ذرا سی بات
اپنی کمائیوں کو کرپشن کی آلودگی سے بچانا کیا ضروری نہیں؟
نزلہ زکام ہے، سینہ جکڑا ہوا ہے، بخار ہے ہلکی سی کھانسی بھی ہے، اچھا ...کب سے ہے، آج دوسرا دن ہے فلاں فلاں دوا کھائی تھی افاقہ نہ ہوا تھا۔ ٹھیک...ڈاکٹر صاحب نے نبض دیکھی، بخار چیک کیا اور دوا لکھ کر دے دی، میڈیکل اسٹور والے کو لکھا نسخہ دکھایا تو ایک دوا جو اس مرض کے لیے نہایت ضروری تھی انتہائی طاقتورکہ اس کے کھانے سے نظام ہاضمہ ڈسٹرب ہوجاتا ہے۔
دوبارہ پلٹے...ڈاکٹر صاحب اس کے کھانے سے اگر معدہ بگڑگیا کیونکہ یہ دوا سوٹ نہیں کرتی تو اس کے لیے کیا لیں، اس کے لیے کچھ بھی نہ لیں بلکہ صرف دہی اورکیلا لیں۔
حیرت سے ذرا منہ کھلا... جی...دہی اور کیلا...ڈاکٹر کچھ سمجھ گیا جلدی سے بات سنبھالی...ورنہ آپ فلاں ٹیبلٹ بھی لے سکتے ہیں۔ اور وہی ہوا تین دن کا کورس نہ ہوسکا صرف ایک ہی دن میں ایک ہزار ملی گرام کی دوا نے اثر دکھا دیا دوسرے ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس کے بدلے ایک اور دوا لکھ دی اور کہنے لگے کرپشن ہمارے اپنے ڈاکٹرز کے اندر بھی ہے۔ وہ ایسی دوائیں جان بوجھ کر لکھ کر دیتے ہیں جو ان کے منتخب اسٹورز جن سے ان کے لین دین ہوتے ہیں وہیں دستیاب ہوتی ہیں، میں اس طرح نہیں کرتا اس دوا کو جہاں سے دل چاہے خرید لیں، بہرحال وہ دوا خرید لی گئی اور افاقہ بھی ہوا۔ عرض صرف اتنی سی ہے کہ جس طرح ہمارے یہاں ہر شعبے کی جھولی میں لاتعداد سوراخ ہیں، بالکل اسی طرح صحت کا شعبہ بھی ہے۔
بچپن میں لطیفہ ضرور سنا تھا سخت سردی تھی کہ ڈاکٹر کے پاس ایک مریض پہنچا اور نزلہ زکام کی شکایت کی تو ڈاکٹر نے اسے مشورہ دیا کہ سامنے والی دکان سے دل بھر کے دہی بڑے کھاؤ پھر اس کے ساتھ والی دکان سے آئس کریم اور اگر پیٹ میں گنجائش ہو تو اس کے ساتھ والی دکان سے ٹھنڈی بوتل بھی ڈکار لو، اتنا کچھ سن کے مریض حیران رہ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کیا اتنا کچھ کھا کر میں ٹھیک ہوجاؤں گا تو ڈاکٹر نے مسکرا کر جواب دیا نہیں بلکہ آپ کو نمونیہ ہوجائے گا اور میں اس کا ماہر ڈاکٹر ہوں۔
بات عجیب مگر صرف اتنی سی ہے کہ جو دوائیں ان ڈاکٹر نے بتائی تھیں بچپن سے ہم بھی سنتے آئے ہیں کہ سینے کی جکڑن میں کھاتے ہیں والد مرحوم بھی استعمال کیا کرتے تھے پرانے زمانے کے اچھے کھانے کھا کر اتنی طاقت تھی کہ آرام سے برداشت کرلیتے تھے لیکن اس دور میں نہ پوچھیے خود ڈاکٹر صاحبان بھی جانتے ہیں لیکن حقیقت صرف اتنی سی ہے کہ اس دوائی کی قیمت زیادہ ہے۔
اپنی کمائیوں کو کرپشن کی آلودگی سے بچانا کیا ضروری نہیں؟
اس دور افتادہ علاقے میں وہ کلینک صبح کے اوقات میں خواتین اور بچوں کے لیے نعمت ہی ہے، جہاں خاتون ڈاکٹر بیٹھتی ہے خواتین کے لیے وہاں الٹراساؤنڈ کی سہولت بھی ہے۔ ایک خاصی کم عمر خاتون اپنے چند ماہ کے بچے کو لے کر ڈاکٹر کے انتظار میں کھڑی تھی اس کے ہاتھ میں رپورٹس تھیں جو وہ ڈاکٹرنی کو دکھانا چاہتی تھی اس کا نمبر آیا۔ چھوٹی سی خاتون متوحش نظروں سے اپنے معالج کی نظروں کو دیکھ رہی تھی جس کی نظریں رپورٹ پر تھیں۔
''ڈاکٹر صاحبہ! کوئی مسئلہ تو نہیں ہے نا۔'' اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
''مسئلہ تو ہے بھئی! '' ڈاکٹرنی نے رپورٹ پر سے نظریں اٹھائیں۔
''ڈاکٹر صاحبہ! میرا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے۔ مجھے ابھی اولاد نہیں چاہیے۔''
''الٹراساؤنڈ کرانا پڑے گا، خیر تم ابھی باہر بیٹھو، دیکھو کچھ کرتی ہوں۔'' وہ کم عمر خاتون تشکر آمیز نظروں سے ڈاکٹرکو دیکھتی کمرے سے نکل گئی۔ یہ قصہ ہمیں حال ہی میں ہماری ایک عزیزہ نے سنایا جو اتفاقاً وہاں انجکشن لگوانے گئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں صاف لکھا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ ڈاکٹر نے صرف الٹراساؤنڈ کے پیسوں کے چکر میں اس سے جھوٹ بولا کہ شاید وہ امید سے ہے۔ ان صاحبہ کا کہنا تھا کہ مجھے اس خاتون پر بہت ترس آیا جس کے اپنے بچے کے پیر میں چپل بھی نہ تھی آخر اس کا شوہر کتنا کما لیتا ہوگا۔ کیا ایک غریب مزدورکی کمائی میں اس طرح کرپشن کرکے سوراخ بنانے کی گنجائش تھی۔
بات ذرا سی ہے کہ ہم ملک اور اداروں کی کرپشن کی تان لگاتے رہتے ہیں لیکن جس جس کو وہاں موقع ملتا ہے ہاتھ دکھا جاتا ہے ہم سب کی جھولیوں میں سوراخ ہے ان لاتعداد سوراخوں والی جھولیوں میں رب العزت کی نعمتوں کو کیسے سنبھال کر رکھ رہے ہیں۔ بقول میری نانی مرحومہ کہ رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ہم صرف کھاتے پیتے ہیں اور پیٹ بھرنے کے بعد بڑی سی ڈکار مار کر پیٹ پر ہاتھ پھیر کر اٹھ جاتے ہیں اس غذا اس پانی کا ہمارے جسم کی صحت پر تو اثر پڑ ہی جاتا ہے لیکن ہماری روح کی صحت پر اس کا ذرہ برابر اثر نہیں پڑتا۔ ہماری روح نقاہت کے باعث پیلی ہوتی جا رہی ہے۔ رب العزت نے غذا کے حرام اور حلال ہونے کا تذکرہ قرآن پاک میں کیا ہے اور واضح طور پر سمجھایا ہے کہ حلال اور پاک کھانا ہی مومن کے لیے بہترین غذا ہے۔ لیکن ہم نے کھانے کو بریک فاسٹ ، لنچ اور ڈنرکی شکل میں کھانوں کی دکان بنادیا اور اس دکان کو سجانے کے لیے ہر کوئی اپنے اپنے معیارکی کرپشن کرتا چلا جاتا ہے۔
چلتے چلتے ایک ذرا سی بات اور۔ مریضوں کی عیادت ہو یا میلاد شریف کی محفل، سالگرہ ہو یا شادی بیاہ کی تقریبات گلاب کے پھولوں کی ہمارے ہاں بڑی اہمیت ہے بلکہ عقیدت بھی ہے کہ میرے آقا حضور اکرمؐ کو بہت پسند تھے۔ نانی مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ گلاب کی پتیاں زمین پر نہ پھینکا کرو۔ سب کو جمع کرکے کیاریوں میں ڈال دیا کرو۔ والد مرحوم کہا کرتے تھے اگر کھا بھی لو تو کوئی مضائقہ نہیں اس کا مزہ اچھا ہوتا ہے گلقند (پان میں ڈالنے والا) اسی سے بنتا ہے یہ ان سب کی گلاب کے پھول سے عقیدت ہی تھی۔
حال ہی میں ایک پوش علاقے کے پھول فروش (جہاں ان کی کافی دکانیں بھی ہیں)۔ کو ایک صاحب کھری کھری سنا رہے تھے۔ کسی نے پوچھا میاں کیا ہوا؟ فرمانے لگے۔ کیسا برا انسان ہے بتائیے منہ میں پان کی کلی بھرکر پھولوں پر ڈال رہا ہے۔ کیا پھولوں کو تازہ رکھنے کا یا پانی چھڑکنے کا یہی طریقہ ہے۔ ویسے اس پھول فروش نے کیا خوب طریقہ ایجاد کیا۔ پھولوں کو تازہ رکھنے کا کہ جنھیں کس کس طرح معتبر سمجھ کر محبت میں رکھتے ہیں کبھی قرآن پاک پر اور کبھی جنازے پر۔ بات بس اتنی سی ہے خدا ہم سب کو نیک ہدایت دے (آمین)