میں جینا چاہتی ہوں

کوئی بھوکا مزید 64 برس انتظار نہیں کر سکتا جو وہ آزادی کے بعد سے اب تک کر رہا ہے۔


Kuldeep Nayar December 27, 2012

KARACHI: ایک فرد کی مانند ایک قوم کے ضبط و تحمل کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ دہلی اور بعض دیگر شہروں کے لیے قومی دارالحکومت میں ایک لڑکی کی اجتماعی آبروریزی کا جرم اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ثابت ہوا۔ ضبط کے بند ٹوٹ گئے اور طلبہ احتجاج کرتے ہوئے بازاروں میں نکل آئے۔ بعض مقامات پر پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ایک پولیس والے کی ہلاکت اور بہت سے طلبہ کے زخمی ہونے کی خبریں ہیں۔

جب عوام کے غصے کا مقابلہ پانی کے گولوں اور لاٹھی چارج کے ذریعے کرنے کی کوشش کی جائے تو اس قسم کی صورتحال کا پیدا ہونا یقینی ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہلی میں ہونے والا احتجاج آبروریزی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شدید غصے کا فطری ردعمل تھا لیکن درحقیقت اس کی تہہ میں وہ جمع شدہ غصہ تھا جو اس نظام کے خلاف مسلسل اکٹھا ہورہا ہے۔ ایسا نظام جس میں نہ انصاف ہے اور نہ ہی روزگار۔ یہ ناقص حکمرانی اور انتظامیہ کی نااہلی کے بارے میں ایک افسوسناک تبصرہ ہے جس کا عوام کو آزادی کے بعد سے سامنا ہے۔ خاص طور پر 70ء کے عشرے سے حالت زیادہ بگڑی۔

وزیراعظم اندرا گاندھی نے جبر اور استبدادی طریقوں سے لوگوں کی محرومیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی حالانکہ اس نے انتخاب غریبی دور کرنے کے وعدے پر جیتا تھا۔ مرنجان مرنج منموھن سنگھ پر کوئی بھی جبر و استبداد کا الزام نہیں لگا سکتا جو تقریباً 9 برس سے برسراقتدار ہیں مگر ان کا انداز ایک بیورو کریٹ جیسا ہے جسے قواعد و ضوابط سے تو بخوبی آگاہی ہوتی ہے مگر وہ کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھا سکتا۔ حتیٰ کہ قوم سے ان کا خطاب بھی روایتی اور بے وزن ہی ہوتا ہے۔

جس میں کوئی ٹھوس بات نہیں ہوتی۔ آخر وہ دہلی کے وزیراعلیٰ' مرکزی وزیر داخلہ اور پولیس کمشنر کے مابین چلنے والے افسوسناک چپقلش کو تو سختی سے ختم کرا سکتے تھے۔طلبہ بہت ناراض تھے اور حکومت کا ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بعض ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ لیکن خالی خولی بیانات سے ان کی تسلی ہونے والی نہیں تھی۔ عام تاثر یہی تھا کہ کسی کو بھی سزا نہیں ملے گی اور جلد ہی بات آئی گئی ہو جائے گی۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ پولیس کمشنر نیراج کمار کو تو فوراً ہی تبدیل کردیتی۔ اس کا وضاحتی بیان محض اپنی ناکامی پر پردہ پوشی کی ناکام کوشش تھی۔ اگر ان کی پولیس فورس میں کسی کا بھی قصور نہیں تھا تو پھر اتنی فاش غلطی کیسے ہوئی؟ دہلی میں امن و امان قائم رکھنے کی خاطر تخیلاتی ذہن اور نئے تصورات کی ضرورت ہے۔

پولیس کے گھسے پٹے حربوں سے بات نہیں بن سکتی۔ مزید برآں اس تمام منظر نامے میں کہیں بھی انسانیت کا درد نظر نہیں آیا۔دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر تعطیلات پر تھے اور وزیراعلیٰ شیلا ڈکشٹ کے بقول ان سے رابطہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آخر اس قسم کے شخص کو اتنی اہم جگہ پر رکھا ہی کیوں گیا ہے؟ اس کی ملازمت کی تو دوسری مدت بھی ختم ہو چکی ہے۔ اور واپس آ کر موصوف نے جو ڈرامہ کیا ہے اور نچلے درجہ کے چند ملازمین کو برطرف کر کے اپنی طرف سے ذمے داری نبھائی ہے حالانکہ وہ بے سود ہے۔

اس موقع پر عدالتی کمیشن کے قیام کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا، کیونکہ سب جان چکے ہیں کہ کمیشن قائم کرنے کا مقصد عوام کی توجہ بدلنا ہی ہوتا ہے۔ 1993ء میں ممبئی میں ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کی تحقیقات کے لیے سری کرشنا کمیشن قائم کیا گیا اور دوسرا بابری مسجد کے انہدام کی چھان بین کے لیے ایم ایس لبرھن کمیشن قائم ہوا مگر دونوں کمیشن محض کاغذی کارروائی ہی ثابت ہوئے۔دونوں معاملات میں قصوروار وہی تھے جن کے ہاتھ میں سیاسی قوت تھی۔ آخر دہلی گینگ ریپ پر قائم کیا جانے والا کمیشن کیا کرسکے گا۔ اب کمیشنوں کی کارکردگی پر کسی کو اعتبار ہی نہیں رہا۔ مظلوم لڑکی کی ماں جو اپنا بیان ریکارڈ کرانے مجسٹریٹ کے پاس پہنچی اس کا کہنا ہے کہ اس پر پولیس کی طرف سے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ تاہم شیلا ڈکشت نے یہ اچھا کام کیا ہے کہ اس نے وزارت داخلہ کو اس مجبور ماں کے ساتھ پولیس کی بدسلوکی کی تحقیقات کا حکم دیا ہے جب کہ پولیس کوئی الزام ماننے پر تیار نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ عوام کی نظروں میں عدالتی طریق کار کی کوئی عزت نہیں رہی۔

قصور وار کو سزا دینے میں بہت لمبا وقت لگا دیا جاتا ہے۔ اس وقت ریپ کے 400 سے زیادہ مقدمات ہیں جو سالہا سال سے زیر التوا پڑے ہیں۔ اگرچہ دہلی کے گینگ ریپ کے معاملے کو بڑی تیزی سے نمٹانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود قانون میں بچائو کے بڑے راستے ہوتے ہیں۔ نیز عدالتی فیصلے پر اپیل کی گنجائش بھی ہوتی ہے جس سے معاملہ لٹکتا چلا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ضرورت اس بات کی ہے کہ قوانین کو تبدیل کیا جائے۔ موت کی سزا بھی مجرمانہ حملہ کرنے والوں کو نہیں روک سکتی۔ ان کا ایک ہی علاج ہے کہ انھیں مردانہ صفات سے محروم کر دیا جائے۔ اب تو اس علاج کو ایک عوامی مطالبے کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ کے اراکین اس موقع پر اپنی اہمیت جتانے کے لیے بولنے لگے۔ دو سیاسی پارٹیوں نے مجرموں کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کردیا۔

یہ توجیہہ بھی بیان کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن مناسب اقدام کرے گا۔ آخر پارلیمنٹ خود یہ کام کیوں نہیں کر سکتی؟ (ریاست گجرات کے اراکین اسمبلی میں سے ایک تہائی پر مختلف جرائم کے مقدمات قائم ہیں جن میں آبروریزی کے مقدمے بھی ہیں) تمام سیاسی پارٹیوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ملک کے موجودہ اداروں پر عوام کا اعتماد نہیں ہے اور نہ ہی انھیں اپنے سوالوں کا کوئی جواب ان سے مل سکتا ہے۔آخر ملک میں اتنی زیادہ غریبی کیوں ہے؟ آخر امیر غریب کے فرق میں اتنا اضافہ کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے۔آخر معاشرے پر ذات پات کا اتنا زیادہ قبضہ کیوں ہے؟ آخر حکومت ان کے جذبات و احساسات سے اس قدر غافل کیوں ہے؟ کانگریس کے لیڈروں نے طلبہ کے بعض گروپوں سے الگ الگ بات ضرور کی مگر انھیں کوئی ایسا لیڈر نہ مل سکا جو طلبہ کو تسلی دے سکتا۔

ایک ایسا مجمع جس کا کوئی لیڈر نہ ہو ملک کے لیے بدترین چیز ہوتی ہے۔ اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر بعض شرپسند عناصر تشدد کی راہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔گویا نوجوان ایک ایسا دھماکہ خیز مواد ہوتے ہیں جن کے فیتے کو آگ لگا کر تباہی مچائی جا سکتی ہے۔بہت سال قبل فرانس میں طلبہ کا احتجاج ایک انقلاب میں تبدیل ہو گیا تھا لیکن یہ تحریک خود طلبہ کے اپنے داخلی اختلافات کے باعث ناکام ہو گئی۔حال ہی میں بعض عرب ملکوں میں نوجوانوں کے احتجاج کے نتیجے میں کئی حکمران تبدیل ہو گئے۔ چین میں طلبہ چوک میں جمع ہوگئے تھے جو حکومت کے آمرانہ رویہ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے لیکن چونکہ بیجنگ میں جمہوریت نہیں لہٰذا انھیں کچل دیا گیا۔

موجودہ حکمران تمام زیادتیاں کرنے کے باوجود ڈٹے بیٹھے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت ایک کھلا معاشرہ ہے لوگ اپنے جذبات کا آزادانہ اظہار کر سکتے ہیں لیکن ''اسٹیٹس کو'' بہر حال قائم رکھا جاتا ہے مگر دہلی میں جو ہوا ہے، وہ ایک وارننگ ہے، ایک انتباہ ہے۔ نظام کی ''اوور ہالنگ'' درکار ہے۔ اگر چہ عام انتخابات میں بھی دھاندلی ہوتی ہے جب کہ پولیس بعض ریاستوں میں وزراء اعلیٰ کی پرائیویٹ آرمی بن کر رہ گئی ہے لیکن مجموعی طور پر ملک پر امن ہے۔

اس بنا پر نہیں کہ لوگ مطمئن ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ انھیں ابھی انتخابات کے بعد ملک میں کسی بہتری کی امید ہے۔ لیکن اب اس اعتماد میں بھی کمی آتی جا رہی ہے۔ تاہم غریب آدمی ٹھنڈ میں زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی کوئی بھوکا مزید 64 برس انتظار کر سکتا ہے جو وہ آزادی کے بعد سے اب تک کر رہا ہے۔ وہ اب بہتر زندگی چاہتے ہیں۔ اجتماعی مجرمانہ حملے کا نشانہ بننے والی لڑکی موت سے لڑتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میں زندہ رہنا چاہتی ہوں۔ اب قوم اس کا فیصلہ کرے۔
(ترجمہ:مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں