سال بدلتا ہے پر حال نہیں بدلتا
سورج کے گرد سیاروں کی گردشوں کے طفیل ہماری زمین پر انسانوں کا مقرر کردہ ایک شمسی سال گزر گیا
سورج کے گرد سیاروں کی گردشوں کے طفیل ہماری زمین پر انسانوں کا مقرر کردہ ایک شمسی سال گزر گیا۔ 2016ء ماضی ہوا۔2017ء حال ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں بار بار ایسا محسوس ہوتا رہا ہے کہ جیسے وقت کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہو۔ ابھی چند سال پہلے ہی تو یہ غلغلہ تھا کہ بیسویں صدی ختم ہو رہی ہے اور اکیسویں صدی کی آمد آمد ہے۔ اکیسویں صدی کے استقبال کی کیا خوب تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ گزشتہ دن ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ ارے ... ذرا دیکھو تو... اکیسویں صدی کے سولہ برس ایسے گزر گئے کہ پتہ بھی نہ چلا۔
اس زمین پر وقت ہمیشہ اپنی مقررہ رفتار سے ہی سفر کرتا ہے لیکن کچھ لمحے ہمیں بہت طویل محسوس ہوتے ہیں اور کبھی کچھ گھنٹے یا دن بہت مختصر لگتے ہیں۔ کبھی لمحہ صدی بن جاتا ہے اور کبھی صدی لمحوں کی طرح لگتی ہے۔ اس کا تعلق انسان پر کسی واقعے کے اثر سے ہے اور وقت کی قدر سے بھی ہے۔ ہم پاکستانی پچھلے تقریباً ستر سال سے وقت کی قدر نہ کرنے کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔ وقت کی، عصر کی قدر لازم ہے، ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔
کہتے ہیں کہ خوشی وقت کی روانی کے احساس کو بڑھا دیتی ہے۔ دکھ اور صدمہ وقت گزرنے کے احساس پر حاوی آکر اسے سست کردیتے ہیں۔ تو کیا اکیسویں صدی کا آغاز بہت خوشیوں کے ساتھ ہوا تھا کہ سولہ سال گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا؟ حقائق تو کچھ اور ہی گواہی دیتے ہیں۔ گزشتہ صدیوں کی طرح اکیسویں صدی بھی اس دنیا میں چند سو حکمرانوں اور چند فیصد ارب پتی افراد کے اقتدار کے حصول اور دولت کے انبار میں اضافوں کی نوید لائی۔ زمین پر بسنے والے اکثر غریب لوگوں کا حال تو پہلے جیسا ہی ہے۔ روٹی روزی کے حصول کے لیے وہی سخت اور کٹھن حالات، دن رات محنت کرتے رہنے کے باوجود اربوں انسانوں کو پوری چادر میسر ہی نہیں آرہی کہ سر ڈھانپ لیں تو پاؤں نہ کھلیں۔
ستمبر 2000 ء میں دنیا بھر کی حکومتوں نے اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے انسانوں کو غربت اور بیماریوں سے نجات دلانے کے لیے ''ملینیئم ڈیولپمنٹ گول'' (MDG) کے نام سے ایک اقرار نامے پر دستخط کیے تھے۔ لیکن حاصل کیا ہوا؟
اکیسویں صدی کے ابتدائی سولہ سال میں دنیا کی طاقتور و انتہائی خوش حال حکومتیں اور عالمی ادارے مل کر بھی دنیا کے تین ارب سے زائد لوگوں کو بھوک سے نجات نہ دلاسکے۔ ہاں اس کام پر مامور کئی حکومتی اور اداراتی افسران کی زندگیاں ضرور نکھرتی اور سنورتی گئیں۔ افریقہ اور ایشیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک میں بسنے والے کروڑوں لوگ بے روزگاری یا غربت کی وجہ سے صحت بخش غذا سے محروم ہیں۔ صرف غریب ممالک ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکا میں بھی لاتعداد عورتیں، مرد، بوڑھے اور بچے غربت کے سبب بھوک کا سامنا کررہے ہیں۔
کیا کیا جائے، سال بدلتا ہے پر حال نہیں بدلتا۔ نہ غریب کا حال بدلا ہے نہ امیر کا۔ دونوں بھوک سے پریشان ہیں۔ غریب روٹی کی بھوک سے پریشان ہے اور امیر ہوس کی بھوک سے۔ اربوں غریبوں کی محرومیوں اور لاکھوں امیروں کی شوخیوں کا سبب چند فیصد انسانوں میں دولت کی ہوس ہی تو ہے۔ کیا نوع انسانی 2017ء میں اس ہوس سے نجات پاسکے گی؟ اس ہوس سے جو اربوں انسانوں کے لیے کئی المیوں اور شدید محرومیوں کا سبب بن چکی ہے۔ چلیں، مکمل نجات نہ سہی، انسانوں کے بہت بڑے طبقے کے لیے انتہائی مضر اور مہلک اس ہوس میں کچھ کمی ہوسکے گی؟
دولت کو فضیلت کا معیار سمجھنے والے انسانوں کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں دولت کی ہوس میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ نتیجتاً اربوں انسانوں کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔
پیٹ بھر کھانا، مناسب طریقے سے تن ڈھانپنا اور صاف، ہوا دار، روشن جگہ پر رہائش ہر انسان کا حق ہے۔ پاکستان میں 60ء کی دہائی کے آخر میں انسان کے ان حقوق کی ترجمانی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ان الفاظ میں کی تھی۔
روٹی، کپڑا اور مکان... مانگ رہا ہے ہر انسان
ہمارے ملک میں عوام بالخصوص ووٹرز کو بتایا گیا کہ شہریوں کو ان بنیادی ضروریات کی فراہمی ریاست کا فرض ہے۔ پاکستان میں ریاست یہ فرض ٹھیک طرح ادا کرسکے، اس کے لیے سوشلسٹ نظام معیشت کی پیروی تجویز کی گئی۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانوں کے اکثریت کے لیے سکھ کا اہتمام نہ کمیونزم کرسکا اور نہ ہی کیپٹل ازم۔
دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد برطانیہ میں وزیراعظم سر ونسٹن چرچل قومی ہیرو بن کر ابھرے تھے۔ وہ اگلے انتخابات میں اپنی کامیابی کے لیے پراعتماد تھے۔ ان کی مدمقابل جماعت لیبر پارٹی انتخابات میں خود کو کمزور حریف سمجھنے کے باوجود میدان چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔ اس بظاہر یک طرفہ نظر آنے والے مقابلے میں لیبرپارٹی کے لیڈر اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار کلیمنٹ ایٹلی نے ووٹرزکے سامنے فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا۔ اس تصور کے تحت روزگار، رہائش، صحت کی سہولتیں اور نئی نسل کے لیے تعلیم ریاست کی ذمے داری قرار دی گئی۔ ان مراعات کا نعرہ برطانیہ کے ووٹرز کو ایسا بھایا کہ قومی ہیرو چرچل کی شاندار خدمات ایک طرف رہ گئیں، ان کی جماعت کنزرویٹو پارٹی کو انتہائی غیر متوقع شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کرتے ہوئے کبھی میں سوچتا ہوں کہ 1945ء کے ان انتخابات میں چرچل سخت حریف نہ ہوتے، لیبر پارٹی اور ایٹلی کے لیے انتخابات جیتنا زیادہ مشکل نہ ہوتا، تب بھی کیا برطانوی ووٹرز کو یہ مراعات مل جاتیں؟
برطانیہ میں ایٹلی کو چرچل سے مقابلہ درپیش تھا اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کو اشتراکیت سے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے 80ء کی دہائی تک مغربی یورپ اور امریکا میں سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کو بھی بہت مراعات دی جاتی رہیں۔ افغان جنگ میں سوویت یونین کی شکست، بعد ازاں سوویت یونین کے انہدام کی وجہ سے کیپیٹل ازم کو کمیونزم سے خطرہ نہ رہا تو امریکا اور یورپ میں پہلے مزدوروں اور ملازمین اور پھر عام شہریوں کی مراعات بتدریج واپس لی جاتی رہیں۔
ان میں گریجویٹی، ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن، سوشل سیکیورٹی کے تحت طبی سہولیات، رہائش اور دیگر کئی مراعات شامل تھیں۔ اب امریکا اور یورپ کے بڑے بڑے صنعتی اور تجارتی اداروں میں تنخواہوں میں کچھ اضافہ کر کے ایک طرح سے کنٹریکٹ سسٹم نافذ کیا جارہا ہے۔ 8 گھنٹے کے اوقات کار بھی کئی اداروں میں کام کرنے والوں کے لیے اب افسانوی باتیں ہیں۔ صبح وقت پر دفتر آؤ رات دیر تک کام کرتے رہو، یعنی واپسی کا کوئی وقت مقرر نہیں اور اگلے دن صبح 9 بجے بہرحال دفتر پہنچنا ہے۔
جمہوری مغربی ممالک میں یہ سب باتیں سوویت یونین کے انہدام اور کمیونسٹ نظام کے زوال کے بعد شروع ہوئی ہیں۔
مختلف جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں مڈل کلاس افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح تعلیم حاصل کرکے یا پھر مختلف کاروبار کرکے اپنا معیار زندگی بہتر بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا کے کئی خطوں میں غربت، ناخواندگی اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ان خرابیوں کا سبب حکومت کے پاس صلاحیتوں اور وسائل کی کمی نہیں بلکہ غربت دور کرنے کے لیے بھرپور عزم کا فقدان ہے۔
بنیادی ضروریات سے محروم انسانوں کو بہلاؤوں میں آنے کے بجائے غربت دور کرنے کے لیے خود محنت کرنا ہوگی۔ برصغیر بالخصوص پاکستان میں غریب کے حالات اس وقت بہتر ہونا شروع ہوں گے جب غریب امیروں کا سہارا لینے کے بجائے خود دوسرے غریب کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
پتا نہیں کسی چرچل کا کسی ایٹلی سے مقابلہ کب ہو کہ اس بہانے ریاست غریبوں کی پرسان حال بن جائے۔ یک قطبی دنیا میں تو ابھی ایسا کوئی امکان واضح نہیں ہے۔
............
سال 2016 ء وہ جو ہم میں نہ رہے۔
ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات میں 2016ء میں انتقال کرجانے والے کئی افراد کا ذکر ہوا، میں نے یہ دیکھا کہ میڈیا والے قوم کے بڑے لوگوں کو نہیں بلکہ مشہور لوگوں کو زیادہ یاد رکھتے ہیں۔ کیا ایسی روش قوم میں تعلیم، تحقیق اور اعلیٰ روایات کے فروغ کے لیے معاون ہوگی؟