نگران وزیراعظم ٹیکنوکریٹ نہیں سیاستدان ہوگا
میری برادری کےجو لوگ27دسمبرکو جیمز بانڈ بن جاتے ہیں،ان کا پیپلز پارٹی سے تو کیا صحافت سے بھی کوئی گہرا تعلق نہیں رہا۔
محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل کچھ قوتوں کے لیے کیوں ضروری ہوگیا تھا ؟اس سوال کے کچھ جوابات میرے پاس بھی ہیں۔لکھ دوں تو شاید مناسب بھی نظر آئیں ۔مگر پانچ سال گزرجانے کے باوجود میں نے اس بارے میں کبھی ایک لفظ لکھا نہ بولا۔اپنی جان کی فکر سے کہیں زیادہ میری خاموشی کی اصل وجہ صحیح وقت کا انتظار بھی ہے اور مجھے یقین کی حد تک یہ گمان ہے کہ مارچ 2013ء سے وہ وقت شروع ہوجائے گا ۔
اب تک خاموش رہا تو مزید چند ماہ تک انتظار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔اپنی دانستہ خاموشی کے باوجود میں آج تک یہ بات ہرگز نہیں سمجھ پایا کہ ہر سال جب محترمہ کی برسی آتی ہے تو ہمارے آزاد اور بے باک میڈیا کی اسکرینوں پر نظر آنے والے چند اینکر جیمز بانڈ بن کر ان کے قاتلوں کو ڈھونڈنے میں کیوں مصروف ہوجاتے ہیں اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی اس بات پر شدید مذمت بھی جو ان کی نظر میں چند ''واضح ثبوت اور اشارے '' مل جانے کے باوجود ان قاتلوں کو گرفت میں لینے کا بندوبست نہیں کرپائی۔
میں پیپلز پارٹی کو 1967ء میں اس کے قیام کے روز سے جانتا ہوں ۔میں خود ان دنوں طلباء سیاست میں متحرک ہوا کرتا تھا ۔چونکہ خود کو ''خالص انقلابی'' سمجھنے کے خبط میں مبتلا تھا، اس لیے اس جماعت پر شدید تنقید کرتا رہا ۔پیشہ ور صحافی بن جانے کے بعد بھی میرا رویہ تبدیل نہیں ہوا۔اگرچہ ضیاء الحق کے دنوں میں یہ ضروری خیال رکھنا پڑتا تھا کہ ایک طرف فوجی وردی والا جابر آمر ہے اور دوسری طرف صرف ایک نعرہ لگانے کے جرم میں ہر وقت کوڑے کھانے کو تیار کارکن۔اپنے قائد کی محبت میں ہر قربانی دینے کو تیار ایسے دیوانوں کے جذبات کا احترام لازم تھا ۔میری برادری کے جو لوگ 27دسمبر کو جیمز بانڈ بن جاتے ہیں، ان کا مگر پیپلز پارٹی سے تو کیا صحافت سے بھی کوئی اتنا گہرا تعلق نہیں رہا۔ وہ بنیادی طورپر اسکرین کے فن کار ہیں۔
ریٹنگ کے متلاشی ۔اللہ انھیں اپنے فن میں مزید کامیابی وکامرانی عطاء فرمائے ۔فی الوقت تو آپ کو اطلاع یہ دینی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے اصل معاملہ سازوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ جنوری 2013ء کا دوسرا ہفتہ گزرجانے سے پہلے کسی صورت بھی نہ تو آیندہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا اور نہ ہی مرکز میں ان انتخابات کو منعقد کرنے کی خاطر بنائے جانے والی حکومت کے ممکنہ سربراہ کی واضح نشان دہی۔ یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ اب اس حکومت کا سربراہ خواہ ایک نیک نام جج ہی سہی کوئی ''ٹیکنوکریٹ'' نہیں ہوگا۔انتخابات کرانے والی حکومت کی سربراہی کسی ثقہ بند سیاست دان کی سپرد کی جائے گی ۔ایک بار پھر کوشش شروع ہوگئی ہے کہ ایسا سیاستدان بلوچستان سے آجائے ۔
محمود خان اچکزئی اس حوالے سے بڑے کام کے آدمی ثابت ہوسکتے ہیں ۔مگر وہ اول تو قائل نہیں ہورہے۔مان بھی گئے تو ''وہ '' ان کے نام کو اتنا پسند نہیں کریں گے ۔رہ سہ کر نگاہ موجودہ سینیٹ میں بیٹھے دو افراد کی طرف جارہی ہے ۔ان کے نام نہ لکھنے کا وعدہ کررکھا ہے۔مگر آپ بھی ذہن پر زور دے کر ان کا نام ڈھونڈ سکتے ہیں ۔اپنی آسانی کے لیے بس اتنا ضروری یاد رکھیے گا کہ ان دونوں حضرات نے ہمارے آئین میں متفقہ طورپر داخل کی گئی ترامیم کی تیاری اور منظوری میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔
ذرا ٹھنڈے ہوکر سوچیے تو آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ وہ تمام چیزیں جن پر ہماری دو بڑی جماعتوں کے درمیان تقریباََ اتفاق ہوچکا ہے لوگوں کے سامنے اس لیے نہیں لاسکتیں کہ کینیڈا سے آئے ایک قادر ی نے اس ضمن میں ایک ''ڈیڈ لائن'' دے رکھی ہے۔ 10جنوری 2013ء تک ان کے احکامات کی تعمیل نہ ہوئی تو وہ چالیس لاکھ پیروکار لے کر اسلام آباد آجائیں گے ۔راجہ پرویز اشرف اس تاریخ سے پہلے قومی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کرنے کے بعد ایک حوالے سے ا نتخابی جنگ میں اترے بغیر ہی اپنی شکست کا اعلان کردیں گے۔ اقتدار کے سفاک کھیل میں ہار اتنی آسانی سے اور اتنی جلدی نہیں مانی جاتی۔
کینیڈا سے آئے قادری اپنے پرجوش مداحوں کو یاد دلارہے ہیں کہ لانگ مارچ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کیا تھا اورمیاں نواز شریف نے بھی ۔یہ کہتے ہوئے وہ بڑی خوب صورتی سے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ 1993ء میں جب محترمہ نے اپنے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو اس وقت غلام اسحاق خان ہمارے صدر ہوا کرتے تھے۔انھوں نے اپریل 1992ء میں نواز شریف کی قومی اسمبلی توڑ دی تھی۔مگر نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ نے اسے بحال کردیا ۔اس بحالی کے باوجود پنجاب بدستور چوہدری الطاف حسین اور منظور وٹو کے قبضے میں رہا ۔
ان حالات میں محترمہ کا مطالبہ صرف اور صرف تازہ اور فوری انتخاب رہا۔ جنرل وحید کاکڑنے مداخلت کرکے ان کا مطالبہ پورا کردیا۔لانگ مارچ کی ضرورت ہی نہ رہی ۔نواز شریف صاحب کے لانگ مارچ کا مقصد بھی صرف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی تھی ۔وہ گوجرانوالہ تک پہنچے تو امریکی وزیر خارجہ نے صدر زرداری کو فون کرکے وہ مطالبہ پورا کرادیا۔ میاں صاحب لاہور واپس چلے گئے ۔
کینیڈا سے آئے قادری نے اپنے لانگ مارچ کا کوئی Short and Simpleمقصد نہیں لکھا ہے۔ وہ تو موجودہ حکومت کی رخصتی اور پھر عدلیہ اور فوج کی شمولیت کے ساتھ ایک عبوری حکومت بھی چاہ رہے ہیں جو پہلے صفائی ستھرائی کرے اور پھر ایسے انتخابات جس میں ''غریب آدمی'' بھی اسمبلی میں جاسکے ۔ایسے مطالبے دھرنوں سے نہیں منوائے جاسکتے ،جنرل کیانی نے بدھ کو نادرا کے دفتر جاکر جو بریفنگ لی اور پھر فخرو بھائی سے جو ملاقات کی اس کا واحد مقصد پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دینا تھا کہ وہ اور ان کا ادارہ صاف، شفاف اور پرامن انتخابات کے بروقت انعقاد کے عمل میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے کو پوری طرح تیار ہے ۔اس پیغام کے بعد کینیڈا سے آئے قادری جانیں اور اسلام آباد پولیس ۔چلتے چلتے مجھے یہ بھی یاد دلانے دیجیے کہ اسلام آباد کی پولیس اب دھرنوں اور مظاہروں سے نمٹنے کے لیے پنجاب پولیس ہی کی طرح بہت تیار ہوچکی ہے۔ اپنی ''اعلیٰ تربیت کا ایک ''اعلیٰ نمونہ'' اس نے یومِ ناموس رسالتﷺ ''کے روز ہنگاموں پر قابو پانے کے ذریعے دکھادیا تھا۔