امین فہیم کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار نہ کرنے کا حکم
چیئرمین کی تقرری وزیراعظم نے کی، ذمے داری امین فہیم پر عائد نہیں کی جاسکتی، وکیل صفائی
ایف آئی اے وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے خلاف عدالت میں کمنٹس جمع نہ کراسکی۔ سندھ ہائی کورٹ نے این آئی سی ایل کیس میں انکی حفاظتی ضمانت میں 23اگست تک توسیع کرتے ہوئے ایف آئی اے کو دو ہفتوں میں کمنٹس داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس سیدحسن اظہر رضوی اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے وفاقی وزارت داخلہ اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کوہدایت کی ہے کہ مخدوم امین فہیم کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار اور مخدوم امین فہیم، ان کے اہل خانہ اور ملازمین کو ہراساں نہ کیا جائے۔ جمعرات کو سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے کمنٹس منظوری کیلیے اعلیٰ حکام کو بھجوائے گئے ہیں۔کمنٹس داخل کرنے کیلیے مہلت دی جائے، رشید اے رضوی ایڈووکیٹ کے توسط سے مخدوم امین فہیم کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیارکیاگیا ہے کہ ان کا تعلق ایک معتبر گھرانے سے ہے اور ان کا خاندان کئی عشروں سے قومی سیاست میں سرگرم ہے۔
درخواست گزار وفاقی وزیر تجارت کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں،ان کی وزارت نے این آئی سی ایل کے چیئرمین کے عہدے کیلیے انیس الحسن، نویدعارف اور ایازخان نیازی کے نام بھجوائے تھے تاہم وزیراعظم ہی ان کی تقرری کے مجاز تھے اس لیے ایاز خان نیازی کی تقرری کی ذمے داری درخواست گزار پر عائد نہیں ہوتی۔ درخواست گزار کو 4کروڑ15 لاکھ روپے کے بینک کے قرضے کا نادہندہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایف آئی اے حکام درخواست گزار اور ان کے اہل خانہ اور ملازمین کو مسلسل ہراساں کررہے ہیں۔
درخواست گزار نے یونین بینک سے 4 کروڑ 15لاکھ روپے کا قرض لیا تھا جو کہ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں ضم ہوگیا۔ بینک نے قرض کی ادائیگی کیلیے نوٹس جاری کیا، درخواست گزار نے اپنے منیجرعلی حسن ہنگورو کے ذریعے ڈیفنس میں واقع بنگلہ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ قرض کی ادائیگی کی جاسکے، محمد ظفرسلیم نامی شخص سے بنگلے کا سودا76ملین روپے میں طے ہوا۔ اس سلسلے میں 4کروڑ15لاکھ روپے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں جمع کرادیے گئے، طے شدہ معاہدے کے مطابق مزید رقم بھی محمد ظفرسلیم کو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں ہی جمع کرانی تھی۔
بنگلے کے خریدار محمدظفرسلیم ائیربلو حادثے میں جاں بحق ہوگئے بعدازاں ان کی بیوہ نے بنگلے کا سودا منسوخ کردیا جس پر رقم واپس کردی گئی، مخدوم امین فہیم نے استدعا کی کہ ان کے خلاف جاری تحقیقات کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور ایف آئی اے کو انھیں، ان کے اہل خانہ، ملازمین اور دیگر متعلقہ افراد کو ہراساں کرنے سے روکا جائے۔
جسٹس سیدحسن اظہر رضوی اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے وفاقی وزارت داخلہ اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کوہدایت کی ہے کہ مخدوم امین فہیم کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار اور مخدوم امین فہیم، ان کے اہل خانہ اور ملازمین کو ہراساں نہ کیا جائے۔ جمعرات کو سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے کمنٹس منظوری کیلیے اعلیٰ حکام کو بھجوائے گئے ہیں۔کمنٹس داخل کرنے کیلیے مہلت دی جائے، رشید اے رضوی ایڈووکیٹ کے توسط سے مخدوم امین فہیم کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیارکیاگیا ہے کہ ان کا تعلق ایک معتبر گھرانے سے ہے اور ان کا خاندان کئی عشروں سے قومی سیاست میں سرگرم ہے۔
درخواست گزار وفاقی وزیر تجارت کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں،ان کی وزارت نے این آئی سی ایل کے چیئرمین کے عہدے کیلیے انیس الحسن، نویدعارف اور ایازخان نیازی کے نام بھجوائے تھے تاہم وزیراعظم ہی ان کی تقرری کے مجاز تھے اس لیے ایاز خان نیازی کی تقرری کی ذمے داری درخواست گزار پر عائد نہیں ہوتی۔ درخواست گزار کو 4کروڑ15 لاکھ روپے کے بینک کے قرضے کا نادہندہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایف آئی اے حکام درخواست گزار اور ان کے اہل خانہ اور ملازمین کو مسلسل ہراساں کررہے ہیں۔
درخواست گزار نے یونین بینک سے 4 کروڑ 15لاکھ روپے کا قرض لیا تھا جو کہ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں ضم ہوگیا۔ بینک نے قرض کی ادائیگی کیلیے نوٹس جاری کیا، درخواست گزار نے اپنے منیجرعلی حسن ہنگورو کے ذریعے ڈیفنس میں واقع بنگلہ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ قرض کی ادائیگی کی جاسکے، محمد ظفرسلیم نامی شخص سے بنگلے کا سودا76ملین روپے میں طے ہوا۔ اس سلسلے میں 4کروڑ15لاکھ روپے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں جمع کرادیے گئے، طے شدہ معاہدے کے مطابق مزید رقم بھی محمد ظفرسلیم کو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں ہی جمع کرانی تھی۔
بنگلے کے خریدار محمدظفرسلیم ائیربلو حادثے میں جاں بحق ہوگئے بعدازاں ان کی بیوہ نے بنگلے کا سودا منسوخ کردیا جس پر رقم واپس کردی گئی، مخدوم امین فہیم نے استدعا کی کہ ان کے خلاف جاری تحقیقات کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور ایف آئی اے کو انھیں، ان کے اہل خانہ، ملازمین اور دیگر متعلقہ افراد کو ہراساں کرنے سے روکا جائے۔