پاک بھارت سیریز کو اسپیشل اسٹیٹس ملنا چاہیے رمیز
حالیہ ٹی 20 اور ون ڈے میچز کے مختصر ٹور سے بہت امیدیں ہیں لیکن یہ پاکستان کے نقطہ نظر سے انتہائی مختصر دورہ ہے۔
سابق پاکستانی کپتان رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ پاک، بھارت کرکٹ سیریز کو ایشز کی طرز پر عالمی سطح پر اسپیشل اسٹیٹس ملنا چاہیے۔
آئی سی سی کو دونوں ممالک کے درمیان کیلنڈر میں باہمی سیریز شیڈول رکھنی چاہئیں،کوئی بھی سیریز چاہے وہ پاکستان میں ہویا بھارت میں خوش آئند اقدام ہے، مجھے حالیہ ٹی 20 اور ون ڈے میچز کے مختصر ٹور سے بہت امیدیں ہیں لیکن یہ پاکستان کے نقطہ نظر سے انتہائی مختصر دورہ ہے، میں اس کے بجائے پانچ ٹیسٹ اور اتنے ہی ون ڈے کو ترجیح دیتا،یا کم از کم تین ٹیسٹ اور کچھ ون ڈے میچز ہونے چاہیے تھے، ایک انٹرویو میں سابق اوپنر نے کہاکہ یقینی طور پردباؤ زیادہ اور ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے مگرکھیل کے اختتام پر پلیئرز کو اپنے ملک کے اچھے سفیر کی طرح برتائو کرنا چاہیے،پلیئرز کے پاس باہمی مقابلوں میں پرفارم کرکے یکدم ہیرو بن جانے کا موقع ہوتا ہے، شاہد آفریدی کو ون ڈے کے لیے منتخب نہ کیے جانے کے سوال پر رمیز نے کہا کہ مجھے پہلا تاثر یہ ملا کہ آفریدی 50 اوورز کے مقابلے کھیلنا نہیں چاہتے تھے۔
وہ پاکستان کرکٹ کا اثاثہ اور ملکی کرکٹ کے مارکیٹنگ میں بہت اہم ہیں، چاہے وہ پرفارم نہیں کریں مگر ان کی موجودگی حریف ٹیم کے پسینے چھڑانے کیلیے کافی ہوتی ہے، اگر میں حفیظ کی جگہ ہوتا تو آفریدی کو کہتا کہ تمہیں 10 گیندوں پر 20رنز بناکر دینا ہیں اور اپنے کوٹے کے چار اوورز میں 20سے زائد رنز نہیں دینا، انھوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آفریدی اپنا اعتماد کھوچکا اور صرف خود کو بولر کے طورپر دیکھتا ہے، وہ بطور بیٹسمین اپنا کردار فراموش کرچکا، بلاشبہ وہ اس وقت شدید دبائو میں ہے کیونکہ ہر پاکستانی توقع رکھتا ہے کہ وہ ہمیشہ میچ ونر رہے گا، انھوں نے کہا کہ سعید اجمل دونوںٹیموں کے درمیان بڑا فرق ہے، بھارتی اسے عمدگی سے نہیں کھیل پائیں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حفیظ نے ٹیم میں شامل تمام پلیئرز کو ان کے کردار کے متعلق تفصیل سے بتارکھا ہے، جس کے بعد اس کا کام آسان ہوگیا، وہ پُرسکون رہتا اور ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھے ہوئے ہے جو سب سے اہم بات ہے، وہ وقت کے ساتھ مزید بہتری پائے گا، رمیز نے پاکستان کرکٹ میں کپتانی کی تقسیم کو بھی سراہا، انھوں نے کہا کہ ٹی 20 میں حفیظ اور ون ڈے و ٹیسٹ میں مصباح اچھی قیادت کررہے ہیں،یہ بات ہماری ٹیم کے صحتمندانہ ماحول کی عکاس ہے،انھوں نے کہا کہ بھارت کے پاس قیادت میں دھونی کا متبادل کوہلی موجود ہے لیکن24 برس کی عمر میں اسے ذمہ داری سونپنا درست نہ ہو گا۔
آئی سی سی کو دونوں ممالک کے درمیان کیلنڈر میں باہمی سیریز شیڈول رکھنی چاہئیں،کوئی بھی سیریز چاہے وہ پاکستان میں ہویا بھارت میں خوش آئند اقدام ہے، مجھے حالیہ ٹی 20 اور ون ڈے میچز کے مختصر ٹور سے بہت امیدیں ہیں لیکن یہ پاکستان کے نقطہ نظر سے انتہائی مختصر دورہ ہے، میں اس کے بجائے پانچ ٹیسٹ اور اتنے ہی ون ڈے کو ترجیح دیتا،یا کم از کم تین ٹیسٹ اور کچھ ون ڈے میچز ہونے چاہیے تھے، ایک انٹرویو میں سابق اوپنر نے کہاکہ یقینی طور پردباؤ زیادہ اور ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے مگرکھیل کے اختتام پر پلیئرز کو اپنے ملک کے اچھے سفیر کی طرح برتائو کرنا چاہیے،پلیئرز کے پاس باہمی مقابلوں میں پرفارم کرکے یکدم ہیرو بن جانے کا موقع ہوتا ہے، شاہد آفریدی کو ون ڈے کے لیے منتخب نہ کیے جانے کے سوال پر رمیز نے کہا کہ مجھے پہلا تاثر یہ ملا کہ آفریدی 50 اوورز کے مقابلے کھیلنا نہیں چاہتے تھے۔
وہ پاکستان کرکٹ کا اثاثہ اور ملکی کرکٹ کے مارکیٹنگ میں بہت اہم ہیں، چاہے وہ پرفارم نہیں کریں مگر ان کی موجودگی حریف ٹیم کے پسینے چھڑانے کیلیے کافی ہوتی ہے، اگر میں حفیظ کی جگہ ہوتا تو آفریدی کو کہتا کہ تمہیں 10 گیندوں پر 20رنز بناکر دینا ہیں اور اپنے کوٹے کے چار اوورز میں 20سے زائد رنز نہیں دینا، انھوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آفریدی اپنا اعتماد کھوچکا اور صرف خود کو بولر کے طورپر دیکھتا ہے، وہ بطور بیٹسمین اپنا کردار فراموش کرچکا، بلاشبہ وہ اس وقت شدید دبائو میں ہے کیونکہ ہر پاکستانی توقع رکھتا ہے کہ وہ ہمیشہ میچ ونر رہے گا، انھوں نے کہا کہ سعید اجمل دونوںٹیموں کے درمیان بڑا فرق ہے، بھارتی اسے عمدگی سے نہیں کھیل پائیں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حفیظ نے ٹیم میں شامل تمام پلیئرز کو ان کے کردار کے متعلق تفصیل سے بتارکھا ہے، جس کے بعد اس کا کام آسان ہوگیا، وہ پُرسکون رہتا اور ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھے ہوئے ہے جو سب سے اہم بات ہے، وہ وقت کے ساتھ مزید بہتری پائے گا، رمیز نے پاکستان کرکٹ میں کپتانی کی تقسیم کو بھی سراہا، انھوں نے کہا کہ ٹی 20 میں حفیظ اور ون ڈے و ٹیسٹ میں مصباح اچھی قیادت کررہے ہیں،یہ بات ہماری ٹیم کے صحتمندانہ ماحول کی عکاس ہے،انھوں نے کہا کہ بھارت کے پاس قیادت میں دھونی کا متبادل کوہلی موجود ہے لیکن24 برس کی عمر میں اسے ذمہ داری سونپنا درست نہ ہو گا۔