ایران میں انسانی حقوق کی آزادی کا بل

صدر حسن روحانی نے اس حوالے سے کچھ اصول متعارف کرائے جن کے ذریعے ریاستی اداروں کی کارکردگی کو چیک کیا جا سکے گا


Zamrad Naqvi January 02, 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

KATHMANDU: ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے ایک ایسا بل پچھلے دسمبر کے آخر میں متعارف کرایا ہے جو تقریر کی آزادی، احتجاج، فیئر ٹرائل اور فرد کی پرائیویسی کی ضمانت دیتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ شہری حقوق ہیں جو انقلاب ایران کے بعد کم یا سلب کر لیے گئے تھے کیونکہ اس وقت ایرانی انقلاب بیرونی اور اندرونی طور پر بڑے خطرات سے دوچار تھا۔

صدر حسن روحانی نے اس حوالے سے کچھ اصول متعارف کرائے جن کے ذریعے ریاستی اداروں کی کارکردگی کو چیک کیا جا سکے گا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ آج میرا عوام سے کیا گیا ایک ہم وعدہ پورا ہو گیا ہے اور یہ وعدہ میرے بہت سے خوابوں میں سے ایک تھا جس کی میں نے تعبیر حاصل کی ہے۔ اس موقع پر روحانی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والی اتھارٹی کو اپنے اختیارات کی حدود کا احترام کرنا چاہیے۔ اس قانون کی رو سے اب کسی کو اجازت نہیں ہو گی کہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص کے گھر، دکان اور پرائیویٹ کام کی جگہ پر داخل ہو سکے یہ دریافت کرنے کے لیے کہ کوئی جرم یا گناہ سرزد ہو رہا ہے۔

صدر روحانی کے موجودہ بل کے پیش کرنے کا پس منظر یہ ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں انھوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک ایسا بل متعارف کرائیں گے جس میں شہریوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔ روحانی نے کہا کہ یہ بل ابھی باقاعدہ قانون نہیں بنا لیکن جلد اس کا نفاذ ہر ایک پر ہو گا۔ اصلاح پسند جن کی نمائندگی حسن روحانی اور ان کا گروپ کرتا ہے کو آئندہ الیکشن میں اس بل کی وجہ سے سبقت حاصل ہو سکتی ہے۔ جو اگلے سال مئی 2017ء میں ہو رہے ہیں جس میں روحانی صدارت کے امیدوار ہیں۔

شہری حقوق کے تحفظ کے لیے ایک نئے خصوصی ڈپٹی کا تقرر کیا جائے گا جو کہ سرکاری محکموں کے ساتھ مل کر اصلاحی منصوبے بنائے گا اور سالانہ رپورٹ کی شکل میں اس کی پراگریس پر نظر رکھے گا۔ صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ایرانی عوام کے دوسرے مطالبات میں سے ایک بڑا مطالبہ شہری حقوق کا مطالبہ ہے۔

یاد رہے کہ انقلاب ایران کے فوری بعد جو آئین لکھا گیا اس میں ایرانیوں کے حقوق محدود کر دیے گئے۔ اس آئین کے تحت بہت سے ادارے جس میں عدلیہ اور طاقتور انقلابی گارڈز شامل ہیں ان پر سخت گیر عناصر کا بڑا مضبوط کنٹرول ہے اور یہ ادارے کسی بھی حوالے سے ایرانی صدر کو جوابدہ نہیں ہیں۔

دنیا میں جب بھی جہاں بھی انقلاب آتا ہے وہ رد انقلاب کے خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے چاہے وہ روس ہو یا کیوبا یا ایران۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ انقلاب سے پہلے جو گروہ اقتدار پر قابض ہوتے ہیں وہ بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ وہ وقتی طور پر انقلابیوں سے شکست تو کھا جاتے ہیں لیکن وہ اپنی بکھری ہوئی قوت کو مجتمع کرکے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان کی قوت کا مکمل خاتمہ نہیں ہو پاتا۔ چنانچہ ان کی مزاحمت کا سلسلہ بہت دیر تک جاری رہتا ہے۔ چنانچہ انقلابیوں کو اپنے انقلاب کو بچانے کے لیے سخت ترین اقدام کرنے ہوتے ہیں۔

ہر انقلاب خونی ہوتا ہے جس میں بے پناہ قتل و غارت ہوتا ہے جس میں گناہ گاروں کے ساتھ بہت سے بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں۔ رد انقلاب کی اندرون و بیرون ملک قوتیں کیوں کہ بہت طاقتور ہوتی ہیں اس لیے انقلاب کو بچانے کے لیے انقلابی گروہ مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ عوام کے حق آزادی کو کم اور محدود سے محدود تر کردے۔ اس طرح عوام کے ایک محدود گروہ اور کچھ اداروں میں ریاستی طاقت کا ارتکاز ہو جاتا ہے اور یہ سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے ہیں۔ اس طرح سے چند افراد اور اداروں کی بدترین آمریت جنم لیتی ہے۔ یہ سب کچھ حالات و وقت کا جبر ہوتا ہے۔ انقلاب خطرے میں ہے کا ڈراوا دے کر عوام کو ان کے انسانی اور شہری حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

بیرون ملک رد انقلاب قوتیں بھی اس وقت کی منتظر ہوتی ہیں کہ اپنے انسانی حقوق سے محروم عوام اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ فوری طور پر کسی انقلاب کو ختم کرنے کے لیے اس پر جنگ مسلط کی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کا معاشی بائیکاٹ اور پھر اسے عالمی تنہائی سے دوچار کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس ملک کے عوام انسانی آزادی کے خاتمے کے ساتھ معاشی بدحالی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن حکمران گروہ کیونکہ طویل مدت سے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے اس لیے وہ عوام کے سلب کیے ہوئے حقوق کسی صورت واپس کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ چنانچہ عوام اور حکمران گروہ کے درمیان ایک بہت بڑی کشمکش کا آغاز ہو جاتا ہے۔

نیا بل بھی ایران کے اندر انسانی حقوق کی ایک بڑی جنگ کا آغاز بن سکتا ہے۔ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ ایرانی اصلاح پسند اس وقت ہی یہ بل لانے میں کامیاب ہو سکے جب ایران پر امریکا یورپ کا دباؤ کم ہوا۔ وہ دباؤجو ایران دشمنی پر مبنی تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی مقتدر سخت گیر عناصر نے لبرل ترقی پسند قوتوں کا راستہ ایک عرصے تک روکے رکھا۔ ایران میں لبرل ترقی پسند قوتوں کا طاقتور ہونا پاکستان افغانستان اور مشرق وسطی کی روشن خیال قوتوں کو طاقتور بنا کر قدامت پرستی کے خاتمے میں مدد گار ثابت ہو گا۔

نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ برسراقتدار آ کر امریکا ایران جوہری ڈیل کا خاتمہ کر دیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے خطے میں پیچھے ہٹتے ہوئے قدامت پسندی کے پاؤں پھر سے مضبوط ہو جائیں گے۔امریکی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے اس بات پر ٹرمپ کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ ایران امریکا جوہری ڈیل کا خاتمہ کرتے ہیں تو یہ تباہ کن ہو گا اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بے وقوفی کی انتہا ہو گی۔ اس کے نتیجے میں ایران سمیت خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ نتیجہ فوجی محاذ آرائی کی شکل میں برآمد ہو گا۔

امریکا ایران جوہری ڈیل کا مستقبل کیا ہے اس کا فروری مارچ میں پتہ چلے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں