عدم مساوات

پاکستان سمیت ساری دنیا 2008ء اقتصادی بحران کا شکار ہے اور یہ بحران انسانوں کا اپنا پیداکردہ ہے

پہلے اقوام متحدہ نے اس ہزاریے کے ترقیاتی مقاصد بنائے تھے، پاکستان نے جیسے تیسے ان پر عمل کرنے کی کچھ کامیاب اور کچھ ناکام کوشش کی۔ اب اقوام متحدہ نے رکن ممالک کو پائیدار ترقی کے مقاصد کے حصول کا پابند بنایا ہے لیکن ممتاز ماہرمعاشیات قیصر بنگالی کے بقول جب تک پاکستان میں طبقاتی اونچ نیچ رہے گی، غریبوں کے لیے تو یہ مقاصد کبھی حاصل نہیں ہو پائیں گے۔

پاکستان کی اشرافیہ تو یہ مقاصد حاصل کر چکی ہے لیکن غریب کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ امیروں کے بچوں کی اسکول فیس ایک چوکیدار کی ماہانہ تنخواہ سے تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے بچے ایسے ہیں، جنہوں نے کبھی انڈے کا ذائقہ نہیں چکھاکیونکہ ان کے والدین انڈے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ غریب کنبہ ایک کمرے کے گھر میں رہتا ہے جب کہ امیروں کے گھر کئی کئی کمروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔

قیصر بنگالی کی باتیں پڑھ کر مجھے جوزف ای اسٹگلز کی کتاب ''عظیم تقسیم'' یاد آ گئی۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک اور پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ طبقہ امراء آبادی کے صرف ایک فی صد حصہ پر مشتمل ہے اور باقی آپ جیسے اور ہم جیسے لوگ ہیں۔ ''امیروں کی زندگیاں بالکل مختلف ہیں۔ ان کے مسئلے مختلف ہیں، امنگیں مختلف ہیں اور لائف اسٹائل مختلف ہیں۔''

ایک عام شہری تو اسی فکر میں رہتا ہے کہ یوٹیلٹی بل اور بچوں کی اسکول فیس کیسے ادا کرے گا، اگر خاندان میں کوئی کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہو گیا تو اس کا علاج کیسے ہو گا، ریٹائرمنٹ کے بعد گزارا کیسے ہو گا، جب کہ اسٹگلزکے بقول امیروں میں بھی زیادہ امیر یہ سوچتے ہیں کہ کس قسم کا جیٹ طیارہ خریدیں۔ اپنی آمدنی کو ٹیکس سے بچانے کے بہترین طریقے کون سے ہیں، اگر سوئٹزر لینڈ کے بینکوں نے رازداری کا اصول ترک کر دیا تو کون سے علاقے کا رخ کریں گے۔

جہاں تک چھوٹے سے طبقہ امرا کی بات ہے تو پاکستان کا امیر ترین آدمی شاہد خان ہے جو امریکا میں رہتا ہے، پاکستان کی دوسری امیر ترین شخصیت آصف زرداری، تیسری میاں محمد منشا، چوتھا نمبر انور پرویزکا ہے جو لندن میں رہتے ہیں اور پانچواں نمبر نواز شریف کا ہے۔ ان کے بعد صدرالدین ہاشوانی، ناصر شون، اے آروائی گروپ کے عبدل آر یعقوب، بحریہ ٹاؤن والے ملک ریاض حسین اور سہگل خاندان کے طارق سہگل کا نمبر آتا ہے۔ ان لوگوں کی دولت اپنی جگہ مگر پاکستان سمیت ساری دنیا 2008ء اقتصادی بحران کا شکار ہے اور یہ بحران انسانوں کا اپنا پیداکردہ ہے۔


جوزف ای اسٹگلٹزکا کہنا ہے کہ ورلڈ بینک کے چیف اکنامسٹ کی حیثیت سے انھوں نے دیکھا تھا کہ نو آبادیت کے خاتمے کے بعد مغرب نے فری مارکیٹ بنیاد پرستی کے تصورات کو فروغ دیا، ان میں سے بہت سے آئیڈیاز ترقی پذیر ممالک کے بارے میں وال اسٹریٹ کے نکتہ نظر اور مفادات کی عکاسی کرتے تھے۔ ظاہر ہے ترقی پذیر ممالک کے پاس کوئی زیادہ چوائس بھی نہیں تھی۔ نوآبادیاتی طاقتیں پہلے ہی انھیں تاراج کر چکی تھیں، ان کا بے رحمی سے استحصال کرچکی تھیں۔ ان کے وسائل لوٹ چکی تھیں مگر انھوں نے ان غلام ملکوں کی معیشت کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا تھا۔

ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی مدد درکار تھی۔ یہ مدد فراہم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے حکام کی کچھ شرائط تھیں، یعنی ترقی پذیر ممالک اپنی فنانشل مارکیٹس کو لبرلائزکریں گے اور اپنی ڈومیسٹک مارکیٹس کو کھول دیں گے تا کہ وہاں ترقی یافتہ ممالک کی اشیا کا سیلاب امڈ پڑے، مگر ترقی یافتہ ممالک نے خود اپنی منڈیاں جنوب کے غریب ممالک کی زرعی اجناس کے لیے کھولنے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈاکٹر نیاز مرتضیٰ کے بقول ''آئی ایم ایف کے لیے اکثر اس سنگ دل مہاجن کی مثال دی جاتی ہے جو غریب ممالک کو اپنی بری پالیسیاں اپنانے پر مجبورکرتا ہے اور اپنی رقم کی واپسی کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے اور یوں وہ ممالک غربت کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جاتے ہیں۔

پاکستان نے بارہا آئی ایم ایف سے قرضے لیے ہیں ۔1980ء سے 2012ء تک ہم نے 21 مرتبہ قرضہ لیا تھا، مگر ہمیں ان میں سے دس پروگرام درمیان میں ترک کرنا پڑے تھے کیونکہ ہم آئی ایم ایف کی پالیسی تجاویز پر پوری طرح عمل نہیں کر پائے تھے۔ ماہرین کے بقول اس کی وجہ سیاسی عزم کی کمی اور بدانتظامی تھی۔ ایک طرف ہم خاطر خواہ اقتصادی اصلاحات نہیں کر سکے دوسری طرف آئی ایم ایف کے پروگرام کی اپنی خامیاں بھی تھیں۔''

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو سوچنا ہو گا کہ وہ کب تک آنکھیں بند کر کے فری مارکیٹ کی بنیاد پرستی اور آئی ایم ایف کی استحصالی پالیسیوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ ہمارے سامنے ہی مشرقی ایشیا نے ایک مختلف راستہ اپنایا۔ ان ممالک کی حکومتوں نے ترقیاتی کوششوں کی رہبری کی۔ (انھیں ترقیاتی ممالک کہا گیا) وہاں فی کس آمدنی بہت تیزی سے دگنی تگنی یہاں تک کہ آٹھ گنا ہو گئی۔

چین جو ایک غریب ملک سمجھا جاتا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے امریکا کے کندھوں تک آ پہنچا اور اب وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے، لیکن شاید عقیدے شواہد سے زیادہ بااثر ہوتے ہیں۔ فری مارکیٹ کا پرچارکرنے والے مغربی ماہرین معاشیات مشرقی ایشیاکی منظم معیشتوں کی کامیابی کو بالکل نظراندازکر دیتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ سوویت یونین کی ناکامیوں کے بارے میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں مارکیٹ سے بالکل اجتناب کیا گیا۔ دیوار برلن کے گرائے جانے اور کمیونزم کے ختم ہونے کو منڈی کی فتح سمجھا گیا، لیکن یہ ایک غلط نتیجہ اخذ کیا گیا تھا۔

امریکا نے باقی رہ جانے والی واحد عالمی طاقت کی حیثیت سے اپنے اقتصادی مفادات کو آگے بڑھایا بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ اپنی بڑی اور طاقتور کارپوریشنوں کے مفادات کو آگے بڑہایا اور اس میں سب سے اہم مالیاتی شعبہ تھا۔ امریکا نے دیگر ممالک پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی فنانشل مارکیٹوں کو لبرلائز کریں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک کے بعد دوسرا ملک بحرانوں کا شکا ر ہوتا چلا گیا۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل تھے جو اپنی مارکیٹوں کو لبرلائزکرنے سے پہلے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
Load Next Story