خیبر پختون خوا میں اگلی حکومت کس کی ہو گی

مہذب دنیا میں حکومت بننے کے بعد سیاسی جلسے جلوس بڑی حد تک ختم ہو جاتے ہیں

آئندہ عام انتخابات میں ابھی کافی عرصہ پڑا ہے لیکن وطن عزیز میں جب بھی کوئی نئی حکومت بنتی ہے یا تو ٹیلی وژن اینکر اسے اگلے ہی دن گرائے جانے کے ایسے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ اور یا پھر سیاست دان جلسے جلوس شروع کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکومت کسی بھی لمحے ختم ہو جائے گی اور وہ نئی حکومت کا حصہ ہوں گے۔

مہذب دنیا میں حکومت بننے کے بعد سیاسی جلسے جلوس بڑی حد تک ختم ہو جاتے ہیں، حکومت تعمیر و ترقی کے اقدامات کرتی ہے ، اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں مسئلے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دی جاتی ہے۔ وسائل بہتر بنانے اور مسائل سے عوام کو چھٹکارا دلانے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اپوزیشن پارلیمان کے اندر حکومتی غلطیاں سامنے لاتی ہے حکومت پر تنقید کی جاتی ہے اور تعمیری تنقید کی روشنی میں حکومت کو ملک و قوم کی بہتری کے اقدامات کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں شاید صبر و تحمل اور برداشت کا مادہ ختم ہو گیا ہے اس لیے اگر آپ پاکستان تحریک انصاف کو دیکھیں تو خیبر پختون خوا میں حکومت کے باوجود وفاق کو نیچا دکھانے کے لیے اس پارٹی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی کبھی دھرنے تو کبھی جلسے،کبھی اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا پروگرام تو کبھی سڑکیں بند ،کبھی احتجاجی مظاہرے تو کبھی دھمکیاں!یہ میری ذاتی رائے ہرگز نہیں بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ کاش عمران خان پنجاب کے پیچھے پڑنے کے بجائے پشاور میں گھر لیتے یہاں لوگوں سے ملتے، ترقیاتی کام بہ نفس نفیس دیکھتے، لوگوں کے مسائل پر توجہ دیتے، حکومت کو اپنی رائے اور مشورے دیتے تو پشاور پیرس نہیں تو کم از کم ساڑھے تین سال میں پیرس کا ایک گاؤں تو بن ہی جاتا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمعہ کی شام سے اتوار کی رات تک اپنے حلقے میں جلسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، نجانے انھیں کیا پریشانی ہے حکومت میں رہتے ہوئے انھیں جلسوں کی کیا ضرورت پڑ گئی اور یہ ہمارے لیے بھی حیرت سے کم نہیں کہ جب ہر ہفتے وزیر اعلیٰ دو تین سیاسی جلسے کریں تو عوام بھی سوچتی ہے کہ شاید حکومت جانے والی ہے، گویا وہ کام جو اینکر اور بعض اپوزیشن جماعتیں کر رہی ہیں خود پی ٹی آئی نے کر دیا۔

جب برسراقتدار پارٹی جلسے کرے تو پھر دیگر سیاسی جماعتیں بھی کیوں پیچھے رہیں ،عوامی نیشنل پارٹی نے بھی باقاعدہ جلسے شروع کر دیے ہیں، آفتاب شیرپاؤ قومی وطن پارٹی کے جلسوں کی شان بڑھاتے ہیں، امیر مقام مسلم لیگ کو عام کرنے کے چکر میں جلسے کر کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مبارکبادیں وصول کرتے ہیں تو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی میدان میں نکلنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ گذشتہ چند ہفتوں میں انھوں نے اپنی بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کر کے حکمرانوں پر وار کیے ہیں۔


مولانا کے ان سیاسی جلسوں اور خاص طور پر صوابی میں ہونے والے جلسے میں ان کی جانب سے پی ٹی آئی پر لگائے جانے والے الزامات کے جوابات کا انتظار ہے لیکن ان کی یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی سیاست ختم ہو رہی ہے اور پاکستان کا مستقبل بدلنے والا ہے اگر ان کا اشارہ اس جانب ہے کہ سیاست کے انداز بدلنے والے ہیں اور دیگر سیاسی جماعتیں بدلتے زمانے کے ساتھ ایک نئے انداز میں سیاست کرنا چاہتی ہیں تو اس سے اتفاق کیا جا سکتا ہے، ساتھ ہی انھوں نے صوابی میں ہونے والے اس بہت بڑے سیاسی جلسے میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو خوب لتاڑا، ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختون خوا میں کرپشن عروج پر ہے، اگر مولانا نے ایسا سچ میں کہا ہے تو یقیناً ان کے پاس ثبوت بھی ہوں گے کیونکہ مولانا کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ بنا تولے بولتے نہیں اور جب بولتے ہیں تو پھر پیچھا چھوڑتے نہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ ہماری تہذیب اور ثقافت پر غیر مسلم حملہ آور ہو رہے ہیں اور انھوں نے یہ کام کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کا انتخاب کیا جو ان کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہی ہے لیکن داڑھی اور پگڑی والے جو پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں کسی بھی طور پاکستان تحریک انصاف کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔

انھوں نے کرپشن کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ دو صوبائی وزراء کو آخرکیوں ہٹایا گیا تھا ؟مخلوط حکومت میںشامل سیاسی جماعت پر الزامات پی ٹی آئی نے ہی عائد کیے تھے،چیف سیکرٹیریوں کو کیوں ہٹایا گیا؟بینک آف خیبر کا کیا معاملہ تھا ؟ صوبے میں آخر کس قدر ترقیاتی کام ہو رہے ہیں؟حکمرانوں کو اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں کتنا علم ہے؟بے روزگاری میں کس قدر کمی آئی ہے؟گویا ایک طرف مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی حکومت پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں تو دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین بھی پی ٹی آئی کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے درپے ہیں۔

مسلم لیگ ن نے سوات، مردان، کوہاٹ اور پشاور سمیت کئی شہروں میں بڑے جلسے کر کے بڑے واضح اشارے دے دیے ہیں اور کسی حد تک نواز شریف کی یہ حکمت عملی درست ثابت کر دی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو صوبے میں حکومت نہ کرنے دی جاتی تو اسے کس طرح ایکسپوز کیا جا سکتا تھا ۔رہ گئی پیپلز پارٹی تو نئے صوبائی صدر ہمایوں خان نے پارٹی کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے اور جلد ہی پاکستان پیپلز پارٹی بھی پاکستان تحریک انصاف سے حساب کتاب چکانے میدان میں ہو گی۔

سیاسی پنڈت یہ بھی جانتے ہیں کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں انٹری دینے کا جو پروگرام بنایا ہے اس کے پیچھے بھی حکمت ہے کہ نواز شریف حکومت کو اس کی مدت پوری کرنے دی جائے اور پھر نواز شریف کی مخالفت کر کے پیپلز پارٹی کے ورکرز کے جذبات سے کھیلا جائے ایسے میں خیبر پختون خوا میں اگلے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے خدوخال بھی واضح ہونا شروع ہو جائیں گے کہ مستقبل میں پاکستان تحریک انصاف کا میدان پنجاب میں لگے گا اور اس صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن،قومی وطن پارٹی، جمیعت علمائے اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی میں سے تین پارٹیوں کی مخلوط حکومت بنے گی۔

اس صوبے کے عوام نے تجربات مکمل کر لیے ہیں اب کسی کو نہ تو یہاں کے عوام سے کسی نئے تجربے کی توقع کرنی چاہیے اور نہ موجودہ حکومت کو کسی خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت ہے کہ کم از کم اس صوبے کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ایک بار حکومت کرنے والے دوسری بار مشکل سے واپس آتے ہیں، گویا مولانا فضل الرحمان جس شد و مد سے میدان میں اترے ہیں لگتا یہی ہے کہ انتخابات جب بھی ہوں جمعیت علمائے اسلام سمیت پی ٹی آئی مخالف پارٹیاں اگلی حکومت کا حصہ ہوں گی۔
Load Next Story