طلسمِ ہو شربا کی جادو نگری
یہ نوجوان اردو ادب کی تاریخ میں منشی پنڈت نول کشورکے نام سے بقائے دوام حاصل کرتا ہے۔۔۔
KABUL:
چشم تصور سے اس بچی کو دیکھئے جو مغلوں کے محبوب شہر لاہور میں رہتی ہے۔ جدی پشتی گھر جس میں وہ اپنے چاہنے والے ماں باپ کے ساتھ زندگی بسرکرتی ہے۔ اس کے جمے جمائے خاندان سے ابھی فارسی کو دیس نکالا نہیں ملا ہے اور ادبی اردو بھی اس کے گھر والوں کو پیاری ہے۔اس کی حویلی میں رات کی سواری آتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اپسراؤں اور شہزادوں کے اڑن کھٹولے اترتے ہیں۔کہانیاں جن کی نہ ابتدا نہ انتہا۔ قاف کی حسینائیں اورایرانی شہزادے۔ شاہِ جنات اور ان کے جادوئی چنگل میں پھڑپھڑاتے ہوئے انسان اور پھر ان سب پر مستزاد داستان امیر حمزہ اور اس کی ذیلی داستان طلسم ہوشربا۔ یہ بچی بڑی ہوکر شہناز اعجاز الدین ہوئی۔ شہناز کا کہنا ہے کہ یہ داستان درداستان انھوں نے اپنی والدہ نیرآغا اور والد کرنل آغا اصغر علی شاہ کی زبان سے جستہ جستہ سنی اور اس کے کرداروں اور اس کے پر اسرار ماحول میں سانس لینے لگیں۔ طلسم ہوشربا کے 7 دفتر یا جلدیں کہہ لیجیے، ان کی والدہ نیر نے اپنے شوہرکو تحفتاً دی تھیں۔ ہائے کیا زمانے تھے جب پڑھی لکھی بیویاں اپنے عزیزشوہروں کو داستان امیر حمزہ اورطلسم ہوشربا تحفے میں دیتی تھیں۔
اس وقت نیر آغا کے وہم وگمان میں بھی بھلا کیوں ہوگا کہ ان کی بیٹی اس طلسم کوکس زبان اور زمان و مکان میں وسعت دینے والی ہے۔ شہناز اعجاز الدین کا کہنا ہے کہ طلسم ہوشربا انھوں نے بار بار سنی تھی لیکن ایک روز اچانک ان کا جی چاہا کہ وہ اسے پڑھیں۔ شاید شاہِ جنات نے ان پر طلسم سامری کا جال پھینکا تھا۔
وہ ہزاروں صفحوں پر مشتمل اس داستان کو پڑھتی چلی گئیں۔ تین مہینوں میں جب انھوں نے ہزاروں صفحوں پر مشتمل اس جادو نگری کی سیرکی، تو ان کا وہ عالم ہوا کہ مہینوں وہاں سے واپس نہ آئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا سایہ کھاتا پیتا، اسکول جاتا اورگھر میں رہتا لیکن میں خود اس جادونگری میں مقیم تھی جو ناقابلِ یقین حد تک خوابوں اور خیالوں میں پھیلی ہوئی تھی، جس کی سرحدیں کہکشاؤں سے بھی پرے تھیں۔اس داستان سے ان کی وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ والدین نے گھبرا کر اسے پڑھنے پر پابندی عائدکردی۔ اس کے بعد شہناز رات کے اندھیرے میں اسے ٹارچ جلا کر پڑھتی رہیں۔
یوں کہہ لیں کہ اس طلسم نے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا اور پھر بہت دنوں بعد انھیں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اس داستان کو مختصر کریں اور اسے انگریزی میں منتقل کریں تاکہ ہماری اگلی نسلیں اس ادبی کارنامے کے حسن اوراس کی جادوئی فضا سے کسی نہ کسی حد تک آگاہ ہوسکیں۔
یہ طلسم ہوشربا سے شہنازاعجاز الدین کے عشق کا قصہ ہے لیکن اس سے ایک صدی پہلے کی کہانی سنئے کیونکہ اس سے آگاہ ہوئے بغیر ہم طلسم ہوشربا تک نہیں پہنچتے۔
1857ء میں جب ایک طرف دلی کے لال قلعے پر مغل سلطنت کا زرد رو سورج غروب ہورہا تھا، وہیں آگرے میں پیدا ہونے والا ایک نوجوان 1858ء کے ابتدائی دنوں میں لاہور سے آگرے اور وہاں سے لکھنؤ پہنچتا ہے۔ وہ اردو کے عشق میں مبتلا ہے۔ 22 برس کی عمر میں وہ یہ طے کرتا ہے کہ اسے اردو کا سب سے بڑا چھاپہ خانہ قائم کرنا ہے۔
یہ نوجوان اردو ادب کی تاریخ میں منشی پنڈت نول کشورکے نام سے بقائے دوام حاصل کرتا ہے۔ اپنے چھاپے خانے کو اس نے 37 برس کی مدت میں ان بلندیوں پر پہنچایا کہ عربی، فارسی ، اردو اور سنسکرت کی 4ہزار سے زیادہ کتابیں شایع کیں جس میں قرآن مجید، احادیث اور دیگر مذہبی کتابوں کے علاوہ اردو کے کلاسیکی ادب کا خزینہ شامل ہے۔
پنڈت نول کشور نے اردو کو داستان امیر حمزہ اور اس کی ضمنی داستان طلسم ہوشربا جیسا ادبی کارنامہ تحفے میں دیا۔ وہ داستان جو کئی نسلیں سن چکی تھیں اسے چھاپے کی سیاہی لگانے کا اعزاز منشی نول کشور نے حاصل کیا۔ لگ بھگ 50 ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی یہ عظیم ادبی کارنامہ بیسویں صدی کے نصف آخر تک آتے آتے تقریباً نایاب ہوا۔ 1988ء میں اس عظیم و ضخیم ادبی کارنامے کو خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ سے دوبارہ شایع کرنے کی سعادت ڈاکٹر عابد رضا بیدار کو حاصل ہوئی۔ وہ اس کی جلد اول کے ابتدایے میں لکھتے ہیں ۔
''یہ داستانیں لکھی بعد میں گئیں، سنائی پہلے گئیں! اس لیے یہ لکھت میں آنے سے قبل ہی مشہور ہوجاتیں اور لکھے جانے کے بعد بھی سنائے جانے میں زیادہ فرق نہیں آیا۔ داستان امیر حمزہ اور اس داستانی سلسلے کی اہم ترین کڑی طلسم ہوشربا کو اردو میں جتنا پڑھا گیا اور جتنا سنا گیا اردو کی کوئی اوریجنل تخلیق اس اعتبار سے اس کے نصف کو بھی نہیں پہنچتی۔ عوام الناس سے لے کر نوابوں اور بادشاہوں تک غربا سے امرا تک، شعرا ادبا تک اور مرزا غالب بھی! سب اس کی زلف کے اسیر تھے! پہلی جنگ اور پھر دوسری جنگ عظیم تک محیط کل کی یہ روایت کسی نہ کسی طور پر جاری رہی۔اسے محمد حسین جاہ اور احمد حسین قمر نے قلم بند کیا اور جب تک اردو زبان و ادب موجود ہیں، ان حضرات کے لکھے ہوئے لفظ ہمیں اپنا اسیر کرتے رہیں گے۔''
شاید ایسی ہی کسی صورتِ حال کے بارے میں خدائے سخن میر نے کہا تھا:
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
شہنازکہتی ہیں کہ اس داستان سے انھیں ایسا قلبی تعلق تھا کہ داستان کے آخر میں جب اس داستان کا سب سے بڑا ولن افراسیاب جادوگر ہلاک ہوتا ہے تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی ہیں اور وہ اس بات پر بھی غم زدہ ہوتی ہیں کہ جب طلسم کی جادوگر شہزادیاں مسلمان ہوتی ہیں تو پردے میں بٹھا دی جاتی ہیں اور پھر وہ داستان کے صفحوں سے غائب ہوجاتی ہیں۔
ان کے یہ جملے پڑھ کر مجھے 'طلسم ہو شربا' کے بارے میں لکھی ہوئی اپنی ایک تحریر یاد آتی ہے، میں نے اس خیال کا اظہارکیا تھا کہ کوئی معاشرہ جب کسی غیر ملکی فوجی اور سیاسی طاقت کی نو آبادی بنتا ہے، تو اس کی سب سے بڑی مار اس معاشرے کی عورت سہتی ہے۔ برصغیر جب انگریزوں کی نو آبادی بنا تو بیگمات میران سندھ سے لے کر پنجاب کی مسلمان اور ہندو شریف زادیاں، سکھ رانیاں اور راج کماریاں، بنگال، اودھ اور دلی کی مسلمان اور ہندو خواتین سب ہی بے خانماں ہوئیں، سب ہی خون میں نہائیں۔
یہ صنفی عدم مساوات پر قائم ہمارے سماج کی ایک کمال ادا ہے کہ مسلمان شہزادے طلسم ہوشربا کی جادو گرنیوں کے ساتھ داد عیش دیتے، انھیں اسلام قبول کرکے ان شیرانِ عرب کے نکاح میں آتے ہوئے دکھایا گیا ہے لیکن فتح کے پھریرے اڑاتے ہوئے یہ لشکر جب کسی شہر،کسی طلسم میں داخل ہوئے ہیں تو کوئی شہزادی، کوئی ملکہ، کوئی ساحرہ اپنے گھوڑے پر سوار ان کے برابر نہیں چل رہی تھی۔ یہ ساحرائیں اور شہزادیاں ان شیران عرب کے عشق میں گرفتار ہوکر اپنے لوگوں کے خلاف لڑیں، بار بار لشکرِ اسلام کی فتح کا سبب بنیں لیکن اس جیت کے بعد ان کے حصے میں ان فتوحات کے ثمرات نہ آئے۔ حقیقی دنیا تو دورکی بات ہے جب داستان کے صفحوں پر خیالی معرکوں کی جیت عورتوں کے حصے میں آئی تو اس وقت بھی لڑنے والی اور فتح دلانے والی عورت چادر اوڑھا کر چار دیواری میں ہی پہنچا دی گئی۔
سات جلدوں پر پھیلی ہوئی فارسی آمیز اردو میں لکھی جانے والی طلسم ہوشربا، کو انگریزی میں منتقل کرنا کسی ہفت خواں کو طے کرنے سے کم نہ تھا۔ یہ اس داستان سے شہناز کا عشق تھا جس نے ان سے یہ کام کرایا۔ انگریزی کے باریک ٹائپ میں چھپی ہوئی یہ داستان جو 900 صفحات پر مشتمل ہے اور جسے انڈین پینگوئین نے چھاپا اور جس کی ایڈیٹر خواتین نے شہناز کے اس کارنامے کی نوک پلک سنواری، سب ہی کا کمال ہے کہ انیسویں صدی کی مفرس و معرب اردو میں لکھی جانے والی یہ داستان اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں انگریزی میں زندہ ہوگئی اور اب اگلی نسلوں تک، اس سے کہیں بڑھ کر ان لوگوں تک پہنچے گی جن کی زبان اردو نہیں لیکن جو اس کے جواہر ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
ہمیں شہناز کا شکر گذار ہونا چاہیے جنہوں نے یہ ہفت خواں طے کیا اور اس کے باوجود اس کا دعویٰ نہیں کرتیں۔