ہماری شوریدہ سری
ہماری قوم کی یہ خصلت رہی ہے کہ ملک میں جاری کسی بھی نظام حکومت سے بہت جلد اُکتا جاتی ہے۔۔۔
ہماری قوم کی یہ خصلت رہی ہے کہ ملک میں جاری کسی بھی نظام حکومت سے بہت جلد اُکتا جاتی ہے۔ جمہوریت ہوتو لوگ آمریت کی دہائیاں دیتے ہیں آمریت ہوتو جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ یہی وجہ کہ تقریباً 70سال گزر جانے کے باوجود ہم ابھی تک کسی نظام کو مستقل بنیادوں پر استوار نہیں کر پائے۔ ہماری اِس عادت میں خود ہمارے سیاستدانوں کا بڑا حصہ رہا ہے۔
یہاں ایسے سیاستدانوں کی کمی نہیں جو صرف اور صرف ذاتی مفادات اور اپنے سیاسی حریف کو پچھاڑنے کے لیے عوام کو راغب کرتے رہتے ہیں۔ وہ اگر ایک الیکشن جیت نہ پائیں تو اگلے الیکشن تک اُن سے انتظار نہیں ہوتا۔ نئی حکومت کے چند مہینوں بعد ہی وہ اُسے زیر کردینے کی ترکیبیں سوچنے اور سازشوں کے جال بننا شروع کردیتے ہیں۔ سب سے پہلے دھاندلی کا الزام لگانا اُن کاشیوہ بن جاتا ہے۔
اِس حربے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر نئے ایشوز تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔اپنے اِن عزائم کی تکمیل کے لیے وہ غیر جمہوری قوتوں سے بھی مدد لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ایسا ہی ہم نے 2014ء میں ہوتے دیکھا جب نادیدہ قوتوں کے ساتھ ساز بازکر کے ایک ہنگامہ برپا کیا گیا۔ پارلیمنٹ، وزیرِاعظم ہاؤس اور پی ٹی وی کی عمارتوں پر بلوہ آرائی کی گئی۔ کچھ لمحوں کے لیے تو ایسا لگ رہا تھا کہ اِس ملک کے لوگوں کی اکثریت نے حکومت ِ کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے کچھ ایسا ہی پیغام ساری دنیا کو بھی جا رہا تھا، مگر ہماری سیاسی و عسکری قیادت کی بصیرت اور اعلیٰ حکمتِ عملی کی وجہ سے ایک آئینی اور قانونی حکومت کے خلاف یہ سازش ناکامی سے دوچار ہوگئی۔
ایسا ہی کچھ انتشار و اضطراب ہم نے گزشتہ برس بھی دیکھا جب غیر جمہوری قوتوں سے غیرآئینی اقدامات کی توقع اور آس لگانے والوں نے 2 نومبر2016ء کو اسلام آباد بند کر دینے کا اعلان کر دیا۔ اِس اعلان کے پیچھے یہ فکر یقیناً کارفرما تھی کہ دارالحکومت اسلام آباد میں انارکی اور انتشار برپا کرکے عسکری قیادت کو غیر آئینی اقدام پر مجبورکر دیںگے۔ وہ لاکھ انکارکریں لیکن اسلام آباد بند کر دینے کے منصوبے کی ٹائمنگ اِس بات کی غماز ہے کہ یہ سب کچھ اِسی مقصد کے حصول کے لیے کیا گیا تھا۔
جنرل راحیل شریف نے اپنے پورے دور میں ایک پیشہ ورانہ، دوراندیش اوراعلیٰ صفات واقدار رکھنے والے جنرل کی حیثیت سے اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دیے۔اُن کے کوئی سیاسی عزائم نہیں تھے اور شاید اِسی لیے اُنہوں نے ملک میں قبل از وقت پھیلائی گئی غلط اور بے پرکی افواہوں کے پیشِ نظر ایکسٹینشن نہ لینے کا اعلان بہت پہلے ہی کردیا تھا۔ اپنے پورے دور میں وہ ملکی سیاست سے دور رہنے کی کوشش کرتے رہے۔ اُن کی ساری توجہ ملک سے دہشتگردی کے خاتمے اورامن و امان قائم کرنے پر مرکوز تھی۔ وطنِ عزیز میں عرصہ دراز سے جاری دہشتگردی کے خاتمے میں اُن کا کردار تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔ یہ ایک بہت ہی دشوار اور ناممکن کام تھا جو اُنہوں نے بڑی حد تک تین سالہ اپنے دور میں پورا کر دکھایا اور جس کے ہم سب ہی نہیں ساری دنیا بھی معترف ہے۔
اِس کے علاوہ کراچی شہر میں بھی بیس پچیس سال سے جاری بدامنی کو ختم کرنے میں اُن کا رول ڈھکا چھپا نہیں۔ ضرب مومن اور نیشنل ایکشن پلان کے علاوہ سی پیک کے منصوبے میں اُن کی ذاتی دلچسپی اور کوششوں کے سبب آج پاکستان ایک روشن مستقبل کی جانب رواں دواں ہے۔ ہمیں اپنے ایسے جنرل کو جس نے ملک میں اقتدار و اختیار حاصل کیے بغیر ہی وہ کام کر دکھائے جو بہت سے مقتدر حکمراں بھی نہ کرسکے ہمیشہ اچھے ناموں سے یاد کرنا چاہیے ناکہ اُسے بلاوجہ تنقید و تضحیک کا نشانہ بنانا چاہیے۔
اعلیٰ کردار اور صفات کے حامل کسی شخصیت کو اپنا ہیرو، اپنا آئیڈیل یا پیر و مرشد بنانا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے لیکن اُن سے اپنی جائز و ناجائز آرزوؤں اورخواہشوں کی توقع کرنا ایک نامناسب طرز فکر ہے اور پھر اُن حسرت بھر ی توقعات کے پورا نہ ہونے پر اُنہیں ہدفِ تنقید بنانا اور بھی قابلِ مذمت طرز عمل ہے۔ ہمارے لوگوں نے جنرل راحیل شریف سے بھی کچھ ایسی ہی غیرضروری توقعات اور اُمیدیں وابستہ کرلی تھیں، جن کا پورا کرنا اُن کے دائرہ اختیار میں نہ تھا۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر آج کل ہمارے کچھ لوگ جو اب تک اُنہیں غیرآئینی اورغیرقانونی اقدام پر اُکساتے رہے تھے اب اُن کی باعزت رخصتی اورسبک دوشی پر اضطراب اورجھنجھلاہٹ کے عالم میںبلاوجہ طنزواستہزا کا نشانہ بنارہے ہیں۔
ہم فطرتاً شوریدہ صفت واقع ہوئے ہیں۔ ہم اشتعال انگیزی اورہنگامہ آرائی کے بہت دلدادہ ہیں۔ اضطراب اور تلاطم ہمیں بہت عزیز ہے، صبر و تحمل اور سکون کے ہم قائل نہیں ہیں۔ ہر کام فوری اور بہت جلد ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ خود اپنے اندر کوئی بڑی تبدیلی لائے بغیر'' انقلاب'' کے حصول کو اپنا مطمع نظر بنالیتے ہیں۔ ایک سافٹ اسپوکن، متین اور سنجیدہ اور صاحب بصیرت سیاستداں ہماری سوچ کے فریم ورک میں فٹ نہیںآتا۔ ہمیں ضدی، چرب زبان، شعلہ بیاں اور عاقبت نااندیش لیڈر بہت اچھا لگتا ہے۔
ہمارا اجتماعی شعور تشدد، مصلحت کوشی اور مفادات کے تابع مفاہمت سے عبارت ہے۔ ملکی و قومی اداروں کی تضحیک و تحقیرکرنا ہمارا وطیرہ اور مشغلہ بن چکا ہے۔ہم احساسِ زیاں سے عاری اور بے نیاز ہوکر اجتماعی خود سوزی اور خودکشی میں مصروف ہیں۔ ہماری اِن ہی ذاتی اور اجتماعی حماقتوں نے قوموں کی برادری میں ہمیں ایک باعزت مقام حاصل کرنے سے روکے رکھا ہے۔ لگتا ہے ہم نے ذہنی اور فکری ارتقاء کے سفر کا آغاز ہی نہیں کیا ہے۔ بلکہ زمانہ قدیم کی کسی پسماندہ قوم کی طرح ماضی سے چمٹے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
جمہوریت کی لاش گرانے اور اُس سے شکم سیر ہونے والوں کو انتخابی سیاست راس نہیں آتی۔ کہتے ہیں جب درندہ آدم خور ہوجائے تو اُسے انسان کے علاوہ کسی اور جانورکا گوشت نہیں بھاتا۔ ہمارے یہاں بھی جن لوگوں کے منہ کو جمہوریت کا خون لگ گیا ہے اُنہیں منتخب جمہوری نظام وارے نہیں کھاتا۔ اِس فتنہ خو قبیلے میں صرف سیاستداں ہی نہیں ہیں بلکہ ایسے کئی نام نہاد دانشور حضرات بھی شامل ہیں جو روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی افواج سے جمہوری نظام کی گردن دبوچنے کا مطالبہ کررہے ہوتے ہیں۔ مخصوص سیاسی شخصیت کے ارادت مندوں میں شامل ایسے لوگ اصلاحِ احوال کے نام پر ایسی فکر کی پرورش کررہے ہوتے ہیں، جس سے جمہوری نظام کی مکمل نفی ہوتی ہے۔اُن کی محبتیں اور نفرتیں نہ صرف بین السطورتیرتی دکھائی دیتی ہیں بلکہ اُن کے تجزیوں اور تبصروں کو بھی یک رخا بنا دیتی ہیں۔
بیمار خواہشوں میں مبتلا ایسے صاحبانِ فکر و دانش جن کے دماغ میں یہ کبر اور گھمنڈ سما جاتا ہے کہ وہی اِس ملک میں واحد عقلِ کل اور صاحبِ فکرودانش ہیں، باقی تمام لوگ اور انسان حشرات الارض سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہمیں اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو پہچاننا ہوگا اور اُن کی اِس فتنہ انگیزسوچ کی بیغ کنی کرنا ہوگی۔ جمہوری نظام پر کلہاڑا چلانے کی بجائے اُس کی اصلاح کی کوششیں جاری رکھنا ہوگی۔غیر جمہوری نظام کبھی بھی اصلاح ِ احوال کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔ یہ '' این آر او '' اور'' پلی بارگین آپشن'' جس کا خمیازہ ہم سب آج بھگت رہے ہیں، اُسی غیر جمہوری نظام کی مہربانیوں کا نتیجہ ہیں۔
یہاں ایسے سیاستدانوں کی کمی نہیں جو صرف اور صرف ذاتی مفادات اور اپنے سیاسی حریف کو پچھاڑنے کے لیے عوام کو راغب کرتے رہتے ہیں۔ وہ اگر ایک الیکشن جیت نہ پائیں تو اگلے الیکشن تک اُن سے انتظار نہیں ہوتا۔ نئی حکومت کے چند مہینوں بعد ہی وہ اُسے زیر کردینے کی ترکیبیں سوچنے اور سازشوں کے جال بننا شروع کردیتے ہیں۔ سب سے پہلے دھاندلی کا الزام لگانا اُن کاشیوہ بن جاتا ہے۔
اِس حربے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر نئے ایشوز تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔اپنے اِن عزائم کی تکمیل کے لیے وہ غیر جمہوری قوتوں سے بھی مدد لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ایسا ہی ہم نے 2014ء میں ہوتے دیکھا جب نادیدہ قوتوں کے ساتھ ساز بازکر کے ایک ہنگامہ برپا کیا گیا۔ پارلیمنٹ، وزیرِاعظم ہاؤس اور پی ٹی وی کی عمارتوں پر بلوہ آرائی کی گئی۔ کچھ لمحوں کے لیے تو ایسا لگ رہا تھا کہ اِس ملک کے لوگوں کی اکثریت نے حکومت ِ کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے کچھ ایسا ہی پیغام ساری دنیا کو بھی جا رہا تھا، مگر ہماری سیاسی و عسکری قیادت کی بصیرت اور اعلیٰ حکمتِ عملی کی وجہ سے ایک آئینی اور قانونی حکومت کے خلاف یہ سازش ناکامی سے دوچار ہوگئی۔
ایسا ہی کچھ انتشار و اضطراب ہم نے گزشتہ برس بھی دیکھا جب غیر جمہوری قوتوں سے غیرآئینی اقدامات کی توقع اور آس لگانے والوں نے 2 نومبر2016ء کو اسلام آباد بند کر دینے کا اعلان کر دیا۔ اِس اعلان کے پیچھے یہ فکر یقیناً کارفرما تھی کہ دارالحکومت اسلام آباد میں انارکی اور انتشار برپا کرکے عسکری قیادت کو غیر آئینی اقدام پر مجبورکر دیںگے۔ وہ لاکھ انکارکریں لیکن اسلام آباد بند کر دینے کے منصوبے کی ٹائمنگ اِس بات کی غماز ہے کہ یہ سب کچھ اِسی مقصد کے حصول کے لیے کیا گیا تھا۔
جنرل راحیل شریف نے اپنے پورے دور میں ایک پیشہ ورانہ، دوراندیش اوراعلیٰ صفات واقدار رکھنے والے جنرل کی حیثیت سے اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دیے۔اُن کے کوئی سیاسی عزائم نہیں تھے اور شاید اِسی لیے اُنہوں نے ملک میں قبل از وقت پھیلائی گئی غلط اور بے پرکی افواہوں کے پیشِ نظر ایکسٹینشن نہ لینے کا اعلان بہت پہلے ہی کردیا تھا۔ اپنے پورے دور میں وہ ملکی سیاست سے دور رہنے کی کوشش کرتے رہے۔ اُن کی ساری توجہ ملک سے دہشتگردی کے خاتمے اورامن و امان قائم کرنے پر مرکوز تھی۔ وطنِ عزیز میں عرصہ دراز سے جاری دہشتگردی کے خاتمے میں اُن کا کردار تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔ یہ ایک بہت ہی دشوار اور ناممکن کام تھا جو اُنہوں نے بڑی حد تک تین سالہ اپنے دور میں پورا کر دکھایا اور جس کے ہم سب ہی نہیں ساری دنیا بھی معترف ہے۔
اِس کے علاوہ کراچی شہر میں بھی بیس پچیس سال سے جاری بدامنی کو ختم کرنے میں اُن کا رول ڈھکا چھپا نہیں۔ ضرب مومن اور نیشنل ایکشن پلان کے علاوہ سی پیک کے منصوبے میں اُن کی ذاتی دلچسپی اور کوششوں کے سبب آج پاکستان ایک روشن مستقبل کی جانب رواں دواں ہے۔ ہمیں اپنے ایسے جنرل کو جس نے ملک میں اقتدار و اختیار حاصل کیے بغیر ہی وہ کام کر دکھائے جو بہت سے مقتدر حکمراں بھی نہ کرسکے ہمیشہ اچھے ناموں سے یاد کرنا چاہیے ناکہ اُسے بلاوجہ تنقید و تضحیک کا نشانہ بنانا چاہیے۔
اعلیٰ کردار اور صفات کے حامل کسی شخصیت کو اپنا ہیرو، اپنا آئیڈیل یا پیر و مرشد بنانا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے لیکن اُن سے اپنی جائز و ناجائز آرزوؤں اورخواہشوں کی توقع کرنا ایک نامناسب طرز فکر ہے اور پھر اُن حسرت بھر ی توقعات کے پورا نہ ہونے پر اُنہیں ہدفِ تنقید بنانا اور بھی قابلِ مذمت طرز عمل ہے۔ ہمارے لوگوں نے جنرل راحیل شریف سے بھی کچھ ایسی ہی غیرضروری توقعات اور اُمیدیں وابستہ کرلی تھیں، جن کا پورا کرنا اُن کے دائرہ اختیار میں نہ تھا۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر آج کل ہمارے کچھ لوگ جو اب تک اُنہیں غیرآئینی اورغیرقانونی اقدام پر اُکساتے رہے تھے اب اُن کی باعزت رخصتی اورسبک دوشی پر اضطراب اورجھنجھلاہٹ کے عالم میںبلاوجہ طنزواستہزا کا نشانہ بنارہے ہیں۔
ہم فطرتاً شوریدہ صفت واقع ہوئے ہیں۔ ہم اشتعال انگیزی اورہنگامہ آرائی کے بہت دلدادہ ہیں۔ اضطراب اور تلاطم ہمیں بہت عزیز ہے، صبر و تحمل اور سکون کے ہم قائل نہیں ہیں۔ ہر کام فوری اور بہت جلد ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ خود اپنے اندر کوئی بڑی تبدیلی لائے بغیر'' انقلاب'' کے حصول کو اپنا مطمع نظر بنالیتے ہیں۔ ایک سافٹ اسپوکن، متین اور سنجیدہ اور صاحب بصیرت سیاستداں ہماری سوچ کے فریم ورک میں فٹ نہیںآتا۔ ہمیں ضدی، چرب زبان، شعلہ بیاں اور عاقبت نااندیش لیڈر بہت اچھا لگتا ہے۔
ہمارا اجتماعی شعور تشدد، مصلحت کوشی اور مفادات کے تابع مفاہمت سے عبارت ہے۔ ملکی و قومی اداروں کی تضحیک و تحقیرکرنا ہمارا وطیرہ اور مشغلہ بن چکا ہے۔ہم احساسِ زیاں سے عاری اور بے نیاز ہوکر اجتماعی خود سوزی اور خودکشی میں مصروف ہیں۔ ہماری اِن ہی ذاتی اور اجتماعی حماقتوں نے قوموں کی برادری میں ہمیں ایک باعزت مقام حاصل کرنے سے روکے رکھا ہے۔ لگتا ہے ہم نے ذہنی اور فکری ارتقاء کے سفر کا آغاز ہی نہیں کیا ہے۔ بلکہ زمانہ قدیم کی کسی پسماندہ قوم کی طرح ماضی سے چمٹے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
جمہوریت کی لاش گرانے اور اُس سے شکم سیر ہونے والوں کو انتخابی سیاست راس نہیں آتی۔ کہتے ہیں جب درندہ آدم خور ہوجائے تو اُسے انسان کے علاوہ کسی اور جانورکا گوشت نہیں بھاتا۔ ہمارے یہاں بھی جن لوگوں کے منہ کو جمہوریت کا خون لگ گیا ہے اُنہیں منتخب جمہوری نظام وارے نہیں کھاتا۔ اِس فتنہ خو قبیلے میں صرف سیاستداں ہی نہیں ہیں بلکہ ایسے کئی نام نہاد دانشور حضرات بھی شامل ہیں جو روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی افواج سے جمہوری نظام کی گردن دبوچنے کا مطالبہ کررہے ہوتے ہیں۔ مخصوص سیاسی شخصیت کے ارادت مندوں میں شامل ایسے لوگ اصلاحِ احوال کے نام پر ایسی فکر کی پرورش کررہے ہوتے ہیں، جس سے جمہوری نظام کی مکمل نفی ہوتی ہے۔اُن کی محبتیں اور نفرتیں نہ صرف بین السطورتیرتی دکھائی دیتی ہیں بلکہ اُن کے تجزیوں اور تبصروں کو بھی یک رخا بنا دیتی ہیں۔
بیمار خواہشوں میں مبتلا ایسے صاحبانِ فکر و دانش جن کے دماغ میں یہ کبر اور گھمنڈ سما جاتا ہے کہ وہی اِس ملک میں واحد عقلِ کل اور صاحبِ فکرودانش ہیں، باقی تمام لوگ اور انسان حشرات الارض سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہمیں اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو پہچاننا ہوگا اور اُن کی اِس فتنہ انگیزسوچ کی بیغ کنی کرنا ہوگی۔ جمہوری نظام پر کلہاڑا چلانے کی بجائے اُس کی اصلاح کی کوششیں جاری رکھنا ہوگی۔غیر جمہوری نظام کبھی بھی اصلاح ِ احوال کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔ یہ '' این آر او '' اور'' پلی بارگین آپشن'' جس کا خمیازہ ہم سب آج بھگت رہے ہیں، اُسی غیر جمہوری نظام کی مہربانیوں کا نتیجہ ہیں۔