رالف فاکس ایک صداقت پسند انقلابی

اسپین کے دفاع کے لیے آنے والوں میں امریکا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، برطانیہ و نیوزی لینڈ کے مجاہد شامل تھے


ایم اسلم کھوکھر January 02, 2017

گویا دنیا بھر کے جمہوریت پسند تڑپ ہی تو اٹھے تھے، جب 17 جون 1936ء کو موجودہ نام اسپین و سابقہ نام ہسپانیہ پر ایڈولف ہٹلر و مسولینی کی حمایت پاکر فرانکو نے اسپین کے فوجی جنرلوں و جاگیرداروں کی شدید خواہش پر اسپین کی جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ یوں بھی فقط چھ برس قبل یعنی 1930ء کو ہی تو جمہوری حکومت قائم ہوئی تھی، البتہ اس جمہوری حکومت نے سماج میں مساوات کا نظام قائم کرنے کا عزم کرتے ہوئے تمام بڑی چھوٹی جاگیریں قومی ملکیت میں لے کر عام و چھوٹے کسانوں کو ان زمینوں کی تقسیم شروع کردی تھی۔

اس وقت اسپین میں اکثریت ان جاگیردار خاندانوں سے تعلق رکھنے والے فوجی جنرلوں کی تھی، اس لیے یہ فوجی جنرل فرانکو کی قیادت میں متحد ہوگئے تھے، جنھیں یہ کسی صورت گوارا نہ تھا کہ ان زمینوں کو، جن پر نسلوں سے قابض چلے آرہے ہیں یوں غریب کسانوں میں مساوی طریقے سے تقسیم کردیا جاتا۔ چنانچہ اسپین کے جمہوریت پسند عوام نے اپنے جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھا لیے اور دوبدو لڑائی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اسپین کے فوجی جنرلوں کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ اسپین کے جمہوریت پسند عوام کا مقابلہ کرپاتے، ایسے میں ایڈولف ہٹلر و مسولینی نے جن کا تعلق بالترتیب جرمنی و اٹلی سے تھا، تمام تر حربی ساز و سامان کے ساتھ اسپین پر حملہ آور ہوگئے۔ ان حالات میں اسپین کے جمہوریت پسند مجاہدوں نے دنیا کے جمہوریت پسند لوگوں کو یہ دعوت دی کہ آؤ جمہوریت و اسپین کا دفاع کرنے میں ہماری مدد کرو۔ چنانچہ دنیا بھر کے جمہوریت پسند جنھیں یہ ادراک تھا کہ اسپین کا دفاع درحقیقت یورپ کا دفاع ہے، نے اپنے اپنے ملکوں کو خیرباد کہا اور اسپین کے جمہوریت پسندوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسپین و جمہوریت کی حفاظت کے لیے آنا شروع ہوگئے۔

اسپین کے دفاع کے لیے آنے والوں میں امریکا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، برطانیہ و نیوزی لینڈ کے مجاہد شامل تھے۔ یہ آنے والے مجاہدین مزدور تھے، کسان تھے، ادیب و شاعر تھے۔ یہ لوگ اپنے کارخانے، کھیت و قلم چھوڑ کر آئے تھے۔ ان دانشوروں میں امریکی شاعر لونگ اسٹون ہوگنس تھا، برطانوی ادیب ڈیوڈ گیسٹ تھا، رالف فاکس تھا۔ یہ بھی برطانوی تھا، البتہ ان ادبا میں شامل رافیل ابرٹی کا تعلق اسی دیس اسپین سے تھا، البتہ آج کی ہماری گفتگو کا موضوع ہے رالف فاکس، جس نے 1900ء میں ہالی فیکس کے مقام، ملک برطانیہ میں جنم لیا تھا۔

رالف فاکس نے کسی مفلس گھرانے میں جنم نہ لیا تھا بلکہ اس کا گھرانہ اس کے جنم لینے سے قبل ہی اہل ثروت گھرانہ تھا۔ رالف فاکس اسے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تھا۔ پہلی عالمگیر جنگ جب 1914ء میں شروع ہوکر 1918ء میں اختتام پذیر ہوئی تو اس وقت سن بلوغت کو چھونے والے رالف فاکس نے اس عالمگیر جنگ کی تباہ کاریوں کا اثر حد درجہ محسوس کیا۔ 1917ء میں روس میں آنے والے انقلاب نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو گویا یہ پیغام دیا کہ دنیا بھر کے محنت کشوں کی جبر سے نجات فقط کمیونزم نظام ہی سے ممکن ہے۔ چنانچہ رالف فاکس بھی کمیونزم سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا اور وہ کمیونزم کی جانب راغب ہوتا چلا گیا۔

20 برس کی عمر میں وہ کمیونزم کا ادراک کر چکا تھا۔ اس حقیقت کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ اس نے 1920ء میں کمیونسٹ پارٹی آف برطانیہ کی رکنیت حاصل کرلی۔ یہ اس کی زندگی کا اہم ترین فیصلہ تھا۔ اس فیصلے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ اپنی پرانی زندگی کے خلاف لڑے گا اور نئی زندگی کے لیے جدوجہد کرے گا۔ اس سلسلے میں کمیونسٹ پارٹی آف برطانیہ کے اس وقت کے جنرل سیکریٹری ہیری پولٹ یوں اظہار خیال کرتا ہے کہ وہ کمیونسٹ پارٹی میں آیا نہیں تھا بلکہ اس نے کمیونسٹ پارٹی میں شرکت کی تھی۔

1922ء میں رالف فاکس نے قلم تھام لیا اور صحافت کے ساتھ ساتھ 12 عدد کتابیں بھی تحریر کر ڈالیں۔ وہ 12کتابیں تھیں۔(1) نوجوان کپتان (ڈرامہ)، (2) اسٹیپ کے لوگ، (3) طوفانی بہشت، (4) لینن، (5) برطانوی سامراج کی نوآبادیاتی پالیسی، (6) آئرلینڈ کا مسئلہ اور مارکس و اینگلز، (7) برطانیہ میں طبقاتی کشمکش، (8) کمیونزم، (9) چنگیز خان، (10) پرتگال، (11) فرانس کا مستقبل، (12) ناول اور عوام۔ اس کے علاوہ رالف فاکس نے کئی روسی کتابوں کے تراجم بھی کیے، جب کہ ایک صحافی کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض سے غافل نہ رہا اور ایک صداقت پسند صحافی کا فریضہ خوب ادا کیا اور وہ پارٹی کے ترجمان اخبارات میں لکھتا رہا۔

رالف فاکس ایک بہترین معلم بھی تھا، وہ اکثر کہا کرتا کہ منظم ہوجاؤ، تعلیم حاصل کرو، کیونکہ آزادی کی جنگ میں سپاہیوں کی اشد ضرورت ہے، صرف کتابیں اس ضرورت کو پورا نہیں کرتیں۔ جنگ سے اس کی مراد طبقاتی لڑائی تھی، ایسی لڑائی جوکہ جغرافیائی نہیں، سماجی تبدیلی کا باعث ہو۔ رالف فاکس کو موسم بہار میں فرانس کے شہر پیرس میں 1935ء میں منعقد ہونے والی کانگریس میں شرکت کا موقع بھی ملا، جس میں دنیا بھر کے ترقی پسند ادبا نے شرکت کی تھی۔ اس کانگریس میں شریک تمام ادبا نے یہ عہد کیا تھا کہ آنے والے وقتوں میں وہ ایسا ادب تخلیق کریں گے جس کو پڑھنے سے قاری خواب خرگوش کے مزے نہ لوٹے بلکہ شعوری طور پر بیدار ہو جائے۔

پیرس کانگریس میں ہندوستان کی نمائندگی کامریڈ سید سجاد ظہیر و ملک راج آنند نے کی تھی۔ رالف فاکس کمیونسٹ پارٹی کو مضبوط ترین دیکھنا چاہتا تھا، اس کے لیے وہ شب و روز محنت کرتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ اب اس کی پہچان ایک ادیب کے بجائے سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہونے لگی تھی۔ چنانچہ پیرس کانگریس کے دوران اسی کے کمرے میں مقیم ایک امریکی ادیب ان الفاظ میں اظہار خیال کرتا ہے کہ ایک روز میں نے رالف فاکس سے دریافت کر ہی لیا کہ کیا وجہ ہے کہ تمہیں ایک ادیب کے بجائے ایک سیاسی کارکن ہی تصور کیا جاتا ہے؟

اس سوال پر رالف فاکس کا جواب یہ تھا کہ یہ الزام مجھے روز ہی سننا پڑتا ہے، چنانچہ میرا خیال ہے مجھے ناولوں کا ایک سلسلہ شروع کر ہی دینا چاہیے۔ رالف فاکس کے کمرے میں یہ ادیب تھا مائیکل گور، جب کہ رالف فاکس کے کمرے کا دوسرا ساتھی تھا جیمز ہینلی۔ پیرس کانگریس کے موقع پر خود رالف فاکس کو بھی یہ گمان نہ ہوا ہوگا کہ اسے فقط ایک برس بعد ایک دوسرے دیس میں جاکر قلم کے بجائے اپنے ہاتھوں میں بندوق لے کر ایک ایسی لڑائی میں شرکت کرنا تھی جس لڑائی میں آزادی کے تمام سپاہیوں کو اپنی موت کا مکمل یقین تھا، وہ سپاہی اس یقین کے ساتھ اس لڑائی میں شریک تھے کہ بلاشبہ ہم نہ ہوں گے مگر آنے والے انسان ایک پرامن ماحول میں زندگی گزار سکیں گے۔

یہ جذبہ دیس کے جمہوریت پسندوں کو اسپین میں لے کر آیا تھا۔ آزادی کے ان مجاہدوں کو پانچویں رجمنٹ کا نام دیا گیا تھا۔ بہرکیف 2 جنوری 1937ء کو انگریزی بولنے والے جمہوریت پسندوں و فاشسٹوں کے مابین بھرپور معرکہ ہوا۔ جمہوریت پسند باوجود اس کے کہ دشمن تعداد میں ان سے کئی گنا زیادہ تھا اور اسے فضائی برتری بھی حاصل تھی، ان آزادی کے مجاہدوں نے خوب مقابلہ کیا۔ یہ مقابلہ لوپرا گاؤں کے قریب ہوا اور اسی معرکے میں رالف فاکس شدید زخمی ہونے کے باوجود زندہ بچ جانے والوں کو تلقین کر رہا تھا کہ یہاں سے چلے جاؤ اور منظم ہوکر دشمن کا مقابلہ کرو۔ اسی حالت میں رالف فاکس نے جان دے دی۔

جنگ کے بعد کے حالات و واقعات نے ثابت کردیا کہ بارسلونا، میڈرڈ و گرونیکا کی لڑائی بلکہ اسپین کی لڑائی نے یورپ کو بچا لیا تھا۔ آج 2 جنوری 2017ء ہے، رالف فاکس کی 80 ویں برسی کا دن۔ ہم رالف فاکس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عہد کے ساتھ کہ سماج کی آزادی تک جدوجہد جاری رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں