بلاول بھٹو زرداری کا خطاب

بلاول بھٹو زرداری کے عزم سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نئے جوش و جذبے سے انتخابی میدان میں اترے گی۔


Editorial December 28, 2012
بلاول بھٹو زرداری کی گڑھی خدا بخش میں تقریر کی پیپلز پارٹی کی مستقبل کی پالیسی تھی۔ فوٹو : فائل

صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کی تحصیل نوڈیرو میں بھٹو خاندان کے آبائی گائوں گڑھی خدا بخش بھٹو میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی کے سلسلے میں مرکزی تقریب ہوئی۔ اس تقریب میں صدر آصف علی زرداری سمیت پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں نے شرکت کی ۔اس تقریب کی خاص بات پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا حاضرین سے خطاب تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر دراصل ان کا عملی سیاست میں آنے کا اعلان تھا۔ اپنے خطاب میں وہ خاصے پر اعتماد اور پر جوش نظر آئے اور انھوں نے اہم ترین اور حساس سیاسی ایشوز پر کھل کر اظہار خیال کیا۔

انھوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کے مقدمہ قتل میں گرفتار ملزموں کے ٹرائل کے حوالے سے بھی بات کی۔ جہاں تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل میں گرفتار ملزمان کے ٹرائل کا تعلق ہے، اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ملزموںکا آئین و قانون کے مطابق جلد از جلد ٹرائل ہونا چاہیے، اگر ان پر جرم ثابت ہوتا ہے تو پھر انھیں آئین و قانون کے مطابق سزا بھی ملنی چاہیے۔ بہر حال اس ایشو پر زیادہ بات اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ یہ قانونی معاملہ ہے اور اس پر بہتر رائے اس مقدمہ سے متعلق وکلاء ہی دے سکتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کی وضاحت یوں کی کہ مفاہمت ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ جمہوریت ہم لے کر آئے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ پارلیمنٹ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے' صوبے خود مختار ہیں' 1973 کے آئین کو بحال کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے بنیادی منشور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ روٹی ،کپڑا اور مکان کل بھی ہمارا نعرہ تھا' آج بھی ہمارا نعرہ ہے۔

معیشت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں بہتر اقتصادی پالیسی دی ہے' دہشت گردی اور سیلاب کے باوجود ملکی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہے۔ برآمدات 25 ارب ڈالر سے زائد ہو چکی ہیں۔ دہشت گردی کے ایشو پر انھوں نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ ہم دہشت گردی کے سامنے سب سے بڑی دیوار ہیں' انھوں نے اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا حوالہ دیا اور اس سلسلے میں غلام احمد بلور کی شہادت کا ذکر بھی کیا اور ملالہ کے کردار کا حوالہ بھی دیا۔

یوں دیکھا جائے تو بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدا بخش میں جو تقریر کی وہ پیپلز پارٹی کی مستقبل کی پالیسی تھی۔ انھوں نے واضح کر دیا کہ آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی اس ملک کی سیاست میں کیا کردار ادا کرے گی۔ بلاشبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے والی قوتیں اس ملک کے روشن خیال اور جمہوری کلچر کی دشمن ہیں' ان قوتوں کے عزائم اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں' پاکستان کو دہشت گردوں کے سیاسی ایجنڈے کا سامنا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہو سکتے' اس لیے وہ ایسی قوتوں کو راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں جو ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں' بہر حال بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدا بخش سے اپنے عملی سیاسی سفر کا آغاز کر دیا ہے' بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ آیندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم چلائیں گے۔

اس وقت موجودہ جمہوری سیٹ اپ اپنی آئینی مدت پوری کرنے والا ہے' چیف الیکشن کمشنر کا تعین ہو چکا ہے' پاکستان میں پہلی بار ایسے چیف الیکشن کمشنر کا تعین ہوا ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد ہے۔ چیف الیکشن کمشنر عام انتخابات کو غیر جانبدار' شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے اقدامات بھی کررہے ہیں' گڑھی خدا بخش میں ہی صدر آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم کے حوالے سے بھی خاصے اشارے دیے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ آیندہ عام انتخابات شفاف انداز میں اور وقت پر ہوں گے۔ متفقہ نگران حکومت قائم کی جائے گی۔ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہوں گے۔ اپوزیشن کے مشورے سے نگران وزیراعظم لائیں گے۔

پاکستان میں مصر کا ماڈل نہیں چلے گا۔ اس سے ظاہر ہو گیا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادیوں کی حکومت جمہوریت پر پختہ یقین رکھتی ہے اور یہ کہ عام انتخابات میں کسی قسم کی تاخیر کا کوئی امکان نہیں ہے' یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ قرائن سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف متفقہ نگران وزیراعظم بھی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یوں ملک میں ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کے حوالے سے جو افواہیں پھیل رہی ہیں' وہ خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ اگلہ مرحلہ انتخابی مہم ہو گی۔ عملاً تمام سیاسی جماعتیں غیر علانیہ انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لیے مشکل یہ تھی کہ اس کی انتخابی مہم کا قائد کون ہو گا۔ آصف علی زرداری چونکہ صدر ہیں' اس لیے وہ کھل کر پارٹی کی انتخابی مہم نہیں چلا سکتے' اس مشکل کو اب پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حل کر دیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لیے یقیناً جوش و جذبے کا باعث ہوں گے۔ انھوں نے جس اعتماد اور عزم کے ساتھ گڑھی خدا بخش میں بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا ہے' اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نئے جوش و جذبے سے انتخابی میدان میں اترے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ جمہوریت پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔

تاہم انھیں سیاسی میدان میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا ہے، انھوں نے حکومت کی معاشی کامیابیاں بھی بیان کی ہیں، یہ سب اپنی جگہ درست ہوسکتی ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں عوام کے مصائب اور مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے کوئی ایسا منصوبہ نہیں شروع کرسکی جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ آیندہ ایک دو برس میں اس بحران پر قابو پا لیا جائے گا۔دوسری طرف یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ بلاول بھٹو زردای نئے زمانے کے رہنما ہیں ، ایسے جدید خیالات کے حامل لیڈر ہی ملک کو جدیدیت کے راستے پر ڈال سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں