خودی کا سرچشمہ
آنے والا کل ہمارا ہے اور ہمیں اس بات پر ایمان ہے کہ دہشت گردوں کو شکست ہو گی ۔
زندگی بھر انسانوں اور ان کی قوتوں کے پوشیدہ سرچشموں کا مطالعہ کرنے کے بعد عظیم ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے اعلان کیا کہ انسان میں ایک تعجب خیز خوبی یہ ہے کہ اس کے پاس منفی کو مثبت میں بدل دینے کی قوت ہے۔ ''دیوتائوں کے بارہ مخالفین '' کے مصنف ولیم بولیتھو اسے یوں بیان کرتے ہیں دنیا میں اہم ترین چیز یہ نہیں ہے کہ تم اپنے منافعے کو بڑھاتے رہو، بے وقوف بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ درحقیقت اہم ترین چیز یہ ہے کہ تم اپنے خسارے سے منافع حاصل کرو یہاں ذہانت کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ہی عقل مند اور بے وقوف کے درمیان حد فاضل قائم کرتی ہے۔
بولیتھو نے یہ الفاظ اس وقت کہے جب ریل کے ایک حادثے میں اس کی ایک ٹانگ جاتی رہی۔ دنیا کے کامیاب انسانوں کی زندگیوں کا جس قدر زیادہ مطالعہ کیا جائے تو اتنا ہی یقین پختہ ہوتا چلا جائے گا کہ ان لوگوں کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے رکاوٹوں اور مشکلوں سے آغاز کیا۔ جنہوں نے ان کی عظیم کامیابیوںاور فتح مندیوں کے لیے مہمیز کا کام دیا، ولیم جیمز کے الفاظ میں ہماری کمزوریاں غیر متوقع طور پر ہماری امداد کرتی ہیں۔
یہ بالکل حقیقت ہے ۔ ملٹن بہترین شاعری اس لیے لکھ سکا کیونکہ وہ اندھا تھا، بیتھوون نے موسیقی کی آفاقی دھنیں ایجاد کیں کیونکہ وہ بہرا تھا ۔ہیلن کیلرکی درخشاں حیات کے پیچھے اس کی عدم بصارت اور بہرے پن کا ہاتھ ہے اگر چیکو وسکی اپنی المناک شادی سے مایوس ہو کر خودکشی کرنے کے لیے تقریباً آمادہ نہ ہوجاتا اور اگر اس کی اپنی زندگی دردناک نہ ہوتی تو وہ شاید کبھی بھی اپنی غیر فانی رقت انگیز سمفنی ایجاد نہ کرسکتا ،اگر دوستو فسکی اور ٹالسٹائی کی زندگیاں دکھ بھری اور اذیت ناک نہ ہوتی تو غالباً وہ کبھی بھی اپنے غیر فانی ناول تصنیف نہ کرسکتے۔
'' اگر میں اتنا بڑا مریض نہ ہوتا'' وہ شخص لکھتا ہے جس نے زندگی کا سائنسی نظریہ بدل دیا تھا اگر میں اتنا بڑا مریض نہ ہوتا تو شاید میں اتنا زیادہ کام نہیں کرسکتا جتنا کہ میں نے کیا ہے۔'' یہ چارلس ڈارون کا اعتراف تھا کہ اس کی کمزوریوں نے خلاف توقع اس کی مدد کی۔ جس روز چالس ڈارون انگلستان میں پیدا ہوا تھا اسی دن کنیٹو کے جنگلات میں ایک لکڑی کی جھونپڑی میں ایک اور بچے نے جنم لیا اس کی کمزوریوں نے بھی اس کی مدد کی اس کا نام ابراہام لنکن تھا اگر اس کی پرورش کسی شاہی خاندان میں ہوتی وہ ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرتا اور اس کی ازدواجی زندگی خوشگوار ہوتی تو اس کے دل کی گہرائیوں میں یہ الفاظ شاید کبھی نہ ابھرتے جنھیں اس نے گیٹیز برگ کے میدان جنگ میں غیر فانی بنادیا اور نہ وہ مقدس نظم ہی وجود میں آتی جسے اس نے اپنی صدارت کے دوسرے افتتاحی جلسے میں پڑھا تھا ''مجھے کسی سے عداوت نہیں میں سب کے ساتھ فیاضی کا برتائو کرنا چاہتا ہوں''کسی بھی حکمران نے شاید ہی ان سے زیادہ حسین اور خوبصورت کلمات کہے ہوں گے۔
ہیری ایمرسن فوسڈک اپنی کتاب ''باطنی قوت'' میں کہتا ہے کہ ''سیکنڈے نیویا کی ایک کہاوت ہے کہ باد شمال نے جہازوں کو جنم دیا۔ اس کہاوت کو ہم سب مشعل راہ بناسکتے ہیں کیا آپ کبھی یہ خیال کرسکتے ہیں کہ پر امن اور خوشگوار زندگی، مشکلات کی عدم موجودگی آرام اور سہولت کوئی ایسی چیزیں ہیں جو لوگوں کو نیک یا مسرور بناسکتی ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنے اوپر ترس کھانے کے عادی ہوچکے ہوں وہ آرام سے پھولوں کی سیج پر دراز ہونے کے باوجود اپنے اوپر ترس کھاتے رہیں گے لیکن تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اعلیٰ کردار اور آفاقی خوشی صرف ان ہی لوگوں کا حصہ رہی ہے جو اپنی ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے اچھے برے سازگار اور ناسازگار ہر قسم کے حالات میں سے گذرے۔ اس لیے میں پھر کہتا ہوں کہ بادشمال نے جہازوں کو جنم دیا ہے۔'' جب مشہور عالم وائلن نواز اول بل پیرس میں اپنے کمالات کا مظاہرہ کررہا تھا تو اچانک اس کے وائلن کا (8)A تار ٹوٹ گیا لیکن اول بل نے فقط تین تاروں پر اپنا نغمہ پایہ تکمیل تک پہنچادیا ۔
ہیری ایمرسن فوسڈک کہتا ہے کہ زندگی اسی کا نام ہے کہ Aتار کو توڑ کر تین تاروں پر اپنے نغمے کو انجام تک پہنچایا جائے یہ صرف زندگی ہی نہیں بلکہ زندگی سے کچھ بڑھ کر ہے یہ زندگی پر مقصد ہے ۔ نامور ناول نگار مسز تھامپسن اپنی کہانی سناتے ہوئی کہتی ہیں'' دوران جنگ میرے شوہر کو نیو میکسیکو میں صحرائے موجیو کے قریب ایک فوجی تربیتی کیمپ میں تعینات کیا گیا میں بھی وہیں چلی گئی تاکہ اس کے پاس رہوں مجھے اس جگہ سے نفرت تھی میں ایک چھوٹی سے جھونپڑی میں رہتی تھی گرمی ناقابل برداشت تھی میکسیکو اور حبشیوں کے سوا وہاں بات چیت کرنے کے لیے کوئی دوسری مخلوق نہیں تھی اور وہ بھی انگریزی سے نابلد اور میں ان کی زبان سے ناآشنا۔ہر وقت لو چلتی رہتی تھی میرا کھانا ریت سے بھرجاتا تھا جس فضا میں سانس لیتی تھی وہ ریت سے اٹی ہوئی ہوتی تھی میں اس قدر دکھی تھی کہ مجھے اپنے اوپر ترس آنے لگا اور گھبراکر اپنے والدین کو خط لکھ دیا کہ میں یہاں کی زندگی ایک منٹ کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتی اس سے تو جیل کی چار دیواری ہی اچھی ہے۔
میرے والد نے اس کے جواب میں صرف دو سطریں لکھیں ان دو سطروں نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی انھوں نے لکھا ''دو آدمیوں نے جیل کی سلاخوں سے جھانک کر باہر دیکھا ایک نے ستارے دیکھے اور دوسرے کو کیچڑ نظر آئی۔'' میں نے ان سطروں کو بار بار پڑھا مجھے اپنے اوپر شرم آنے لگی اور میں نے تہیہ کرلیا کہ میں ستاروں کو تلاش کرونگی۔ پھر میں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ دوستی کرلی۔ تو انھوں نے مجھے اپنی ایسی ایسی شاندار چیزیں بطور تحفہ دیں جنھیں وہ سیاحوں کے پاس بیچنے سے انکار کردیتے تھے، صحرا میں آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کے نظاروں کو دیکھتی سمندری سیپوں کی تلاش کرتی جو وہاں لاکھوں سالوں سے پڑی تھیں جب صحرا سمندر ہوا کرتا تھا مجھ میں تعجب خیز تبدیلی پیدا ہوگئی۔
صحرائے موجیو نہیں بدلا تھا حبشی نہیں بدلے تھے لیکن میں ضرور بدل گئی تھی میرا ذہنی رویہ بدل گیا تھا میں نے ایک نئی دنیا دریافت کرلی تھی جس نے میرے اندر ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کردیا تھا اس نے میرے جذبات کو اس قدر ابھار دیا کہ میں نے اس کے متعلق ایک ناول لکھا جو ''روشن پشتے، کے نام سے شائع ہوا میں نے اپنے بنائے ہوئے زندان کی سلاخوں سے باہر جھانکا اور ستاروں کو پالیا۔'' مسزتھامپس نے ایک بہت پرانی حقیقت کو دریافت کرلیا تھا جس کا پانچ سو سال قبل از مسیح یونانی پرچار کیا کرتے تھے۔ ''بہترین چیزیں انتہائی مشکل ہوتی ہیں۔''
آج پاکستان کے موجودہ حالات 1965 اور 1971سے بھی بد تر ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا شمار دنیا کی بہادر ترین قوموں میں ہوتا ہے ہم سب کو پاکستان ہماری جانوں سے زیادہ پیارا ہے قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں یہ صحیح ہے کہ ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے۔ ہم نے گزشتہ 65سالوں میں ہر قسم کی مصیبتوں اور مشکلات کا بڑی دلیری اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ہے ۔ آج پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے مشکل حالات سے دوچار ہے انتہا پسند اور دہشت گرد ملک بھر میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ۔
اب حالات نا قابل بر داشت ہو چکے ہیں اب ہم سب کو اپنی سیاسی وابستگی سے قطع نظر دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو نا پڑے گا اور ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن معرکے کا آغاز کر نا ہوگا پاکستانی قوم میں بھی تعجب انگیز خوبی منفی کو مثبت میں بدل دینے کی قوت موجود ہے۔ بس ہمیں بھی ستاروں کو دیکھنا ہو گا متحد ہونا ہو گا اٹھ کھڑا ہونا ہوگا مقابلہ کرنا ہوگا آنے والا کل ہمارا ہے اور ہمیں اس بات پر ایمان ہے کہ دہشت گردوں کو شکست ہو گی ۔
بولیتھو نے یہ الفاظ اس وقت کہے جب ریل کے ایک حادثے میں اس کی ایک ٹانگ جاتی رہی۔ دنیا کے کامیاب انسانوں کی زندگیوں کا جس قدر زیادہ مطالعہ کیا جائے تو اتنا ہی یقین پختہ ہوتا چلا جائے گا کہ ان لوگوں کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے رکاوٹوں اور مشکلوں سے آغاز کیا۔ جنہوں نے ان کی عظیم کامیابیوںاور فتح مندیوں کے لیے مہمیز کا کام دیا، ولیم جیمز کے الفاظ میں ہماری کمزوریاں غیر متوقع طور پر ہماری امداد کرتی ہیں۔
یہ بالکل حقیقت ہے ۔ ملٹن بہترین شاعری اس لیے لکھ سکا کیونکہ وہ اندھا تھا، بیتھوون نے موسیقی کی آفاقی دھنیں ایجاد کیں کیونکہ وہ بہرا تھا ۔ہیلن کیلرکی درخشاں حیات کے پیچھے اس کی عدم بصارت اور بہرے پن کا ہاتھ ہے اگر چیکو وسکی اپنی المناک شادی سے مایوس ہو کر خودکشی کرنے کے لیے تقریباً آمادہ نہ ہوجاتا اور اگر اس کی اپنی زندگی دردناک نہ ہوتی تو وہ شاید کبھی بھی اپنی غیر فانی رقت انگیز سمفنی ایجاد نہ کرسکتا ،اگر دوستو فسکی اور ٹالسٹائی کی زندگیاں دکھ بھری اور اذیت ناک نہ ہوتی تو غالباً وہ کبھی بھی اپنے غیر فانی ناول تصنیف نہ کرسکتے۔
'' اگر میں اتنا بڑا مریض نہ ہوتا'' وہ شخص لکھتا ہے جس نے زندگی کا سائنسی نظریہ بدل دیا تھا اگر میں اتنا بڑا مریض نہ ہوتا تو شاید میں اتنا زیادہ کام نہیں کرسکتا جتنا کہ میں نے کیا ہے۔'' یہ چارلس ڈارون کا اعتراف تھا کہ اس کی کمزوریوں نے خلاف توقع اس کی مدد کی۔ جس روز چالس ڈارون انگلستان میں پیدا ہوا تھا اسی دن کنیٹو کے جنگلات میں ایک لکڑی کی جھونپڑی میں ایک اور بچے نے جنم لیا اس کی کمزوریوں نے بھی اس کی مدد کی اس کا نام ابراہام لنکن تھا اگر اس کی پرورش کسی شاہی خاندان میں ہوتی وہ ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرتا اور اس کی ازدواجی زندگی خوشگوار ہوتی تو اس کے دل کی گہرائیوں میں یہ الفاظ شاید کبھی نہ ابھرتے جنھیں اس نے گیٹیز برگ کے میدان جنگ میں غیر فانی بنادیا اور نہ وہ مقدس نظم ہی وجود میں آتی جسے اس نے اپنی صدارت کے دوسرے افتتاحی جلسے میں پڑھا تھا ''مجھے کسی سے عداوت نہیں میں سب کے ساتھ فیاضی کا برتائو کرنا چاہتا ہوں''کسی بھی حکمران نے شاید ہی ان سے زیادہ حسین اور خوبصورت کلمات کہے ہوں گے۔
ہیری ایمرسن فوسڈک اپنی کتاب ''باطنی قوت'' میں کہتا ہے کہ ''سیکنڈے نیویا کی ایک کہاوت ہے کہ باد شمال نے جہازوں کو جنم دیا۔ اس کہاوت کو ہم سب مشعل راہ بناسکتے ہیں کیا آپ کبھی یہ خیال کرسکتے ہیں کہ پر امن اور خوشگوار زندگی، مشکلات کی عدم موجودگی آرام اور سہولت کوئی ایسی چیزیں ہیں جو لوگوں کو نیک یا مسرور بناسکتی ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنے اوپر ترس کھانے کے عادی ہوچکے ہوں وہ آرام سے پھولوں کی سیج پر دراز ہونے کے باوجود اپنے اوپر ترس کھاتے رہیں گے لیکن تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اعلیٰ کردار اور آفاقی خوشی صرف ان ہی لوگوں کا حصہ رہی ہے جو اپنی ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے اچھے برے سازگار اور ناسازگار ہر قسم کے حالات میں سے گذرے۔ اس لیے میں پھر کہتا ہوں کہ بادشمال نے جہازوں کو جنم دیا ہے۔'' جب مشہور عالم وائلن نواز اول بل پیرس میں اپنے کمالات کا مظاہرہ کررہا تھا تو اچانک اس کے وائلن کا (8)A تار ٹوٹ گیا لیکن اول بل نے فقط تین تاروں پر اپنا نغمہ پایہ تکمیل تک پہنچادیا ۔
ہیری ایمرسن فوسڈک کہتا ہے کہ زندگی اسی کا نام ہے کہ Aتار کو توڑ کر تین تاروں پر اپنے نغمے کو انجام تک پہنچایا جائے یہ صرف زندگی ہی نہیں بلکہ زندگی سے کچھ بڑھ کر ہے یہ زندگی پر مقصد ہے ۔ نامور ناول نگار مسز تھامپسن اپنی کہانی سناتے ہوئی کہتی ہیں'' دوران جنگ میرے شوہر کو نیو میکسیکو میں صحرائے موجیو کے قریب ایک فوجی تربیتی کیمپ میں تعینات کیا گیا میں بھی وہیں چلی گئی تاکہ اس کے پاس رہوں مجھے اس جگہ سے نفرت تھی میں ایک چھوٹی سے جھونپڑی میں رہتی تھی گرمی ناقابل برداشت تھی میکسیکو اور حبشیوں کے سوا وہاں بات چیت کرنے کے لیے کوئی دوسری مخلوق نہیں تھی اور وہ بھی انگریزی سے نابلد اور میں ان کی زبان سے ناآشنا۔ہر وقت لو چلتی رہتی تھی میرا کھانا ریت سے بھرجاتا تھا جس فضا میں سانس لیتی تھی وہ ریت سے اٹی ہوئی ہوتی تھی میں اس قدر دکھی تھی کہ مجھے اپنے اوپر ترس آنے لگا اور گھبراکر اپنے والدین کو خط لکھ دیا کہ میں یہاں کی زندگی ایک منٹ کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتی اس سے تو جیل کی چار دیواری ہی اچھی ہے۔
میرے والد نے اس کے جواب میں صرف دو سطریں لکھیں ان دو سطروں نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی انھوں نے لکھا ''دو آدمیوں نے جیل کی سلاخوں سے جھانک کر باہر دیکھا ایک نے ستارے دیکھے اور دوسرے کو کیچڑ نظر آئی۔'' میں نے ان سطروں کو بار بار پڑھا مجھے اپنے اوپر شرم آنے لگی اور میں نے تہیہ کرلیا کہ میں ستاروں کو تلاش کرونگی۔ پھر میں نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ دوستی کرلی۔ تو انھوں نے مجھے اپنی ایسی ایسی شاندار چیزیں بطور تحفہ دیں جنھیں وہ سیاحوں کے پاس بیچنے سے انکار کردیتے تھے، صحرا میں آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کے نظاروں کو دیکھتی سمندری سیپوں کی تلاش کرتی جو وہاں لاکھوں سالوں سے پڑی تھیں جب صحرا سمندر ہوا کرتا تھا مجھ میں تعجب خیز تبدیلی پیدا ہوگئی۔
صحرائے موجیو نہیں بدلا تھا حبشی نہیں بدلے تھے لیکن میں ضرور بدل گئی تھی میرا ذہنی رویہ بدل گیا تھا میں نے ایک نئی دنیا دریافت کرلی تھی جس نے میرے اندر ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کردیا تھا اس نے میرے جذبات کو اس قدر ابھار دیا کہ میں نے اس کے متعلق ایک ناول لکھا جو ''روشن پشتے، کے نام سے شائع ہوا میں نے اپنے بنائے ہوئے زندان کی سلاخوں سے باہر جھانکا اور ستاروں کو پالیا۔'' مسزتھامپس نے ایک بہت پرانی حقیقت کو دریافت کرلیا تھا جس کا پانچ سو سال قبل از مسیح یونانی پرچار کیا کرتے تھے۔ ''بہترین چیزیں انتہائی مشکل ہوتی ہیں۔''
آج پاکستان کے موجودہ حالات 1965 اور 1971سے بھی بد تر ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا شمار دنیا کی بہادر ترین قوموں میں ہوتا ہے ہم سب کو پاکستان ہماری جانوں سے زیادہ پیارا ہے قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں یہ صحیح ہے کہ ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے۔ ہم نے گزشتہ 65سالوں میں ہر قسم کی مصیبتوں اور مشکلات کا بڑی دلیری اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ہے ۔ آج پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے مشکل حالات سے دوچار ہے انتہا پسند اور دہشت گرد ملک بھر میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ۔
اب حالات نا قابل بر داشت ہو چکے ہیں اب ہم سب کو اپنی سیاسی وابستگی سے قطع نظر دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو نا پڑے گا اور ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن معرکے کا آغاز کر نا ہوگا پاکستانی قوم میں بھی تعجب انگیز خوبی منفی کو مثبت میں بدل دینے کی قوت موجود ہے۔ بس ہمیں بھی ستاروں کو دیکھنا ہو گا متحد ہونا ہو گا اٹھ کھڑا ہونا ہوگا مقابلہ کرنا ہوگا آنے والا کل ہمارا ہے اور ہمیں اس بات پر ایمان ہے کہ دہشت گردوں کو شکست ہو گی ۔