وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ

ستمبر میں پناہ گزینوں میں مذہبی شدت پسندی کی تبلیغ کے 340 کیس رپورٹ ہوئے جن سے سب سے زیادہ نوجوان متاثر ہوتے ہیں


قدسیہ ممتاز January 02, 2017
[email protected]

امسال دسمبر میں جرمنی کے شہر برلن میں کرسمس بازار پہ ٹرک حملے کی خبر تو آپ نے سنی ہی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خبر جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت اہم تھی، شاید اسی باعث کوریج سے محروم رہی۔ مغربی جرمنی کے شہر Ludwigshafen میں بارہ سالہ عراقی بچے نے جس کا نام کچھ بھی ہوسکتا ہے، کرسمس مارکیٹ میں بم نصب کرنے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔وہ مستقبل میں داعش میں شمولیت کا ارادہ رکھتا تھا۔یورپ میں اس قسم کے حملوں میں ملوث یہ کم عمر ترین فرد تھا۔اسی سال شروع دسمبر میں شمالی جرمنی میں پندرہ اور سترہ سال کے دو نوجوان دہشتگردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے پکڑے گئے۔

جرمنی میں کم عمر نوجوانوں یا بچوں میں اس قسم کا رجحان تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ستمبر میں پناہ گزینوں میں مذہبی شدت پسندی کی تبلیغ کے 340 کیس رپورٹ ہوئے جن سے سب سے زیادہ نوجوان متاثر ہوتے ہیں۔یہ نوجوان اس تعداد کا سات فیصد ہیں جو جہاد کے لیے جرمنی سے شام اور عراق کا رخ کرتے ہیں۔باقی مغربی ممالک میں بھی یہی صورتحال ہے۔اسی سال ستمبر میں ہی فرانس میں تین پندرہ سالہ نوجوان اسی جرم میں گرفتار ہوئے۔آسٹریا میں چار سولہ سالہ نوجوان مئی میں گرفتار ہوئے جو Antwerp میں اسلامی اسٹیٹ کے لیے بھرتی کا کام کررہے تھے۔ایسے ہی واقعات دیگر یورپی ممالک میں پیش آئے جہاں گرفتار نوجوانوں کی اوسط عمر پندرہ سال تھی۔

مغرب میں نائن الیون کے بعد ایسی رپورٹس شایع ہوتی رہی ہیں جن میں ان عوامل کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کوئی نوجوان کیوں القائدہ جوائن کرلیتا ہے۔ ان عوامل میں زیادہ تر نفسیاتی ہوتے ہیں اور اپنی شناخت کے حوالے سے غیر مطمئن نوجوان اس کا شکار ہوتے ہیں۔شام کی خانہ جنگی کے بعد ان رپورٹس میں القائدہ کی جگہ اسلامی اسٹیٹ یا داعش نے لے لی لیکن تجزیاتی عوامل اور ان کے نتائج ہمیشہ یکساں رہے یعنی احساس محرومی اور شناخت کا مسئلہ جس سے دو چار ہوکر کوئی بھی نوجوان مسلح دہشتگرد تنظیم میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے۔ان تجزیاتی رپورٹس کے غلط یا درست ہونے سے قطع نظر اس بات کا خیال رکھا جاتا رہا کہ اس قسم کی سرگرمی کے لیے مخصوص اصطلاح ـ مذہبی انتہا پسندی استعمال کی جائے۔

لیکن حال ہی میں غیر محسوس طور پہ اس اصطلاح کو ایک واضح لفظ جہاد سے بدل دیا گیا ہے۔ اوپر بیان کردہ تفصیلات روسی نشریاتی ادارے کی جس رپورٹ سے لی گئی ہیں اس کا عنوان ہی بچوں کا جہاد ہے۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ وہی روس ہے جہاں ولادمیر پوٹن نے سوویت یونین اور ہٹلر کی طرز پہ Yunarmiya نامی تحریک چلا رکھی ہے جس کے تحت اسکول کے بچوں کو جن کی عمریں متذکرہ بالا دہشتگرد بچوںسے بھی کم ہوتی ہیں، عسکری تربیت دی جاتی ہے۔ ان بچوں سے مادر وطن روس کی عظمت کے تحفظ کا حلف لیا جاتا ہے۔

یہ کوئی تشویش کی بات نہیں مہذب دنیا کو تو اس بات کی تشویش ہے کہ مسلمان بچوں میں جہاد جسے ماضی قریب تک مذہبی انتہا پسندی کہا جاتا تھا کا رجحان کیوں بڑھتا جارہا ہے۔فارن پالیسی میگزین کو یہ فکر پاکستانی بچوں کے متعلق ہوئی اور اس نے امسال اگست میں ایک رپورٹ شایع کی جس کا عنوان تھا: کیا کارٹون پاکستانی بچوں کوجہاد سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ عنوان پڑھ کر چونکنے کی ضرورت نہیں کہ وہ جہاد کو پولیو اور خناق جیسی ہی کوئی بیماری سمجھتے ہیںاور آپ کے پیارے بچوں کو اس سے بچانا چاہتے ہیں۔ چونکنے کی بات یہ ہے کہ معتبر میگزین دہشتگردی یامذہبی انتہا پسندی کی جگہ براہ راست جہاد کا لفظ استعمال کرتا ہے۔

رپورٹ بہت مزیدار ہے جو امریکی ہاوس اسپیکر Paul Ryan کے اس سوال سے شروع ہوتی ہے کہ کیا ہم ایک پانچ سالہ پاکستانی بچے کو جہادی ہونے سے بچا سکتے ہیں؟انھیں پاکستان ہی سے جواب موصول ہوا : جی ہاں۔ ہم اسے خود ہی ہیرو بنا دیں اور اسے بتائیں کہ ہیرو دراصل کون ہوتا ہے تو ایسا ممکن ہے۔وہ پوچھتے ہیں کیسے جب کہ تم اپنے بچوں کو چھٹی جماعت میں پڑھاتے ہو کہ بارھویں صدی کے آخر تک مسلمان دنیا پہ حکومت کرتے رہے اور یورپ اس کے خلاف سازشیں کرتا رہا کہ وہ کبھی دوبارہ سپر پاور نہ بن پائیں اور آٹھوین جماعت میں تم اسے پڑھاتے ہو کہ طالبعلم ہونے کی حیثیت سے جہاد میں شامل نہ ہو سکو تو اس میں مالی معاونت بھی جہاد ہی ہے اور یہ کہ ہماری UNDP کی رپورٹ بتاتی ہے کہ کوئی بچہ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی اس جہادی جذبے سے غیر مانوس نہیں ہے کہ یہ بالکل واضح، عوامی اور بلند آہنگ ہے تو تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو؟ سوال تیکھے تھے، کرنے والے کی تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں تو جواب کو عملی اور ٹھوس ہونا چاہیے تھا۔

ایسا ہی ہوا۔کارٹونوں کی ایک سیریز بنائی گئی جسے کاونٹر جہاد کا نام دیا گیا۔ یہ جہاد کے ایسے متبادل خیالات پہ مبنی تھے جو پاکستانی بچے کے ذہن میں آسانی سے جگہ بنا سکیں۔یہ کارٹون ہر چینل سے دکھائے جانے لگے۔ ان ہی میں ایک کارٹون سیریز ایک ایسی نوجوان بچی کے کردار پہ مبنی ہے جو برقع پہنتی ہے۔ کردار کے برقع پہننے پہ اعتراض کیا گیا لیکن بنانے والے اعتراض کرنے والوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ برقع پوش نوجوان لڑکی بچوں اور بڑوں کے لیے زیادہ قابل قبول ہوگی۔نوجوان لڑکی کے لیے ہیرو کا کردار اس لیے بھی رکھا گیا تاکہ پاکستانی معاشرے میں عورت کو مضبوط اور درست فیصلہ کرنے والی ہستی کے طور پہ پیش کیا جاسکے۔البتہ اس سیریز کے تخلیق کار جو حال ہی میں ہالی وڈ پہنچے ہیں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے بعد صورتحال بہت بدل گئی ہے۔ ممکن ہے اب برقع اتنی وضاحتوں کے بعد بھی قابل قبول نہ رہے۔

اس کارٹون سیریز کی ایک قسط ان دہشتگردوں کے گرد گھومتی ہے جو کچھ کر گزرنے کا عزم دل میں چھپائے پرجوش نوجوانوں کو ہیرو بننے کی پیشکش کرتے اور جہادی ٹریننگ دیتے ہیں۔ٹریننگ دینے والا کردار باریش جب کہ اس کا اسسٹنٹ ایک افغانی طرز کی ٹوپی پہننے والا شخص ہے۔اس قسط میں جہاں انھیں خوفناک اور ظالم دکھایا گیا ہے وہیں ان کو مزاحیہ انداز میں گرتے پڑتے اور حماقتیں کرتے بھی دکھایا گیا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہونگے کہ مضحکہ خوف کا علاج ہے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔

یہ دہشتگرد تربیت کار بچوں کو برین واش کرکے ان ہی کے گاوُں پہ حملہ کرنے کے لیے ایک منجنیق بنواتے ہیں۔ یاد رہے منجنیق کا تذکرہ محمد بن قاسم کی دیبل کی مہم کے ساتھ مخصوص ہے جو ان ہی بچوں کی درسی کتب میں پڑھایا جاتا ہے۔سترہ سالہ محمد بن قاسم بھی آخر بچہ ہی تو تھا اور کبھی ہمارا ہیرو ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہم نسیم حجازی کی رومان انگیز تاریخی داستانیں پڑھا کرتے تھے۔ بدلے ہوئے دور، معیارات اور ترجیحات میں بنائی جانے والی ایسی اور اس جیسی کئی کارٹون سیریز کا بنیادی آئیڈیا دراصل ایک امریکی نژاد پاکستانی موسیقار کی ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے جس نے سب سے پہلے ایک سادہ سی ویڈیو یو ٹیوب پہ اپلوڈ کی جس کا عنوان تھا: جنت میں جاو۔ اس ویڈیو میں ایک نوجوان مذہب اور خدا سے متعلق سوال کرتا ہے اور مولوی نما کردار اسے کہتے ہیں کہ سوال کرنا حرام ہے۔ویڈیو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مملکت خداداد کے ہر مسئلے کا باعث مذہب اور مولوی ہے۔

اس ویڈیو کو مغربی میڈیا میں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔یہیں اسے احساس ہوا کہ پاکستانی نوجوان کو ایک متبادل بیانیہ دیا جا سکتا ہے۔اسی احساس میں Paul Ryan کے سوال کا جواب بھی پوشیدہ تھا۔یہ الگ بات ہے کہ پاول ریان پاکستانی بچوں کے متعلق اس تشویش کی آڑ میں پینٹا گون کی اس فکر کو چھپا گئے کہ ستر فیصد امریکی نوجوان جن کی عمریں سترہ سے چوبیس سال ہیں ہر سال امریکی فوج میں شمولیت کے لیے نا اہل ہوجاتے ہیں بلکہ وہ اس کے خواہشمند ہی نہیں ہوتے جب کہ امریکی فوج اپنی جیب سے ایسے ویڈیو گیم بنواتی رہتی ہے جنھیں کھیل کر بچوں میں مادر وطن کی حفاظت کا جذبہ پیدا ہوا۔ امریکی بچے ذہین ہیں، وہ ویڈیو گیم سے محظوظ ضرور ہوتے ہیں لیکن امریکی فوج کو جھانسا دے جاتے ہیں۔

البتہ یہ کارٹون سیریز پاکستانی بچوں پہ کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ وہ امریکی بچوں سے زیادہ ذہین ہیں۔ممکن ہے وہ کارٹون سے لطف اندوز ہوں اور پاول ریان کو جھانسا دے جائیں۔ ہمیں اس بات کی کوئی خاص تشویش بھی نہیں کہ ہم نے اپنے معیارات کے تعین کا اختیار جنھیں سونپا تھا انھوں نے بنیاد پرستی سے مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی انتہا پسندی سے بالاخر جہادتک کا سفر بڑے غیر محسوس انداز میں طے کیا۔ ہمیں خبربھی نہ ہوئی اورہمارے ہیرو اور ولن بدل گئے۔ ہم اسی میں خوش رہے کہ ہم نے نسیم حجازی جیسے غیر حقیقی رومان پسند جہادی مصنف سے جان چھڑا لی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں