دفاع پاکستان کونسل کے مہربان دہشت گردی کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے لاہور سے واہگہ تک ریلیاں نکال رہے ہیں اور بھارت سے بدلہ لینے اور دہشت گردی میں بھارت اور امریکا کے ملوث ہونے کی افواہیں پھیلا کر دہشت گردوں کی بالواسطہ حمایت اس لیے کر رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے بارے میں عوامی نفرت کو مشکوک اور کنفیوژ کرکے ان کے راستے میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔
پاکستان کے عوام امریکا کی سامراجی جارحیت کے سخت خلاف ہیں، پاکستان کے عوام کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کی پالیسی کے سخت خلاف ہیں، لیکن وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے ہمارے بعض سیاستدانوں اور فوجی بیوروکریسی نے راہ ہموار کی، وہ 1970 کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے رہنما شیخ مجیب الرحمن کو وزیر اعظم کے عہدے پر دیکھنا نہیں چاہتی تھیں۔ مشرقی پاکستان کے عوام پر ہونے والی زیادتیوں نے انھیں علیحدگی کے راستے پر چلنے کے لیے مجبور کیا، ان بنیادی حقائق پر پردہ ڈال کر الزام تراشیاں کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے ذریعے اقتدار تک رسائی مذہبی انتہا پسندوں کے لیے ممکن نہیں رہی، اس لیے مذہبی انتہا پسند دہشت گردی کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہ الزام تراشیاں اسی مقصد کا حصہ ہیں۔
پاکستانی معاشرہ اپنی فکری پسماندگی کے باوجود سماجی اور تہذیبی ترقی کے اس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اسے واپس قبائلی نظام کی طرف دھکیلنا آسان نہیں ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں موجود صنعتی کلچر کے حامی عوام قبائلی کلچر کو کسی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اس ناموافق صورت حال میں مذہبی انتہا پسندوں کے نزدیک ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ خوف و دہشت کی فضا پیدا کرکے ریاستی اداروں کو اتنا بے بس کردیں کہ وہ دہشت گردوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔
یہ وہ حقائق ہیں جن کا ادراک کرکے ہمارے حکمرانوں اور اپوزیشن کو ایک جامع پالیسی اور اس پر عملدرآمد کی منصوبہ بند حکمت عملی کے ساتھ ان منفی قوتوں کے خاتمے کے لیے آگے بڑھنا پڑے گا۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ مذہبی انتہا پسند جمہوریت، انتخابات، حکمرانوں اور اپوزیشن سب کو کفر سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسکولوں، سی ڈی کی دکانوں، بزرگوں کے مقبروں، مسجدوں، امام بارگاہوں کو تباہ کرنا، پولیو کے قطروں کو امریکی سازش سے تعبیر کرنا ان کا مذہب ہے۔ کیا پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام دہشت گردوں کے اس مذہب کو قبول کر لیں گے؟ اب حکمرانوں اور اپوزیشن کو مذمت، دکھ، افسوس اور تحقیقات کے حصار سے باہر نکل کر سخت جوابی اقدامات کرنا ہوں گے، امریکا کی طرف سے 2 ارب 70 کروڑ ڈالر کی امداد پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں معاون ہے تو اس کا درست استعمال کیا جانا چاہیے۔