بلوچستان میں صنعتی انقلاب کی دستک گوادر میں سرمایہ کاری کی سیکڑوں درخواستیں
فری زون میں سرمایہ کاروں کے ہزار دورے، صنعتوں کیلیے600درخواستیں، 4منظور
RAWALPINDI:
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر تیزی سے پیش رفت ہونے کی وجہ سے گوادر میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور سرمایہ کاری کے منصوبوں میںتیزی آرہی ہے اورمقامی سرمایہ کاروں، اوورسیزپاکستانیوں کے علاوہ بڑی تعداد میں غیرملکی سرمایہ کارگوادرکارخ کررہے ہیں، پانی ذخیرہ کرنے کے لیے2 بڑے ڈیم شادی کور اور سواد ڈیم کی تعمیر بھی مکمل ہوچکی ہے جبکہ سمندر کو آلودگی سے بچانے کے لیے ڈی سلینیشن پلانٹ بھی تعمیر کیا جارہا ہے۔
گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف انجینئر رفیق احمد نے کراچی یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام گوادر کا مطالعاتی دورہ کرنے والے وفد کو بتایا کہ سی پیک منصوبے پر پیشرفت کے ساتھ گوادر میں ترقیاتی کاموں کی رفتار بھی تیز ہوچکی ہے،گوادر کے 17ترقیاتی منصوبوں کے لیے پی ایس ڈی پی میں 142.6ارب روپے کی رقوم مختص کی گئی ہیں جن سے گوادر میں انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ، فراہمی ونکاسی آب اور سڑکوں کی تعمیر کا کام جاری ہے اور اب تک 35فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔
جی ڈی اے نے گوادر میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی معاونت اور اراضی کی ملکیت کی تصدیق کے لیے خصوصی مہم شروع کردی ہے جس کے تحت ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والی فرمز کی رجسٹریشن کی جارہی ہے، سی پیک کے تحت چین گوادر میں 5 ملین گیلن یومیہ گنجائش کا ڈی سیلینیشن پلانٹ بھی نصب کرے گا، اس وقت ایران سے 100میگا واٹ بجلی درآمد کی جارہی ہے جو گوادر کے علاوہ پسنی اور پنجگور کو بھی فراہم کی جاتی ہے، ایران سے مزید 100میگا واٹ بجلی کی درآمد کامعاہدہ ہوچکا ہے، یہ بجلی گوادر کو فراہم کی جائے گی، 2050تک گوادر میں بجلی کی طلب 500میگاواٹ تک پہنچ جائے گی جس کے لیے سی پیک کے تحت 330میگا واٹ گنجائش کا کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر تعمیر ہوگا۔
گوادر پورٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ نوید احمد شیخ نے صحافیوں کو خصوصی پریزنٹیشن میں گوادر پورٹ اور فری اکنامک زون میں جاری ترقیاتی کاموں کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ پورٹ کے ترقیاتی منصوبے کے دوسرے مرحلے میں مزید 19برتھیں تعمیر ہوں گی جبکہ 50سالہ منصوبے کے تحت تک گوادر پورٹ دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہوں میں شامل ہوگی جس پر برتھوں کی تعداد 80تک پہنچ جائیگی۔ انہوں نے بتایا کہ فری اکنامک زون منصوبے پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں، 100سے زائد چینی انجینئرز کے ساتھ سیکڑوں پاکستانی مزدور منصوبے پر کام کررہے ہیں اور بڑی تعداد میں مقامی افراد کو بھی روزگار مل رہا ہے۔
نوید شیخ نے بتایا کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار فری اکنامک زون میں دلچسپی لے رہے ہیں اور اب تک 1000سے زائد ملکی و غیرملکی وفود فری اکنامک زون کا دورہ کرچکے ہیں، سرمایہ کاری کے لیے 600سے زائد درخواستیں موصول ہوچکی ہیں جن میں سے 4سرمایہ کاروں کو این او سی جاری کیا جا چکا ہے جن میں1پاکستانی اور 3چینی کمپنیاں شامل ہیں، یہ کمپنیاں اسٹیل مصنوعات، پائپ فیکٹری،اسٹون پروسیسنگ اور فش پروسیسنگ انڈسٹری لگائیں گی، چین کی معاونت سے گوادر میں بڑا ووکیشنل ٹریننگ سینٹر تعمیر کیا جارہا ہے جہاں آئندہ سال فروری مارچ سے مختلف شعبوں کے علاوہ بندرگاہ سے متعلق شعبوں میں مقامی افراد کی تربیت شروع کر دی جائے گی۔
گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر فرید احمد اور جنرل منیجر فنانس وقاص اے لاسی نے بتایا کہ گوادر میں چھوٹی بڑی صنعتوں اور کمرشل پروجیکٹس کیلیے 3ہزار ایکڑ پر مشتمل انڈسٹریل زون کی تمام اراضی فروخت ہو چکی ہے، اتھارٹی کی جانب سے صنعتوں کو پانی، بجلی، گیس اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کیلیے ترقیاتی کام بھی تیز کردیے گئے ہیں، صنعتی زون کیلیے 20/20لاکھ گیلن کی گنجائش کی حامل 2ذخیرہ گاہیں تعمیر کی جارہی ہیں جبکہ 7 لاکھ گیلن یومیہ گنجائش کا ڈی سیلینیشن پلانٹ مکمل کیا جاچکا ہے، چین کی باؤ اسٹیل زون میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہے، صنعتی زون کیلیے مزید 2سے 3 ہزار ایکڑ زمین لینے کیلیے کام جاری ہے، سی پیک کے فنڈ سے زون کیلیے 1ارب 70 کروڑ روپے مل چکے ہیں جس سے 500 ایکڑ رقبے پر ماڈرن انڈسٹریل زون تعمیر کیا جائیگا۔
فرید احمد نے بتایا کہ زون کے غیرحقیقی اور ڈیفالٹر خریداروں سے 900ایکڑ زمین واپس لے کر نئے سرمایہ کاروں کو الاٹ کی جا چکی ہے جہاں 2سال میں100 سے زائد صنعتوں کی تعمیر شروع ہو جائیگی، زون کی پہلی ذیل پاک سیمنٹ انڈسٹری قائم ہوچکی ہے، سرمایہ کاروں کو 10سے 20 سال کی مکمل ٹیکس مراعات کیلیے بلوچستان حکومت وفاق سے بات کررہی ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر تیزی سے پیش رفت ہونے کی وجہ سے گوادر میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور سرمایہ کاری کے منصوبوں میںتیزی آرہی ہے اورمقامی سرمایہ کاروں، اوورسیزپاکستانیوں کے علاوہ بڑی تعداد میں غیرملکی سرمایہ کارگوادرکارخ کررہے ہیں، پانی ذخیرہ کرنے کے لیے2 بڑے ڈیم شادی کور اور سواد ڈیم کی تعمیر بھی مکمل ہوچکی ہے جبکہ سمندر کو آلودگی سے بچانے کے لیے ڈی سلینیشن پلانٹ بھی تعمیر کیا جارہا ہے۔
گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف انجینئر رفیق احمد نے کراچی یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام گوادر کا مطالعاتی دورہ کرنے والے وفد کو بتایا کہ سی پیک منصوبے پر پیشرفت کے ساتھ گوادر میں ترقیاتی کاموں کی رفتار بھی تیز ہوچکی ہے،گوادر کے 17ترقیاتی منصوبوں کے لیے پی ایس ڈی پی میں 142.6ارب روپے کی رقوم مختص کی گئی ہیں جن سے گوادر میں انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ، فراہمی ونکاسی آب اور سڑکوں کی تعمیر کا کام جاری ہے اور اب تک 35فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔
جی ڈی اے نے گوادر میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی معاونت اور اراضی کی ملکیت کی تصدیق کے لیے خصوصی مہم شروع کردی ہے جس کے تحت ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والی فرمز کی رجسٹریشن کی جارہی ہے، سی پیک کے تحت چین گوادر میں 5 ملین گیلن یومیہ گنجائش کا ڈی سیلینیشن پلانٹ بھی نصب کرے گا، اس وقت ایران سے 100میگا واٹ بجلی درآمد کی جارہی ہے جو گوادر کے علاوہ پسنی اور پنجگور کو بھی فراہم کی جاتی ہے، ایران سے مزید 100میگا واٹ بجلی کی درآمد کامعاہدہ ہوچکا ہے، یہ بجلی گوادر کو فراہم کی جائے گی، 2050تک گوادر میں بجلی کی طلب 500میگاواٹ تک پہنچ جائے گی جس کے لیے سی پیک کے تحت 330میگا واٹ گنجائش کا کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر تعمیر ہوگا۔
گوادر پورٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ نوید احمد شیخ نے صحافیوں کو خصوصی پریزنٹیشن میں گوادر پورٹ اور فری اکنامک زون میں جاری ترقیاتی کاموں کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ پورٹ کے ترقیاتی منصوبے کے دوسرے مرحلے میں مزید 19برتھیں تعمیر ہوں گی جبکہ 50سالہ منصوبے کے تحت تک گوادر پورٹ دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہوں میں شامل ہوگی جس پر برتھوں کی تعداد 80تک پہنچ جائیگی۔ انہوں نے بتایا کہ فری اکنامک زون منصوبے پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں، 100سے زائد چینی انجینئرز کے ساتھ سیکڑوں پاکستانی مزدور منصوبے پر کام کررہے ہیں اور بڑی تعداد میں مقامی افراد کو بھی روزگار مل رہا ہے۔
نوید شیخ نے بتایا کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار فری اکنامک زون میں دلچسپی لے رہے ہیں اور اب تک 1000سے زائد ملکی و غیرملکی وفود فری اکنامک زون کا دورہ کرچکے ہیں، سرمایہ کاری کے لیے 600سے زائد درخواستیں موصول ہوچکی ہیں جن میں سے 4سرمایہ کاروں کو این او سی جاری کیا جا چکا ہے جن میں1پاکستانی اور 3چینی کمپنیاں شامل ہیں، یہ کمپنیاں اسٹیل مصنوعات، پائپ فیکٹری،اسٹون پروسیسنگ اور فش پروسیسنگ انڈسٹری لگائیں گی، چین کی معاونت سے گوادر میں بڑا ووکیشنل ٹریننگ سینٹر تعمیر کیا جارہا ہے جہاں آئندہ سال فروری مارچ سے مختلف شعبوں کے علاوہ بندرگاہ سے متعلق شعبوں میں مقامی افراد کی تربیت شروع کر دی جائے گی۔
گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر فرید احمد اور جنرل منیجر فنانس وقاص اے لاسی نے بتایا کہ گوادر میں چھوٹی بڑی صنعتوں اور کمرشل پروجیکٹس کیلیے 3ہزار ایکڑ پر مشتمل انڈسٹریل زون کی تمام اراضی فروخت ہو چکی ہے، اتھارٹی کی جانب سے صنعتوں کو پانی، بجلی، گیس اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کیلیے ترقیاتی کام بھی تیز کردیے گئے ہیں، صنعتی زون کیلیے 20/20لاکھ گیلن کی گنجائش کی حامل 2ذخیرہ گاہیں تعمیر کی جارہی ہیں جبکہ 7 لاکھ گیلن یومیہ گنجائش کا ڈی سیلینیشن پلانٹ مکمل کیا جاچکا ہے، چین کی باؤ اسٹیل زون میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہے، صنعتی زون کیلیے مزید 2سے 3 ہزار ایکڑ زمین لینے کیلیے کام جاری ہے، سی پیک کے فنڈ سے زون کیلیے 1ارب 70 کروڑ روپے مل چکے ہیں جس سے 500 ایکڑ رقبے پر ماڈرن انڈسٹریل زون تعمیر کیا جائیگا۔
فرید احمد نے بتایا کہ زون کے غیرحقیقی اور ڈیفالٹر خریداروں سے 900ایکڑ زمین واپس لے کر نئے سرمایہ کاروں کو الاٹ کی جا چکی ہے جہاں 2سال میں100 سے زائد صنعتوں کی تعمیر شروع ہو جائیگی، زون کی پہلی ذیل پاک سیمنٹ انڈسٹری قائم ہوچکی ہے، سرمایہ کاروں کو 10سے 20 سال کی مکمل ٹیکس مراعات کیلیے بلوچستان حکومت وفاق سے بات کررہی ہے۔