ایف آر پشاور میں دہشت گردی کی کارروائی

قوم کو دھرتی کے تحفظ کیلیےحکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا ورنہ ہمارا اور ہماری نسل کا مستقبل کبھی محفوظ نہ ہو سکے گا


Editorial December 28, 2012
صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات تو روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں' کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہاں دہشت گردی کی واردات رونما نہ ہوتی ہو۔ پورے صوبے پر خوف و ہراس کی فضا چھائی ہوئی اور عوام مایوسی کا شکار ہیں۔ ہمارے عسکری ادارے اور مسلح فورسز عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان دہشت گردوں سے نمٹنے میں مصروف ہیں، مگر دہشت گردی کی وارداتیں ہیں کہ رکنے میں نہیں آ رہیں۔

جمعرات کو فرنٹیئر ریجن پشاور میں جدید ہتھیاروں سے لیس درجنوں عسکریت پسندوں نے خاصہ دار فورس کی حسن خیل اور جونا خوڑ چیک پوسٹوں پر حملہ کر دیا جس سے 4 اہلکار شہید اور 22 لاپتہ ہو گئے۔فاٹا سیکریٹریٹ نے بھی ان اہلکاروں کی گمشدگی کی تصدیق کی ہے ۔ ادھر کالعدم تحریک طالبان درہ آدم خیل کے ترجمان نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے ان اہلکاروں کے یرغمال بنائے جانے کا دعویٰ کیا ہے۔ بعض ذرایع کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔خاصہ داروں یا فورسز پر حملہ کرنا عام فرد کا کام نہیں، خیبر پختونخوا میں ہونے والی اب تک کی کارروائیوں سے عیاں ہوتا ہے کہ دہشت گرد اچھے خاصے تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان دہشت گردوں کو تربیت' جدید ہتھیار اور مالی امداد کون فراہم کر رہا ہے؟ ان کے تربیتی کیمپ کہاں قائم ہیں؟ ان حملوں سے دو امور سامنے آتے ہیں۔

ایک یہ کہ مقامی دہشت گرد گروپ بیرونی طاقتوں کے تعاون سے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں کیونکہ مالی اور اسلحے کی مدد کے بغیر دہشت گرد طویل عرصے تک اتنے منظم انداز میں اپنی کارروائیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔ان کی کمیں گاہیں قبائلی علاقوں میں بھی ہیں اور افغانستان میں بھی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ دہشت گردوں کا اندرون ملک بھی نیٹ ورک بہت مضبوط ہے۔ ان کے بہت سے حامی ہر شعبے میں موجود ہیں جو خفیہ ذرایع سے ان کی مکمل معاونت کر رہے ہیں۔ یہ حامی ان دہشت گردوں کو پناہ دیتے اور معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دہشت گرد انتہائی کامیابی سے فورسز کو نشانہ بنانے کے بعد فرار ہو جاتے اور قانون کی گرفت میں نہیں آتے ہیں۔ صورتحال اس قدر خوفناک ہو چکی ہے کہ جو قوت دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھائے وہ خود بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے جس کی واضح مثال بشیر احمد بلور کی شہادت ہے جو کھلم کھلا دہشت گردی کی مذمت کرتے رہے مگر خود بھی دہشت گردوں کی کارروائی سے محفوظ نہ رہ سکے۔

یوں معلوم ہونے لگا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف زبان کھولنے والے سیاستدان بھی ان کی ہٹ لسٹ پر آ چکے ہیں۔ دہشت گردوں کی جرات اور حوصلے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ وہ مسلح افواج کے اداروں اور فضائی مستقر کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مسلح فورسز دہشت گردوں کے خلاف بھر پور کارروائی کر رہیں اور اب تک ہزاروں جوان وطن عزیز کی سلامتی کے لیے جام شہادت نوش کر چکے ہیں مگر دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ اس سے آگے بڑھ کر مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ خار دار تار لگانے کے آپشن پر لازمی غور ہونا چاہیے،اس کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ چوکیاں قائم کر کے نگرانی کا منظم نظام قائم کیا جائے۔

خیبر پختونخوا میں قائم انگریز دور کی چھائونیاں اور چیک پوسٹیں بحال کرکے بھی صورتحال کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ اندرون ملک دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے کے لیے جاسوسی کا نظام زیادہ موثر بنایا جائے۔ دہشت گردوں کی حامی کوئی قوت خواہ وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے قانون کے شکنجے میں کسا جائے۔ عوام کے تعاون کے بغیر کوئی بھی مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یونین کونسل کی سطح پر نوجوانوں پر مشتمل گروپ بنائے جائیں جو دہشت گردی کے خلاف قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے بلا خوف وخطر تعاون کریں۔ یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ دہشت گردوں ہی سے ہے جو اپنی مذموم کارروائیوں سے وطن عزیز کی بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ پوری قوم کو اپنی دھرتی کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر حکومت اور مسلح فورسز کا بھرپور ساتھ دینا ہو گا ورنہ ہمارا اور ہماری نسل کا مستقبل کبھی محفوظ نہ ہو سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں