تیسرا دوست
ہر ہاتھ چلانے والا درست نہیں ہوتا،ہمیں اپنے دوستوں کے رویوں پر ازسر نو غور کرنے اور پھر سنجیدہ بات کرنے کی ضرورت ہے۔
MUZAFFARGARH:
''سیاسی قتل اور ہمارا ملک '' مضمون کا عنوان تجویز کرتے بہت سے سیاسی قتل ذہن میں ابھرے، شیرپاؤ مرحوم سے لے کر عظیم طارق، بے نظیر بھٹو، سلمان تاثیر، ڈاکٹر عمران فاروق، یہاں تک کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان بہت سے نام ایک کے بعد ایک ذہن میں آتے چلے گئے ۔ ان تمام دکھوں کو ایک ساتھ یکجا کرنے میں کچھ الجھن سی ہوئی تو قلم سادے اوراق کے ساتھ تہہ کرکے رکھا اور کچھ کاموں میں مصروف رہے، تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ٹی وی آن ہوا اور ایک اور ذہن جھنجھوڑ دینے والی خبر سامنے آئی جس میں قصہ خوانی بازار میں دہشت گردی کی واردات اور خیبرپختونخواہ کے وزیر بشیر احمد بلور کی اس بھیانک کارروائی میں نشانہ بننے کا الم ناک سانحہ سنا، ایک اور قتل ایک اور شہید۔۔۔۔۔خدارا ! میرے ملک پر رحم کر۔
پاکستان بدقسمتی سے 1947 کے بعد سے ہی ایسے بہت سے گیمزکا کھلاڑی رہا ہے جن میں پوری طرح شامل ہونے کے باوجود جیت کبھی اس کے مقدر میں نہیں آئی،کبھی بال ادھر سے سرک کر پڑوسی ملک کے کورٹ میں جاگرتی ہے تو کبھی اسے فاؤل قرار دے کر سزا سنا دی جاتی، حالیہ دہشت گردی کے تانے بانے کو ہم جسے اکثر افغانستان سے جوڑ دیتے ہیں جہاں 1979 روسی افواج کی مداخلت نے مسائل کھڑے کردیے تھے حالات اتنے ناگفتہ بہ ہوگئے تھے کہ وہاں آزادی سے سانس لینا بھی مشکل تھا، لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان اور ایران کے علاوہ دیگر پڑوسی ممالک میں جا بسے۔
یہ بھیانک جنگ تو دراصل دو بڑے ہاتھیوں کی تھی جسے آمنے سامنے لڑنے سے وہ کترا رہے تھے لیکن روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ تو چھڑ چکی تھی جس کا میدان جنگ افغانستان کے نام چنا گیا، مظلوم ہزاروں لاکھوں افغانی دربدر ہوگئے۔ لاکھوں روسی افواج کے ہاتھوں مارے گئے، پاکستانی قوم شروع سے ہی جذباتی ہے، اپنے مسلمان بھائیوں کی حالت دیکھ دیکھ کر خون کے آنسو بہانے لگی۔ بہت سے مبصرین اور تنقید نگار اسے جنرل ضیاء الحق مرحوم کی بڑی غلطی گردانتے ہیں کہ انھوں نے غیروں کی جنگ کو مول لے کر پاکستان کے لیے بربادی کے راستے کھول دیئے۔
یہ درست ہے کہ قیام پاکستان سے قبل آزادی کی تحاریک چلائی گئی اور بہت سے آزادی کے متوالے افغانستان سے اس تحریک میں مدد کے خواہاں تھے۔ لیکن اس تحریک کا انجام سوائے مسلمانوں کے وحشیانہ قتل کے اور کچھ نہ تھا، جس مدد ، جس کمک کی خواہش افغانی بھائیوں سے کی گئی تھی وہ وقت پر نہ مل سکی اور یوں آزادی کے متوالوں نے اپنی جان کی بازی لگادی، ایسے ہی ایک شہید بہادر سید احمد شہید تھے جو لمبا سفر کرکے گجرات سے سندھ، سندھ سے بلوچستان اور بلوچستان سے موجودہ خیبرپختونخواہ تک پہنچے تھے، لیکن آزادی کی یہ بازی اپنے تمام تر جوش و جذبوں کے باعث ہار گئے۔ آج بھی بالا کوٹ کے مقام پر ان کا مقبرہ ان کی اس آزادی کی جدوجہد کی جنگ کی یاد دلاتاہے۔ اسلام میں جیسے کو تیسا کا تصور نہیں ہے اگر کسی نے ہم سے برا سلوک کیا ہے تو ضروری تو نہیں کہ وقت پڑنے پر ہم بھی ویسا ہی برا سلوک ان سے کریں بلکہ اس سے بہتر سلوک کریں ۔
جنرل ضیاء نے اس وقت جو فیصلہ کیا تھا اس میں غالباً ایک بڑی طاقت کی جانب سے بھرپور حمایت تو دوسری جانب اپنے مسلمان افغان بھائیوں کی مدد کرنے کا جذبہ بھی پوشیدہ تھا اور یہی وہ نفسیاتی حربہ تھا جس کے ذریعے امریکا نے پاکستان کو اپنی شاطرانہ چال میں الجھایا۔ اس وقت امریکا کی بڑی خواہش روس کو زیر کرنے کی تھی اس کا اہم ہدف روس تھا اس کے اردگرد کیا تھا وہ رہتا ہے، تباہ ہوتا ہے یا بارود کے شور میں دفن ہوجاتا ہے اس سے اسے کوئی غرض نہ تھی۔ روس اپنی تمام ریاستوں کے ساتھ ایک بڑے ہاتھی کی طرح اس کے حواسوں پر سوار تھا جو گرم پانیوں پر رسائی حاصل کرکے اپنی حکومت کو وسعت دے سکتا تھا۔ اس کی وسعت اس کی طاقت اور نمبر ون کی دوڑ امریکا کے لیے ایک بھیانک خواب تھا، اس کے تمام تر اغراض و مقاصد روس کو دھکا دینے تک محدود تھے۔
اس لپیٹ میں افغانستان اور پاکستان اس بری طرح آئے کہ خود جنرل ضیاء الحق بھی اس سے اپنا دامن نہ بچاسکے۔ بھارت جو 1947 کے بعد سے ہی پاکستان کو ٹکڑوں کی صورت میں دیکھنے کا خواہش مند رہا ہے امریکا کی اس جنگ میں خاموش کھلاڑی کے فرائض انجام دینے لگا، گو بھارت اور روس کے دوستانہ تعلقات ہمیشہ سے اچھے رہے ہیں، لیکن آج بھی پاکستان تجارت کے لیے بھارت کو اپنا فیورٹ قرار دینے کے باوجود بھی اس کی زہریلی پالیسیوں سے اپنا دامن نہیں بچا سکا اس کا ثبوت رحمن ملک کا وہ حالیہ دورہ ہے جس کے بعد بھارتی حکومت میں پھر سے پاکستان کے خلاف زہر اگلا گیا، یہ درست ہے کہ بھارت ہمارا کبھی بھی دوست نہیںرہا ہے، ہم سب ببانگ دہل امریکا پر کیچڑ اچھالتے ہیں بھارت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن ہم اس دوسرے بڑے سفید ہاتھی کو اپنی یاد داشت سے محو کرچکے ہیں۔
جو اپنی ریاستوں کے ساتھ انتہائی طاقتور اور دنیا کی سپر پاور کہلایا جانے لگا تھا، روس کا انجام افغانستان کی بربادی کردینے کے بعد اس کی ریاستوں کے بکھر جانے کی صورت میں ہوا اور کہتے ہیں ناں کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ اس مرے ہوئے ہاتھی نے اپنے بکھرنے کا سوگ کس انداز سے منایا یہ ایک سوال ہے؟ یہ کہہ دینا کہ طالبان کو افغانستان کی جنگ میں دہشت گرد بناکر پاکستان پر نازل کردیا گیا۔ بہت سے سوال پیدا کرتا ہے۔ یہ طالبان کی صورت میں ڈھکے چھپے کون لوگ ہیں، جو دہشت گرد ابھی تک پکڑے گئے ہیں یا مارے جاچکے ہیں ان کی عمریں زیادہ تر سولہ سے پچیس برس کے درمیان ہیں، کیا یہ وہ عمریں ہوسکتی ہیں کہ جنہوں نے روس کے خلاف افغانستان کی جنگ میں حصہ لیا تھا؟
ہم بہت سے بیانات پڑھتے رہتے ہیں لیکن ان سوالوں کے جوابات نہیں ڈھونڈ پاتے جو میرے جیسے کم فہم انسان کے ذہن میں بھی ابھرتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ طالبان افغانستان میں جنگ لڑتے لڑتے عادی ہوگئے تھے اور افغانستان میں حالات بدلنے کے بعد بہت سے لوگوں کا رخ کشمیر کی جانب ہوگیا اور بہت سے لوگوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ کیونکہ انھیں اس کے سوا کچھ آتا نہیں تھا کچھ نامعقول سا جواز محسوس ہوتا ہے، ہمیں اس دوسرے بڑے ہاتھی کو نہیں بھولنا چاہیے جو اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے پینترے بدل سکتا ہے، کہتے ہیں ناں کہ ہر ہاتھ چلانے والا درست نہیں ہوتا، ہمیں اپنے دوستوں کے رویوں پر ازسر نو غور کرنے اور پھر سنجیدہ بات کرنے کی ضرورت ہے۔
''سیاسی قتل اور ہمارا ملک '' مضمون کا عنوان تجویز کرتے بہت سے سیاسی قتل ذہن میں ابھرے، شیرپاؤ مرحوم سے لے کر عظیم طارق، بے نظیر بھٹو، سلمان تاثیر، ڈاکٹر عمران فاروق، یہاں تک کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان بہت سے نام ایک کے بعد ایک ذہن میں آتے چلے گئے ۔ ان تمام دکھوں کو ایک ساتھ یکجا کرنے میں کچھ الجھن سی ہوئی تو قلم سادے اوراق کے ساتھ تہہ کرکے رکھا اور کچھ کاموں میں مصروف رہے، تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ٹی وی آن ہوا اور ایک اور ذہن جھنجھوڑ دینے والی خبر سامنے آئی جس میں قصہ خوانی بازار میں دہشت گردی کی واردات اور خیبرپختونخواہ کے وزیر بشیر احمد بلور کی اس بھیانک کارروائی میں نشانہ بننے کا الم ناک سانحہ سنا، ایک اور قتل ایک اور شہید۔۔۔۔۔خدارا ! میرے ملک پر رحم کر۔
پاکستان بدقسمتی سے 1947 کے بعد سے ہی ایسے بہت سے گیمزکا کھلاڑی رہا ہے جن میں پوری طرح شامل ہونے کے باوجود جیت کبھی اس کے مقدر میں نہیں آئی،کبھی بال ادھر سے سرک کر پڑوسی ملک کے کورٹ میں جاگرتی ہے تو کبھی اسے فاؤل قرار دے کر سزا سنا دی جاتی، حالیہ دہشت گردی کے تانے بانے کو ہم جسے اکثر افغانستان سے جوڑ دیتے ہیں جہاں 1979 روسی افواج کی مداخلت نے مسائل کھڑے کردیے تھے حالات اتنے ناگفتہ بہ ہوگئے تھے کہ وہاں آزادی سے سانس لینا بھی مشکل تھا، لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان اور ایران کے علاوہ دیگر پڑوسی ممالک میں جا بسے۔
یہ بھیانک جنگ تو دراصل دو بڑے ہاتھیوں کی تھی جسے آمنے سامنے لڑنے سے وہ کترا رہے تھے لیکن روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ تو چھڑ چکی تھی جس کا میدان جنگ افغانستان کے نام چنا گیا، مظلوم ہزاروں لاکھوں افغانی دربدر ہوگئے۔ لاکھوں روسی افواج کے ہاتھوں مارے گئے، پاکستانی قوم شروع سے ہی جذباتی ہے، اپنے مسلمان بھائیوں کی حالت دیکھ دیکھ کر خون کے آنسو بہانے لگی۔ بہت سے مبصرین اور تنقید نگار اسے جنرل ضیاء الحق مرحوم کی بڑی غلطی گردانتے ہیں کہ انھوں نے غیروں کی جنگ کو مول لے کر پاکستان کے لیے بربادی کے راستے کھول دیئے۔
یہ درست ہے کہ قیام پاکستان سے قبل آزادی کی تحاریک چلائی گئی اور بہت سے آزادی کے متوالے افغانستان سے اس تحریک میں مدد کے خواہاں تھے۔ لیکن اس تحریک کا انجام سوائے مسلمانوں کے وحشیانہ قتل کے اور کچھ نہ تھا، جس مدد ، جس کمک کی خواہش افغانی بھائیوں سے کی گئی تھی وہ وقت پر نہ مل سکی اور یوں آزادی کے متوالوں نے اپنی جان کی بازی لگادی، ایسے ہی ایک شہید بہادر سید احمد شہید تھے جو لمبا سفر کرکے گجرات سے سندھ، سندھ سے بلوچستان اور بلوچستان سے موجودہ خیبرپختونخواہ تک پہنچے تھے، لیکن آزادی کی یہ بازی اپنے تمام تر جوش و جذبوں کے باعث ہار گئے۔ آج بھی بالا کوٹ کے مقام پر ان کا مقبرہ ان کی اس آزادی کی جدوجہد کی جنگ کی یاد دلاتاہے۔ اسلام میں جیسے کو تیسا کا تصور نہیں ہے اگر کسی نے ہم سے برا سلوک کیا ہے تو ضروری تو نہیں کہ وقت پڑنے پر ہم بھی ویسا ہی برا سلوک ان سے کریں بلکہ اس سے بہتر سلوک کریں ۔
جنرل ضیاء نے اس وقت جو فیصلہ کیا تھا اس میں غالباً ایک بڑی طاقت کی جانب سے بھرپور حمایت تو دوسری جانب اپنے مسلمان افغان بھائیوں کی مدد کرنے کا جذبہ بھی پوشیدہ تھا اور یہی وہ نفسیاتی حربہ تھا جس کے ذریعے امریکا نے پاکستان کو اپنی شاطرانہ چال میں الجھایا۔ اس وقت امریکا کی بڑی خواہش روس کو زیر کرنے کی تھی اس کا اہم ہدف روس تھا اس کے اردگرد کیا تھا وہ رہتا ہے، تباہ ہوتا ہے یا بارود کے شور میں دفن ہوجاتا ہے اس سے اسے کوئی غرض نہ تھی۔ روس اپنی تمام ریاستوں کے ساتھ ایک بڑے ہاتھی کی طرح اس کے حواسوں پر سوار تھا جو گرم پانیوں پر رسائی حاصل کرکے اپنی حکومت کو وسعت دے سکتا تھا۔ اس کی وسعت اس کی طاقت اور نمبر ون کی دوڑ امریکا کے لیے ایک بھیانک خواب تھا، اس کے تمام تر اغراض و مقاصد روس کو دھکا دینے تک محدود تھے۔
اس لپیٹ میں افغانستان اور پاکستان اس بری طرح آئے کہ خود جنرل ضیاء الحق بھی اس سے اپنا دامن نہ بچاسکے۔ بھارت جو 1947 کے بعد سے ہی پاکستان کو ٹکڑوں کی صورت میں دیکھنے کا خواہش مند رہا ہے امریکا کی اس جنگ میں خاموش کھلاڑی کے فرائض انجام دینے لگا، گو بھارت اور روس کے دوستانہ تعلقات ہمیشہ سے اچھے رہے ہیں، لیکن آج بھی پاکستان تجارت کے لیے بھارت کو اپنا فیورٹ قرار دینے کے باوجود بھی اس کی زہریلی پالیسیوں سے اپنا دامن نہیں بچا سکا اس کا ثبوت رحمن ملک کا وہ حالیہ دورہ ہے جس کے بعد بھارتی حکومت میں پھر سے پاکستان کے خلاف زہر اگلا گیا، یہ درست ہے کہ بھارت ہمارا کبھی بھی دوست نہیںرہا ہے، ہم سب ببانگ دہل امریکا پر کیچڑ اچھالتے ہیں بھارت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن ہم اس دوسرے بڑے سفید ہاتھی کو اپنی یاد داشت سے محو کرچکے ہیں۔
جو اپنی ریاستوں کے ساتھ انتہائی طاقتور اور دنیا کی سپر پاور کہلایا جانے لگا تھا، روس کا انجام افغانستان کی بربادی کردینے کے بعد اس کی ریاستوں کے بکھر جانے کی صورت میں ہوا اور کہتے ہیں ناں کہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ اس مرے ہوئے ہاتھی نے اپنے بکھرنے کا سوگ کس انداز سے منایا یہ ایک سوال ہے؟ یہ کہہ دینا کہ طالبان کو افغانستان کی جنگ میں دہشت گرد بناکر پاکستان پر نازل کردیا گیا۔ بہت سے سوال پیدا کرتا ہے۔ یہ طالبان کی صورت میں ڈھکے چھپے کون لوگ ہیں، جو دہشت گرد ابھی تک پکڑے گئے ہیں یا مارے جاچکے ہیں ان کی عمریں زیادہ تر سولہ سے پچیس برس کے درمیان ہیں، کیا یہ وہ عمریں ہوسکتی ہیں کہ جنہوں نے روس کے خلاف افغانستان کی جنگ میں حصہ لیا تھا؟
ہم بہت سے بیانات پڑھتے رہتے ہیں لیکن ان سوالوں کے جوابات نہیں ڈھونڈ پاتے جو میرے جیسے کم فہم انسان کے ذہن میں بھی ابھرتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ طالبان افغانستان میں جنگ لڑتے لڑتے عادی ہوگئے تھے اور افغانستان میں حالات بدلنے کے بعد بہت سے لوگوں کا رخ کشمیر کی جانب ہوگیا اور بہت سے لوگوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ کیونکہ انھیں اس کے سوا کچھ آتا نہیں تھا کچھ نامعقول سا جواز محسوس ہوتا ہے، ہمیں اس دوسرے بڑے ہاتھی کو نہیں بھولنا چاہیے جو اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے پینترے بدل سکتا ہے، کہتے ہیں ناں کہ ہر ہاتھ چلانے والا درست نہیں ہوتا، ہمیں اپنے دوستوں کے رویوں پر ازسر نو غور کرنے اور پھر سنجیدہ بات کرنے کی ضرورت ہے۔