نئے چیف صاحب

برادری ازم بہت بڑی لعنت ہے، بدقسمتی سے عدلیہ میں بھی برادری پروری کی رِیت رہی ہے جو قابلِ مذّمت ہے۔۔۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

RAHIM YAR KHAN:
ملک کے نئے قاضی القضات نہ ہی ''کسی کے آدمی'' ہیں کہ ''کوئی '' ان پر اثرانداز ہوسکے، نہ ہی وہ ایسے انقلابی ہیں کہ کورٹ نمبر1میں بیٹھ کرپورے ملک کے بگڑے ہوئے نظام کو ٹھیک کرنے کا بیڑہ اٹھا لیں۔ اور نہ ہی وہ ٹی وی اسکرینوں کا پیٹ بھرنے کے لیے فیصلے کریں گے کیونکہ انھیں سیاست میں حصہ لینے کا کوئی شوق نہیں۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انھیں پچھلے چالیس سال سے جانتا ہوں، میاں ثاقب سے جسٹس ثاقب نثار بننے کا سفر ہمارے سامنے طے ہوا ہے۔ نئے چیف جسٹس آف پاکستان اور راقم پہلے گورنمنٹ کالج لاہور میں اور پھر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں کلاس فیلو تھے، وکالت شروع کرنے کا وقت آیا تو بھی ایک ہی استاد کے پاس زانوئے تلمّذ طے کرنے کے لیے پہنچے۔ فوجداری کے نامور وکیل خواجہ سلطان صاحب کے شاگردوں خواجہ شریف، خواجہ حارث اور ثاقب نثار کے ساتھ ایک اور کا اضافہ ہوگیا مگر راقم نے وکالت کا بھاری پتھر جلد ہی چوم کر رکھ دیا اور مقابلے کا امتحان دیکر کالے کوٹ کے بجائے کالی وردی پہن لی۔

مختلف صوبوں اور شہروں میں کئی سال گزارنے کے بعد جب راقم کوتوالِ شہر بنکر لاہور آیا تو معلوم ہوا کہ ثاقب نثار صاحب ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری کے امیدوار ہیں، اسی پینل میں ہمارے دوست عابد سعید (چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا )کے والد سعید انصاری صاحب صدارتی امیدوار تھے، دونوں جیت گئے ، مگر میاں ثاقب نثار صاحب کبھی مسلم لیگی نہیں رہے۔ بار کی سیاست میں امیدوار سیاسی پارٹیوں کی نہیں سینئر وکلاء کے بااثر گروپوں کی آشیرباد لیتے ہیں۔

1993 میں جب غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت پر اٹھاون ۔دو ۔بی کا کلہاڑا چلادیا تو ان کے ساتھیوں نے اس آمرانہ فیصلے کو ججوں کی سب سے بڑی عدالت میں چیلنج کیا اور خود میاں صاحب اپنا مقدمہ لے کر اس سے بھی بڑی یعنی عوام کی عدالت میں پہنچ گئے۔ ان کے بہت بڑے بڑے جلسے ہونے لگے ہر صوبے اور ہر شہر میں عوام کی طرف سے انھیں بے پناہ پذیرائی ملی اور وہ پہلی مرتبہ عوامی مقبولیت سے متعارف اور سرشار ہوئے۔ اُدھر عدالت میں کیس لڑنے کے لیے ان کی پارٹی کراچی سے وکیل لے کر آئی ۔ دبلا پتلا سا صاف انگریزی بولنے والا خالد انور۔ ثاقب نثار صاحب ان کے لاہور آفس کے انچارج تھے اور ان کے جونئیر کے طور پر ان کے ساتھ آیا کرتے تھے۔

اُدھر کورٹ نمبر1کے بڑے جج صاحب (جو بعد میں اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے صدر بنے اور ہماری ان سے بہت گپ شپ رہی) بتاتے تھے کہ "ہم کورٹ نمبر1والے سیاسی مقدموں کا فیصلہ کرنے سے پہلے عدالت کی کھڑکی کھول کر باہر کا موسم ضرور دیکھتے ہیں" خالد انور کی جگہ کوئی بھی سینئر وکیل ہوتا تو بابے اسحاق خان کے اس غلط اقدام کی دھجیاں اڑانے کے لیے دلائل کے انبار لگا سکتا تھا مگر دلائل سے زیادہ "باہر کا موسم " زیادہ اہم تھا جو صدارتی فیصلے کے حق میں نہیں تھا لہٰذا قومی اسمبلی بحال کردی گئی میاں صاحب دوبارہ وزیرِاعظم ہاؤس میں اور خالد انور ان کے دل میں داخل ہوگئے۔

نواز شریف صاحب 1997ء میں وزیرِاعظم بنے تو انھیں اپنا کراچی والا وکیل نہ بھولا، انھیں بلا کر پوچھا بولو کیا مانگتے ہو؟ وکیل کی معراج وزارتِ قانون ہوتی ہے چنانچہ خالد انور نے قانون کی وزارت لے لی۔ اس کے کچھ عرصے بعد انھوں نے ثاقب نثار صاحب کو اپنی وزارت کا سیکریٹری یعنی لاء سیکریٹری لگوا لیا۔ کچھ عرصے بعد لاہور ہائیکورٹ میں ججوں کی اسامیاں نکلیں تو ناموں کی لسٹ میں میاں ثاقب صاحب کا نام بھی شامل تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں ان کی حلف برداری کی تقریب میں، مَیں بھی شامل تھا کیونکہ اُس روز حلف اٹھانے والے نئے ججوں میں سب سے سینئر میرے بڑے بھائی جسٹس افتخار احمد چیمہ تھے (جو کئی سال مختلف ضلعوں میں سیشن جج رہنے کے بعد ہائیکورٹ کے جج بنے تھے )کہ سروس سے آنے والے جج وکلاء میں سے بننے والے ججوں سے سینئرہوتے ہیں۔

اس تقریب میں سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب بھی موجود تھے اور حسبِ معمول خوش گپیوں اور چہلوں میں مصروف تھے اور گلہ کر رہے تھے کہ" اخباروالوں سے کوئی پوچھے کہ داماد کے حوالے سے وہ صرف آصف کا ہی ذکر کیوں کرتے ہیں (نسیم حسن شاہ صاحب کے داماد آصف کھوسہ صاحب نے بھی اسی روز حلف اٹھایا تھا جو اب سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں) دوسرے بھی توکسی نہ کسی کے داماد ہیں"۔

دیرینہ تعلقات کی بناء پر میں نئے چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں چند گذارشات پیش کررہا ہوں امید ہے وہ اس پر ضرور غور فرمائیں گے۔

٭...انتہائی سوشل میاں ثاقب نثار نے جسٹس ثاقب نثار بننے کے بعد بھی دوستیاں اور سماجی رابطے برقرار رکھے ہیں۔ راقم کو بھی انھوں نے ہمیشہ بہت عزّت دی ہے۔ وہ اپنے ہم مکتب دوستوں کے دکھ سکھ میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج بننے کے بعد انھیں چاہیے کہ اب اپنے اوپر پابندی لگا لیں اور عدلیہ کی تقریبات کے علاوہ کسی تقریب میں شریک نہ ہوں، دوستوں اور کلاس فیلوز سے بھی ملنے جلنے سے احتراز کریں اس سلسلے میں، مَیں بھی اعلان کرتا ہوں کہ ان کے اعلیٰ منصب کے دوران ان سے ملنے کی ہرگز کوشش نہیں کرونگا۔


٭...اعلی سطح کی تقریبات اور عشائیوں کے دعوت نامے بھی چیف جسٹس کو بھیجے جاتے ہیں اس سلسلے میں انھیں ملک کے پہلے چیف جسٹس سر عبدّالرشید کے طرزِ عمل کی پیروی کرنی چاہیے۔ چند روز پہلے میں جمشید مارکر کی کتاب Cover Point پڑھ رہا تھا اسمیں وہ لکھتے ہیں کہ "وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے ورلڈ بینک کے صدر کے اعزاز میں ایک ڈنر کا اہتمام کیا تھا، ڈنر سے پہلے مہمان گپ شپ میں مصروف تھے، لیاقت علی خان ہمارے پاس آکر حال احوال پوچھنے لگے پھر باتوں ہی باتوں میں انھوں نے بتایا کہ 'میں نے اس ڈنر پر چیف جسٹس کو بھی مدعو کیا تھا مگر انھوں نے معذرت کرلی ہے' پھر ایک توقّف کے بعد خود ہی کہنے لگے میرا خیال ہے کہ انھیں دعوت دینا میرا فرض تھا مگر ان کا آنے سے معذرت کرلینا بھی صحیح اور درست فیصلہ ہے۔

کیونکہ ان کے خیال میں چیف ایگزیکٹیو کی دعوت پر چیف جسٹس کا جانا مناسب نہیں ہے اس سے صحیح میسج نہیں جاتا "۔ اسی طرح ایک بار چیف جسٹس کارنیلس صاحب نے ہائی کورٹ بار کے سالانہ ڈنر میں ملک کے انتہائی طاقتور صدر ایوب خان کے ساتھ بیٹھنے سے اس لیے انکار کردیا کہ "حکومت کے کیس ہمارے پاس آتے رہتے ہیں چیف جسٹس حکمرانوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو میسج جائے گا کہ یہ تو اکٹھے بیٹھ کر کھانے کھاتے ہیں یہ ان کے معاملے میں کیسے انصاف کرسکیں گے؟ "۔

٭...برادری ازم بہت بڑی لعنت ہے، بدقسمتی سے عدلیہ میں بھی برادری پروری کی رِیت رہی ہے جو قابلِ مذّمت ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ برادری ازم کی حوصلہ شکنی کریں اور صرف میرٹ کا پرچم بلند رکھیں۔ ججوں کی تقررّیوں میں اسلام کے اعلیٰ اصولوں اور روایات کو پیشِ نظر رکھیں اور شہرۂ آفاق جج Lord Deningکے پیمانے... کہ "اچھے جج کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا خوف اور دیانتدار ہو۔ اگر وہ تھوڑا بہت قانون جانتا ہو تو یہ اس کی اضافی خوبی ہے" کی روشنی میں فیصلہ کریں اور کردار کو سب سے زیادہ اہمیّت دیں۔ رات کو وکیلوں اور موکلوں کے ساتھ مشروب سے لطف اندوز ہونے والے منصبِ قضاء کے ہرگز اہل نہیں ہیں۔ایسے لوگوں کو منصبِ قضا پر بٹھانا ظلم ہے۔

٭...وقت نکال کر انصاف کا پرچم بلند رکھنے کے بارے میں اسلامی تاریخ کے واقعات اور قاضی شریع کے فیصلے ضرور پڑھیں۔

٭...سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے وکلاء کو اپنی پارٹی یا اپنی فورس سمجھ کر قانون سے ماوراء قرار دے دیا تھا، لہٰذا وہ چیف تیرے جانثار ...کے نعرے لگاتے ہوئے چڑھ دوڑتے اور عدالتوں کا تقدس پامال کرتے رہے۔ اگرآپ ڈسٹرکٹ جوڈیشری اور ہائیکورٹ کو وکلاء کے شکنجے اور دباؤسے آزاد کرائیں تاکہ وہ آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہوسکیں تو آپ کا یہ تاریخی کارنامہ ہوگا۔

٭...چوہدری صاحب اور خواجہ صاحب کیس کی سماعت اسوقت شروع کرتے تھے جب ان کے پسندیدہ رپورٹر عدالت میں پہنچ جاتے تھے، اس ناپسندیدہ پریکٹس کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

٭آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم فرسودہ اور غیر موثّر ہے ۔ یہ ڈلیور نہیں کررہا۔ اسمیں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، اعلیٰ پائے کے ریٹائرڈ ججوں، سینئر ترین وکلاء اور سینئر پولیس افسران پر مشتمل کمیٹی بنائیں، ٹائم فریم مقرر کریں ، تین مہینوں میں ان سے سفارشات لے کر سسٹم کوجدید چیلنجوں اور عوام کی امنگوں کے مطابق بنادیں۔

محترم چیف جسٹس صاحب ! آپکو یاد ہوگا چند مہینے پہلے میں نے آپ سے کہا تھا کہ 'وہ وقت قریب ہے جب آپ ملک کے سب سے بڑے عدالتی منصب پر فائز ہونگے' ہماری خواہش بھی ہے اور دعا بھی کہ آپ کو قانون کی حکمرانی قائم کرنے اور مکمل طور پر غیر جانبدار رہنے کے حوالے سے یاد رکھّاجائے، آپ نے پورے عزم کے ساتھ کہا تھا کہ" انشاء اﷲ میری غیر جانبداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھائے گا "۔ہمیں یہی توقّع ہے ، کل ایک مشترکہ دوست نے پوچھا کہ"آپ میاں ثاقب نثار صاحب کو مبارکباد دے آئے ہیں؟"میں نے کہا "اِسوقت تو میں ان کے لیے مبارک باد کے بجائے دعا کرونگا۔ اگر دو سال انھوں نے اپنے منصب سے انصاف کیا تو 17 جنوری 2019ء کو جاکر انھیں مبارکباد بھی دونگا اور ہار بھی پہناؤنگا"۔
Load Next Story