جمہوریت کے متوالے ……
کیا بدعنوان استحصالی مو ر و ثیت پر مبنی بے رحم افراد کے ہاتھوں سے چلنے والا نظام ہماری قسمت بدل سکتا ہے؟
www.facebook.com/syedtalathussain.official
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ووٹ کی تمام تر طاقت استعمال کرنے کے بعد بھی قومی مسائل کا حل نظر نہیں آرہا ۔اس کی وجہ ووٹر کی بدیانتی نہیں ہے نہ ہی اس سے جمہوریت پر بداعتمادی کا اظہار ہوتا ہے۔ ووٹر اپنی تمام تر مجبوریوں کے باوجود اپنا فرض ادا کرتا ہے۔جمہوریت اپنی بیسیوں کمزوریوں کے باوجود تمام دوسرے ممالک میں نظام سلطنت وحکومت چلانے کا سب سے احسن طریقہ کار بن چکا ہے۔
ہمارے ملک میں ووٹ اور جمہوریت کے کند ہونے کی بنیادی وجہ وہ سیاسی نظام ہے جس میں طاقت کے استعمال کو عوام کی نمایندگی کے ساتھ گڈ مڈ کردیا جاتا ہے۔ چند مخصوص چہروں اور جماعتوں کا طاقت میں آنا ہی جمہوریت کہلاتا ہے ۔ اسی وجہ سے آپ روزانہ ایسے بیا نا ت سنتے ہیں جن میں سے شخصیت پر ستی کی بو تعفن کی طر ح پھیلی تھی ، جن کی سڑ اند کو عو ام کی آ و از کہہ کر ہمیں با ر با ر سننے پر مجبو ر کیا جا تا ہے ۔
اس تمہید کا مقصد پاکستان میں اس سوچ کی طرف اشارہ کرنا ہے جس نے اچھے بھلے پڑھے لکھے طبقات کی عقل پر بھی پردے ڈال دیے ہیں ۔جس طرف رخ کریں وہاں پر کوئی نہ کوئی عقل مندموجودہ نظام کے تسلسل کی خوبیاں گنوارہا ہوتا ہے۔اگر غلطی سے یہ بحث چھیڑ دیں کہ جمہوریت تو لوگوں کو تسکین اور آرام پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے۔اس کے توسط عوام کو روٹی، کپڑا، مکان ،انصاف اور سب سے بڑھ کر زندگی کا تحفظ ملتا ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے جس کا ہر پھل کڑوا ہے ؟اس استفسار پر عموماََ ردعمل شدید ہوتا ہے، پھر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ ملک میں جمہوریت نہیں چاہتے۔
پانچ سال مکمل کرنے کے بعد کوئی یہ سوال نہیں پوچھ رہا کہ پاکستان کے شہریوں کو تحفظ ملا ہے یا نہیں ۔ہمیں اس کا جواب معلوم ہے لیکن سرکار اور اس کے چمچوں کی طرف سے جواب ابھی ٹالا جارہا ہے ۔آپ کو دور جانے کی ضرورت نہیں، اٹک کا پل پار کرکے خیبرپختونخوا داخل ہوجائیں تو ہر تین کلومیٹر پر اس نظام کے ثمرات بکھرے ہوئے ملیں گے۔اس بدنصیب خطہ پاکستان میں خون پانی کی طرح بہا ہے۔بشیر احمد بلور جیسے سیاستدان ہوں یا دیر،ہنگو ،چارسدہ ،ڈیرہ اسماعیل خان کے اسکولوں میں پڑھنے والے بچے، تاجر ہوں یا اساتذہ کرام ،لائبریری میں تحقیق کرنے والی طالبات ہوں یا پولیس چوکیوں پر تعینات سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے اہلکار، سب موت کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں ۔
کوئی پرسان حال نہیں ۔کوئی توجہ دینے والا نہیں ۔دہشت گردی کا راج ہر جگہ ہے۔ 27دسمبر کو جب بلاول زرداری اور آصف علی زرداری اپنی قربانیوں کے گن گارہے تھے، اُس روز پشاور کے فرنٹئیر ریجن میں حسن خیل اور جناکوڑ میں خاصہ دار چوکیوں پر سیکڑوں مسلح عسکریت پسند قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے 21اہلکاروں کو اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے اور 2کو شہید کردیا۔ یہ سب کچھ گھنٹوں ہوتا رہا۔اسی روز پشاور یونیورسٹی میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہوا جس میں 2طلباء سمیت ایک استاد شدید زخمی ہوئے ۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے نہ ہی آخری ہوگا۔ پچھلے پانچ سالوں میں اس قسم کی سیکڑوں کارروائیاں کی جاچکی ہیں ۔ہزاروں افراد اس کا نشانہ بنے ہیں ۔کوئی صدر آصف علی زرداری سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہ ان علاقوں میں صدر کے عہدے اور بعض جگہوں پر صوابدیدی اختیارات استعمال کرکے موثر کارروائی کرنے میں دلچسپی کیوں نہیں لیتے ۔
خیبر سے کراچی کی طرف چلے جائیں تو دہشت گردی کا ایک اور نظارہ نظر آتا ہے۔روزانہ دس پندرہ انسان مکھیوں کی طرح مارے جاتے ہیں ۔بعض اعدادوشمار کے مطابق کراچی میں بغداد کے بعد سب سے زیادہ غیر قانونی ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔عراق میں تو اندرونی جنگ چل رہی ہے ،کراچی میں کیا ہے ؟ظاہراََ وہاں پر اتحادیوں کی ایک ایسی حکومت ہے جس پرحزب اختلاف کی طرف سے کسی قسم کا کوئی دبائو نہیں کیونکہ عملاََ مخالفین ہیں ہی نہیں۔ کوئی وفاقی اور صوبائی وزراء کی نہ ختم ہونے والی قطار سے یہ نہیں پوچھتا کہ غریب عوام کے بچوں کو مارنے والے کیوں نہیں پکڑے جاتے؟مگر پھر اگر یہ سوال پوچھ بھی لیا جائے تو جواب کون دے گا ۔رحمن ملک یا قمر زمان کائرہ ایک اور پریس کانفرنس کردیں گے ،کیکر سے دودھ نکالیں گے، دودھ سے دہی بنائیں گے اور دہی سے پھر ایسی لمبی لسی تیار کریں گے کہ سننے والا ہکا بکا رہ جائے گا ۔
آخر میں خود پر لعن طعن کرنے لگے گا کہ اس نے یہ معاملہ چھیڑا ہی کیوں۔سندھ کے حالات ہوں یا خیبرپختونخوا کی مخدوش صورتحال ،پنجاب میں ٹوٹتا پھوٹا انفراسٹرکچر ہو یا بلوچستان میں پیدا ہونے والی ایک عجیب وغریب آئینی اور قانونی کشمکش ،معیشت کی قرضوں کے نیچے دبی ہوئی اور ٹوٹنے کے قریب کمر ہو یا بدعنوانی کی ا یسی عظیم الشان داستانیں جو نیب جیسے مضمحل اور سست ادارے کو بھی ہلاکر رکھ دیں، پانچ سال کے اختتام پر اس تباہی کے علاوہ کوئی قابل ذکر کارنامہ نظر نہیں آتا۔
ہا ں یہ ضرور ہوا ہے کہ لاہور،کراچی ،کوئٹہ ،پشاور اور اسلام آباد میں متعین تمام حکمران اور اُن کے بچوں نے مادی ترقی کی نئی منزلیں طے کی ہیں ۔حمزہ شہبازکے کاروبار کی باتیں عام ہیں۔ راجہ پرویز اشرف کے بھائی کی شان بھی دیکھنے والی ہے۔یوسف رضا گیلانی کے خاندان کی خوشحالی کی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔بلوچستان میں ہر کوئی ارب پتی ہوگیا ہے۔ سندھ میں پیسے کی چمک آنکھوں کو چکاچوند کردیتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں بھی اس حوالے سے کافی ترقی ہوئی ہے اور اسلام آباد؟۔اس شہر کی تفصیل نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے ۔دونمبریا ایک نمبر کی گاڑی پر سوار ہے اور دس نمبریے راتوں رات سیٹھ بن گئے ۔جو جتنا بڑا فراڈیا ہے، اس سے کہیں بڑا ا نعا م ہے ۔
2012ء کے اختتام اور 2013کے شروع پر پانچ سالہ جمہوری دور کی کہانی مایوس کن اور بدترین اندازِ حکمرانی کی نشاندہی کرتی ہے۔اخبارات اور ٹیلی وژن پر اشتہارات دے کر عوام کے بچے کچھے پیسے کو جھوٹ اور پراپیگنڈہ کی کہانیاں سنوانے پر استعمال کیا جارہا ہے ۔ مگر حقائق تلخ ہیں۔
گھر سے باہر قدم نکالتے ہی آپ کا گھیرائو کرلیتے ہیں۔ اگر آپ نے ہمارے حکمرانوں والا مخصوص کالا چشمہ نہیں پہنا ہوا ہے تو آپ اس ہجوم سے آنکھیں نہیںچراسکتے۔ مگر پھر بھی اس تمام بپتا کہانی کو ہم جمہوریت کی ناکامی نہیں کہیں گے ۔کوئی نظام اتنا ہی اچھا یا برا ہوتا ہے جتنا اس کو چلانے والے ۔
اگر آپ کبوتر بازوں کو جنگی جہاز اڑانے پر مامور کردیں گے تو نتائج کے بارے میں سوچنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔نہ جہاز بچے گا اور نہ وہ ہدف حاصل ہوگا جس کے لیے اڑان کی گئی تھی۔جمہوریت کو قائم رہنا چاہیے مگر کیا ایک بدعنوان استحصالی موروثیت پر مبنی بے رحم افراد کے ہاتھوں سے چلنے والا یہ نظام ہماری قسمت بدل سکتا ہے؟ اس کے جواب کے لیے اپنے تعصب سے بالا ہوکر بطور پاکستانی شہری ایک لمحے کے لیے سنجیدگی سے جواب تلاش کیجیے ۔