عالمی امن کیلئے بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیا جائے
حکومتی و مذہبی رہنماؤں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔
دسمبرکا مہینہ شروع ہوتے ہی دنیا بھر میں مسیحی برادری کی جانب سے کرسمس کے حوالے سے بہت ساری سرگرمیوں کا آغا ز ہوجاتا ہے جن میں کرسمس ٹری کا سجانا، گرجا گھروں، بازاروں اور نجی و سرکاری رہائش گاہوں کی سجاوٹ، تحائف کا تبادلہ، کیک کاٹنے کی تقاریب و دیگر چیزیں شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے مسیحی برادری کو مکمل آزادی حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں انہوں نے اپنا مذہبی تہوار انتہائی جوش و خروش سے منایا۔''کرسمس'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ''بین المذاہب ہم آہنگی'' کیلئے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و مذہبی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
زعیم قادری (وزیر برائے اوقاف و مذہبی امور پنجاب)
حضرت عیسیٰ ؑ کی عبادت و ریاضت کے پیش نظر انہیں پیغمبروں میں اعلیٰ مقام دیا گیا۔ آپؑ کی ذات اقدس انسانیت کی رہنمائی اور تشکیل کے لیے نمونہ ہے۔میں پاکستا ن میں رہنے والے مسیحی بھائیوں اور بہنوں کواقلیت کے لفظ سے پکارنا پسند نہیں کرتا۔میرے نزدیک اقلیت کا لفظ مناسب نہیں، اس سے دیگر مذاہب کے لوگوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے لہٰذا اس لفظ کو آئینی طور پر تبدیل کرانے کے لیے کوشش شروع کر چکا ہو۔ ہمارا دین دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری اور محبت کا درس دیتا ہے، اسی طرح 1973ء کے آئین میں غیر مسلموں کو جو حقوق دیے گئے ہیں وہ دنیا کے دیگر آئینوں میں ناپید ہیں۔تمام پیغمبر جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھیجے انہوں نے انسانیت اور حقوق العباد کی تعلیم دی کیونکہ اگر حقوق العباد اور انسانیت نہیں ہوگی تو کوئی بھی دین لوگوں کے دلوں پر اثر نہیں کرسکے گا۔
برصغیر میں لوگوں کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے کرسچن کمیونٹی کا کردار اہم ہے، مسیحی برادری نے پاکستان بنانے کے مشن میں قائداعظمؒ کا ساتھ دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دین اسلام وہ دین ہے جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ان کا حق دیتا ہے لہٰذا یہ ہماری دینی و قومی ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف دوسرے مذاہب کے لوگوں کے حقوق العباد کا خیال کریں بلکہ اسلام کی روح کے مطابق ان کی عبادتگاہوں اور مال و اسباب کی حفاظت بھی کریں۔ ہمارے خاندان کے ساتھ 250کے قریب مسیحی خاندانوں نے پاکستان ہجرت کی لہٰذا یہ بھی پاکستانی ہیں اور انہیں ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔ اب حکومتی سطح پروہ تمام کام کیے جائیں گے جو ان کے حقوق کے لیے ضروری ہیں تاکہ یہ تاثر قائم نہ ہوسکے کہ پاکستان میں یہ طبقہ غیر محفوظ ہے یا انہیں حقوق حاصل نہیں ہیں۔
ہمیں دینی اور دنیوی معاملات میں قرآن حکیم میں موجود احکامات کے مطابق مسیحی برادری کی مدداوران کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ دین اور انسانیت کے مطابق تمام لوگ برابر ہیں، کسی کو کمتر نہیں بنایا گیابلکہ ایسی سوچ دین کے منافی ہے۔ دیگر مذاہب کے لوگوں کی عبادتگاہیں بھی متبرک ہیںاور ہمارے دین نے ان کا تحفظ لازم قرار دیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم قیامت کے دن حضرت محمدﷺ کے حضور بھی سرخرو ہوں اور حضرت عیسیٰ ؑ کے روبرو بھی کہ ہم نے دنیا میں انسانیت کی خدمت کرکے ان کی تعلیمات پر عمل کیا۔
ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ( ڈائریکٹر جنرل محکمہ اوقاف پنجاب)
یہ حسن اتفاق ہے کہ اس ماہ دسمبر میں ہمیں حضرت محمدﷺ اور حضرت عیسیٰ کی ولادت کی گھڑیاں نصیب ہوئیں۔ دنیا کے بڑے مذاہب میں اسلام اور مسیحت شامل ہیں اور ان دونوں مذاہب کی کووارڈینیشن مثالی ہے۔ آپ ﷺ کے دور میں بھی جس مذہب کے ساتھ تعلقات بہتر رہے وہ مسیحت ہی ہے۔ اس میں حبشہ کے نجاشی ہوں یا نجران کا وفد ہو جو مدینہ منورہ میں آیا اور نبی اکرم ﷺ نے ان کیلئے مسجد نبوی ؐ میں نہ صرف قیام کا بندوبست کیا بلکہ عبادت کی اجازت بھی دی حالانکہ دونوں طبقوں کی عبادات اور سمت مختلف تھی۔
حبشہ سے ایک وفد نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے خود ان کی مدارت کی۔یہ اعلیٰ ظرفی اور وسعت اسلام میں ہے۔امن، بھائی چارے، مساوات اورمعاشی و معاشرتی عدل قائم کرنے میں مذاہب کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہمارے دین نے رواداری اور محبت کا درس دیا ہے لہٰذا ہمیں اپنی دینی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کرنا چاہیے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اور حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات اور پیغامات پر عمل کیا جائے، اس سے نہ صرف نفرتوں کا خاتمہ ہوگا بلکہ دنیا میں امن قائم ہوجائے گا۔
بشپ سباسٹین شاہ (آرچ بشپ آف لاہور)
کرسمس پیار اور محبت کا تہوار ہے۔ خدا نے انسانوں پر رحم کرکے یسوح مسیحؑ کو دنیا میں بھیجا۔ یسوح مسیحؑ جب پیدا ہوئے تو فرشتوں نے ایک نغمہ گایا اور اس نغمے کے الفاظ یہ ہیں کہ عالم بالاپر خدا کو جلال اور زمین پر نیک نیت انسانوں کے لیے امن۔یسوح مسیحؑ نے ہمیشہ سلامتی کی تعلیم دی ۔ کتاب میں ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو رحم دل ہیں، مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کراتے ہیں ۔ ر حم دلی اور صلح کرانا ہمارے مذہبی اقدار میں شامل ہیں۔
یسوح مسیح ؑ تربیت کے دوران اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں کہ تم ایک دوسرے کو پیار کرو اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر تم صرف انہیں ہی سلام کرو جنہیں تم جانتے ہوتو اس کا کیا فائدہ بلکہ جنہیں تم نہیں جانتے انہیں بھی سلام کرو اور ان میں پیار و محبت بانٹو۔یسوح مسیح ؑ نے پیار و محبت کے پیغام کو عالمگیر بنایا اور یہی آج بھی ہمارا مشن ہے۔ مسیحی برادری نے تعلیم، صحت کے شعبوں، پاکستان کے حصول کی جدوجہد اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں نے پاکستان میں خود کو کبھی اقلیت محسوس نہیں کیا۔ میں پاکستانی ہوں اور میرے آباؤ اجداد نے پاکستان کیلئے جدوجہد کی۔ ہمارے مشنری سکولوں میں 90فیصد مسلمان زیر تعلیم ہیں جنہیں دینیات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار بھی پڑھائی جاتی ہیں تاکہ بچے صرف تعلیم کے میدان میں ہی آگے نہ جائیں بلکہ معاشرتی تعمیر میں بھی موثر کردار ادا کرسکیں۔
پاکستان میں بہت سارے اتار چڑھاؤ آئے۔ نادیدہ قوتوں نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے عبادتگاہوں، پارکوں و دیگر مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں یہ سمجھ آچکی ہے کہ پاکستانی اب بالغ ہوچکے ہیں، یہ اب مسلک یا مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونگے بلکہ یہ سب متحد ہیں۔ میری دعا ہے کہ خدا ہم سب کو برکت دے تاکہ ہم کرسمس کے محبت اور امن کے پیغام پر عمل پیرا ہوکر پاکستان کو مضبوط بنائیں اور دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم ہو کہ یہاں سب بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل اکھٹے رہتے ہیں۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد (خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)
دین اسلام ایک پر امن مذہب ہے جو سلامتی ، محبت اور اخوت کی بات کرتا ہے جبکہ دیگر مذاہب میں بھی ایسی تعلیمات ملتی ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ کوامن کا شہزادہ کہا گیا جبکہ حضرت محمدﷺ کی تعلیمات میں محبت کا پیغام ہے ۔ انجیل میں آیا ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کراتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ''تمہارے اور اہل کتاب میں جو چیزیں مشترک ہیں اس پر بات کرو، اپنے اپنے دین میں رہتے ہوئے''۔ آج ہمیں اپنے دین کے مشن کو آگے لیکر چلنے کی ضرورت ہے۔ہم پاکستان کے اندر اور باہر بھی صحیح پیغام پھیلا رہے ہیں اور ہم نے محبت و رواداری کے فروغ کے ذریعے پاکستان کا صحیح امیج دنیا کے سامنے رکھا ہے۔
پاکستان میں بسنے والے ایک قوم اور آپس میں بھائی ہیں۔ انسانیت کی خدمت اور مذہبی ہم آہنگی ہمارا مشن ہے، یہ مشن ہمارے بڑوں نے شروع کیا اور ہم خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: ''ہم نے آدمؑ کی اولاد کو عزت دی''۔ حضرت محمدﷺ نے اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ '' آج کے بعد عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، امیر کو غریب پر، غریب کو امیر پر، کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں''۔
آپﷺ نے تفرقوں کو ختم کیا۔ نجران سے وفد آیا تو آپ ﷺ نے ان کے لیے مسجد نبویؐ کے دروزے کھول دیے۔ہم حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ بادشاہی مسجد میں غیر مسلم اور غیر ملکی وفود کو آنے کی اجازت دی جاتی ہے تاکہ امن اور رواداری کے پیغام کو عام کیا جاسکے۔ اسی طرح جوزف کالونی میں مسیحی برادری کے گھر جلانے کا واقعہ ہو یا کوئی اور مشکل گھڑی، ہم ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔
ہمارا دین اسلام کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے جبکہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔میں وزیراعلیٰ پنجاب کا مشکور ہوں جنہوں نے مختصر وقت میں اس کالونی کے متاثرین کو گھر بنا کردیے۔سانحہ یوحنا آباد میں بھی ہم نے عملی طور پر دکھایا کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس وقت کی حکومت ، ملکی قیادت اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ محبت و رواداری کو عام کیا جائے۔ہمیں اکثریت اور اقلیت کی بحث کو چھوڑ کر، ایک قوم بن کر ابھرنا چاہیے۔
ہم ہمیشہ محبت کی بات کریں گے اور نفرتوں کا خاتمہ کرتے رہیں گے کیونکہ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کا نفع سوچے۔ ہم مسیحی برادری کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں حالانکہ ہم اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی سالگرہ کا کیک بھی نہیں کاٹتے لیکن ان کی خوشیوں میں جب شریک ہوتے ہیں تو کیک بھی کاٹتے ہیں اور تحائف بھی دیتے ہیں تاکہ محبت کے پیغام کو عام کیا جاسکے۔
فادر جیمز چنن ( ڈائریکٹر پیس سینٹر )
کرسمس ہمارا بہت بڑا مقدس تہوار ہے۔ یہ امن، محبت، ہم آہنگی، رواداری اور ایک دوسرے کے ساتھ ملاپ کا تہوار ہے۔ یہ خدا کی شکر گزاری کا تہوار بھی ہے کہ خدا نے انسان پر رحم کرکے یسوح مسیحؑ کو دنیا میں بھیجا جو سلامتی کے رئیس اور امن کے شہزادے ہیں ۔ آپؑ کی تعلیمات محبت، پیار اور صلح کی ہیں۔کرسمس کے ایام تجدید عہد کے ایام بھی ہیں ۔ کرسمس کا تہوار خاندانی ہے کیونکہ اس میں ہم خاندان کے لوگوں کے ساتھ ملکر خوشی مناتے ہیں۔
پاکستان میں کرسمس کے تہوار کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہاں مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی و دیگر مذاہب کے لوگ ملکر یہ تقریبات مناتے ہیں تاکہ بین المذاہب ہم آہنگی ، امن اور رواداری کو فروغ دیا جاسکے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے اس سے امن قائم ہوگا۔ ہم نے گزشتہ دنوں تقریبات منعقد کی ہیں جس میں تمام مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی اور دنیا کو امن اور محبت کا پیغام گیا۔ ہم ان تقریبات میں پاکستان کی سلامتی اور امن کے لیے بھی دعائیں کرتے ہیں۔
حکومتی سطح پر بھی کرسمس کے حوالے سے تقریبات منعقد کرائی جاتی ہیں جبکہ صدر اور وزیراعظم خود بھی ان میں شامل ہوتے ہیں جو خوش آئند ہے۔ اسلام اور مسیحت دو عالمگیر مذاہب ہیں اور عقائد و تعلیمات کے حوالے سے یہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ ہم ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں، انبیاء علیہ السلام اور فرشتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اچھے کام کرنے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور سزا و جزا کے عمل کو بھی مانتے ہیں۔
اگرچہ جو مختلف عقائد ہیں ہمیں ان کا بھی احترام کرنا چاہیے یہ اسی وقت ہوگا جب ہم ملکر کام کریں گے۔ ہم دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں صرف مسیحی ہی دہشت گردی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ یہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد دہشت گردی کا شکار ہوئی۔ پاکستان میں اکثریت امن پسند ہیں جبکہ بہت کم لوگ انتشار پسند ہیں اور ایسے لوگ کسی کے دوست نہیں ہیں۔ وہ ہر مذہب، رنگ، نسل، قومیت کے لوگوںکو نشانہ بناتے ہیں۔ دہشت گردی، جنگ و جدل اور نفرت نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہم ملکرکام کریں اور دنیا کو امن اور رواداری کا پیغام دیں۔
شاہد معراج (پادری)
کرسمس محبت کا تہوار ہے اور یہ محبت کسی ایک مذہب یا گروہ کے ساتھ قید نہیں۔ خدا سب کے لیے ہے اور اس نے ہم سب کو بنایا ہے۔ اگر ہم خدا کو احترام دینا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ہم اس کی مخلوق کو احترام دیں۔ یسوح مسیح ؑ سلامتی اور امن کے شہزادے ہیں، ان کی تعلیمات یہی ہیں کہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے کو قبول کریں تاکہ امن قائم ہوسکے۔
یسوح مسیح ؑ نے اپنی تعلیمات میں یہ کہا کہ اگر تیرادشمن بھوکا ہو اسے کھانا کھلا، اگر پیاسا ہو تو پانی پلا اور بدی کو بدی سے نہیں بلکہ نیکی سے مرغوب کر۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ان کی تعلیمات کو اپنائیں۔ 25دسمبر قائداعظمؒ کی ولادت کا دن بھی ہے۔ ان کی قیادت میں تمام لوگوں نے بلاتفریق مذہب، رنگ اور نسل ملکر پاکستان بنایا ، اس میں عیسائی برادری بھی شامل تھی، اس برادری نے پاکستان مخالف عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لہٰذا ہمیں قائد اعظمؒ کے پاکستان کو آگے بڑھانا چاہیے۔ یہ اسی صورت میں ہوگا جب ہم ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور پاکستانیت کی بات کریں گے۔
پاکستان کے لوگوں کا مذہب تو علیحدہ ہوسکتا ہے لیکن ان کی قومیت پاکستان ہی رہے گی۔ کرسمس کا تہوار ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ دوسروں کا احترام کریں۔ کلام مقدس میں لکھا ہے کہ اگر تم اپنے بھائی کو جسے تم نے دیکھا ہے ، اس سے پیار نہیں کرتے تو خدا جسے تم نے نہیں دیکھا ، اس سے کیسے محبت رکھ سکتے ہو لہٰذا ہمارا ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں جنہیں پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
اقلیت کے لفظ سے رویہ امتیازی ہوجاتا ہے، اس سے لوگوں میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے، اگر اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور سب نے ملکر مشکل وقت میں دشمنوں کو شکست بھی دی ہے تو پاکستان میں امن قائم ہوجائے گا اور رواداری و محبت کو فروغ ملے گا۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان کے لوگ امن اور سلامتی کے ساتھ نہ صرف خود زندگی بسر کریں بلکہ محبت و رواداری کو مزید فروغ دیکر اقوام عالم میں مثال بن جائیں۔
زعیم قادری (وزیر برائے اوقاف و مذہبی امور پنجاب)
حضرت عیسیٰ ؑ کی عبادت و ریاضت کے پیش نظر انہیں پیغمبروں میں اعلیٰ مقام دیا گیا۔ آپؑ کی ذات اقدس انسانیت کی رہنمائی اور تشکیل کے لیے نمونہ ہے۔میں پاکستا ن میں رہنے والے مسیحی بھائیوں اور بہنوں کواقلیت کے لفظ سے پکارنا پسند نہیں کرتا۔میرے نزدیک اقلیت کا لفظ مناسب نہیں، اس سے دیگر مذاہب کے لوگوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے لہٰذا اس لفظ کو آئینی طور پر تبدیل کرانے کے لیے کوشش شروع کر چکا ہو۔ ہمارا دین دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری اور محبت کا درس دیتا ہے، اسی طرح 1973ء کے آئین میں غیر مسلموں کو جو حقوق دیے گئے ہیں وہ دنیا کے دیگر آئینوں میں ناپید ہیں۔تمام پیغمبر جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھیجے انہوں نے انسانیت اور حقوق العباد کی تعلیم دی کیونکہ اگر حقوق العباد اور انسانیت نہیں ہوگی تو کوئی بھی دین لوگوں کے دلوں پر اثر نہیں کرسکے گا۔
برصغیر میں لوگوں کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے کرسچن کمیونٹی کا کردار اہم ہے، مسیحی برادری نے پاکستان بنانے کے مشن میں قائداعظمؒ کا ساتھ دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دین اسلام وہ دین ہے جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ان کا حق دیتا ہے لہٰذا یہ ہماری دینی و قومی ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف دوسرے مذاہب کے لوگوں کے حقوق العباد کا خیال کریں بلکہ اسلام کی روح کے مطابق ان کی عبادتگاہوں اور مال و اسباب کی حفاظت بھی کریں۔ ہمارے خاندان کے ساتھ 250کے قریب مسیحی خاندانوں نے پاکستان ہجرت کی لہٰذا یہ بھی پاکستانی ہیں اور انہیں ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔ اب حکومتی سطح پروہ تمام کام کیے جائیں گے جو ان کے حقوق کے لیے ضروری ہیں تاکہ یہ تاثر قائم نہ ہوسکے کہ پاکستان میں یہ طبقہ غیر محفوظ ہے یا انہیں حقوق حاصل نہیں ہیں۔
ہمیں دینی اور دنیوی معاملات میں قرآن حکیم میں موجود احکامات کے مطابق مسیحی برادری کی مدداوران کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ دین اور انسانیت کے مطابق تمام لوگ برابر ہیں، کسی کو کمتر نہیں بنایا گیابلکہ ایسی سوچ دین کے منافی ہے۔ دیگر مذاہب کے لوگوں کی عبادتگاہیں بھی متبرک ہیںاور ہمارے دین نے ان کا تحفظ لازم قرار دیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم قیامت کے دن حضرت محمدﷺ کے حضور بھی سرخرو ہوں اور حضرت عیسیٰ ؑ کے روبرو بھی کہ ہم نے دنیا میں انسانیت کی خدمت کرکے ان کی تعلیمات پر عمل کیا۔
ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ( ڈائریکٹر جنرل محکمہ اوقاف پنجاب)
یہ حسن اتفاق ہے کہ اس ماہ دسمبر میں ہمیں حضرت محمدﷺ اور حضرت عیسیٰ کی ولادت کی گھڑیاں نصیب ہوئیں۔ دنیا کے بڑے مذاہب میں اسلام اور مسیحت شامل ہیں اور ان دونوں مذاہب کی کووارڈینیشن مثالی ہے۔ آپ ﷺ کے دور میں بھی جس مذہب کے ساتھ تعلقات بہتر رہے وہ مسیحت ہی ہے۔ اس میں حبشہ کے نجاشی ہوں یا نجران کا وفد ہو جو مدینہ منورہ میں آیا اور نبی اکرم ﷺ نے ان کیلئے مسجد نبوی ؐ میں نہ صرف قیام کا بندوبست کیا بلکہ عبادت کی اجازت بھی دی حالانکہ دونوں طبقوں کی عبادات اور سمت مختلف تھی۔
حبشہ سے ایک وفد نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے خود ان کی مدارت کی۔یہ اعلیٰ ظرفی اور وسعت اسلام میں ہے۔امن، بھائی چارے، مساوات اورمعاشی و معاشرتی عدل قائم کرنے میں مذاہب کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہمارے دین نے رواداری اور محبت کا درس دیا ہے لہٰذا ہمیں اپنی دینی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کرنا چاہیے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اور حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات اور پیغامات پر عمل کیا جائے، اس سے نہ صرف نفرتوں کا خاتمہ ہوگا بلکہ دنیا میں امن قائم ہوجائے گا۔
بشپ سباسٹین شاہ (آرچ بشپ آف لاہور)
کرسمس پیار اور محبت کا تہوار ہے۔ خدا نے انسانوں پر رحم کرکے یسوح مسیحؑ کو دنیا میں بھیجا۔ یسوح مسیحؑ جب پیدا ہوئے تو فرشتوں نے ایک نغمہ گایا اور اس نغمے کے الفاظ یہ ہیں کہ عالم بالاپر خدا کو جلال اور زمین پر نیک نیت انسانوں کے لیے امن۔یسوح مسیحؑ نے ہمیشہ سلامتی کی تعلیم دی ۔ کتاب میں ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو رحم دل ہیں، مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کراتے ہیں ۔ ر حم دلی اور صلح کرانا ہمارے مذہبی اقدار میں شامل ہیں۔
یسوح مسیح ؑ تربیت کے دوران اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں کہ تم ایک دوسرے کو پیار کرو اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر تم صرف انہیں ہی سلام کرو جنہیں تم جانتے ہوتو اس کا کیا فائدہ بلکہ جنہیں تم نہیں جانتے انہیں بھی سلام کرو اور ان میں پیار و محبت بانٹو۔یسوح مسیح ؑ نے پیار و محبت کے پیغام کو عالمگیر بنایا اور یہی آج بھی ہمارا مشن ہے۔ مسیحی برادری نے تعلیم، صحت کے شعبوں، پاکستان کے حصول کی جدوجہد اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں نے پاکستان میں خود کو کبھی اقلیت محسوس نہیں کیا۔ میں پاکستانی ہوں اور میرے آباؤ اجداد نے پاکستان کیلئے جدوجہد کی۔ ہمارے مشنری سکولوں میں 90فیصد مسلمان زیر تعلیم ہیں جنہیں دینیات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار بھی پڑھائی جاتی ہیں تاکہ بچے صرف تعلیم کے میدان میں ہی آگے نہ جائیں بلکہ معاشرتی تعمیر میں بھی موثر کردار ادا کرسکیں۔
پاکستان میں بہت سارے اتار چڑھاؤ آئے۔ نادیدہ قوتوں نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے عبادتگاہوں، پارکوں و دیگر مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں یہ سمجھ آچکی ہے کہ پاکستانی اب بالغ ہوچکے ہیں، یہ اب مسلک یا مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونگے بلکہ یہ سب متحد ہیں۔ میری دعا ہے کہ خدا ہم سب کو برکت دے تاکہ ہم کرسمس کے محبت اور امن کے پیغام پر عمل پیرا ہوکر پاکستان کو مضبوط بنائیں اور دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم ہو کہ یہاں سب بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل اکھٹے رہتے ہیں۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد (خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)
دین اسلام ایک پر امن مذہب ہے جو سلامتی ، محبت اور اخوت کی بات کرتا ہے جبکہ دیگر مذاہب میں بھی ایسی تعلیمات ملتی ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ کوامن کا شہزادہ کہا گیا جبکہ حضرت محمدﷺ کی تعلیمات میں محبت کا پیغام ہے ۔ انجیل میں آیا ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کراتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ''تمہارے اور اہل کتاب میں جو چیزیں مشترک ہیں اس پر بات کرو، اپنے اپنے دین میں رہتے ہوئے''۔ آج ہمیں اپنے دین کے مشن کو آگے لیکر چلنے کی ضرورت ہے۔ہم پاکستان کے اندر اور باہر بھی صحیح پیغام پھیلا رہے ہیں اور ہم نے محبت و رواداری کے فروغ کے ذریعے پاکستان کا صحیح امیج دنیا کے سامنے رکھا ہے۔
پاکستان میں بسنے والے ایک قوم اور آپس میں بھائی ہیں۔ انسانیت کی خدمت اور مذہبی ہم آہنگی ہمارا مشن ہے، یہ مشن ہمارے بڑوں نے شروع کیا اور ہم خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: ''ہم نے آدمؑ کی اولاد کو عزت دی''۔ حضرت محمدﷺ نے اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ '' آج کے بعد عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، امیر کو غریب پر، غریب کو امیر پر، کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں''۔
آپﷺ نے تفرقوں کو ختم کیا۔ نجران سے وفد آیا تو آپ ﷺ نے ان کے لیے مسجد نبویؐ کے دروزے کھول دیے۔ہم حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ بادشاہی مسجد میں غیر مسلم اور غیر ملکی وفود کو آنے کی اجازت دی جاتی ہے تاکہ امن اور رواداری کے پیغام کو عام کیا جاسکے۔ اسی طرح جوزف کالونی میں مسیحی برادری کے گھر جلانے کا واقعہ ہو یا کوئی اور مشکل گھڑی، ہم ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔
ہمارا دین اسلام کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے جبکہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔میں وزیراعلیٰ پنجاب کا مشکور ہوں جنہوں نے مختصر وقت میں اس کالونی کے متاثرین کو گھر بنا کردیے۔سانحہ یوحنا آباد میں بھی ہم نے عملی طور پر دکھایا کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس وقت کی حکومت ، ملکی قیادت اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ محبت و رواداری کو عام کیا جائے۔ہمیں اکثریت اور اقلیت کی بحث کو چھوڑ کر، ایک قوم بن کر ابھرنا چاہیے۔
ہم ہمیشہ محبت کی بات کریں گے اور نفرتوں کا خاتمہ کرتے رہیں گے کیونکہ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کا نفع سوچے۔ ہم مسیحی برادری کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں حالانکہ ہم اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی سالگرہ کا کیک بھی نہیں کاٹتے لیکن ان کی خوشیوں میں جب شریک ہوتے ہیں تو کیک بھی کاٹتے ہیں اور تحائف بھی دیتے ہیں تاکہ محبت کے پیغام کو عام کیا جاسکے۔
فادر جیمز چنن ( ڈائریکٹر پیس سینٹر )
کرسمس ہمارا بہت بڑا مقدس تہوار ہے۔ یہ امن، محبت، ہم آہنگی، رواداری اور ایک دوسرے کے ساتھ ملاپ کا تہوار ہے۔ یہ خدا کی شکر گزاری کا تہوار بھی ہے کہ خدا نے انسان پر رحم کرکے یسوح مسیحؑ کو دنیا میں بھیجا جو سلامتی کے رئیس اور امن کے شہزادے ہیں ۔ آپؑ کی تعلیمات محبت، پیار اور صلح کی ہیں۔کرسمس کے ایام تجدید عہد کے ایام بھی ہیں ۔ کرسمس کا تہوار خاندانی ہے کیونکہ اس میں ہم خاندان کے لوگوں کے ساتھ ملکر خوشی مناتے ہیں۔
پاکستان میں کرسمس کے تہوار کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہاں مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی و دیگر مذاہب کے لوگ ملکر یہ تقریبات مناتے ہیں تاکہ بین المذاہب ہم آہنگی ، امن اور رواداری کو فروغ دیا جاسکے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے اس سے امن قائم ہوگا۔ ہم نے گزشتہ دنوں تقریبات منعقد کی ہیں جس میں تمام مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی اور دنیا کو امن اور محبت کا پیغام گیا۔ ہم ان تقریبات میں پاکستان کی سلامتی اور امن کے لیے بھی دعائیں کرتے ہیں۔
حکومتی سطح پر بھی کرسمس کے حوالے سے تقریبات منعقد کرائی جاتی ہیں جبکہ صدر اور وزیراعظم خود بھی ان میں شامل ہوتے ہیں جو خوش آئند ہے۔ اسلام اور مسیحت دو عالمگیر مذاہب ہیں اور عقائد و تعلیمات کے حوالے سے یہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ ہم ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں، انبیاء علیہ السلام اور فرشتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اچھے کام کرنے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور سزا و جزا کے عمل کو بھی مانتے ہیں۔
اگرچہ جو مختلف عقائد ہیں ہمیں ان کا بھی احترام کرنا چاہیے یہ اسی وقت ہوگا جب ہم ملکر کام کریں گے۔ ہم دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں صرف مسیحی ہی دہشت گردی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ یہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد دہشت گردی کا شکار ہوئی۔ پاکستان میں اکثریت امن پسند ہیں جبکہ بہت کم لوگ انتشار پسند ہیں اور ایسے لوگ کسی کے دوست نہیں ہیں۔ وہ ہر مذہب، رنگ، نسل، قومیت کے لوگوںکو نشانہ بناتے ہیں۔ دہشت گردی، جنگ و جدل اور نفرت نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہم ملکرکام کریں اور دنیا کو امن اور رواداری کا پیغام دیں۔
شاہد معراج (پادری)
کرسمس محبت کا تہوار ہے اور یہ محبت کسی ایک مذہب یا گروہ کے ساتھ قید نہیں۔ خدا سب کے لیے ہے اور اس نے ہم سب کو بنایا ہے۔ اگر ہم خدا کو احترام دینا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ہم اس کی مخلوق کو احترام دیں۔ یسوح مسیح ؑ سلامتی اور امن کے شہزادے ہیں، ان کی تعلیمات یہی ہیں کہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے کو قبول کریں تاکہ امن قائم ہوسکے۔
یسوح مسیح ؑ نے اپنی تعلیمات میں یہ کہا کہ اگر تیرادشمن بھوکا ہو اسے کھانا کھلا، اگر پیاسا ہو تو پانی پلا اور بدی کو بدی سے نہیں بلکہ نیکی سے مرغوب کر۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ان کی تعلیمات کو اپنائیں۔ 25دسمبر قائداعظمؒ کی ولادت کا دن بھی ہے۔ ان کی قیادت میں تمام لوگوں نے بلاتفریق مذہب، رنگ اور نسل ملکر پاکستان بنایا ، اس میں عیسائی برادری بھی شامل تھی، اس برادری نے پاکستان مخالف عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لہٰذا ہمیں قائد اعظمؒ کے پاکستان کو آگے بڑھانا چاہیے۔ یہ اسی صورت میں ہوگا جب ہم ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور پاکستانیت کی بات کریں گے۔
پاکستان کے لوگوں کا مذہب تو علیحدہ ہوسکتا ہے لیکن ان کی قومیت پاکستان ہی رہے گی۔ کرسمس کا تہوار ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ دوسروں کا احترام کریں۔ کلام مقدس میں لکھا ہے کہ اگر تم اپنے بھائی کو جسے تم نے دیکھا ہے ، اس سے پیار نہیں کرتے تو خدا جسے تم نے نہیں دیکھا ، اس سے کیسے محبت رکھ سکتے ہو لہٰذا ہمارا ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں جنہیں پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
اقلیت کے لفظ سے رویہ امتیازی ہوجاتا ہے، اس سے لوگوں میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے، اگر اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور سب نے ملکر مشکل وقت میں دشمنوں کو شکست بھی دی ہے تو پاکستان میں امن قائم ہوجائے گا اور رواداری و محبت کو فروغ ملے گا۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان کے لوگ امن اور سلامتی کے ساتھ نہ صرف خود زندگی بسر کریں بلکہ محبت و رواداری کو مزید فروغ دیکر اقوام عالم میں مثال بن جائیں۔