نیا سال پرانے مسائل
زندگی کی بساط ’’کاش‘‘ سے شروع ہوکر ’’کاش‘‘ ہی پر لپٹ جاتی ہے
KARACHI:
سچ پوچھیں تو ہر نیا سال جانے کتنے ہی خوابوں، تمناؤں، امنگوں، آرزوؤں، خواہشوں، محبتوں، چاہتوں، نفرتوں، امیدوں، خوشیوں، غموں، آس، وصل اور جدائیوں جیسے احساسات و جذبات اپنی بکل میں چھپائے مانند گلاب، پتی در پتی کھلتا جاتا ہے اور پھر بالآخر بارہ مہینوں پر محیط یہ ایک برس کا سفر تمام تر سوغاتوں کو بانٹتے باٹنتے اک روز تمام بھی ہوجاتا ہے اور پھر اگلے ہی دن اک نیا برس، نیا سفر اور نئی سوغاتیں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔
زندگی کی بساط ''کاش'' سے شروع ہوکر ''کاش'' ہی پر لپٹ جاتی ہے، ہم خوشی کے لمحات کا نہ دورانیہ بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی ہم افسردہ لمحات گھٹانے کے اہل ہیں۔ ان ہی کی بدولت سانسوں کی منڈیر پر زندگی اس طرح چمکتی، دمکتی اور مہکتی رہ سکتی ہے کہ پھر ہمیں نہ تو کچھ فرض کرنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی اگر مگر کے مدار پر گھومنا پڑے گا۔
گزرے 365 دن پوری امت مسلمہ کے لیے کوئی اچھی خبر نہ سنائی دی، خارزار سیاست سے خار چنتے چنتے ہاتھ لہو لہان رہے، انصاف کی تلاش میں عدل کی زنجیر کھینچنے والے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ دکھائی دیے۔ ''ضرب عضب'' نے بڑی حد تک دہشتگردی کی کمر توڑ دی مگر ٹانگیں ٹوٹنے میں ابھی وقت لگے گا۔ ''ایوان نمائندگی'' میں عوام کا کوئی نمائندہ نہ پہلے تھا نہ آج ہے۔
ملکی پالیسیاں غیر ملکی مفادات کے تابع آج بھی ہیں شہروں کی دلہن کی شکل آج شہر کی بھٹارن سے بھی زیادہ ہولناک ہوکر رہ گئی ہے۔ سب کا حال پہلے سے بھی زیادہ برا رہا، جہاں روزی روٹی کے جنجال سے جان نہ چھوٹے وہاں تعلیم، علاج، کھیت کھلیان، ماحولیات، نگار خانوں، نگارشات یا ادب و فنون لطیفہ کا ذکر ہی کیا؟
بہرکیف وقت کے میزان میں ایک سال اور کم ہوگیا اب سترھویں باب کا پیش لفظ لکھا جا رہا ہے۔ ہندسوں کی گنتی کتنی ہی آگے بڑھ جائے پیش لفظ میں اس لمحے کا ذکر ضرور ہوتا ہے جو تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے، اگرچہ بیتے ہوئے لمحے کبھی واپس نہیں آتے لیکن وہ مستقبل کے لیے ''سامان عبرت'' ضرور فراہم کرتے ہیں، تاکہ ہم اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے آنے والے لمحوں یا ساعتوں پر اپنی گرفت مضبوط کرسکیں۔
2016ء اپنی تلخ، ترش اور شیریں یادوں کے ساتھ ماضی کے خرابے میں محو خواب ہو چکا، سوال یہ ہے کہ اب اذیت ناک ماضی کی نقاب کشائی کریں یا کرب انگیز حالات کی گواہی دیں یا ان صفحات کو نکال دیں جو کٹے پٹے ہیں۔ گئے دنوں کا حساب اور داغ حیرت کا شمار کیسے کریں؟ سن دو ہزار سولہ کے بارہ ماہ میں کتنی جوشیلی تقریریں سماعتوں سے ٹکرائیں، کتنی بریکنگ نیوز طوفان بن کر ابھریں، کتنے خواب ریزہ ریزہ ہوگئے۔ بوسیدہ بنیادوں پر نوجوانوں کے مستقبل کا شیش محل تیار کیا جاتا رہا لیکن نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے بیروزگاری کی انجمن بنائے رہے۔
ہم اگر پاکستان کی 69 سالہ تاریخ کی تمام حکومتوں کا ڈیٹا نکالیں تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ ہمارے تمام تر حکمران صرف گا، گے اور گی، کی تکنیک پر ہی حکومت کرتے چلے آرہے ہیں اور اس راگ کو قومی راگ کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک عوام نے جب بھی اور جس حکمران سے اپنے مسائل حل کرنے کی درخواست کی اس نے مذکورہ بالا روایتی راگ سنا دیا، مثلاً عوام کو جلد روٹی فراہم کریںگے، مہنگائی اور پانی، بجلی گیس کی کمی یا لوڈ شیڈنگ بہت جلد کم یا ختم ہو جائے گی، بے گھروں کو جلد سستے گھر مل جائیںگے، بے روزگاروں کو جلد روزگار فراہم کیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔
قوموں کی زندگی میں یہ اہم نہیں ہوتا کہ کس نے کتنے عرصے میں کتنا سفر طے کیا، اہم یہ ہوتا ہے کہ کس کی سمت کتنی درست تھی۔ بدقسمتی سے ہم سفر بھی نہیں کر رہے اور ہماری ڈائریکشن (ہدایت) بھی درست نہیں۔ یہ ہماری معاشرتی برہنہ سچائی ہے کہ ہم بحیثیت قوم بے وقار ہوتے جا رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ قوم کا سب سے بڑا خزانہ اس کی خودی (خود داری) ہوتی ہے۔ اگر کسی ملک کے پاس سونے کے پہاڑ ہوں لیکن خود داری نہ ہو تو وہ جلد بھکاری بن جاتا ہے۔ بد قسمتی کہہ لیں یا ہمارے حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی آج ہمارے پاس سبھی کچھ ہے سوائے خود داری کے چنانچہ دنیا بھر کے قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ہم در در کاسہ گدائی لیے پھر رہے ہیں اور بھیک بہرطور اﷲ کی طرف سے خود داری، عزت اور انا سے محروم قوموں کے لیے کم ترین سزا ہوتی ہے۔
ہمارے سیاست داں، حکمراں یا ارباب اختیار دنیا کی ترقی سے بخوبی واقف ہیں اور یورپی ممالک بالخصوص ہمیشہ ان کے پسندیدہ رہے ہیں، انھوں نے آنکھوں سے دیکھا ہوگا کہ یورپ کی فلاحی ریاستوں نے اپنے عوام کی زندگیوں کو کیسے خوشگوار بنایا ہے، جب کہ ہمارے ملک کے اکثر سیاسی قائدین وسائل سے مالا مال اس ملک کو جہنم زار بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ہمارے بیشتر حکمراں یا ارباب اختیار نہ صرف پاکستان کی تاریخ بلکہ اس کی جدوجہد سے بھی بالکل نا آشنا ہیں، وہ وطن عزیز کی تہذیب و ثقافت اور عوامی جذبات و احساسات کا بھی ادراک نہیں رکھتے، المیہ ہمارے عوام کا یہ ہے کہ وہ اپنی زبانوں کے تالے توڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے، ہم زندگی گزارنے کا سلیقہ غیروں سے سیکھتے ہیں اور تنقید اپنوں پر کرتے ہیں حالانکہ ہم سب کو حضرت امام حسینؓ کی یہ حکایت یاد رکھنی چاہیے کہ ظلم و زیادتی کے خلاف جتنی دیر سے اٹھیںگے اتنی ہی بڑی قربانی دینی پڑے گی۔
گو زندگی کی جنتری سے ایک ایک ماہ کر کے پورے بارہ مہینے پلک جھپکتے نکل گئے لیکن نہ ہماری سیاست سدھری نہ مفادات، نہ صحافت اور نہ ہی انصاف فراہم کرنے والے ادارے، یوں سیاست میں ڈھٹائی، بے شرمی، سفارت میں نااہلی، صحافت میں بے اصولی اور انصاف مہیا کرنے والے اداروں میں بے حسی کا عنصر بڑھتا ہی چلا گیا۔
سیاست میں سال گزشتہ صرف چار حلقوں اور پاناما جیسے ڈرامے مقدم رہے، سفارت میں ارباب اختیار کو ذاتی نوکری، خوشامد اور چاپلوسی کا زور رہا، صحافت میں ریٹنگ دینے والے قندیل بلوچ اور دھرنے جیسے ایشوز کو ہی فوقیت ملتی رہی جب کہ عدالتوں کے لیے صرف ایان علی بڑا مسئلہ رہی، جو ایشو ہمارے ہاں جگہ نہ پا سکے وہ دہشتگردی اور انتہا پسندی یا پھر اس سے جڑے افغانستان، کشمیر یا پھر محروم علاقوں کے ایشوز کہے جا سکتے ہیں۔
''نیشنل ایکشن پلان'' بھی سال گزشتہ میں اپنے مقدر کو روتا رہا، اس کے صرف دس فی صد حصے پر عمل ہوا اور باقی پر عمل تو دور کی بات آغاز کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آئے، صرف فوجی آپریشن اور فوجی عدالتوں سے متعلق شقوں پر جزوی عمل ہوا سندھ کی حکومت سندھ کے سلگتے مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف ڈاکٹر عاصم، اے ڈی خواجہ اور ایان علی کے لیے ہی سرگرداں رہی، ہمارے ارباب اختیار نے سال گزشتہ میں بھی اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے کسی سقم کو دور نہیں کیا۔
دہشتگردی اور انتہا پسندی کی نئی نئی اور بھیانک شکلیں سال گزشتہ میں دیکھنے کو ملیں، مہنگائی، صحت و صفائی، کرپشن، تعلیمی مسائل اور بیروزگاری اور انصاف کی عدم فراہمی کے معاملات گزشتہ برسوں کی طرح 2016ء میں بھی جوں کے توں ملے بلکہ ان میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملا، حالانکہ قوموں کی تاریخ ہمیشہ سے یہ بتاتی چلی آئی ہے کہ دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے انصاف کے بغیر ترقی کی ہو۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کی جمہوریت 73 ارب ڈالر کی مقروض ہے یہاں تبدیلی لانا آسان نہیں بلکہ بہت ہی مشکل ہے، یوں تو پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ان سے عہدہ برآ ہونے اور ملک کی قسمت بدلنے کے لیے اسے اگر انتہائی با صلاحیت اور ایمان دار قیادت نہ بھی سہی تو قدرے سچے اور کھرے رہنما بہر طور درکار ہیں ایسی قیادت جو اپنے نجی مفاد اور کاروبار کو اپنا مطمع نظر نہ بنا چکی ہو اور جسے قومی امور کی بھی فکر ہو، آج ہمارے ملک کو ماضی کی قید سے نکل کر حال اور مستقبل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس ماضی کی علامت مستقبل کی بغیر نہیں بن سکتی۔
سچ پوچھیں تو ہر نیا سال جانے کتنے ہی خوابوں، تمناؤں، امنگوں، آرزوؤں، خواہشوں، محبتوں، چاہتوں، نفرتوں، امیدوں، خوشیوں، غموں، آس، وصل اور جدائیوں جیسے احساسات و جذبات اپنی بکل میں چھپائے مانند گلاب، پتی در پتی کھلتا جاتا ہے اور پھر بالآخر بارہ مہینوں پر محیط یہ ایک برس کا سفر تمام تر سوغاتوں کو بانٹتے باٹنتے اک روز تمام بھی ہوجاتا ہے اور پھر اگلے ہی دن اک نیا برس، نیا سفر اور نئی سوغاتیں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔
زندگی کی بساط ''کاش'' سے شروع ہوکر ''کاش'' ہی پر لپٹ جاتی ہے، ہم خوشی کے لمحات کا نہ دورانیہ بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی ہم افسردہ لمحات گھٹانے کے اہل ہیں۔ ان ہی کی بدولت سانسوں کی منڈیر پر زندگی اس طرح چمکتی، دمکتی اور مہکتی رہ سکتی ہے کہ پھر ہمیں نہ تو کچھ فرض کرنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی اگر مگر کے مدار پر گھومنا پڑے گا۔
گزرے 365 دن پوری امت مسلمہ کے لیے کوئی اچھی خبر نہ سنائی دی، خارزار سیاست سے خار چنتے چنتے ہاتھ لہو لہان رہے، انصاف کی تلاش میں عدل کی زنجیر کھینچنے والے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ دکھائی دیے۔ ''ضرب عضب'' نے بڑی حد تک دہشتگردی کی کمر توڑ دی مگر ٹانگیں ٹوٹنے میں ابھی وقت لگے گا۔ ''ایوان نمائندگی'' میں عوام کا کوئی نمائندہ نہ پہلے تھا نہ آج ہے۔
ملکی پالیسیاں غیر ملکی مفادات کے تابع آج بھی ہیں شہروں کی دلہن کی شکل آج شہر کی بھٹارن سے بھی زیادہ ہولناک ہوکر رہ گئی ہے۔ سب کا حال پہلے سے بھی زیادہ برا رہا، جہاں روزی روٹی کے جنجال سے جان نہ چھوٹے وہاں تعلیم، علاج، کھیت کھلیان، ماحولیات، نگار خانوں، نگارشات یا ادب و فنون لطیفہ کا ذکر ہی کیا؟
بہرکیف وقت کے میزان میں ایک سال اور کم ہوگیا اب سترھویں باب کا پیش لفظ لکھا جا رہا ہے۔ ہندسوں کی گنتی کتنی ہی آگے بڑھ جائے پیش لفظ میں اس لمحے کا ذکر ضرور ہوتا ہے جو تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے، اگرچہ بیتے ہوئے لمحے کبھی واپس نہیں آتے لیکن وہ مستقبل کے لیے ''سامان عبرت'' ضرور فراہم کرتے ہیں، تاکہ ہم اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے آنے والے لمحوں یا ساعتوں پر اپنی گرفت مضبوط کرسکیں۔
2016ء اپنی تلخ، ترش اور شیریں یادوں کے ساتھ ماضی کے خرابے میں محو خواب ہو چکا، سوال یہ ہے کہ اب اذیت ناک ماضی کی نقاب کشائی کریں یا کرب انگیز حالات کی گواہی دیں یا ان صفحات کو نکال دیں جو کٹے پٹے ہیں۔ گئے دنوں کا حساب اور داغ حیرت کا شمار کیسے کریں؟ سن دو ہزار سولہ کے بارہ ماہ میں کتنی جوشیلی تقریریں سماعتوں سے ٹکرائیں، کتنی بریکنگ نیوز طوفان بن کر ابھریں، کتنے خواب ریزہ ریزہ ہوگئے۔ بوسیدہ بنیادوں پر نوجوانوں کے مستقبل کا شیش محل تیار کیا جاتا رہا لیکن نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے بیروزگاری کی انجمن بنائے رہے۔
ہم اگر پاکستان کی 69 سالہ تاریخ کی تمام حکومتوں کا ڈیٹا نکالیں تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ ہمارے تمام تر حکمران صرف گا، گے اور گی، کی تکنیک پر ہی حکومت کرتے چلے آرہے ہیں اور اس راگ کو قومی راگ کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک عوام نے جب بھی اور جس حکمران سے اپنے مسائل حل کرنے کی درخواست کی اس نے مذکورہ بالا روایتی راگ سنا دیا، مثلاً عوام کو جلد روٹی فراہم کریںگے، مہنگائی اور پانی، بجلی گیس کی کمی یا لوڈ شیڈنگ بہت جلد کم یا ختم ہو جائے گی، بے گھروں کو جلد سستے گھر مل جائیںگے، بے روزگاروں کو جلد روزگار فراہم کیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔
قوموں کی زندگی میں یہ اہم نہیں ہوتا کہ کس نے کتنے عرصے میں کتنا سفر طے کیا، اہم یہ ہوتا ہے کہ کس کی سمت کتنی درست تھی۔ بدقسمتی سے ہم سفر بھی نہیں کر رہے اور ہماری ڈائریکشن (ہدایت) بھی درست نہیں۔ یہ ہماری معاشرتی برہنہ سچائی ہے کہ ہم بحیثیت قوم بے وقار ہوتے جا رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ قوم کا سب سے بڑا خزانہ اس کی خودی (خود داری) ہوتی ہے۔ اگر کسی ملک کے پاس سونے کے پہاڑ ہوں لیکن خود داری نہ ہو تو وہ جلد بھکاری بن جاتا ہے۔ بد قسمتی کہہ لیں یا ہمارے حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی آج ہمارے پاس سبھی کچھ ہے سوائے خود داری کے چنانچہ دنیا بھر کے قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ہم در در کاسہ گدائی لیے پھر رہے ہیں اور بھیک بہرطور اﷲ کی طرف سے خود داری، عزت اور انا سے محروم قوموں کے لیے کم ترین سزا ہوتی ہے۔
ہمارے سیاست داں، حکمراں یا ارباب اختیار دنیا کی ترقی سے بخوبی واقف ہیں اور یورپی ممالک بالخصوص ہمیشہ ان کے پسندیدہ رہے ہیں، انھوں نے آنکھوں سے دیکھا ہوگا کہ یورپ کی فلاحی ریاستوں نے اپنے عوام کی زندگیوں کو کیسے خوشگوار بنایا ہے، جب کہ ہمارے ملک کے اکثر سیاسی قائدین وسائل سے مالا مال اس ملک کو جہنم زار بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ہمارے بیشتر حکمراں یا ارباب اختیار نہ صرف پاکستان کی تاریخ بلکہ اس کی جدوجہد سے بھی بالکل نا آشنا ہیں، وہ وطن عزیز کی تہذیب و ثقافت اور عوامی جذبات و احساسات کا بھی ادراک نہیں رکھتے، المیہ ہمارے عوام کا یہ ہے کہ وہ اپنی زبانوں کے تالے توڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے، ہم زندگی گزارنے کا سلیقہ غیروں سے سیکھتے ہیں اور تنقید اپنوں پر کرتے ہیں حالانکہ ہم سب کو حضرت امام حسینؓ کی یہ حکایت یاد رکھنی چاہیے کہ ظلم و زیادتی کے خلاف جتنی دیر سے اٹھیںگے اتنی ہی بڑی قربانی دینی پڑے گی۔
گو زندگی کی جنتری سے ایک ایک ماہ کر کے پورے بارہ مہینے پلک جھپکتے نکل گئے لیکن نہ ہماری سیاست سدھری نہ مفادات، نہ صحافت اور نہ ہی انصاف فراہم کرنے والے ادارے، یوں سیاست میں ڈھٹائی، بے شرمی، سفارت میں نااہلی، صحافت میں بے اصولی اور انصاف مہیا کرنے والے اداروں میں بے حسی کا عنصر بڑھتا ہی چلا گیا۔
سیاست میں سال گزشتہ صرف چار حلقوں اور پاناما جیسے ڈرامے مقدم رہے، سفارت میں ارباب اختیار کو ذاتی نوکری، خوشامد اور چاپلوسی کا زور رہا، صحافت میں ریٹنگ دینے والے قندیل بلوچ اور دھرنے جیسے ایشوز کو ہی فوقیت ملتی رہی جب کہ عدالتوں کے لیے صرف ایان علی بڑا مسئلہ رہی، جو ایشو ہمارے ہاں جگہ نہ پا سکے وہ دہشتگردی اور انتہا پسندی یا پھر اس سے جڑے افغانستان، کشمیر یا پھر محروم علاقوں کے ایشوز کہے جا سکتے ہیں۔
''نیشنل ایکشن پلان'' بھی سال گزشتہ میں اپنے مقدر کو روتا رہا، اس کے صرف دس فی صد حصے پر عمل ہوا اور باقی پر عمل تو دور کی بات آغاز کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آئے، صرف فوجی آپریشن اور فوجی عدالتوں سے متعلق شقوں پر جزوی عمل ہوا سندھ کی حکومت سندھ کے سلگتے مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف ڈاکٹر عاصم، اے ڈی خواجہ اور ایان علی کے لیے ہی سرگرداں رہی، ہمارے ارباب اختیار نے سال گزشتہ میں بھی اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے کسی سقم کو دور نہیں کیا۔
دہشتگردی اور انتہا پسندی کی نئی نئی اور بھیانک شکلیں سال گزشتہ میں دیکھنے کو ملیں، مہنگائی، صحت و صفائی، کرپشن، تعلیمی مسائل اور بیروزگاری اور انصاف کی عدم فراہمی کے معاملات گزشتہ برسوں کی طرح 2016ء میں بھی جوں کے توں ملے بلکہ ان میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملا، حالانکہ قوموں کی تاریخ ہمیشہ سے یہ بتاتی چلی آئی ہے کہ دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے انصاف کے بغیر ترقی کی ہو۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کی جمہوریت 73 ارب ڈالر کی مقروض ہے یہاں تبدیلی لانا آسان نہیں بلکہ بہت ہی مشکل ہے، یوں تو پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ان سے عہدہ برآ ہونے اور ملک کی قسمت بدلنے کے لیے اسے اگر انتہائی با صلاحیت اور ایمان دار قیادت نہ بھی سہی تو قدرے سچے اور کھرے رہنما بہر طور درکار ہیں ایسی قیادت جو اپنے نجی مفاد اور کاروبار کو اپنا مطمع نظر نہ بنا چکی ہو اور جسے قومی امور کی بھی فکر ہو، آج ہمارے ملک کو ماضی کی قید سے نکل کر حال اور مستقبل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس ماضی کی علامت مستقبل کی بغیر نہیں بن سکتی۔