لیکن قحط جاری ہے
مجھے اب تو یاد نہیں لیکن لگتا ہے کہ بارش نہ ہونے پر مہینوں نہیں برسوں گزر گئے ہیں۔۔۔
کل منگل کی صبح کو آسمان سے بارش یا پانی کے چند قطرے بقدر اشک بلبل زمین پر گرے اور زمین پر آباد انسانوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے کہ قحط ختم ہوا لیکن یہ سب اہل زمین کے لیے ایک غلط فہمی تھی جو چند منٹوں بعد ختم ہو گئی اور پھر سے سخت سردی اور بادل آسمان پر گھومتے پھرتے رہے۔ میں نے ایک دن پہلے جو کالم لکھا تھا اس کے بارے مجھے تسلی دی گئی کہ یہ اب ایک دن بعد بھی چل جائے گا کہ قحط بدستور جاری ہے چنانچہ ایک دن پہلے کا لکھا ہوا کالم پیش خدمت ہے۔
مجھے اب تو یاد نہیں لیکن لگتا ہے کہ بارش نہ ہونے پر مہینوں نہیں برسوں گزر گئے ہیں۔ میں ایک بارانی علاقے کا باشندہ ہوں اور بارش کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ میں قحط کو بے حد محسوس کرتا ہوں جیسے بارش نہ ہوئی تو میرا وجود بھی خشک ہو کر خشک مٹی میں مل جائے گا۔ یوں تو بارش زندگی کے ہر شعبے کی ضرورت ہی نہیں اس کی زندگی ہے لیکن جو لوگ بارانی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے لوری بھی بارش کی سنی ہے وہ تو بارش کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بارانی علاقوں کے بچوں کو بھی یاد ہوتا ہے کہ بارش کب ہوئی تھی اور قحط سالی پر کتنا وقت گزر چکا ہے۔ زمین کا چہرہ کیا بتاتا ہے اور فصلوں کی آبادی کیا کہانی سناتی ہے اور اس کی پیاسی زندگی کی کہانی کیا بتاتی ہے کہ کٹائی کے موسم تک وہ زندہ رہے گی یا کاٹنے والے کسان کے ہاتھ میں چند خشک ٹہنیاں ہوں گی اور وجود پر چند ہوکے جو اس کی زندگی کی بربادی کا پتہ دیں گے۔
ان دنوں ہم قحط کی صورت حال سے گزر رہے ہیں جو ہمیں ہمارے مستقبل کی خبر دیتی ہے۔ اگر یہ حالت باقی رہتی ہے اور قحط جاری رہتا ہے تو پھر میں اپنی شہری زندگی کو آباد اور شاد رکھنے کی پوری کوشش کروں کیونکہ دیہات جو اناج پیدا کرتے ہیں نہ معلوم کیوں قحط کے مہینوں میں اجڑ جاتے ہیں لیکن شہر بدستور آباد رہتے ہیں۔ کسی بھی ماہر معاشیات سے پوچھوں گا کہ دیہات جو اناج کا گھر ہیں اور پورے ملک کا پیٹ بھرتے ہیں وہ خود کسی قحط کی صورت میں بھوکے کیوں رہتے ہیں جب کہ اسی قحط میں شہر آباد اور اناج سے بھرے رہتے ہیں۔ شہروں میں کچھ مہنگائی آ جاتی ہے یا کسی ضروری چیز کی قلت پڑ جاتی ہے جو ذرا سی مشکل کے بعد دستیاب ہوتی ہے مگر بازار سے غائب نہیں ہوتی جب کہ دیہی زندگی میں گرانی بھی ہوتی ہے اور اشیائے ضرورت کی کمیابی بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا تقسیم کا نظام نہ صرف غلط ہے بلکہ منصفانہ بھی نہیں ہے اور دیہات اور شہروں کے درمیان انصاف نہیں کرتا۔
میں ایک بارانی علاقے کا باشندہ ہوں اور اپنا مستقبل اسی بارانی علاقے میں دیکھتا ہوں۔ جب کبھی یہاں بارش نہیں ہوتی تو میں لاہور میں بیٹھا پریشان ہو جاتا ہوں جب کہ اس شہر میں میری ضرورت کی کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی۔ جیب میں پیسے ہوں تو آپ لاہور میں بیٹھے بیٹھے کسی بھی گاؤں کی پوری پیداوار خرید سکتے ہیں اور اگر آپ کے دل میں رحم نہ ہو تو پورے گاؤں کو بھوک سے ہلاک کر سکتے ہیں کہ ان کے ہاں بارش نہ ہونے سے وہ شہروں کے محتاج ہیں اور شہر ان کو ہر حال میں لوٹتے ہیں۔
شہر کی کاروباری زندگی میں رحم نہیں ہوتا جب کہ دیہات سب کچھ جانتے ہوئے شہروں کو زندہ رکھتے ہیں انھیں بھوک سے نہیں مارتے۔ شہر اور دیہات میں یہ ایک عام سا فرق ہے جو ہر شہری کو معلوم ہے لیکن اس کا علاج کسی حکومت کے پاس نہیں خود ہمارے پاس ہے۔ جیسے دیہات کا کاشتکار محاورتاً نہیں حقیقت میں خون پسینہ بہا کر شہری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اس جذبے کا کچھ حصہ بھی شہروں کے پاس نہیں ہے۔ وہ ایک کاشتکار کا خون پیتے ہیں اور اس کی سال بھر کی محنت کو چند ٹکوں کے عوض حاصل کرلیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے اور دیہی و شہری زندگی میں کوئی ایسی روایت اور طریقہ موجود نہیں جو اس بے انصافی پر قابو پا سکے۔ چند پرانی روایات اور رسوم موجود ہیں جن پر ہم عمل کرتے ہیں اور مدت قدیم سے عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے نتائج سے بے خبر۔ اگر کبھی کوئی کسانوں کے مفادات کا علم بلند کرتا ہے تو کسان تو اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے البتہ بااثر لوگ اس کا منصوبہ ختم کرا دیتے ہیں۔
پنجاب کے کچھ علاقوں میں کاشتکاروں کے حقوق کا غلغلہ برپا ہوا لیکن زمینداروں نے اسے ختم کر دیا حالانکہ ملک بھر کے کسان لیڈر اس میں شامل تھے مگر ان کی لیڈری ان کا اور ان کے مقاصد کا تحفظ نہ کر سکی۔ صدیوں پرانا یہ نظام چند نعروں اور چند اجتماعات کے انعقاد سے کمزور نہیں ہو سکتا اس کے لیے کاشتکاروں کو جس مدد کی ضرورت ہے اس کی راہ میں صدیوں پرانی روایات کھڑی ہیں اور ان مضبوط روایات کو توڑنا آسان نہیں۔ جن لوگوں نے اب تک ان روایات کو بدلنے کی کوشش کی ہے وہ خود کمزور لوگ تھے اور ان کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ ان قدیم روایات اور ان سے بہرہ مند ہونے والوں کا مقابلہ کر سکیں چنانچہ ہر جگہ اور اسی پرانے نظام کو قبول کر لیا گیا جو صدیوں سے نافذ تھا اور جو ذرا سے قحط سے توانا ہو جاتا تھا۔ ان دنوں پھر قحط ہے۔
مجھے اب تو یاد نہیں لیکن لگتا ہے کہ بارش نہ ہونے پر مہینوں نہیں برسوں گزر گئے ہیں۔ میں ایک بارانی علاقے کا باشندہ ہوں اور بارش کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ میں قحط کو بے حد محسوس کرتا ہوں جیسے بارش نہ ہوئی تو میرا وجود بھی خشک ہو کر خشک مٹی میں مل جائے گا۔ یوں تو بارش زندگی کے ہر شعبے کی ضرورت ہی نہیں اس کی زندگی ہے لیکن جو لوگ بارانی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے لوری بھی بارش کی سنی ہے وہ تو بارش کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بارانی علاقوں کے بچوں کو بھی یاد ہوتا ہے کہ بارش کب ہوئی تھی اور قحط سالی پر کتنا وقت گزر چکا ہے۔ زمین کا چہرہ کیا بتاتا ہے اور فصلوں کی آبادی کیا کہانی سناتی ہے اور اس کی پیاسی زندگی کی کہانی کیا بتاتی ہے کہ کٹائی کے موسم تک وہ زندہ رہے گی یا کاٹنے والے کسان کے ہاتھ میں چند خشک ٹہنیاں ہوں گی اور وجود پر چند ہوکے جو اس کی زندگی کی بربادی کا پتہ دیں گے۔
ان دنوں ہم قحط کی صورت حال سے گزر رہے ہیں جو ہمیں ہمارے مستقبل کی خبر دیتی ہے۔ اگر یہ حالت باقی رہتی ہے اور قحط جاری رہتا ہے تو پھر میں اپنی شہری زندگی کو آباد اور شاد رکھنے کی پوری کوشش کروں کیونکہ دیہات جو اناج پیدا کرتے ہیں نہ معلوم کیوں قحط کے مہینوں میں اجڑ جاتے ہیں لیکن شہر بدستور آباد رہتے ہیں۔ کسی بھی ماہر معاشیات سے پوچھوں گا کہ دیہات جو اناج کا گھر ہیں اور پورے ملک کا پیٹ بھرتے ہیں وہ خود کسی قحط کی صورت میں بھوکے کیوں رہتے ہیں جب کہ اسی قحط میں شہر آباد اور اناج سے بھرے رہتے ہیں۔ شہروں میں کچھ مہنگائی آ جاتی ہے یا کسی ضروری چیز کی قلت پڑ جاتی ہے جو ذرا سی مشکل کے بعد دستیاب ہوتی ہے مگر بازار سے غائب نہیں ہوتی جب کہ دیہی زندگی میں گرانی بھی ہوتی ہے اور اشیائے ضرورت کی کمیابی بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا تقسیم کا نظام نہ صرف غلط ہے بلکہ منصفانہ بھی نہیں ہے اور دیہات اور شہروں کے درمیان انصاف نہیں کرتا۔
میں ایک بارانی علاقے کا باشندہ ہوں اور اپنا مستقبل اسی بارانی علاقے میں دیکھتا ہوں۔ جب کبھی یہاں بارش نہیں ہوتی تو میں لاہور میں بیٹھا پریشان ہو جاتا ہوں جب کہ اس شہر میں میری ضرورت کی کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی۔ جیب میں پیسے ہوں تو آپ لاہور میں بیٹھے بیٹھے کسی بھی گاؤں کی پوری پیداوار خرید سکتے ہیں اور اگر آپ کے دل میں رحم نہ ہو تو پورے گاؤں کو بھوک سے ہلاک کر سکتے ہیں کہ ان کے ہاں بارش نہ ہونے سے وہ شہروں کے محتاج ہیں اور شہر ان کو ہر حال میں لوٹتے ہیں۔
شہر کی کاروباری زندگی میں رحم نہیں ہوتا جب کہ دیہات سب کچھ جانتے ہوئے شہروں کو زندہ رکھتے ہیں انھیں بھوک سے نہیں مارتے۔ شہر اور دیہات میں یہ ایک عام سا فرق ہے جو ہر شہری کو معلوم ہے لیکن اس کا علاج کسی حکومت کے پاس نہیں خود ہمارے پاس ہے۔ جیسے دیہات کا کاشتکار محاورتاً نہیں حقیقت میں خون پسینہ بہا کر شہری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اس جذبے کا کچھ حصہ بھی شہروں کے پاس نہیں ہے۔ وہ ایک کاشتکار کا خون پیتے ہیں اور اس کی سال بھر کی محنت کو چند ٹکوں کے عوض حاصل کرلیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے اور دیہی و شہری زندگی میں کوئی ایسی روایت اور طریقہ موجود نہیں جو اس بے انصافی پر قابو پا سکے۔ چند پرانی روایات اور رسوم موجود ہیں جن پر ہم عمل کرتے ہیں اور مدت قدیم سے عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے نتائج سے بے خبر۔ اگر کبھی کوئی کسانوں کے مفادات کا علم بلند کرتا ہے تو کسان تو اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے البتہ بااثر لوگ اس کا منصوبہ ختم کرا دیتے ہیں۔
پنجاب کے کچھ علاقوں میں کاشتکاروں کے حقوق کا غلغلہ برپا ہوا لیکن زمینداروں نے اسے ختم کر دیا حالانکہ ملک بھر کے کسان لیڈر اس میں شامل تھے مگر ان کی لیڈری ان کا اور ان کے مقاصد کا تحفظ نہ کر سکی۔ صدیوں پرانا یہ نظام چند نعروں اور چند اجتماعات کے انعقاد سے کمزور نہیں ہو سکتا اس کے لیے کاشتکاروں کو جس مدد کی ضرورت ہے اس کی راہ میں صدیوں پرانی روایات کھڑی ہیں اور ان مضبوط روایات کو توڑنا آسان نہیں۔ جن لوگوں نے اب تک ان روایات کو بدلنے کی کوشش کی ہے وہ خود کمزور لوگ تھے اور ان کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ ان قدیم روایات اور ان سے بہرہ مند ہونے والوں کا مقابلہ کر سکیں چنانچہ ہر جگہ اور اسی پرانے نظام کو قبول کر لیا گیا جو صدیوں سے نافذ تھا اور جو ذرا سے قحط سے توانا ہو جاتا تھا۔ ان دنوں پھر قحط ہے۔