مکافاتِ عمل
امریکا کے صدارتی انتخابات کے نتائج نے بڑے بڑے ماہر تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کو حیران وپریشان کرکے رکھ دیا
امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج نے دنیا بھرکے بڑے بڑے ماہر تجزیہ نگاروں اور سیاسی پنڈتوں کو حیران وپریشان کرکے رکھ دیا اور ان کے اندازے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ثقہ قسم کے جوتشیوں کی جیوتش وِدیا بری طرح ناکام ہوکر رہ گئی اور ان کی تمام تر پیشن گوئیوں اور قیاس آرائیوں پر پانی پھرگیا۔
اب کہا جا رہا ہے کہ اس تاریخی اپ سیٹ کی پشت پر روس کے سربراہ پیوٹن کا ہاتھ تھا، لیکن اب یہ پچھتاوے کیا ہووت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ 32 کروڑ50 لاکھ کی آبادی پر مشتمل اور 96 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط دنیا کی سب سے بڑی قوت امریکا کو آج جس کٹھن صورتحال کا سامنا ہے وہ مکافات عمل ہے۔ قانون قدرت یہی ہے کہ جو دوسروں کے لیے کانٹے بوتا ہے اسے خود بھی ایک نہ ایک دن کانٹوں کی پوری فصل کاٹنی پڑتی ہے۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ دنیا میں فتنہ وفساد کی جڑ امریکا ہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تیسری دنیا کے ممالک کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے اپنی معاشی پالیسیوں کے ذریعے سے قرضوں کے سنہری جال میں نت نئے انداز سے بری طرح سے جکڑ رہا ہے۔
پہلی عالمی جنگ کے آغاز سے قبل امریکا علاقائی حد تک محدود تھا اور اس کے ہاتھ پاؤں پھیلے ہوئے نہیں تھے۔''بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا'' والی کہاوت کے مصداق جنگ عظیم اول کی وجہ سے اسے پہلی مرتبہ عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے اوراپنی معیشت کو مستحکم کرنے کا موقعہ میسر آیا جس سے اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اسی کے ساتھ اسے اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دینے اور اسلحے کی تجارت کو بڑھاوا دے کر اپنے خزانے کو بھرنے کا سنہری موقعہ بھی خوب ہاتھ آیا۔اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پہلی عالمی جنگ چھڑنے سے قبل امریکا کی کل سالانہ قومی آمدنی صرف 39 ہزار ملین ڈالر تھی، جو اس جنگ کے ختم ہونے تک 77 ہزار ایک سوملین ڈالر تک پہنچ گئی۔ جنگ کی شروعات سے پہلے امریکا کے پاس 1526 ملین ڈالرکے سونے کے ذخائر تھے جب کہ جنگ کے اختتام پر یہ ذخائر 2873 ملین ڈالر تک جا پہنچے تھے۔
اس کے علاوہ دنیا کے سرمایہ دار ملکوں کے سونے کے ذخائر کا لگ بھگ تین چوتھائی حصہ امریکی بینکوں میں جمع ہوچکا تھا۔ دوسری عالمی جنگ بھی امریکا کے حق میں خیرمستور (Blessing in Disguise) ہی ثابت ہوئی جس نے اسے نہ صرف عسکری بلکہ معاشی اعتبار سے مزید مستحکم کردیا۔ ان دونوں جنگوں نے تمام متحارب ممالک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ چونکہ ان جنگوں میں ملوث متحارب ملک براہ راست میدان جنگ بنے ہوئے تھے، اس لیے ان کی آبادیاں، صنعتیں، منڈیاں اور اسلحہ ساز فیکٹریاں بری طرح تباہ و برباد ہوگئیں۔
مگر چونکہ یہ دونوں جنگیں امریکی سرحدوں سے دور لڑی گئی تھیں اس لیے امریکا پر ان کی آنچ زیادہ نہیں آئی بلکہ امریکی ساہوکاروں اور اسلحہ سازوں نے اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بہتی ہوئی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ امریکی اسلحہ سازوں نے اسلحہ تیارکرکے اتحادی ممالک کو دھڑادھڑ فروخت کیا اور امریکی بینکوں نے جن پر صہیونیوں کی بالادستی تھی بھاری سے بھاری شرح سود پر قرضے دے دے کر اتحادی ممالک کو اپنے قرضوں کی زنجیروں میں بری طرح جکڑ لیا۔ اس تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ امریکی معیشت میں لاکھوں انسانوں کا خون شامل ہے ، جو ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گا اور غالب امکان یہی ہے کہ امریکا کے اپنے منطقی انجام کو پہنچنے کا آغاز ہوچکا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب برطانیہ کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا تو برطانیہ کی گدی امریکا نے سنبھال لی۔ اس کے بعد 24 اکتوبر 1945 کو امریکا کے زیر سایہ اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا جسے یو این او کے نام سے موسوم کیا گیا مگر جس پر اصل بالادستی امریکا کی ہی رہی۔ بقول سید محمد جعفری:
یُو ایس کا یُو ہے باقی
اس میں سب ہے تُو ہی تُو
چنانچہ 29 نومبر1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 181 کے ذریعے فلسطین کی مقدس سرزمین کی بندر بانٹ کے نتیجے میں اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور اس کا 50 فیصد زرخیز اور سرسبزوشاداب حصہ یہودیوں کے حوالے کردیا جن کی آبادی محض 32فیصد تھی جب کہ بقیہ صحرائی علاقہ اکثریتی آبادی فلسطینیوں کو دے دیا جوکہ اس سرزمین کے اصل باشندے تھے۔ اور پھر 14 مئی 1948 کو امریکی آشیرواد سے یہودیوں نے اسرائیل کی ریاست کا اعلان کردیا۔ ایرانیوں نے امریکا کو بجا طور پر ''شیطان بزرگ'' کا لقب دیا ہے کیونکہ عراق، افغانستان، لیبیا، سوڈان، صومالیہ، ترکی، انڈونیشیا وغیرہ سمیت دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جو امریکا کی سازشوں سے بچ سکا ہو۔ وطن عزیز پاکستان کے حوالے سے تو امریکا پر یہ حرف بہ حرف صادق آتا ہے کہ:
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
حالیہ امریکی صدارتی انتخاب کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے امریکا کے چہرے پر چڑھی ہوئی رہی سہی نقاب بھی اتار دی اور اس کا اسلام دشمنی میں رنگا ہوا اصلی چہرہ پوری دنیا کو دکھا دیا کیونکہ یہ الیکشن اسلام دشمنی کی بنیاد پر لڑا گیا۔ وہی امریکا جو عالم اسلام اور خصوصاً پاکستان کو دہشت گردی کے نام پر بدنام کررہا تھا، آج اس کا مکروہ چہرہ اسلام دشمنی کے حوالے سے ساری دنیا کے سامنے کھل کرآگیا ہے۔
نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے حالیہ انتخاب میں سفید فام قدامت پرست اور رجعت پسند امریکیوں کے سیاہ فام ہم وطنوں اورمسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تعصبات کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرکے اقوام عالم کو تقسیم کرنے والے امریکیوں کو خود دو حصوں میں تقسیم کردیا جو درحقیقت مکافات عمل کی ایک صورت ہے۔ امریکی صدارتی انتخاب جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق منفی قوم پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں امریکی مظاہرین نے سڑکوں پر آکر پر تشدد ہنگامے اور مظاہرے کرکے دوسروں کا مذاق اڑانے والوں کو پوری دنیا کے سامنے برہنہ کرکے رکھ دیا اور ان کی جھوٹی ساکھ کا بھرم خاک میں ملا دیا۔
مکافات عمل کی دوسری صورت یہ نظر آئی ، اگرچہ ہیلری نے ٹرمپ سے 53 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے لیکن اس کے باوجود جیت ٹرمپ کی ہی ہوئی، جس سے اپنے جمہوری نظام پر فخر کرنے والے امریکیوں پر یہ واضح ہوگیا کہ ان کے انتخابی نظام کی ہمالیائی خرابی یہ ہے کہ صدارتی امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ امریکی عوام کی غالب اکثریت نہیں کرتی بلکہ گنے چنے نمایندوں پر مشتمل الیکٹورل کالج کرتا ہے۔اس برسوں پرانے انتخابی نظام کا مقصد جنوبی امریکی ریاستوں کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے۔
امریکا میں مکافات عمل کے اس حوالے سے قتیل شفائی کا درج ذیل یہ خوبصورت شعر یک بہ یک یاد آگیا ہے:
میں نے توڑی تھی صراحی کہ گِھر آئے بادل
دوستو اس کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں
ٹرمپ کی غیر متوقع فتح نے دوسروں کو آپس میں لڑوانے والے امریکا کو اپنے ہی داخلی مسائل میں الجھا دیا۔ لگتا ہے کہ امریکا کے ستائے ہوئے دنیا بھرکے ستم رسیدہ اور مظلوم لوگوں کی بددعائیں اب رنگ لانے والی ہیں جس کے نتیجے میں امریکی عوام پرتشدد مظاہروں پر اتر آئے اور انھوں نے اپنا قومی پرچم اپنے ہی ہاتھوں سے برسرعام نذرآتش کردیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فرانس کے ایک فلسفی کی یہ پیشن گوئی درست ثابت ہونے والی ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی مدت میں دنیا پر حکمرانی کرنے والا امریکا خود ''ناقابل حکمرانی'' ہوجائے گا۔
اب کہا جا رہا ہے کہ اس تاریخی اپ سیٹ کی پشت پر روس کے سربراہ پیوٹن کا ہاتھ تھا، لیکن اب یہ پچھتاوے کیا ہووت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ 32 کروڑ50 لاکھ کی آبادی پر مشتمل اور 96 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط دنیا کی سب سے بڑی قوت امریکا کو آج جس کٹھن صورتحال کا سامنا ہے وہ مکافات عمل ہے۔ قانون قدرت یہی ہے کہ جو دوسروں کے لیے کانٹے بوتا ہے اسے خود بھی ایک نہ ایک دن کانٹوں کی پوری فصل کاٹنی پڑتی ہے۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ دنیا میں فتنہ وفساد کی جڑ امریکا ہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تیسری دنیا کے ممالک کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے اپنی معاشی پالیسیوں کے ذریعے سے قرضوں کے سنہری جال میں نت نئے انداز سے بری طرح سے جکڑ رہا ہے۔
پہلی عالمی جنگ کے آغاز سے قبل امریکا علاقائی حد تک محدود تھا اور اس کے ہاتھ پاؤں پھیلے ہوئے نہیں تھے۔''بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا'' والی کہاوت کے مصداق جنگ عظیم اول کی وجہ سے اسے پہلی مرتبہ عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے اوراپنی معیشت کو مستحکم کرنے کا موقعہ میسر آیا جس سے اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اسی کے ساتھ اسے اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دینے اور اسلحے کی تجارت کو بڑھاوا دے کر اپنے خزانے کو بھرنے کا سنہری موقعہ بھی خوب ہاتھ آیا۔اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پہلی عالمی جنگ چھڑنے سے قبل امریکا کی کل سالانہ قومی آمدنی صرف 39 ہزار ملین ڈالر تھی، جو اس جنگ کے ختم ہونے تک 77 ہزار ایک سوملین ڈالر تک پہنچ گئی۔ جنگ کی شروعات سے پہلے امریکا کے پاس 1526 ملین ڈالرکے سونے کے ذخائر تھے جب کہ جنگ کے اختتام پر یہ ذخائر 2873 ملین ڈالر تک جا پہنچے تھے۔
اس کے علاوہ دنیا کے سرمایہ دار ملکوں کے سونے کے ذخائر کا لگ بھگ تین چوتھائی حصہ امریکی بینکوں میں جمع ہوچکا تھا۔ دوسری عالمی جنگ بھی امریکا کے حق میں خیرمستور (Blessing in Disguise) ہی ثابت ہوئی جس نے اسے نہ صرف عسکری بلکہ معاشی اعتبار سے مزید مستحکم کردیا۔ ان دونوں جنگوں نے تمام متحارب ممالک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ چونکہ ان جنگوں میں ملوث متحارب ملک براہ راست میدان جنگ بنے ہوئے تھے، اس لیے ان کی آبادیاں، صنعتیں، منڈیاں اور اسلحہ ساز فیکٹریاں بری طرح تباہ و برباد ہوگئیں۔
مگر چونکہ یہ دونوں جنگیں امریکی سرحدوں سے دور لڑی گئی تھیں اس لیے امریکا پر ان کی آنچ زیادہ نہیں آئی بلکہ امریکی ساہوکاروں اور اسلحہ سازوں نے اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بہتی ہوئی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ امریکی اسلحہ سازوں نے اسلحہ تیارکرکے اتحادی ممالک کو دھڑادھڑ فروخت کیا اور امریکی بینکوں نے جن پر صہیونیوں کی بالادستی تھی بھاری سے بھاری شرح سود پر قرضے دے دے کر اتحادی ممالک کو اپنے قرضوں کی زنجیروں میں بری طرح جکڑ لیا۔ اس تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ امریکی معیشت میں لاکھوں انسانوں کا خون شامل ہے ، جو ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گا اور غالب امکان یہی ہے کہ امریکا کے اپنے منطقی انجام کو پہنچنے کا آغاز ہوچکا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب برطانیہ کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا تو برطانیہ کی گدی امریکا نے سنبھال لی۔ اس کے بعد 24 اکتوبر 1945 کو امریکا کے زیر سایہ اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا جسے یو این او کے نام سے موسوم کیا گیا مگر جس پر اصل بالادستی امریکا کی ہی رہی۔ بقول سید محمد جعفری:
یُو ایس کا یُو ہے باقی
اس میں سب ہے تُو ہی تُو
چنانچہ 29 نومبر1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 181 کے ذریعے فلسطین کی مقدس سرزمین کی بندر بانٹ کے نتیجے میں اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور اس کا 50 فیصد زرخیز اور سرسبزوشاداب حصہ یہودیوں کے حوالے کردیا جن کی آبادی محض 32فیصد تھی جب کہ بقیہ صحرائی علاقہ اکثریتی آبادی فلسطینیوں کو دے دیا جوکہ اس سرزمین کے اصل باشندے تھے۔ اور پھر 14 مئی 1948 کو امریکی آشیرواد سے یہودیوں نے اسرائیل کی ریاست کا اعلان کردیا۔ ایرانیوں نے امریکا کو بجا طور پر ''شیطان بزرگ'' کا لقب دیا ہے کیونکہ عراق، افغانستان، لیبیا، سوڈان، صومالیہ، ترکی، انڈونیشیا وغیرہ سمیت دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جو امریکا کی سازشوں سے بچ سکا ہو۔ وطن عزیز پاکستان کے حوالے سے تو امریکا پر یہ حرف بہ حرف صادق آتا ہے کہ:
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
حالیہ امریکی صدارتی انتخاب کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے امریکا کے چہرے پر چڑھی ہوئی رہی سہی نقاب بھی اتار دی اور اس کا اسلام دشمنی میں رنگا ہوا اصلی چہرہ پوری دنیا کو دکھا دیا کیونکہ یہ الیکشن اسلام دشمنی کی بنیاد پر لڑا گیا۔ وہی امریکا جو عالم اسلام اور خصوصاً پاکستان کو دہشت گردی کے نام پر بدنام کررہا تھا، آج اس کا مکروہ چہرہ اسلام دشمنی کے حوالے سے ساری دنیا کے سامنے کھل کرآگیا ہے۔
نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے حالیہ انتخاب میں سفید فام قدامت پرست اور رجعت پسند امریکیوں کے سیاہ فام ہم وطنوں اورمسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تعصبات کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرکے اقوام عالم کو تقسیم کرنے والے امریکیوں کو خود دو حصوں میں تقسیم کردیا جو درحقیقت مکافات عمل کی ایک صورت ہے۔ امریکی صدارتی انتخاب جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق منفی قوم پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں امریکی مظاہرین نے سڑکوں پر آکر پر تشدد ہنگامے اور مظاہرے کرکے دوسروں کا مذاق اڑانے والوں کو پوری دنیا کے سامنے برہنہ کرکے رکھ دیا اور ان کی جھوٹی ساکھ کا بھرم خاک میں ملا دیا۔
مکافات عمل کی دوسری صورت یہ نظر آئی ، اگرچہ ہیلری نے ٹرمپ سے 53 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے لیکن اس کے باوجود جیت ٹرمپ کی ہی ہوئی، جس سے اپنے جمہوری نظام پر فخر کرنے والے امریکیوں پر یہ واضح ہوگیا کہ ان کے انتخابی نظام کی ہمالیائی خرابی یہ ہے کہ صدارتی امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ امریکی عوام کی غالب اکثریت نہیں کرتی بلکہ گنے چنے نمایندوں پر مشتمل الیکٹورل کالج کرتا ہے۔اس برسوں پرانے انتخابی نظام کا مقصد جنوبی امریکی ریاستوں کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے۔
امریکا میں مکافات عمل کے اس حوالے سے قتیل شفائی کا درج ذیل یہ خوبصورت شعر یک بہ یک یاد آگیا ہے:
میں نے توڑی تھی صراحی کہ گِھر آئے بادل
دوستو اس کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں
ٹرمپ کی غیر متوقع فتح نے دوسروں کو آپس میں لڑوانے والے امریکا کو اپنے ہی داخلی مسائل میں الجھا دیا۔ لگتا ہے کہ امریکا کے ستائے ہوئے دنیا بھرکے ستم رسیدہ اور مظلوم لوگوں کی بددعائیں اب رنگ لانے والی ہیں جس کے نتیجے میں امریکی عوام پرتشدد مظاہروں پر اتر آئے اور انھوں نے اپنا قومی پرچم اپنے ہی ہاتھوں سے برسرعام نذرآتش کردیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فرانس کے ایک فلسفی کی یہ پیشن گوئی درست ثابت ہونے والی ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی مدت میں دنیا پر حکمرانی کرنے والا امریکا خود ''ناقابل حکمرانی'' ہوجائے گا۔