ماہ مئی جون جولائی اور اگست 2016 کے اہم ترین عالمی اور ملکی واقعات
گزرے برس کے حادثے، المیے، یادگار اور تاریخی لمحے۔
مئی 2016
٭طورخم پہ تنازعہ
پاکستان اور افغانستان کے مابین طورخم مصروف ترین اور تاریخی سرحدی گزرگاہ ہے۔ البیرونی، ابن بطوطہ اور بابر جیسی اہم شخصیات اسی سرحدی مقام سے گزر کر ہندوستان میں داخل ہوئیں۔ یہ 2600 کلو میٹر لمبی پاک افغان سرحد کے چھے اہم داخلہ مقامات میں سے ایک ہے۔ حکومت پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ یکم مئی سے سفری دستاویزات کے بغیر کوئی افغان پاکستان داخل نہیں ہوسکتا۔ مدعا یہ تھا کہ افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد روکی جائے۔ تاہم افغان حکومت نے طورخم پر ایک دروازے (باب پاکستان) کی تعمیر پر اعتراض کردیا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ڈیورنڈلائن کو تسلیم نہیں کرتی۔ مسئلہ بات چیت سے حل نہ ہوسکا اور پاکستان و افغان سیکیوریٹی فورسز میں لڑائی چھڑگئی۔ تصادم میں ایک پاکستانی میجر، علی جواد چنگیزی بھی شہید ہوئے۔ بہرحال پاکستان نے طورخم پر دروازہ تعمیر کرلیا اور وہاں واہگہ بارڈر کی طرح ہلالی پرچم چڑھانے اور اتارنے کی تقریب بھی منعقد ہونے لگی۔ پاکستانی حکومت دیگر اہم داخلی مقامات پر بھی دروازے نصب کرنا چاہتی ہے تاکہ پڑوس سے پاکستان دشمن افراد کا داخلہ کٹھن ہوجائے۔
٭چوہے اپنے بلوں میں!
3 مئی کو کور کمانڈر کانفرنس میں فیصلہ ہوا کہ ملک بھر میں ''کومبنگ آپریشن'' شروع کیے جائیں۔ ان کا مقصد مختلف شہروں میں چھپے بیٹھے دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ''سلیپرز سیلوں'' کو ڈھونڈ نکالنا تھا۔ اس پالیسی کے تحت ملک بھر میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کومبنگ آپریشن کیے گئے جن میں تمام قومی انٹیلی جنس اداروں نے حصہ لیا۔ ان آپریشنوں کے باعث دہشت گردی میں نمایاں کمی آئی، نیز جرائم پیشہ افراد بھی چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں دبکنے پر مجبور ہوگئے۔
٭سیاہ چہرے، سیاہ کردار
جب آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا، تو جنرل راحیل شریف کی ایما پر نیب کرپشن کے خلاف صف آرا ہوگیا۔ نیب نے پھر ملک بھر میں کرپٹ مگرمچھوں کی گردنوں کو بھی پکڑا اور قانون کے شکنجے میں کسا۔ 6 مئی کو سیکرٹری خزانہ بلوچستان، مشتاق رئیسانی بھی قانون کی آہنی گرفت میں آگئے۔ ان پر سرکاری خزانے سے رقم خوردبرد کرنے کا الزام تھا۔ دوران تفتیش انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے گھر بھاری پاکستانی و غیرملکی کرنسی موجود ہے۔ گھر پر چھاپا مارا گیا تو وہاں سے 63 کروڑ روپے کی رقم برآمد ہوئی۔ نیز چار کروڑ روپے مالیت کے زیورات ملے۔ مزید تفتیش سے مشتاق صاحب کے اثاثہ جات ملنے کا سلسلہ دراز ہوتا گیا جو کرپشن کی مدد سے بنائے گئے تھے۔ مثلاً ایک بیکری سے ساڑھے پانچ کروڑ ملے۔ کراچی میں بنگلے دریافت ہوئے جن کی مالیت ایک ارب روپے تھی۔ نیز وہ پچاس کروڑ روپے سے زائد رقم باہر بھجوا چکے تھے۔ موصوف پر اب مقدمہ چل رہا ہے۔
٭لندن پر پاکستانی نژاد مئیر کا راج
برطانوی دارالحکومت، لندن کی دو ہزار سالہ تاریخ میں پہلی بار شہریوں نے 6 مئی کو ایک مسلمان کو اپنا میئر منتخب کرلیا۔ یوں انہوں نے رواداری اور عدم تعصب کی عظیم روایات کو مستحکم کیا اور انہیں جلا بخشی۔ یہ اعزاز پاکستانی والدین کے بیٹے، صادق امان خان کو نصیب ہوا۔ صادق خان اس لحاظ سے منفرد ٹھہرے کہ وہ ایک بس ڈرائیور کے بیٹے ہیں۔ انہیں بچپن و لڑکپن میں مالی مسائل کا سامنا رہا۔ تعلیمی اداروں میں نسل پرستوں کی نفرت بھی سہی۔ تاہم ان کا ذہن مثبت اقدار کی جانب مائل رہا۔ لہٰذا وہ تمام رکاوٹوں کے باوجود ترقی کرتے رہے۔ انسانی حقوق کے وکیل بنے اور سیکڑوں بے یارومددگار انسانوں کو سہارا دیا۔ رنگ، نسل، مذہب سے ماورا ہوکر دکھی انسانیت کی عملی خدمت ہی نے صادق خان کو اہل لندن کی آنکھوں کا تارا بنا دیا۔ صادق خان فرشتہ نہیں، ان میں خامیاں موجود ہیں اور غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ بہرحال میئر بن کر ان کی بھر پور سعی ہے کہ اہل لندن کی زندگی سہل و پُرسکون بنائی جائے۔ وہ خصوصاً مختلف مذاہب و اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مابین افہام و تفہیم اور پیار و محبت کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
٭علی حیدر کی واپسی
10 مئی کو سابق وزیراعظم، یوسف رضا گیلانی کے فرزند علی حیدر گیلانی غزنی (افغانستان) سے زندہ بازیاب ہوگئے۔ دہشت گردوں نے مئی 2013ء میں انہیں ملتان سے اغوا کیا تھا اور پھر مختلف مقامات پر محبوس رکھا۔ جب امریکی و افغان افواج نے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کیا، تو وہ مارے گئے۔ تاہم لڑائی کے دوران علی حیدر محفوظ رہے۔ بخیریت گھر پہنچنے پر ان کے اہل خانہ نے خوشیاں منائیں اور رب کریم کا شکر ادا کیا۔ ان کی رہائی سے دہشت گردوں کے عزائم کو زک پہنچی اور وہ پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے۔
٭بنگلادیشی لیڈر کی پاکستان پر جان قربان
امیر جماعت اسلامی بنگلادیش، مطیع الرحمن نظامی11مئی کو پھانسی کے پھندے پر جُھول گئے۔ برسراقتدار عوامی لیگ کی قائم کردہ نام نہاد عدالت، انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل نے انہیں 1971ء میں جنگی جرائم انجام دینے پر سزائے موت سنائی تھی۔1971ء میں مطیع الرحمن جماعت اسلامی کی مسلح تنظیم، البدر کے سربراہ تھے۔ عوامی لیگی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس حیثیت سے انہوں نے قوم پرست لیڈروں کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو ''کینگرو کورٹ'' قرار دے چکیں جس کے متعصب جج عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔
مطیع الرحمن کا اصل جرم یہ تھا کہ وہ متحدہ پاکستان کے حامی بنگالی رہنما تھے۔ اسی جرم پر انہیں پھانسی دی گئی۔ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بھارت کو خوش کیا جاسکے جو عوامی لیگ کا ملجا و ماوی بن چکا ہے۔ عوامی لیگی حکومت پاکستان کے عاشق صادق چھے راہ نماؤں کو سولی پر چڑھا چکی ہے۔
٭بھارت کی اسلحہ دوڑ
15 مئی کو بھارت نے اپنے پہلے سپرسونک انٹرسیپٹر (روکنے والے) میزائل، اشوین کا تجربہ کیا۔ یہ میزائل بھارتی دفاعی منصوبے ''انڈین بلاسٹک میزائل ڈیفنس پروگرام'' کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے بھارت ایسے میزائل بنانا چاہتا ہے جو چین اور پاکستان سے آنے والے جوہری و غیرجوہری میزائلوں کو فضا میں تباہ کرسکے۔ اشوین 7.5 میٹر لمبا میزائل ہے جس میں نیوی گیشن سسٹم، ہائی ٹیک کمپیوٹر اور الیکٹرو مکینیکل ایکٹیویٹر نصب ہے۔ اس کی رفتار 5 ماخ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ تاہم ماہرین عسکریات کا کہنا ہے کہ بھارتی ساختہ اسلحے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا کیوںکہ حقیقی جنگ میں عموماً وہ ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔ بہرحال انڈین بلاسٹک میزائل ڈیفنس پروگرام سے نہ صرف دفاع ِپاکستان کو خطرہ ہے بل کہ علاقے میں اسلحے کی نئی دوڑ جنم لے سکتی ہے۔
٭تنہا کرنے کا بھارتی سپنا چکناچور
نیوکلیئر سپلائرز گروپ 48 ممالک کا اتحاد ہے۔ یہ ممالک ایٹمی ٹیکنالوجی، آلات اور میٹریل کی برآمد کنٹرول کرتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ کوئی ناپسندیدہ ملک ایٹمی ہتھیار نہ بنا سکے۔ اس اتحاد کا حصہ بن کر کوئی بھی ملک ایٹمی بجلی گھر کے لیے مطلوبہ اشیاء درآمد کر سکتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت 19 مئی کو پاکستان نے گروپ کا رکن بننے کی درخواست دے دی۔ پاکستان کو چین اور ترکی کی حمایت حاصل تھی۔ اس دوران امریکا نے بھارت کو رکن بنانے کے لیے زور شور سے مہم چلادی۔ امریکی حکومت کا مطالبہ تھا کہ بھارت کو غیرمشروط طور پر گروپ کا رکن بنایا جائے۔ لیکن چین امریکی مہم کے سامنے مزاحم ہو گیا۔ چین کا موقف تھا کہ بھارت اور پاکستان ایٹمی اسلحے سے لیس ممالک ہیں۔ لہٰذا ان کی شمولیت کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے۔ بھارت نے سرتوڑ کوشش کی کہ وہ کسی طرح گروپ کا رکن بن جائے لیکن دیگر ممالک نے بھی چین کے موقف کی تائید کرڈالی۔ یوں امریکا کو شکست ہوئی اور بھارت اب تک گروپ کا رکن نہیں بن سکا۔ بھارتی ماہرین نے اسے مودی حکومت کی زبردست شکست قرار دیا، جب کہ پاکستان کے لیے چین کی کھلی حمایت کو پاکستانیوں نے خوب سراہا۔ یہ یقینی ہے کہ بھارت اور پاکستان، دونوں ہی گروپ کا حصہ بنیں گے۔ بھارت کی تنہا پرواز کام یاب نہیں ہو سکتی۔
٭موت کا راستہ
2010ء کے بعد جب شام، لیبیا اور دیگر ایشیائی و افریقی ممالک میں حالات خراب ہوئے تو تارکین وطن کی بڑی تعداد کشتیوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے لگی۔ پچھلے چھ سال کے دوران زیادہ وزن کے باعث کئی کشتیاں بحیرہ روم میں ڈوب چکیں اور ہزارہا انسان اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ماہ مئی میں متواتر تین دن (25تا 27) مئی تین کشتیاں ڈوب گئیں اور ان میں سوار تقریباً آٹھ سو افراد ہلاک ہوگئے۔ یورپ جانے کا سفر نہایت خطرناک ہے، مگر اچھی زندگی کی چاہ بے حال تارکین وطن کو ہر خطرے کا سامنا کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔
جون 2016
٭چشمہ میں پانچواں ایٹمی پلانٹ
جون میں چشمہ کے مقام پر چین کے تعاون سے پانچویں ایٹمی پلانٹ کی تعمیر کا آغاز ہو گیا۔ یہ پلانٹ تکمیل کے بعد 1100میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ پاکستان 2030ء تک چین کے تعاون سے چشمہ میں 1100میگاواٹ کے سات جب کہ 300میگاواٹ کے چار ایٹمی پلانٹ تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ یوں وہ 2030ء میں کل 8900میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔ اسی طرح بجلی کی قومی ضروریات بخوبی پوری ہوسکیں گی۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ، ڈاکٹر انصار پرویز کا اندازہ ہے کہ وطن عزیز 2050ء تک ایٹمی بجلی گھروں سے ''پچاس ہزار میگاواٹ '' بجلی بنانے کے قابل ہو جائے گا۔
٭جو تن تنہا امریکی سپر پاور سے ٹکرایا
امریکا ہی میں نہیں دنیا بھر میں ''آئیکون'' کی حیثیت اختیار کر جانے والے باکسر، محمد علی 3 جون کو ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ وہ ایک غریب سیاہ فام گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ہوش سنبھالا تو خود کو متعصب سفید فاموں کے رحم وکرم پر پایا، مگر خوددار اور آزادی پسند علی نے طاقتور اکثریت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے پھر اپنی قوتوں کے اظہار کی خاطر باکسنگ کو ذریعہ بنایا اور اس کھیل میں اتنا نام کمایا کہ مکے بازی کی تاریخ میں گنے چنے بہترین باکسروں میں سے ایک قرار پائے۔ ان کی باکسنگ کی تیکنیک اور ا سٹائل اتنا منفرد وفطری تھا کہ آج بھی کوئی باکسر محمدعلی کے اندازِ کی نقل نہیں کر سکا۔ وہ رِنگ میں تتلی کی طرح تھرکتے اور شیر کے مانند حریف پر حملہ آور ہوتے۔ سدا پُرجوش و متحرک رہنے والے محمد علی کا کھیل جب عروج پر تھا تو وہ سپرپاور امریکا سے ٹکرا گئے۔ استعمار پسند امریکی حکم راں انھیں فوج میں شامل کرکے ویت نام بھیجنا چاہتے تھے۔ انہوں نے انکار کردیا اور کہا ''ویت نامیوں نے کبھی مجھے ''نگر'' نہیں کہا اور نہ وہ میرے دشمن ہیں، پھر میں کیوں ان سے لڑوں؟'' انکار پر علی کو پانچ سال کی سزا ، دس ہزار ڈالر جرمانہ اور تین سال تک باکسنگ کی پابندی لگی۔ 25 سال سے لے کر 29 سال کی عمر تک علی نے کوئی مقابلہ نہ لڑا۔ یوں ان کی زندگی کے بہترین برس رائیگاں گئے مگر اصول وسچائی کی خاطر علی نے یہ کڑوی گولی ہنسی خوشی نگل لی۔ ''دی گریٹسٹ'' کہلائے جانے والے محمد علی عیسائی پیدا ہوئے تھے۔ نوجوانی میں اسلام قبول کیا اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی سعی کرتے رہے۔
٭ممتاز معلم اور ادیب کی رحلت
اردو کی ادبی کہکشاں کے ایک درخشاں ستارے، ڈاکٹر اسلم فرخی 15 جون کو ہم سے بچھڑ گئے۔ ڈاکٹر صاحب 23 اکتوبر 1923ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد اہل خانہ کی معیت میں کراچی چلے آئے۔ شہرقائد میں آباد ہوئے۔ نیا گھر بساتے ہوئے تمام پریشانیوں کا مقابلہ خندہ پیشانی سے کیا اور ہمت و جرأت سے زندگی کی عملی دوڑ میں بڑھتے رہے۔ ریڈیو پاکستان میں کام کیا پھر کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے اور پروفیسر کے اعلیٰ منصب تک پہنچے۔ مرحوم کو خاکے لکھنے میں کمال حاصل تھا۔ ادبی چاشنی، رساؤ اور معلومات سے بھرپور خاکے لکھ کر انہوں نے گویا پورا ایک ادبی دور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کردیا۔ یہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی شخصیت میں جو نفاست، نرمی اور تہذیب تھی، وہ تحریروں میں بھی رچی بسی نظر آتی ہے۔
٭بھارتی عدالتی نظام کی نااہلی
2 جون کو بھارت کی ایک خصوصی عدالت نے گلبرگ سوسائٹی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے11 افراد کو عمر قید ، 12کو سات سات سال، ایک کو دس سال ، اور 36 افراد کو بری قرار دیا گیا۔ 2002ء کے گجرات فسادات میں ہندو دہشت گردوں نے گلبرگ سوسائٹی (احمد آباد) میں بے دردی سے 69 مسلمان شہید کردیے تھے۔ ان میں سابق رکن اسمبلی احسان جعفری بھی شامل تھے۔ اقلیتوں کو انصاف دینے کے معاملے میں بھارت کا عدالتی نظام بری طرح ناکام ہوچکا۔ گجرات کے فسادات کے بعد کئی مقدمے چلائے گے مگر عدالتیں صرف چھوٹے دہشت گردوں ہی کو جیل بھجوا سکیں۔
٭امریکا میں دہشت گردی کا واقعہ
ایک افغان نژاد امریکی، عمر متین12 جون کی رات امریکا کے اور لینڈو شہر میں واقع پلس نامی کلب میں داخل ہوا اور فائرنگ کرکے 49 مرد وزن مار ڈالے۔ عمر متین اسلامی ممالک میں جنگیں شروع کرنے پر امریکی حکم رانوں سے ناراض تھا۔ اس نے جذبہ انتقام کے تحت امریکی شہریوں کو مار ڈالا۔ یہ امریکی تاریخ میں ایک شوٹر کی جانب سے خونی ترین قتل عام کے واقعہ تھا۔
٭اعتدال پسند راہ نما کا قتل
انتہاپسند عیسائی شخص، تھامس مائر نے 16 جون کو برطانوی رکن پارلیمنٹ جوکوکس کا قتل کر دیا۔41 سالہ جو ایک اعتدال پسند خاتون اور انسانی حقوق کی راہ نما تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب کو عالم اسلام میں جنگوں کی آگ نہیں بھڑکانی چاہیے۔ وہ تارکین وطن کو خوش آمدید کہنے کی حامی تھیں۔ نیز فلسطین میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے پر اسرائیلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتیں۔ برطانوی انتہاپسندوں کو اعتدال پسند اور حق گو جو کوکس قطعاً پسند نہیں تھیں، لہٰذا وہ ان کے خلاف زہریلی مہم چلانے لگے۔ اس سے متاثر ہو کر آخر ایک انتہاپسند نے انہیں مار ڈالا۔ جو کی موت سے بہرحال برطانیہ میں رواداری اور امن و محبت کی قوتوں کو نیا جذبہ ملا اور وہ انتہاپسندی کے خلاف سرگرم ہوگئیں۔
٭39 فی صد پاکستانی غریب نکلے
پاکستان پلاننگ کمیشن کی جانب سے وطن عزیز میں غربت کا جائزہ لیتی اہم رپورٹ 20 جون کو شائع ہوئی۔ اس نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں 39 فی صد باشندے ''غریب'' ہیں۔ سرکاری بقراطوں کے مطابق جو پاکستانی ہر مہینے 3030روپے سے کم رقم کماتا ہے، وہ غریب کہلائے گا۔
رپورٹ کی رو سے آزاد کشمیر پاکستان کا امیرترین خطّہ ہے۔ وہاں کی صرف 25 فی صد آبادی غریب ہے، جب کہ فاٹا غریب ترین علاقہ، وہاں کی 73 فی صد آبادی غریب شمار ہوتی ہے۔ بلوچستان میں 71 فی صد، خیبر پختون خوا میں 49 فی صد، سندھ اور گلگت بلتستان میں بھی 43 فی صد جب کہ پنجاب میں 31 فی صد آبادی غریب ہے۔ امارت و غربت کے لحاظ سے پاکستانی شہروں میں بھی خاصا فرق ہے۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں 10 فی صد آبادی غریب ہے، جب کہ قلعہ عبداللہ، ہرنائی اور بار خان کے علاقوں میں 90 فی صد لوگ غریب ہیں۔ یہ تینوں رہائشی علاقے بلوچستان میں واقع ہیں۔
٭پانچ ارب روپے کا جھگڑا
21جون کو برطانوی ہائی کورٹ نے بھارتی حکومت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا کہ پاکستان ''حیدر آباد فنڈ'' پر کوئی استحقاق نہیں رکھتا۔ ہائی کورٹ نے مزید حکم دیا کہ حیدر آباد فنڈ کا تعین کرنے کی خاطر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے۔ برطانوی عدالت کے فیصلے کو پاکستانی حکومت نے اپنی فتح قرار دیا۔ حیدرآباد فنڈ کیس اپنی نوعیت کا انوکھا مقدمہ ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ جب بھارتی حملے کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا تو نظام حیدر آباد دکن نے دس لاکھ پونڈ سے زاید رقم رائل بینک آف سکاٹ لینڈ میں پاکستانی ہائی کمشنر کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دی۔ دو روز بعد بھارت نے حیدرآباد دکن پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ 27 ستمبر 1948کو نظام نے بینک سے رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا، مگر بینک نے پاکستانی ہائی کمیشن کی اجازت کے بغیر رقم جاری کرنے سے انکار کردیا۔ چناںچہ نظام نے بینک پر مقدمہ کھڑا کر دیا۔ تب سے رقم نہ صرف بینک میں محفوظ ہے بل کہ وہ بڑھ کر ساڑھے تین کروڑ پونڈ سے زیادہ ہوچکی۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم تقریباً پانچ ارب روپے بنتی ہے۔ حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ نظام حیدرآباد دکن نے نئی مملکت کی مالی مدد کرنے کی خاطر یہ رقم دی تھی۔ تاہم بھارتی حکومت کے شدید دباؤ پر بعدازاں نظام نے اس کی واپسی کا مطالبہ کردیا۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ رقم اس کی ملکیت ہے، جب کہ نظام کے ورثا اس رقم کو اپنا حق بتاتے ہیں۔
٭انگلینڈ کی یورپی یونین سے علیحدگی
برطانیہ 1973ء میں یورپی ممالک کے تجارتی و معاشی اتحاد' یورپی یونین کا حصہ بنا۔ اس سے قبل فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال نے کئی برس تک برطانیہ کو اتحاد میں شامل نہ ہونے دیا۔ برطانیہ اور یورپی یونین کا رشتہ اونچ نیچ کا شکار رہا۔ 1980ء میں 65 فی صد برطانوی یورپی یونین چھوڑنا چاہتے تھے، تاہم حکم رانوں نے یہ ساتھ برقرار رکھا۔ ساتھ چھوڑنے کی اہم وجہ یہ تھی کہ برطانیہ کو یورپی یونین کے ناگوار فیصلے بھی قبول کرنا پڑتے۔ برطانیہ میں مہاجرین کی آمد وہ سب سے بڑا معاملہ ہے جس نے خصوصاً انگریزوں کو یورپی یونین سے نکلنے پر اکسایا۔ 1990ء میں برطانیہ کی آبادی پانچ کروڑ ستر لاکھ تھی۔ اب وہ ساڑھے چھے کروڑ سے زاید ہوچکی ہے۔ 2015ء وہ سال ہے جب سب سے زیادہ یعنی چھ لاکھ تیس ہزار غیرملکی برطانیہ میں آباد ہوئے۔ برطانوی انگریزوں میں شرح پیدائش بھی کم ہے۔ مزیدبرآں بہت سے انگریز ملازمت کی تلاش میں آسٹریلیا، امریکا یا نیوزی لینڈ ہجرت کرجاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ انگریزوں کو محسوس ہوا کہ برطانیہ میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہا تو آنے والے عشروں میں غیرملکیوں کی آبادی بڑھ جائے گی۔اس صورت حال نے گوروں کو خوف زدہ کردیا۔ چناںچہ انہوں نے ڈیوڈ کیمرون کی حکومت پر شدید دباؤ ڈالا کہ وہ یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کرنے کے سلسلہ میں قومی ریفرنڈم کرائے۔ آخر فروری 2016ء میں برطانوی وزیراعظم نے ریفرنڈم کرانے کا اعلان کردیا۔ معاشی و سیاسی پنڈتوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ برطانیہ یورپی یونین کو خیرباد نہیں کہے گا، مگر قوم پرست برطانوی لیڈروں نے اپنی انتہاپسندانہ تقریروں کے ذریعے انگریزوں میں پھیلا مہاجرین کا خوف بڑھا ڈالا۔ 23 جون کو ریفرنڈم ہوا، تو 52 فی صد ووٹروں نے یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیا۔ یوں سیاسی بقراطوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ نیز برطانوی سیاست و معیشت میں قوم پرستانہ نظریات دخیل ہوچکے جو بہرحال بیرونی ممالک سے آزادانہ تجارت کے حامی نہیں ہوتے اور سب سے پہلے اپنے ملک و قوم کے نظریے کو فروغ دیتے ہیں۔ گو لاکھوں انگریز چاہتے ہیں کہ دوبارہ ریفرنڈم منعقد کیا جائے، مگر اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔
٭افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا فیصلہ
جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، تو تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان چلے آئے۔ پاکستان نے انہیں پناہ دی اور زندگی گزارنے کا سامان مہیا کیا۔ اب ہزارہا افغان پاکستانی شناختی کارڈ رکھتے اور یہاں کاروبار کرتے ہیں۔ مگر رفتہ رفتہ افغان مہاجرین کیمپ پاکستان دشمن دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن گئے۔ اسی لیے سرکاری سطح پر فیصلہ ہوا کہ افغان مہاجرین کو مجبور کیا جائے کہ وہ واپس افغانستان چلے جائیں۔ اس سلسلے میں 28جون سے خیبر پختون خوا حکومت نے افغان مہاجرین پر کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا۔ صوبائی حکومت کا موقف تھا کہ یہ لوگ صوبے پر بوجھ اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ حکومت نے دو ہزار مہاجرین گرفتار کیے جب کہ سیکڑوں ڈی پورٹ کردیے۔
اعداد و شمار کی رو سے اوائل 2016ء میں پاکستان میں پندرہ لاکھ رجسٹرڈ جب کہ دس لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہائش پذیر تھے۔ پاکستان میں بسا بسایا ڈیرا چھوڑ کر افغانستان میں نئے سرے سے ٹھکانا بنانا کٹھن مرحلہ تھا۔ چناںچہ مہاجرین کی تکالیف دیکھ کر وفاقی حکومت نے ان کے قیام میں 30جون 2017ء تک توسیع کردی۔ اقوام متحدہ کا دعویٰ ہے کہ 2016ء میں سوا دو لاکھ سے زاید افغان مہاجرین واپس جاچکے۔ افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی پر بعض قوم پرست راہ نماؤں نے احتجاج کیا۔ ان کا موقف ہے کہ مہاجرین کو پاکستان میں رہنے کا حق حاصل ہے۔ اُدھر افغان حکومت نے مہاجرین کے مسئلے سے سیاسی فائدہ اٹھایا اور پاکستان پر برسنے لگی۔ وہ یہ بھول گئی کہ پاکستان چالیس برس سے لاکھوں افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے اور ان کی پرداخت پر اربوں روپے خرچ کرچکاہے۔
جولائی 2016
٭ڈھاکا میں خون کی ہولی
یکم جولائی کی رات بنگلادیشی دارالحکومت ڈھاکا کے علاقے، گلشن تھانہ میں پانچ مسلح دہشت گردوں نے ایک بیکری میں موجود سیکڑوں لوگوں کو یرغمال بنالیا۔ گلشن تھانے میں کئی سفارت خانے واقع ہیں۔ لہٰذا بیکری میں تب کئی غیرملکی بھی موجود تھے۔ حملہ آوروں نے بیس یرغمالی، دو بیکری ملازم اور دو سپاہی مار ڈالے۔ لڑائی میں وہ خود بھی مارے گئے۔ حملہ آوروں کا تعلق داعش سے تھا۔ تاہم بعد میں انہیں جنگجو تنظیم، جماعت المجاہدین کے کارکن قرار دیا گیا۔
٭پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی اونچی پرواز
مشہور مالیاتی ادارے، بلوم برگ نے 5 جولائی کی اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان اسٹاک مارکیٹ کو ایشیا کا بہترین ایکس چینج قرار دیا۔ 2016ء میں پاکستانی اسٹاک ایکس چینج نے اپنی شان دار کارکردگی سے چین اور بھارت کی اسٹاک مارکیٹوں کو بھی مات دے ڈالی۔ اس کی سالانہ ترقی میں16 فی صد اضافہ ہوا۔ نیز اس کا 100، شیئر انڈکس 47,000 تک جاپہنچا۔ ماہرین کے نزدیک پاک چین اقتصادی راہداری میں چین کی سرمایہ کاری اور امریکی معیشت کی زبوں حالی کے باعث پاکستانی اسٹاک مارکیٹ نے عمدہ کارکردگی دکھائی۔ گو 2016ء میں ملکی سیاسی حالات اونچ نیچ کا شکار رہے پھر بھی اس کی بلند پرواز جاری رہی۔
٭ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم!
چند انسان دنیا میں آ کر اسے خاص الخاص بنا ڈالتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی بھی ایک ایسی ہی منفرد و نایاب شخصیت تھے،یہ بے مثل ہستی 8 جولائی کو ہم سے بچھڑ گئی۔ ایدھی نے متوسط طبقے میں جنم لیا۔ بیس سال کے تھے، تو بانٹوا، گجرات سے 1947ء میں کراچی پہنچے۔ روزمرہ اخراجات پورے کرنے کی خاطر گلی گلی گھوم پھر کر ماچس، پنسلیں وغیرہ فروخت کیں۔ پھر کپڑا بھی بیچا۔ اس زمانے میں کراچی تباہ حال مہاجرین سے بھرا پڑا تھا۔ فٹ پاتھوں پر لٹے پٹے اور بیماریوں میں گھرے لوگوں کا بسیرا تھا۔ اکثر لوگ تیمار دار سے محروم تھے اور سسک سسک کر زندگی گزار رہے تھے۔ ان حالات نے ایدھی صاحب کو غم زدہ کر دیا۔ انہوں نے ڈسپنسری کھولنے کا فیصلہ کیا تاکہ بیماروں کو شفایاب کیا جا سکے۔ انہوں نے بھکاریوں کی طرح گھر گھر جاکر چندہ مانگا اور اتنی رقم جمع کرنے میں کام یاب رہے کہ چھوٹا سا دوا خانہ کھول سکیں۔ میڈیکل کے طلبہ و طالبات علاج میں ہاتھ بٹانے لگے۔ اس کے بعد انھوں نے مڑ کر نہ دیکھا اور بیمار، لاوارث اور بے یارو مدد گار انسانوں کی خدمت کرنا اپنا شعار اور مقصدِ زندگی بنالیا۔
ایدھی صاحب نے جو سفر اختیار کیا و ہ صعوبتوں، کانٹوں اور مشکلات سے پُر تھا۔ تاہم وہ ہنستے مسکراتے دلیری سے تمام مصائب کا مقابلہ کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی تنظیم، ایدھی فاؤنڈیشن کی طرح ڈالی اور سماجی سرگرمیوں کا دائرہ کار وسیع کرتے چلے گئے۔ کبھی فساد کے موقع پر زخمیوں کو اٹھاتے اپنی جان داؤ پر لگاتے، تو کبھی گندگی میں لت پت انسانوں کو سہارا دینے سے نہ ہچکچاتے۔ ان کی لازوال انسان دوستی کے رو ح پرور واقعات دیکھ کر قوم نے ایدھی صاحب کو بجا طور پر ''بابائے خدمت'' کا خطاب دیا۔ انہیں سماجی خدمات انجام دیتے ہوئے اربوں روپے بطور چندہ ملے مگر ایدھی نے ساری عمر دو معمولی جوڑوں، عام سی چپل اور چھوٹے سے فلیٹ میں گزار دی۔ بے غرضی، سادگی اور ایثار کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی؟
٭تحریک آزادی کشمیر کا نیا زریّں دور
بھارتی سیکیوریٹی فورسز نے 8 جولائی کی رات مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مجاہد، برہان الدین وانی کو شہید کردیا۔ برہان کا تعلق ان نوجوان کشمیری نوجوانوں سے تھا ۔ انہوں نے بھارتی مظالم اجاگر کرنے کی خاطر سوشل میڈیا سے بھی خوب مدد لی اور یوں کئی کشمیری نوجوانوں کو تحریک آزادی میں شامل کرنے میں کام یاب رہے۔ بھارتی سیکیوریٹی فورسز نے ظلم وتشدد کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو ماند کر ڈالا تھا، مگر برہان وانی جیسے دلیر نوجوان اسے زندہ کرنے کی کوششیں کرنے لگے، تو بھارتی حکم رانوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اور برہان وانی کو شہید کردیا گیا۔ لیکن برہان کا خون رائیگاں نہیں گیا، اس نے اپنی زندگی کی قربانی دے کر تحریک آزادی کے نیم جاں بدن میں نئی جان ڈال دی۔ اگلے دن ہی سے وادی میں لاکھوں کشمیری غاصب بھارت کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ انہوں نے غیظ و غضب کے عالم میں سرکاری تنصیبات پر حملے کیے۔ بھارتی حکم رانوں نے حسب دستور بندوق سے کام لیا اور نہتے کشمیریوں پر گولیوں کی برسات برسا دی ، لیکن اس بار ظلم و تشدد کشمیریوں کو خاموش نہ کرا سکا بل کہ جتنا زیادہ ظلم ہوتا، ان کا احتجاج اتنی ہی زیادہ شدت اختیار کرلیتا۔ کشمیریوں کا جذبہ آزادی مٹانے کی خاطر بھارتی سیکیوریٹی فورسز نے ان کے چہروں، آنکھوں اور سینوں پر چھرے مارے اور گولیاں برسائیں۔ نتیجتاً کئی کشمیری بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ گلی گلی پتھر برساتے کشمیری لڑکوں کو بے دردی سے مارا پیٹا گیا، مگر تمام خوف ناک مظالم کے باوجود ان کا احتجاج جاری رہا۔ اس دوران وادی کشمیر میں کرفیو لگادیا گیا۔ معمولات زندگی شدید متاثر ہوئے اور کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا، لیکن بھارتی مظالم کا پردہ چاک کرنے کی خاطر کشمیریوں نے پامردی سے ہر مشکل کا مقابلہ کیا اور ثابت کردیا کہ وہ بھارت کی حکم رانی میں رہنے کو تیار نہیں اور آزادی کی نعمت پانے کے خواہش مند ہیں۔ تادم تحریر وادی کشمیر میں احتجاج جاری ہے اور روزانہ کہیں نہ کہیں بھارتی غاصبوں کے خلاف مظاہرہ ہوتا ہے۔ بھارتی سیکیوریٹی فورسز تحریک آزادی کی اس حالیہ لہر کے دوران ایک سو سے زاید کشمیری شہید کرچکیں مگر کشمیریوں کا غم و غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ سچ یہ ہے کہ جذبہ آزادی کی شمع اب کشمیری بچوں کے سینوں میں بھی فروزاں ہوچکی اور بھارتی حکم رانوں کو مستقبل میں مجاہدین کی بہت بڑی تعداد سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔
٭آغا ناصر بچھڑ گئے
ملک کے ممتاز ادیب، ڈراما نگاراور براڈ کاسٹر آغا ناصر 12 جولائی کو انتقال کر گئے۔ وہ 9 فروری 1937ء کو ممبئی، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ والدین کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ بعدازتعلیم 1955ء میں ریڈیو سے منسلک ہوگئے۔ 1964ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کی بنیاد رکھنے والی ٹیم میں شامل تھے۔ ''تعلیم بالغاں'' اور ''الف نون'' جیسے مشہور پروگرام پروڈیوس کیے۔ سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ اخیر عمر میں معاصرین کے پُراثر خاکے لکھے۔ آغا ناصر کی وفات سے قوم ایک عبقری سے محروم ہو گئی جنہوں نے اپنی فکر وعمل کے کئی نمونے میراث میں چھوڑے۔
٭نہتے شہریوں پر حملہ
تیونسی نژاد فرانسیسی، محمود لحویج بوہلال نے 14 جولائی کی شام فرانس کے شہر نیس میں ''باسل ڈے'' کی ایک تقریب میں شریک شہریوں پر کارگو ٹرک چڑھا دیا۔ اس واقعے میں 86 لوگ مارے گئے۔ بعدازاں پولیس نے بوہلال کو بھی ہلاک کردیا۔ داعش نے حملے کی ذمے داری قبول کرلی۔ قابل ذکر بات یہ کہ جنوری 2016ء سے وہ داعش کے ہتھے چڑھ گیا۔ تنظیم کے لٹریچر نے اسے انتہاپسند بنا ڈالا اور یوں اس نے بلا ہچکچاہٹ نہتے شہریوں کا قتل عام کردیا جو سّکہ بند اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔
٭ترکی میں فوج آپے سے باہر
15 جولائی کی رات ترک فوج کے ایک دھڑے نے بغاوت کردی اور انقرہ، استنبول اور دیگر شہروں میں سرکاری تنصیبات پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ بغاوت میں تقریباً بارہ ہزار فوجی شریک تھے، جن کی قیادت تین باغی جرنیل کر رہے تھے۔ انہوں نے ترکی میں سیکولرازم اور جمہوریت کے خاتمے، انسانی حقوق کی خراب صورت حال اور عالمی سطح پر ترکی کی ساکھ گرنے کو بغاوت کی وجہ قرار دیا۔ یہ فوجی بغاوت مختلف وجوہ کی بنا پر ناکام ہوگئی گو باغی فوجی ایف سولہ طیاروں اور ٹینکوں و توپوں سے لیس تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ حکومت کے خفیہ ادارے، نیشنل انٹیلی آرگنائزیشن کو بغاوت کی خبر پہلے ہی مل گئی۔ چناںچہ باغیوں کو چھے گھنٹے قبل بغاوت شروع کرنا پڑی۔ دوم حکومت کے وفادار ایک جونیئر افسر نے آغاز ہی میں ایک باغی جرنیل کو قتل کردیا۔ ا ن دو وجوہ کی بنا پر باغی صحیح طرح منصوبہ بندی نہیں کرسکے ا ور انتشار کا شکار رہے۔ حکومت کی وفادار فوجوں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے بغاوت ناکام بنادی۔ باہمی لڑائی میں ساڑھے تین سو فوجی و شہری مارے گئے جب کہ ایک ہزار سے زاید زخمی ہوئے۔ باغی فوجیوں نے ٹینکوں کی مدد سے انقرہ اور استنبول میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ تاہم وزیراعظم طیب اردوان کی اپیل پر ہزار ہا شہری بغاوت کے خلاف احتجاج کرتے سڑکوں پر نکل آئے۔ حکومت کے لیے عوام کی بے پناہ حمایت دیکھ کر باغی فوجیوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ زبردست عوامی طاقت نے بھی فوجی بغاوت کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شروع میں خیال تھا کہ سیکولر جرنیلوں نے بغاوت کی ہے، مگر اردوان حکومت نے اسلامی دانشور، فتح اللہ گولن کو اس کا موجب قرار دیا۔ ماضی میں گولن اور اردوان ساتھی تھے، مگر نظریاتی اور سیاسی ٹکراؤ کے باعث ان کی راہیں جدا ہوگئیں۔ بغاوت کے بعد فوج، عدلیہ، افسرشاہی، میڈیا، سرکاری محکموں خصوصاً محکمۂ تعلیم میں مصروف کار ایک لاکھ سے زاید مردوزن گرفتار کرلیے گئے۔ ان پر گولن تحریک کے رکن ہونے کا الزام ہے جسے ترک حکومت دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی۔
٭قندیل بلوچ رخصت ہوئی
فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے متوسط گھرانے سے تھا۔ تعلیم مکمل کر کے وہ ایک بس میں میزبان بن گئی ۔ بعدازاں وہ انٹرنیٹ پر اپنی وڈیو جاری کرنے لگی جن میں وہ مختلف امور پر اظہار خیال کرتی۔ رفتہ رفتہ اس کے کلام و حرکات میں بے باکی آتی گئی اور وہ نیٹ پر مشہور ہستی بن گئی۔ مگر اہل خانہ نے اس کی بے باکی کو بے حیائی سے تعبیر کیا۔ چناںچہ 15جولائی کی رات قندیل کے بھائی نے اسے گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔ قندیل بلوچ کا قتل متنازع بن گیا۔ ایک طبقے کا دعویٰ ہے کہ بھائی نے غیرت میں بہن کو قتل کر کے درست قدم اٹھایا کیونکہ وہ بے راہ رو ہو چکی تھی ۔ مگر دوسرے طبقے کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں کیوںکہ ہر عورت کو مرضی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ قندیل بلوچ کے قتل میں مفتی عبدالقوی کا بھی نام لیا گیا اور بات یہاں تک ہی نہیں ٹھہری بل کہ انہیں اس کیس میں نام زد بھی کیا گیا۔ پولیس نے اس کیس کے حوالے سے مفتی عبدالقوی سے تحقیقات کیں تو ان کا کہنا تھا کہ قندیل بلوچ کا بھائی وسیم ان کے قتل کا اعتراف کرچکا ہے اور انھیں مقدمے میں ملزم نامزد کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
٭اویس شاہ مل گئے
ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکیورٹی فورسز نے 18 جولائی کو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ، سجاد علی شاہ کے فرزند، اویس شاہ کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرالیا۔ انہیں بیس جون کو کلفٹن، کراچی سے اغوا کیا گیا تھا۔ اغوا کاروں کا تعلق تحریک طالبان اور القاعدہ سے تھا۔ اغوا کار اس واقعے سے پاکستانی عوام میں خوف و دہشت پھیلانا چاہتے تھے مگر سیکیوریٹی فورسز نے ان کے عزائم خاک میں ملا دیے۔
٭آزاد کشمیر میں الیکشن
20 جولائی کو آزاد جموں وکشمیر میں پارلیمانی الیکشن منعقد ہوا۔ ریاست میں چھے لاکھ چوہتر ہزار مرد و زن ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ الیکشن میں 41 نشستوں کے لیے 423 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوا۔ یہ مقابلہ مسلم لیگ ن نے جیت لیا۔ اس کے 32 امیدوار کام یاب ہوئے۔ مسلم کانفرنس تین، پیپلزپارٹی دو اور پی ٹی آئی دو نشستیں جیت پائی۔ بعدازاں مسلم لیگ ن کے راجا فاروق حیدر ریاست کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پی پی پی نے وفاقی حکومت پر الیکشن میں دھاندلی کرنے کا الزام لگایا، تاہم پی ٹی آئی نے نتائج تسلیم کر لیے۔
٭آمروں کا دلیرو جری ناقد
تاعمر آمروں، دھوکے بازوں اور جاہ پسندوں کو للکارنے والی توانا آواز 21 جولائی کے روز خاموش ہو گئی۔ دانش ور، مدبر اور سیاست داں معراج محمد خان کی ساری زندگی یہی سعی رہی کہ وہ حق کی راہ پر گام زن رہیں، چاہے مال ومتاع کیا جان کی بھی قربانی دینا پڑے! معراج محمد خان 20 اکتوبر 1938ء کو فرخ آباد، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔1947ء میں اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان چلے آئے۔ 1962ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے فلسفہ کیا۔ اس زمانے میں صدر ایوب خان پے درپے امریکا سے عسکری و معاشی معاہدے کرنے میں مصروف تھے۔ معراج صاحب کا کہنا تھا کہ یوں پاکستان امریکی کالونی بن جائے گا۔ چناںچہ قومی آزادی وخودمختاری بحال رکھنے کی خاطر انہوں نے دیگر طلبہ وطالبات کے ساتھ مل کر ایوب خانی حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلائی اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ بعدازاں معراج صاحب نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھنے میں حصہ لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو انہیں وزیر محنت مقرر کیا۔ تاہم جلد ہی دونوں لیڈروں کی راہیں جدا ہو گئیں۔ اپنی افتادطبع کے بموجب معراج صاحب نے ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو صاحب، ضیاء الحق غرض تمام پاکستانی حکم رانوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی لیے وہ ہر حکم راں کے دور میں معتوب بنے رہے اور سرکاری میڈیا ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرتا رہا۔ باصلاحیت معراج محمد خان سیاست کو کمائی نہیں خدمتِ انسانیت کا ذریعہ بل کہ عبادت سمجھتے تھے۔ تاہم جس ملک میں سیاست و حکم رانی ذاتی خواہشات ومفادات کے تابع بن جائے، اس میں اصول پسند اور دیانت دار راہ نماؤں کی ایک نہیں سنی جاتی۔ صد افسوس پاکستانی سیاست نے کچھ ایسا ہی ناروا سلوک معراج محمد خان اور ان جیسے کئی یکتا ومحب وطن سیاست دانوں کے ساتھ بھی کیا۔ مگر مرحوم کبھی نااُمید اور مایوس نہیں ہوئے۔ کئی نام نہاد سیاسی راہ نماؤں کے برعکس بیرون ملک کو اپنا مسکن نہیں بنایا اور پاک مٹی ہی میں اپنا جسم وجاں جذب کرگئے۔
٭قرضے معاف کرانے والے امرا
22 جولائی کو پاکستان کی سینیٹ میں وفاقی وزیرخزانہ، اسحاق ڈار نے بذریعہ خط انکشاف کیا کہ مسلم لیگ ن حکومت پچھلے تین سال میں280ارب روپے کے قرضے معاف کرچکی۔ اس سے قبل سینیٹر اعظم سواتی نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ پچھلے تیس برس میں حکومتوں نے کتنی مالیت کے قرضے معاف کیے ہیں؟ اسحاق ڈار صاحب نے انکشاف کیا کہ پچھلے تیس برس کے دوران چار سو سے زاید نجی کمپنیاں بینکوں کے قرضے معاف کرانے میں کام یاب رہیں۔ اکثر قرضے پانچ کروڑ روپے مالیت سے زیادہ تھے۔ قرضے معاف کرانے میں وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ، سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا اور ان کے شوہر ذوالفقار مرزا، تحریک انصاف کے راہ نما جہانگیرترین اور شیریں مزاری اور کاروباری دنیا کی معروف ہستیاں شامل ہیں۔ قرضے معاف کرانے والوں میں سبھی امراء میں شمار ہوتے ہیں، نہ جانے پھر انہیں رقم معاف کرانے کی ضرورت کیوں پڑ گئی!
اگست 2016
کوئٹہ میں خودکش حملہ
بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر، بلال انور کاسی 8اگست کی صبح کوئٹہ میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ جب ان کی لاش گورنمنٹ اسپتال لائی گئی تو وہاں خودکش دھماکا ہوگیا اور ساتھ ہی دہشت گردوں نے فائرنگ بھی کی۔ اس واقعے میں 94 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مختلف جنگ جو تنظیموںداعش، جماعت الاحرار اور جنداﷲ نے حملے کی ذمے داری قبول کرلی۔ جنرل راحیل شریف نے اسے پاک چین اقتصادی راہداری پر حملہ قرار دیا۔15دسمبر کو سانحہ کوئٹہ کی تفتیش کرنے والے یک رکنی جوڈیشنل کمیشن نے اپنی 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کردی۔ اس میں وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مزیدبراں یہ نکتہ اجاگر کیا کہ سیاسی مداخلت اور اقربا پروری نے ریاستی ادارے تباہ کردیے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ بھی قرار دیا کہ افسران عوام کی خدمت کرنے کے بجائے وزراء کی خدمت میں مصروف ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کا موقف یہ ہے کہ کمیشن نے مجھے سنے بغیر اپنی رپورٹ دی نیز مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔
٭سائبر کرائم قانون
11 اگست کو صدر پاکستان نے سائبر کرائم بل پر دستخط کرکے اسے قانون کی صورت دے دی۔ اس قانون پر دانش وروں کا بڑا طبقہ تنقید کر رہا ہے۔ آئی ٹی کے ماہرین کی رو سے بھی قانون میں کئی سقم موجود ہیں۔ بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس قانون سے ناجائز فائدہ اٹھا کے خصوصاً پولیس انسانی حقوق پامال کرسکتی ہے، جب کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی، ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے سائبر کرائم بے اثر ہو چکا اور اس سے ''نیشنل ایکشن پلان'' پر عمل درآمد کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ گویا ایف آئی اے زیادہ سخت سائبر کرائم قانون چاہتی ہے تاکہ ملک دشمن سرگرمیوں پر قابو پایا جاسکے۔
٭بھائی کو بائے بائے
یہ 22 اگست کی بات ہے۔ کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیوایم کے کارکنان اپنے راہ نماؤں کی گم شدگی اور ماورائے عدالت قتل پر احتجاج کر رہے تھے۔ اس موقع پر لندن سے ایم کیو ایم کے بانی قائد نے بھی خطاب کیا۔ تب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی یہ تقریر نہ صرف پاکستان میں بھونچال پیدا کرے گی بل کہ اس کی وجہ سے اپنے ہی انہیں پارٹی سے جدا کر ڈالیں گے۔ اس عجیب وغریب تقریر میں انہوں نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا اور وطن عزیز کو کینسر قرار دے ڈالا۔ یوںوہ محب وطن پاکستانیوں اور حکومت کی نظر میں غدار قرار پائے۔ معاملہ ایک تقریر تک محدود ہوتا تو شاید وہ اتنا نمایاں نہ ہو پاتا۔ تقریر نے جلتی آگ پر تیل چھڑکنے جیسا اثر اس لیے پیدا کیا کہ طویل عرصے سے ان پر الزامات لگ رہے تھے کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں اور یہ کہ وہ شیخ مجیب الرحمن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کراچی میں علیحدہ ریاست تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ تقریر نے گویا ان الزامات پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ حکومت نے ایم کیو ایم کے خلاف اقدامات کرنے میں خاصی تیزی دکھائی۔ اس کے اہم لیڈر گرفتار کرلیے۔ پارٹی ہیڈ کوارٹر، نائن زیرو سیل کر دیا گیا۔ سیکڑوں کارکن بھی زیر حراست لیے گئے۔ بعدازاں کئی سیکٹر آفس بھی بلڈوز یا سیل کردیے گئے۔ حسب توقع پاکستان بھر میں عوام و خواص نے تقریر پر سخت ردعمل ظاہر کیا اور یہ آوازیں سنی گئیں کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگا دی جائے۔ اہل وطن کو شدید غم و غصے میں دیکھ کر ایم کیوایم کے سبھی لیڈر انقلابی اقدامات کرنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو نیا نام (ایم کیو ایم پاکستان) دیا اور اس کے آئین میں ترمیم کر ڈالی تاکہ ایم کیوایم کے بانی قائد کو ویٹو پاور سے محروم کیا جاسکے۔ ایم کیوایم پاکستان کے راہ نماؤں نے ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا تاکہ اپنی سیاسی و معاشرتی ساکھ محفوظ رکھ سکیں۔ چالیس سال قبل جب ایم کیوایم کے بانی قائد مہاجروں کو حقوق دلوانے کے لیے میدان ِ سیاست میں داخل ہوئے' تو انہیں بہت عروج ملا۔ وہ خصوصاً کراچی و حیدر آباد میں مقیم نوجوان مہاجر نسل کے ہیرو بن گئے۔ رفتہ رفتہ پارٹی میں سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے اور آمر کی حیثیت اختیار کرگئے ۔ ان کے ناقد کہتے ہیں کہ وائے قسمت انہوں نے افہام و تفہیم سے حقوق پانے کے بجائے زور زبردستی کا راستہ اپنایا اور شہر قائد کو لسانی تشدد و فساد کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اس وقت ایم کیو ایم ''پاکستان'' اور ''لندن'' کے ناموں سے دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔
کوئٹہ میں خودکش حملہ
بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر، بلال انور کاسی 8اگست کی صبح کوئٹہ میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ جب ان کی لاش گورنمنٹ اسپتال لائی گئی تو وہاں خودکش دھماکا ہوگیا اور ساتھ ہی دہشت گردوں نے فائرنگ بھی کی۔ اس واقعے میں 94 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مختلف جنگ جو تنظیموںداعش، جماعت الاحرار اور جنداﷲ نے حملے کی ذمے داری قبول کرلی۔ جنرل راحیل شریف نے اسے پاک چین اقتصادی راہداری پر حملہ قرار دیا۔15دسمبر کو سانحہ کوئٹہ کی تفتیش کرنے والے یک رکنی جوڈیشنل کمیشن نے اپنی رپورٹ جاری کردی۔ اس میں وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مزیدبراں یہ نکتہ اجاگر کیا کہ سیاسی مداخلت اور اقربا پروری نے ریاستی ادارے تباہ کردیے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ بھی قرار دیا کہ افسران عوام کی خدمت کرنے کے بجائے وزراء کی خدمت میں مصروف ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کا موقف یہ ہے کہ کمیشن نے مجھے سنے بغیر اپنی رپورٹ دی نیز مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔
٭سائبر کرائم بل کا بھوت
11 اگست کو صدر پاکستان نے سائبر کرائم بل پر دستخط کرکے اسے قانون کی صورت دے دی۔ اس قانون پر دانش وروں کا بڑا طبقہ تنقید کر رہا ہے۔ آئی ٹی کے ماہرین کی رو سے بھی قانون میں کئی سقم موجود ہیں۔ بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس قانون سے ناجائز فائدہ اٹھا کے خصوصاً پولیس انسانی حقوق پامال کرسکتی ہے، جب کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی، ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے سائبر کرائم بے اثر ہو چکا اور اس سے ''نیشنل ایکشن پلان'' پر عمل درآمد کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ گویا ایف آئی اے زیادہ سخت سائبر کرائم قانون چاہتی ہے تاکہ ملک دشمن سرگرمیوں پر قابو پایا جاسکے۔
٭پاکستانی کھلاڑیوں کا عمدہ کھیل
سرزمین انگلستان پر اپنے چوتھے اور آخری ٹیسٹ میں پاکستان نے برطانیہ کو دس وکٹوں سے شکست دے دی۔ یوں چار ٹیسٹوں کی سیریز دو دو سے برابر ہوگئی۔ 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر پاکستانی ٹیم نے یوں قوم کو بہترین تحفہ عطا کیا۔ اس ٹیسٹ سیریز میں پاکستانی کھلاڑیوں نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ اسی فتح کی بدولت پاکستانی ٹیم کو یہ تاریخی موقع ملا کہ وہ ٹیسٹ کی درجہ بندی میں اول ہونے کا اعزاز پا سکے۔
٭بھائی کو بائے بائے
یہ 22 اگست کی بات ہے۔ کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیوایم کے کارکنان اپنے راہ نماؤں کی گم شدگی اور ماورائے عدالت قتل پر احتجاج کر رہے تھے۔ اس موقع پر لندن سے ایم کیو ایم کے بانی قائد نے بھی خطاب کیا۔ تب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی یہ تقریر نہ صرف پاکستان میں بھونچال پیدا کرے گی بل کہ اس کی وجہ سے اپنے ہی انہیں پارٹی سے جدا کر ڈالیں گے۔ اس عجیب وغریب تقریر میں انہوں نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا اور وطن عزیز کو کینسر قرار دے ڈالا۔ یوںوہ محب وطن پاکستانیوں اور حکومت کی نظر میں غدار قرار پائے۔ معاملہ ایک تقریر تک محدود ہوتا تو شاید وہ اتنا نمایاں نہ ہو پاتا۔ تقریر نے جلتی آگ پر تیل چھڑکنے جیسا اثر اس لیے پیدا کیا کہ طویل عرصے سے ان پر الزامات لگ رہے تھے کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں اور یہ کہ وہ شیخ مجیب الرحمن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کراچی میں علیحدہ ریاست تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ تقریر نے گویا ان الزامات پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ حکومت نے ایم کیو ایم کے خلاف اقدامات کرنے میں خاصی تیزی دکھائی۔ اس کے اہم لیڈر گرفتار کرلیے۔ پارٹی ہیڈ کوارٹر، نائن زیرو سیل کر دیا گیا۔ سیکڑوں کارکن بھی زیر حراست لیے گئے۔ بعدازاں کئی سیکٹر آفس بھی بلڈوز یا سیل کردیے گئے۔ حسب توقع پاکستان بھر میں عوام و خواص نے تقریر پر سخت ردعمل ظاہر کیا اور یہ آوازیں سنی گئیں کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگا دی جائے۔ اہل وطن کو شدید غم و غصے میں دیکھ کر ایم کیوایم کے سبھی لیڈر انقلابی اقدامات کرنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو نیا نام (ایم کیو ایم پاکستان) دیا اور اس کے آئین میں ترمیم کر ڈالی تاکہ ایم کیوایم کے بانی قائد کو ویٹو پاور سے محروم کیا جاسکے۔ ایم کیوایم پاکستان کے راہ نماؤں نے ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا تاکہ اپنی سیاسی و معاشرتی ساکھ محفوظ رکھ سکیں۔ چالیس سال قبل جب ایم کیوایم کے بانی قائد مہاجروں کو حقوق دلوانے کے لیے میدان ِ سیاست میں داخل ہوئے' تو انہیں بہت عروج ملا۔ وہ خصوصاً کراچی و حیدر آباد میں مقیم نوجوان مہاجر نسل کے ہیرو بن گئے۔ رفتہ رفتہ پارٹی میں سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے اور آمر کی حیثیت اختیار کرگئے ۔ ان کے ناقد کہتے ہیں کہ وائے قسمت انہوں نے افہام و تفہیم سے حقوق پانے کے بجائے زور زبردستی کا راستہ اپنایا اور شہر قائد کو لسانی تشدد و فساد کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اس وقت ایم کیو ایم ''پاکستان'' اور ''لندن'' کے ناموں سے دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔