موجودہ حالات میں فلمسازی کرنے والوں کو’ تمغہ جراٗت‘ ملنا چاہیئے

پاکستان کی 90فیصد فلمیں آسکرکیلئے کوالیفائی نہیں ہوتیں: شرمین چنائے

پاکستان کی 90فیصد فلمیں آسکرکیلئے کوالیفائی نہیں ہوتیں: شرمین چنائے۔ فوٹو : فائل

QUETTA:
دنیا بھرمیں فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں سب سے معتبرایوارڈ اوراعزاز ''آسکر'' کومانا جاتا ہے۔ جن فنکاروں کویہ ایوارڈ ملتا ہے ، ان پرمستقبل میں مزید بہترین کا م کی ذمہ داری آن پڑتی ہے۔

جن لوگوں کی اس ایوارڈ کیلئے صرف نامزدگی ہوجاتی ہے ، وہ بھی اپنے آپ کو بے حد خوش قسمت مانتے ہیں بلکہ ان کے نام کے ساتھ پھرہمیشہ ' آسکر' کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سے ''آسکرایوارڈ '' کی قدر وقیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔



اس سلسلہ میں پاکستان بھی بہت خوش قسمت ہے کہ پاک سرزمین کی بیٹی شرمین عبید چنائے نے دومرتبہ یہ ایوارڈ حاصل کرکے پاکستان کا نام دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں شامل کردیا ہے، جہاں کے باصلاحیت فنکار وتکنیک کاراس ایوارڈ کوحاصل کرچکے ہیں۔ ویسے توشرمین عبید چنائے کبھی کسی پراجیکٹ پرمصروف رہتی ہیں یا ان کے غیرملکی دوروں اورخصوصی کانفرنسز اورسیمینارز میں شرکت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اپنے انتہائی مصروف ترین شیڈول کے باوجود شرمین عبید چنائے نے ''ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویودیا، جوقارئین کی نذرہے۔

آسکرایوارڈ یافتہ فلم میکرشرمین عبید چنائے نے کہا ہے کہ اپنی زندگی میں بین الاقوامی معیار کے عین مطابق '' فلم میکنگ اور اینی میشن انسٹی ٹیوٹ '' بنانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ اس سلسلہ میں ہالی وڈ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھنے والے اینی میٹڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین کوتربیت کیلئے پاکستان بلوایا جائے گا، جوہمارے ملک کے باصلاحیت ٹیکنیشنزکے ساتھ مل کر ورکشاپس کریں گے اوران کوانٹرنیشنل معیار کے مطابق کام کرنے کی تربیت دیں گے۔ پاکستان میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں لیکن ان کودرست سمت میں آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بچوں اورنوجوانوں کے لئے تفریح کے مواقع بہت کم ہیں۔ خصوصاً فلمسازی کے شعبے میں بچوں کیلئے بہت کم فلمیں بنائی جاتی ہیں۔



اسی لئے میں نے اینی میٹڈ فلمیں بنائی ہیں اورمستقبل میں بھی اس سلسلہ کوجاری رکھوں گی۔ ویسے تودنیا بھرمیں اینی میٹڈ فلمیں بنائی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقے کے علاوہ عام بچوںکوانگریزی زبان سمجھنے میں خاصی دشواری ہوتی ہے۔

اسی لئے میں نے اردوزبان میں بچوں کیلئے اینی میٹڈ فلمیں بنائیں۔ یہ کام دکھنے میں جتنا آسان ہے، لیکن اسے کرنے والے لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اس کیلئے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب اس شعبے میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی انتہائی مہنگی ہے اوراس کواستعمال میں لانے والوں کی تعداد بھی یہاں کم ہے۔ جہاں تک بات اس کے بزنس کی ہے توپہلی پاکستانی اینے میٹڈ فلم کا بزنس کسی بھی کامیاب رومانٹک، ایکشن فلم سے زیادہ تھا۔




ایک سوال کے جواب میں شرمین عبید چنائے نے بتایا کہ پاکستان میں فلمسازی کا انفراسٹرکچرخاصا کمزور ہے۔ موجودہ حالات میں جوبھی فلم انڈسٹری کیلئے کام کررہا ہے، اس کوتمغہ جراٗت ملنا چاہئے۔ حکومت ایک پالیسی نکالے اوراس سے پہلے پاکستانی فلم کوانڈسٹری کا درجہ دے۔ تاکہ حکومت جس طرح ایک انڈسٹری کوسپورٹ کرنے کیلئے مراعات دیتی ہے، اسی طرح پاکستانی فلم انڈسٹری کوبھی سپورٹ کیا جاسکے۔



ہمارے پاس لائٹنگ ، ساؤنڈ ، اینی میشن کے جدید اوربہترین سٹوڈیوموجود نہیں ۔ اس ٹیکنالوجی کوامپورٹ کرنے کے لئے ٹیکس اورڈیوٹی کی مد میں رعایت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان فلم کی بہتری اوربحالی کیلئے یونائٹڈ آرگنائزیشن ہونی چاہئے، جس میں کراچی اورلاہورکے پروڈیوسر، ڈائریکٹر شامل ہوں اوریہ لوگ مل کرپاکستان فلم کی بہتری کیلئے کام کریں، لیکن یہاں توابھی تک یہ واضح نہیں ہوپارہا ہے کہ ان کولیڈ کون کررہا ہے ؟ جب تک ہم متحد ہوکر حکومت کے سامنے اپنی تجاویزنہیں رکھتے، تب تک مثبت رسپانس نہیں ملے گا۔ لاہوراورکراچی کے پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کو یکجا کرنے کیلئے مجھ سے زیادہ قابل لوگ موجود ہیں، جواس کام کو بہتر انداز سے انجام دے سکتے ہیں۔

البتہ اگرکوئی ایسی آرگنائزیشن بن جائے اوروہ میری رائے لینا چاہیں تومیں اس کی بہتری کیلئے ضروررہنمائی کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دوماہ کے دوران پاکستانی سینما کی حالت خاصی بگڑ چکی ہے۔ ہمارے عوام اب بالی وڈ سٹارز کی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کے باوجود مجھے فخر ہے کہ پاکستان میں لوگ فلمیں بنا رہے ہیں۔ پبلک کواندازہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں ایک فلم بنانا کس قدر مشکل کام ہے۔ ایک فلم میکر کوکن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔



شرمین عبید چنائے نے مزید کہا کہ آسکر کی فارن لینگوئج کیٹگری میں پاکستانی فلمیں جارہی ہیں ، مگراب میں اس میں حصہ نہیں لونگی۔ اگلا آسکراینی میشن کیٹگری میں لینا چاہتی ہوں۔ جہاں تک بات پاکستان کی آسکرکمیٹی کی ہے تو اس میں صرف انہی لوگوں کوممبربنایا گیا ہے ، جوہرلحاظ سے قابل ہیں۔ اس میں صرف فلم میکرز ہی نہیں بلکہ میوزک ڈائریکٹر، میک اپ آرٹسٹ، فنکار اور دیگر لوگ شامل ہیںجن کی مشاورت کے بعد پاکستان سے فلم کوآسکرکیلئے منتخب کیا جاتا ہے۔ ہم نے نئے فلم میکرزکوبھی دعوت دی ہے اوراب یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ آسکرکمیٹی کا حصہ انہی لوگوںکو ہونا چاہئے جوموجودہ دور میں کام کررہے ہیں لیکن ان کا کام انتہائی معیاری بھی ہے۔ کیونکہ آسکرکیلئے کسی فلم کا انتخاب کرنا آسان نہیں ہوتا۔ گزشتہ چار برس میں جن فلموںکو آسکرکیلئے بھجوایا گیا وہ سب آرٹ فلمیں ہیں۔ اسی طرح دنیا بھرسے صرف آرٹ فلمیں ہی منتخب کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بننے والی 90فیصدفلمیں توآسکرکے معیار پرپورا ہی نہیں اترتیں۔



گفتگو کے اختتام پرشرمین عبیدچنائے نے بتایا کہ ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت اعزاز کی بات ہے۔ کیونکہ میں دنیا کی پہلی آرٹسٹ ہوں جسے اس فورم میں خطاب کی دعوت دی گئی ہے۔ مجھ سے پہلے دنیا میں کسی آرٹسٹ نے اورخصوصاً کسی مسلم فنکارہ نے اس ایونٹ میں شرکت نہیں کی۔ اس موقع پرمیں ذمہ دار لیڈرشپ اورکس طرح سے حکومتیں فلم کے شعبے میں سرمایہ کاری کرسکیں گی کے موضوع پربات کروں گی۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ دنیا بھرمیں جولوگ اپنے ملک کی ثقافت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، وہیں خوش وخرم زندگی بسر کرتے ہیں۔
Load Next Story