ISLAMABAD/
KARACHI:
میں صرف تصور ہی کر سکتا تھا کہ اس وقت اقبال بھائی (اقبال قاسم) کا کیا حال ہو گا، غصے سے ان کا بلڈ پریشر یقیناً ہائی ہو چکا تھا، فلاں پلیئر کی۔۔۔۔، میں نے زندگی میں پہلی بار ان کے منہ سے کسی کیلیے اتنی سخت باتیں سنیں، میں اس وقت سڈنی کے ایک ریلوے اسٹیشن پر کھڑا یہی سوچ رہا تھا کہ کیا میں نے اس وقت چیف سلیکٹر کو فون کر کے ٹھیک کیا، ویسے بات غصے میں آنے والی ہی تھی، آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم سے آپ ایک جیتا ہوا میچ ہار جائیں تو کوئی بھی ہوش کھو سکتا ہے چاہے وہ اقبال قاسم جیسا ٹھنڈے دماغ کا حامل شخص ہی کیوں نہ ہو، یہ شکست ان کے دل و دماغ پر اس بُری طرح اثر انداز ہوئی کہ انھوں نے ٹور کے بعد چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی چھوڑ دیا، ویسے ایسے اصول پرست لوگ کم ہی ہوتے ہیں، میں نے ان کے علاوہ صلاح الدین صلو میں بھی یہ خوبی دیکھی کہ ٹیم ہارتی تو وہ ذمہ داری قبول کرتے، اب تو پاکستان بڑی بڑی شکستوں کا شکار ہوجاتا ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگتی ہے، زبردستی استعفیٰ لیا جائے تو الگ بات ہے، سب لاکھوں روپے بٹور کر مزے کر رہے ہیں۔
ویسے واقعی جب پاکستان کرکٹ کی تاریخ لکھی جائے گی تو سڈنی ٹیسٹ اس میں نمایاں ہو گا، یہ وہ میچ ہے جس میں شکست کی کئی بار تحقیقات ہو چکیں، کامران اکمل اب تک اس سوال کا جواب دینے پر مجبور ہیں کہ اچانک ان سے اتنے زیادہ کیچز ڈراپ کیسے ہو گئے؟ ہاتھ میں گیند آنے کے باوجود انھوں نے رن آؤٹ کیوں نہ کیا؟ ملکی کرکٹ کے اس متنازع ترین میچ کو میں نے سڈنی گراؤنڈ پر ہی بیٹھ کردیکھا تھا، کینگروز کھیل کی تاریخ میں پہلی اننگز میں 200 سے زائد رنز کے خسارے میں جانے کے باوجود ٹیسٹ جیتنے والی چھٹی ٹیم بنے تھے،چوتھے دن8 وکٹ پر80 رنز سے کھیل شروع کرنے والی ٹیم نے پانسہ پلٹ دیا، نویں وکٹ کیلیے مائیک ہسی اور پیٹر سڈل کے درمیان سنچری شراکت نے میزبان کو فتح کی راہ پر گامزن کیا، کامران نے دانش کنیریا کی بولنگ پر ہسی کے تین کیچز ڈراپ کیے اور ایک رن آؤٹ کا موقع گنوایا تھا، پاکستان سے 176کا ہدف بھی عبور نہ ہوا اور36رنز کی شکست ہاتھ آئی، مجھے یاد ہے ہر روز کھیل کے بعد جب کپتان محمد یوسف سے بات ہوتی تو وہ یہی کہتے ''جیتنا مشکل ہے، آسٹریلیا بہت اچھی ٹیم ہے کم بیک کر لے گی'' کسی روز انھوں نے مثبت بات نہیں کہی،ان کی قیادت میں اٹیک کا عنصر موجود نہیں تھا، انھوں نے فیلڈ پلیسنگ بھی ٹھیک نہ رکھی، دیگر پہلوؤں میں بھی وہ کمزور دکھائی دیے۔
ٹیم وہ سیریز 0-3 سے ہاری، اس سے ایک بات کی تصدیق ہو گئی کہ یوسف بیٹسمین بہترین تھے مگر کپتان بہت خراب، 9ٹیسٹ میں سے وہ صرف2 جیت سکے،6میں شکست ہوئی اور ایک ڈرا پر ختم ہوا، اب جب میں ٹیلی ویژن پر انھیں مصباح الحق و دیگر کی قیادت پر تنقید کرتے دیکھتا ہوں تو بڑی ہنسی آتی ہے، اپنا ماضی انھیں یاد نہیں اور دوسروں پر لفظی گولا باری کرتے رہتے ہیں، یوسف کے ساتھ لینگوئج کا بھی بڑا مسئلہ تھا، اسی میچ سے قبل ایک دن پریکٹس سیشن کے بعد میڈیا نے انھیں گھیر لیا، پہلا ہی سوال آسٹریلوی لب و لہجے میں سامنے آیا جو میک گرا کے باؤنسر کی طرح ان کے سر سے گذر گیا، اتفاق سے برابر میں منیجر عبدالرقیب کھڑے تھے، کپتان نے ان سے پوچھا'' بھائی جان اے کی پوچھ رہا ہے''(یہ کیا پوچھ رہا ہے) جس پر انھوں نے اردو میں ترجمہ بتایا، میچ کے بعد منیجر عبدالرقیب کے کمرے میں یوسف سے ملاقات ہوئی تو وہ دفاعی فیلڈ سیٹنگ و دیگر باتوں کا دفاع کرتے رہے،وہیں کامران اکمل بھی آ گئے اور وہ بھی قسمت کا رونا روتے رہے، ان کا کہنا تھا کہ کیچز ڈراپ ہونا کھیل کا حصہ ہوتا ہے، جان بوجھ کر کوئی ایسا نہیں کرتا، میچ کے بعد ہی ٹیم پر فکسنگ کے الزامات عائد ہونا شروع ہو گئے تھے، یہاں تک اطلاعات سامنے آئیں کہ آئی سی سی نے پی سی بی کو ثبوت بھی فراہم کیے ہیں ، مگر کئی بار تحقیقات کے باوجود کچھ بھی ثابت نہیں ہوا،انتخاب عالم کی زیرکوچنگ اس ٹور میں پاکستان تینوں ٹیسٹ، پانچوں ون ڈے اور واحد ٹی ٹوئنٹی میچ ہار گیا تھا،جس کے بعد پی سی بی نے بھی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی، یوسف نے نام لیے بغیر ایک کھلاڑی پر ٹیم میں انتشار پھیلانے کا الزام لگایا ، سب جانتے تھے کہ وہ شعیب ملک کی طرف اشارہ کر رہے تھے جنھوں نے بعد میں اپنا دفاع کرتے ہوئے یوسف کی بطور کپتان حکمت عملی پر بھی سوال اٹھائے۔
بہرحال یہ ٹور پاکستان کرکٹ کے ماتھے پر بدنما داغ ہے، اسکواڈ میں شامل کئی کھلاڑی بعد میں فکسنگ کے سبب پابندی کا شکار ہوئے، بعض عدم ثبوت کی وجہ سے بچ نکلے، بعد میں دورہ انگلینڈ میں جب لوگوں نے گرفتار بکی مظہر مجید کو دیکھا تو علم ہوا ''ارے یہ تو آسٹریلیا میں بھی فلاں فلاں کھلاڑی کے ساتھ تھا'' اگر اسی وقت ٹیم مینجمنٹ کی گرفت مضبوط ہوتی تو شاید انگلینڈ میں اسپاٹ فکسنگ کیس رونما ہی نہیں ہوتا، گوکہ اب بھی ٹیم کی پرفارمنس اچھی نہیں اور وہ دونوں ٹیسٹ ہار کر سیریز گنوا چکی مگر شکر ہے اب مصباح الحق جیساایماندار شخص ٹیم کا کپتان ہے، ان کی قیادت اور بیٹنگ پر تنقید کی جا سکتی ہے مگر وہ بے ایمان نہیں ہیں،اسی لیے ان کے دور میں ٹیم پر کبھی کوئی الزام نہیں لگا، اب وہی سڈنی کا میدان ہے دیکھتے ہیں اس بار کیسی پرفارمنس رہتی ہے،مصباح بھی اس میچ کے بعد ریٹائرمنٹ کا عندیہ دے چکے ہیں،ماضی کے سڈنی ٹیسٹ کی تلخ یادوں کو ذہن سے نکالنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ٹیم اس بار عمدہ کھیل پیش کر کے فتح کو گلے لگائے، گوکہ آثار اچھے دکھائی نہیں دیتے مگر کوشش بہرحال ضرور کی جا سکتی ہے۔