دورہ غزہ خالد مشعل کا تیسرا جنم
دنیاخالد مشعل کے چوتھے جنم کی منتظر رہے۔،وہ دن کہ جب بیت المقدس ، رملہ، حیفا اور جافا بھی فلسطین کا حصہ قرار پائیں گے۔
غزہ کی پٹی، بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ جنوب مغرب میں اس کی گیارہ کلومیٹر سرحد ، مصر سے ملتی ہے۔ مشرق و شمال میں مقبوضہ فلسطین (یعنی صہیونیت کے زیر قبضہ اسرائیل)سے اس کا اکیاون کلومیٹر طویل علاقہ ملحق ہے۔غزہ کی پٹی سترہ لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا نام ہے لیکن یہاں بے روزگاری کی شرح پینتالیس فیصد ہے۔ اس کی اکتیس ہزار آٹھ سو انیس ڈونم زمین مسمارکی جاچکی ہے۔ اس کا پینتیس فیصد علاقہ ہائی ڈیتھ رسک کے زون میں واقع ہے۔
اوسلو معاہدے کے مطابق ناجائزصہیونی ریاست نے بیس ناٹیکل میل کے سمندری علاقے میں فلسطینیوں کے ماہی گیری کے حق کو تسلیم کیا تھا۔آج صورتحال یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین پر محض تین ناٹیکل میل کی سمندری حدود میں محدود کردیا گیا ہے۔غزہ کے پاور پلانٹس صرف پینتالیس فیصد بجلی پیدا کررہے ہیں یعنی پینسٹھ فیصد آبادی بجلی کی سہولت سے یکسر محروم ہے۔ یہاں کی فقط سینتیس فیصد آبادی کو علاج معالجے کی فراہمی ممکن ہوسکی ہے ۔ محض چوبیس فیصد کو ضروری دوائیں دستیاب ہے۔ چون فیصد آبادی فوڈ انسیکیورٹی میں مبتلا ہے۔
صہیونی جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں میں غزہ کے چار سو پینتالیس قیدی بھی شامل ہیں۔ اپریل دوہزار سات سے تادم تحریر غزہ کی پٹی کھلے آسمان تلے ایک جیل کی مانند ہے جس کی چابیاں صہیونی ریاست کے قبضے میں ہیں۔
غزہ مسلمانوں کے لیے ایک اہم شہر ہے۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ خاتم الانبیاء (ﷺ) قریش کے ہاشمی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ قریش کے وہ افراد جو بنو ہاشم کہلاتے ہیں، اس کا سبب ان کے جد امجد حضرت ہاشم(ع) ہیں جو اسی غزہ شہر میں دفن ہیں۔ یوں تو ہر نیا سورج غزہ والوں کے لیے ایک نیا پیغام لے کر طلوع ہوتا ہے لیکن 7 دسمبر2012 غزہ کی تاریخ کاایک اہم دن تھا۔ اس دن حرکت مقاومت اسلامی (حماس) کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل اپنی 56 سالہ زندگی میں پہلی مرتبہ غزہ میں داخل ہوئے۔
دریا ئے اردن کے مغربی کنارے کے گائوں سلواد میں پیدا ہونے والے 56 سالہ خالد مشعل نے غزہ آمد کو اپنا تیسرا جنم قرار دیا۔ انھوں نے فلسطین کی مقدس سرزمین پر قدم رکھتے ہی خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ کیا اور خاک فلسطین کو چوما۔ ان کی غزہ آمد حماس کے قیام کی 25 ویں سالگرہ کے موقعے پر ہوئی۔اس مناسبت سے غزہ کے علاقے کتیبہ میں ایک عظیم الشان جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جس سے خالد مشعل نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے حاضرین کو بتایا کہ 1956 میںان کی پہلی پیدائش ہوئی۔ 1997 میں صہیونی حکمران بنجامن نیتن یاہو نے اردن میں موساد کے ذریعے انھیں قتل کرنے کی سازش کی جو ناکام ثابت ہوئی۔ اس صہیونی ناکامی کے نتیجے میں ملنے والی زندگی کو خالد مشعل نے اپنا دوسرا جنم قرار دیا۔
خالد مشعل نے واضح کیا کہ وہ فلسطینیوں کے مابین تقسیم ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کے مطابق اب وقت ہے فلسطینیوں کے اتحاد اور مفاہمت کا۔ اور مفاہمت کا مطلب ہے ایک متحدہ پلیٹ فارم، ایک حکومت ، ایک صدر اور ایک پارلیمنٹ۔ حماس 1987 میں اپنے قیام کے وقت سے صہیونی اسرائیل سے نبرد آزما ہے۔ یہ ان کی مقاومت و مزاحمت تھی جس نے ایرل شیرون جیسے انتہا پسند صہیونی حکمران کو غزہ سے یکطرفہ پسپائی پر مجبور کردیا ۔ 2005 میں محض صہیونی اسرائیلی افواج ہی غزہ سے انخلاء پر مجبور نہیں ہوئیں بلکہ نسل پرستانہ بنیادوں پر قائم کی گئیں ناجائز صہیونی آبادیاں بھی یہاں سے ختم کرکے دوسری جگہوں پر منتقل کردی گئیں۔
یہ حماس کے مقاومتی و مسلح مزاحمتی کردار کی کامیابی تھی کہ سال 2005 میں غزہ میں فلسطینیوں نے حماس کو بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب کیا۔ سال 2006 میں حماس عام انتخابات میں واحد اکثریتی جماعت کے طور پر کامیاب ہوئی۔ یہ انتخابات یورپی یونین اور دیگر عالمی معیارات کے تحت اور ان کی نگرانی میں منعقد ہوئے تھے۔ لیکن حماس کی کامیابی امریکا اور نام نہاد عالمی برادری کو برداشت نہیں ہوئی اور طرح طرح کی پابندیاں اور شرائط حماس حکومت پر عائد کردی گئیں۔ حتیٰ کہ محمود عباس کی الفتح نے بھی فلسطینیوں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور حماس حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیا کے ہوتے ہوئے سلام فیاض کو مغربی کنارے کے علاقے کا علیحدہ وزیر اعظم بنادیا۔ محمود عباس زبردستی فلسطینی انتظامیہ کی صدارت سے چمٹے رہے۔
کسی نے بھی فلسطینیوں کے جمہوری مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا۔ کئی منتخب اراکین اسمبلی کو صہیونی حکومت نے گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا۔ سعودی عرب نے حماس اور الفتح میں ایک سمجھوتہ کروایا جو معاہدہ مکہ کے عنوان سے مشہور ہوا۔ یہ معاہدہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ حماس بنیادی طور پر سو فیصد خالص مزاحمتی تنظیم تھی اور اس کے اہداف نے اسے لبنان کی حزب اللہ ، ایران اور شام کا اتحادی بنادیا۔ جیسا کہ خالد مشعل نے غزہ میں بھی اپنے موقف کا اعلان کیا کہ فلسطین کا ایک ایک انچ اسلامی اور عرب ہے اور وہ فلسطین کے کسی بھی حصے سے دستبردار نہیں ہونگے۔ اس سے بھی زیادہ واضح طور پر انھوں نے کہا کہ وہ اسرائیل کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔
خالد مشعل اور حماس کے اس موقف کی سوائے ایران اور شام کے کوئی تیسرا ملک حمایت نہیں کرتا۔ مصر ہو یا سعودی عرب، قطر ہو یا ترکی، یہ سب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے 1967 ع تک کی سرحدوں کے قائل ہیں جس کا مطلب ہے غزہ اور مغربی کنارے کے چھوٹے سے علاقے میں محدود فلسطین۔ یہی وجہ ہے کہ حماس حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیا ،دوسرے درجے کی قیادت اور حزب جہاد اسلامی کے سربراہ رمضان عبداللہ شلاح نے ایران کو اب تک علی الاعلان اپنا دوست اور محسن قرار دے رکھا ہے۔ حماس اور حزب جہاد اسلامی کی قیادت کی جو پذیرائی ایران اور شام میں ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔ ان دو ملکوں میں وہ ایسے آزاد گھومتے ہیں جیسے یہ ان کے اپنے وطن ہوں۔
قطر، بحرین، مصر ، سعودی عرب اور ترکی حماس یا غزہ کے لیے کتنی ہی امداد کا اعلان کیوں نہ کردیں وہ کبھی بھی حماس کو اسلحہ فراہم نہیں کریں گے۔ غزہ کی تعمیر نو کی ان کی مالی امداد کا ویسے بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اسرائیلی میزائل ساری تعمیرات مسمار کردیتے ہیں۔ ایسی امداد کا کیا فائدہ ، ایسی امداد یورپی یونین بھی کی ہے لیکن اب وہ منصوبے کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ بس ان ملکوں سے تعلقات کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ خالد مشعل کو ایک ڈیل کے ذریعے غزہ کے دورے کی اجازت مل گئی ہے۔ لیکن خالد مشعل کو یاد رکھنا ہوگا کہ غزہ کو ایسی ڈیل کے ذریعے تاحال کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ہے۔
ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے بارے میں خالد مشعل نے صریح الفاظ میں بتادیا کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں پر قبضے کا نام ہے اور اس قبضے کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گاخواہ یہ قبضہ کتنا ہی پراناکیوں نہ ہوجائے۔خالد مشعل نے غزہ کے دورے میں اپنے چوتھے جنم کی بات بھی کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس دن پورا فلسطین آزاد ہوگا اس دن کو وہ اپنی چوتھی پیدائش سمجھیں گے۔ دنیا خالد مشعل کے چوتھے جنم کی منتظر رہے۔ وہ دن کہ جب بیت المقدس ، رملہ، حیفا اور جافا بھی فلسطینی ریاست کا حصہ قرار پائیں گے۔
اوسلو معاہدے کے مطابق ناجائزصہیونی ریاست نے بیس ناٹیکل میل کے سمندری علاقے میں فلسطینیوں کے ماہی گیری کے حق کو تسلیم کیا تھا۔آج صورتحال یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین پر محض تین ناٹیکل میل کی سمندری حدود میں محدود کردیا گیا ہے۔غزہ کے پاور پلانٹس صرف پینتالیس فیصد بجلی پیدا کررہے ہیں یعنی پینسٹھ فیصد آبادی بجلی کی سہولت سے یکسر محروم ہے۔ یہاں کی فقط سینتیس فیصد آبادی کو علاج معالجے کی فراہمی ممکن ہوسکی ہے ۔ محض چوبیس فیصد کو ضروری دوائیں دستیاب ہے۔ چون فیصد آبادی فوڈ انسیکیورٹی میں مبتلا ہے۔
صہیونی جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں میں غزہ کے چار سو پینتالیس قیدی بھی شامل ہیں۔ اپریل دوہزار سات سے تادم تحریر غزہ کی پٹی کھلے آسمان تلے ایک جیل کی مانند ہے جس کی چابیاں صہیونی ریاست کے قبضے میں ہیں۔
غزہ مسلمانوں کے لیے ایک اہم شہر ہے۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ خاتم الانبیاء (ﷺ) قریش کے ہاشمی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ قریش کے وہ افراد جو بنو ہاشم کہلاتے ہیں، اس کا سبب ان کے جد امجد حضرت ہاشم(ع) ہیں جو اسی غزہ شہر میں دفن ہیں۔ یوں تو ہر نیا سورج غزہ والوں کے لیے ایک نیا پیغام لے کر طلوع ہوتا ہے لیکن 7 دسمبر2012 غزہ کی تاریخ کاایک اہم دن تھا۔ اس دن حرکت مقاومت اسلامی (حماس) کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل اپنی 56 سالہ زندگی میں پہلی مرتبہ غزہ میں داخل ہوئے۔
دریا ئے اردن کے مغربی کنارے کے گائوں سلواد میں پیدا ہونے والے 56 سالہ خالد مشعل نے غزہ آمد کو اپنا تیسرا جنم قرار دیا۔ انھوں نے فلسطین کی مقدس سرزمین پر قدم رکھتے ہی خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ کیا اور خاک فلسطین کو چوما۔ ان کی غزہ آمد حماس کے قیام کی 25 ویں سالگرہ کے موقعے پر ہوئی۔اس مناسبت سے غزہ کے علاقے کتیبہ میں ایک عظیم الشان جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جس سے خالد مشعل نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے حاضرین کو بتایا کہ 1956 میںان کی پہلی پیدائش ہوئی۔ 1997 میں صہیونی حکمران بنجامن نیتن یاہو نے اردن میں موساد کے ذریعے انھیں قتل کرنے کی سازش کی جو ناکام ثابت ہوئی۔ اس صہیونی ناکامی کے نتیجے میں ملنے والی زندگی کو خالد مشعل نے اپنا دوسرا جنم قرار دیا۔
خالد مشعل نے واضح کیا کہ وہ فلسطینیوں کے مابین تقسیم ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کے مطابق اب وقت ہے فلسطینیوں کے اتحاد اور مفاہمت کا۔ اور مفاہمت کا مطلب ہے ایک متحدہ پلیٹ فارم، ایک حکومت ، ایک صدر اور ایک پارلیمنٹ۔ حماس 1987 میں اپنے قیام کے وقت سے صہیونی اسرائیل سے نبرد آزما ہے۔ یہ ان کی مقاومت و مزاحمت تھی جس نے ایرل شیرون جیسے انتہا پسند صہیونی حکمران کو غزہ سے یکطرفہ پسپائی پر مجبور کردیا ۔ 2005 میں محض صہیونی اسرائیلی افواج ہی غزہ سے انخلاء پر مجبور نہیں ہوئیں بلکہ نسل پرستانہ بنیادوں پر قائم کی گئیں ناجائز صہیونی آبادیاں بھی یہاں سے ختم کرکے دوسری جگہوں پر منتقل کردی گئیں۔
یہ حماس کے مقاومتی و مسلح مزاحمتی کردار کی کامیابی تھی کہ سال 2005 میں غزہ میں فلسطینیوں نے حماس کو بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب کیا۔ سال 2006 میں حماس عام انتخابات میں واحد اکثریتی جماعت کے طور پر کامیاب ہوئی۔ یہ انتخابات یورپی یونین اور دیگر عالمی معیارات کے تحت اور ان کی نگرانی میں منعقد ہوئے تھے۔ لیکن حماس کی کامیابی امریکا اور نام نہاد عالمی برادری کو برداشت نہیں ہوئی اور طرح طرح کی پابندیاں اور شرائط حماس حکومت پر عائد کردی گئیں۔ حتیٰ کہ محمود عباس کی الفتح نے بھی فلسطینیوں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور حماس حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیا کے ہوتے ہوئے سلام فیاض کو مغربی کنارے کے علاقے کا علیحدہ وزیر اعظم بنادیا۔ محمود عباس زبردستی فلسطینی انتظامیہ کی صدارت سے چمٹے رہے۔
کسی نے بھی فلسطینیوں کے جمہوری مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا۔ کئی منتخب اراکین اسمبلی کو صہیونی حکومت نے گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا۔ سعودی عرب نے حماس اور الفتح میں ایک سمجھوتہ کروایا جو معاہدہ مکہ کے عنوان سے مشہور ہوا۔ یہ معاہدہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ حماس بنیادی طور پر سو فیصد خالص مزاحمتی تنظیم تھی اور اس کے اہداف نے اسے لبنان کی حزب اللہ ، ایران اور شام کا اتحادی بنادیا۔ جیسا کہ خالد مشعل نے غزہ میں بھی اپنے موقف کا اعلان کیا کہ فلسطین کا ایک ایک انچ اسلامی اور عرب ہے اور وہ فلسطین کے کسی بھی حصے سے دستبردار نہیں ہونگے۔ اس سے بھی زیادہ واضح طور پر انھوں نے کہا کہ وہ اسرائیل کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔
خالد مشعل اور حماس کے اس موقف کی سوائے ایران اور شام کے کوئی تیسرا ملک حمایت نہیں کرتا۔ مصر ہو یا سعودی عرب، قطر ہو یا ترکی، یہ سب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے 1967 ع تک کی سرحدوں کے قائل ہیں جس کا مطلب ہے غزہ اور مغربی کنارے کے چھوٹے سے علاقے میں محدود فلسطین۔ یہی وجہ ہے کہ حماس حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیا ،دوسرے درجے کی قیادت اور حزب جہاد اسلامی کے سربراہ رمضان عبداللہ شلاح نے ایران کو اب تک علی الاعلان اپنا دوست اور محسن قرار دے رکھا ہے۔ حماس اور حزب جہاد اسلامی کی قیادت کی جو پذیرائی ایران اور شام میں ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔ ان دو ملکوں میں وہ ایسے آزاد گھومتے ہیں جیسے یہ ان کے اپنے وطن ہوں۔
قطر، بحرین، مصر ، سعودی عرب اور ترکی حماس یا غزہ کے لیے کتنی ہی امداد کا اعلان کیوں نہ کردیں وہ کبھی بھی حماس کو اسلحہ فراہم نہیں کریں گے۔ غزہ کی تعمیر نو کی ان کی مالی امداد کا ویسے بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اسرائیلی میزائل ساری تعمیرات مسمار کردیتے ہیں۔ ایسی امداد کا کیا فائدہ ، ایسی امداد یورپی یونین بھی کی ہے لیکن اب وہ منصوبے کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ بس ان ملکوں سے تعلقات کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ خالد مشعل کو ایک ڈیل کے ذریعے غزہ کے دورے کی اجازت مل گئی ہے۔ لیکن خالد مشعل کو یاد رکھنا ہوگا کہ غزہ کو ایسی ڈیل کے ذریعے تاحال کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ہے۔
ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے بارے میں خالد مشعل نے صریح الفاظ میں بتادیا کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں پر قبضے کا نام ہے اور اس قبضے کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گاخواہ یہ قبضہ کتنا ہی پراناکیوں نہ ہوجائے۔خالد مشعل نے غزہ کے دورے میں اپنے چوتھے جنم کی بات بھی کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس دن پورا فلسطین آزاد ہوگا اس دن کو وہ اپنی چوتھی پیدائش سمجھیں گے۔ دنیا خالد مشعل کے چوتھے جنم کی منتظر رہے۔ وہ دن کہ جب بیت المقدس ، رملہ، حیفا اور جافا بھی فلسطینی ریاست کا حصہ قرار پائیں گے۔