2016 تاریخ کے شمارے میں ایک برس اور بیت گیا

صنف نازک سے جڑے ہوئے اہم واقعات جو گذشتہ سال ہوئے

یوں تاریخ کے گوشوارے میں 2016ء بہت سے واقعات لیے رخصت ہوا۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
تاریخ کے شمارے میں ایک نئے سال کا اضافہ ہوچکا ہے۔۔۔ اس موقع پر ہم اپنے بیتے ہوئے برس کے احوال کا حساب کرتے ہیں، کیا پایا کیا کھویا؟ اسی مناسبت سے ہم مجموعی طور پر جائزہ لیتے ہیں کہ خواتین کے حوالے سے اس برس کیا اہم واقعات پیش آئے، کیا کام یابیاں ملیں اور کیا مشکلات اور افسوس ناک باتیں برپا ہوئیں۔۔۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ 2016ء کے باب میں صنف نازک کا نمایاں احوال کس طرح درج ہوا۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان کی خواتین نے بھی گزشتہ سال بہت سی کام یابیاں حاصل کیں اور خوب نام وَری سمیٹی۔ مغربی ممالک میں پاکستان کا نام دہشت گردی، انتہا پسندی اور سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے شکار ریاست کے طور پر لیا جاتا ہے، لیکن کچھ ایسے تابندہ چہرے بھی ہیں، جن کی تابندگی پاکستان کا روشن حوالہ اور ہمارے دمکتے مستقبل کی نوید ہیں، جو کسی نہ کسی میدان میں کوئی نہ کوئی کارنامہ انجام دے کر اپنے وطن کے لیے سرمایہ بن جاتے ہیں، جن کے ہم وطن ان پر نازاں ہوتے ہیں۔

2016ء میں مشہور سائنس دان آئن اسٹائن کی خلا میں کششِ ثقل کی لہروں کی موجودگی کے نظریے کی تصدیق کا کافی چرچا رہا۔ دنیا بھر کے ذرایع اِبلاغ کی اہم خبر بننے والے اس واقعے کو پاکستان میں اُسی طرح برتا گیا، جس طرح عموماً سائنس دانوں کی خبروں کو برتا جاتا ہے۔ اس اہم سائنسی دریافت کا اعلان کرنے والی ٹیم میں ایک پاکستانی نژاد سائنسدان نرگس ماول والا کا نام بھی شامل تھا، جنہوں نے دنیا کی نظر میں پاکستان کا روشن چہرہ اجاگر کیا۔

نرگس ماول والہ نے شہر قائد کراچی کے ایک پارسی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اسی شہر کے کانونٹ آف جیسز اینڈ میری اسکول سے حاصل کی۔ 1986ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلی گئیں۔ 1990ء میں ویلیسلی کالج سے فلکیات اور طبیعات میں گریجویشن کے مراحل طے کیے۔ 1997ء میں طبعیات میں پی ایچ ڈی کر نے کے لیے امریکا کی میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (Massachusetts Institute of Technology) کا انتخاب کیا۔ اس عرصے میں ہی میں انہوں نے کششِ ثقل کی لہروں کو شناخت کرنے کے لیے پروٹو ٹائپ لیزر انٹر فیرو میٹر بنا لیا۔

ایم آئی ٹی میں شمولیت سے پہلے 2002ء میں ڈاکٹر نرگس ماول والا نے کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پوسٹ ڈاکٹورل ایسوسی ایٹ اور تحقیقی سائنس دان ہونے کے ساتھ ساتھ لیزرانٹر فیرو میٹر گریویٹینشنل ویو آبزرویٹری (لیگو)کے لیے کام کا آغاز کر دیا، جس کے صلے میں انہیں میک آرتھر فاؤنڈیشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

منیبہ مزاری کا نام امریکی جریدے فوربز نے 2016ء کی 30 سال سے کم عمر اہم ترین شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ منیبہ مزاری ایک مصورہ، مقررہ اور ایک سماجی کارکن ہیں۔ وہ 21 سال کی عمر میں ایک ٹریفک حادثے سے دوچار ہوئیں۔ اس اندوہ ناک حادثے کے نتیجے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی پر ضرب لگی، جس کے نتیجے میں وہ چلنے پھرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئیں اور انہیں اپنی نقل وحرکت کے لیے ایک 'پہیا کرسی' کی مدد لینا پڑی۔

منیبہ مزاری ایک گائیک بھی ہیں۔ زندگی کے اس کٹھن موڑ پر انہوں نے مصوری سے بھی شغف کیا۔ پولیو مہم کے ایک اشتہار نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ منیبہ کے مطابق انہوں نے اسی دن فیصلہ کر لیا کہ وہ لوگوں میں اس شعور کو بیدار کرنے کے لیے متحرک ہوں گی کہ معذوری کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اب صرف قابلِ رحم ہیں۔ ان کے جذبے اور کام سے متاثر ہوکر اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خواتین نے منیبہ کو خیر سگالی کا سفیر مقرر کیا۔ یہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں، جنہیں یہ عالمی اعزاز حاصل ہوا ہے۔

آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی خاتون شرمین عبید چنائے اب کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ وہ کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک کام یاب فلم ساز ہیں۔ ایمی (Emmy) اور آسکر اعزاز حاصل کرنے والی شرمین عبید، اپنی دستاویزی فلم 'سیونگ فیس' کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوئیں۔ شرمین عبید چنائے نے 29 فروری 2016ء کو ایک بار پھر آسکر ایوارڈ اپنے نام کر لیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے بھی شرمین کو ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا ہے۔


4 مارچ 2016ء کو مقبوضہ کشمیر کے ریاستی ایوان کی کمان پہلی بار کسی خاتون کے سپرد ہوئی اور یہ اعزاز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے حصے میں آیا۔ گزشتہ تیس برسوں میں یہ پہلا موقع تھا جب تقریب حلف برداری جموں میں منعقد ہوئی۔ محبوبہ مفتی مجموعی طور پر بھارتی کشمیر کی سولہویں وزیراعلیٰ ہیں۔

2016ء جہاں خواتین کے حوالے سے کچھ کامرانیوں کا وسیلہ بنا، تو وہیں کچھ افسوس ناک واقعات بھی اس برس سے جڑے۔ اس سال ماڈل قندیل بلوچ غیرت کے نام پر بھائی کے ہاتھوں قتل کر دی گئیں۔ ان کا اصل نام فوزیہ عظیم تھا۔ تنازعات میں گھری رہنے کے باعث اکثر خبروں کا موضوع بنی رہیں، پھر 15 جولائی 2016ء کو ان کے بھائی وسیم عظیم نے ان کی جان لے لی۔ ملزم نے اعتراف جرم کرتے ہوئے ا لزام لگایا کہ مقتولہ خاندان کی عزت پر حرف لانے کا سبب بن رہی تھی۔

امریکی جریدے فوربز (Forbes) نے 2016ء میں دنیا کی طاقت وَر ترین خواتین کی فہرست مرتب کی ہے، جس میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو مسلسل چھٹے سال دنیا کی سب سے زیادہ طاقت وَر خاتون قرار دیا گیا۔ انہیں 2011ء سے مسلسل اس فہرست میں اول درجہ دیا جا رہا ہے، اس سے قبل بھی وہ 2006ء تا 2009ء مسلسل چار بار پہلا نمبر حاصل کر چکی ہیں۔ اس دوران صرف 2010ء میں امریکی خاتون اول مشل اوباما نے ان کی جگہ لی، جب کہ انہیں چوتھا نمبر ملا۔ انجیلا نے سیاست کے میدان میں 1989ء میں قدم رکھا، 1991ء میں نوجوان اور خواتین کی وزیر منتخب ہوئیں، جب کہ 1994ء میں وزیرِ ماحولیات کی حیثیت سے ذمہ داری نبھائی۔

گزشتہ چھے سال سے انجیلا مرکل کا نام دنیا کی کام یاب اور طاقت وَر ترین خواتین میں شامل ہو رہا ہے۔ اس فہرست میں دوسرا درجہ امریکا کی سابق خاتون اول اور صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کا ہے۔ 69 سالہ ہیلری امریکی تاریخ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار بھی ہیں، جنھوں نے 2016ء کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کیا، اگرچہ ہیلری کلنٹن فتح یاب نہ ہو سکیں، لیکن امریکی تاریخ میں ان کا نام پہلی خاتون صدارتی امیدوار کے طور پر ہمیشہ کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔

چھے اکتوبر 2016ء کو پاکستان کے آئینی اور قانونی تاریخ میں خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے ایک اہم سنگ میل عبور کیاگیا اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران غیرت کے نام پر کیے جانے والے قتل اور عصمت دری کے خلاف قانون منظور کیا گیا۔ خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم بالخصوص غیرت کے نام پر قتل (Honour killing) کے تدارک کی کوشش کی گئی ہے، جو کہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی بد نامی کا باعث بن رہا تھا۔ بالخصوص قندیل بلوچ کے قتل کے خلاف بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

ملکی آبادی کا 52 فی صد حصہ رکھنے والی خواتین کے مساوی حقوق اور ان کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدام میں ریاست کا بڑھتا ہوا کردار واضح ہوا۔ حالیہ قانون سازی اس ضمن میں ایک مثبت پیش رفت ہے اور اب ضرورت یہ ہے کہ ان قوانین کے اطلاق اور اس پر تمام متعلقہ افراد اور اداروں کی گرفت اور عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ہے، جو کہ اب تک کا سب سے اہم، مشکل اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔

تحفظِ خواتین بل کی بنا پر 2016ء خواتین کے لیے اہمیت کا حامل رہا۔ اس قانون کے تحت خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں، جب کہ تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی مدد کے لیے ہیلپ لائن، حفاظتی مراکز اور قانونی امداد سمیت کئی سہولتیں رکھی گئی ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بہت سی غیر سرکاری تنظیم بھی قائم کی گئی ہیں، جس کی بدولت خواتین کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ اس بل کے ذریعے نہ صرف تشدد کے تدارک کی موثر کوشش کی گئی ہے، بلکہ دارلامان کو قانونی حیثیت دی گئی ہے۔

یوں تاریخ کے گوشوارے میں 2016ء بہت سے واقعات لیے رخصت ہوا۔ ہر سال کی طرح سال نو ایک بار پھر بہت سی امیدوں کے سہارے طلوع ہوا ہے۔ اس سال بھی خواتین کی ترقی، حقوق اورآگاہی کے حوالے سے بہت سی کام یابیوں کی توقعات ہیں کہ جس کے ذریعے خواتین پر ظلم، جبر اور تشدد کے سیاہ باب کو بند کیا جا سکے۔

 
Load Next Story