دہشت گردی ایک منفی سوچ

دہشت گردی کسی فرد یا افراد کی کارستانی نہیں ہے، یہ ایک منفی سوچ کادھارا ہے جسے ہتھیاروں کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا


Zaheer Akhter Bedari December 29, 2012
[email protected]

پچھلے دنوں امریکی شہر کے ایک اسکول میں دہشت گردوں نے کم عمر بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 20 بچے اور 10 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوگئے، اس خوفناک واردات سے سارے امریکا میں ایک ہلچل سی مچ گئی ہے، نیویارک ٹائمز سمیت دوسرے اخباروں میں کالم نگاروں، تجزیہ کاروں کا مرکزی موضوع بچوں کے اسکول میں ہونے والا یہ قتل عام رہا۔

کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی شہریوں کو ہتھیار رکھنے کی جو آزادی ہے، اسی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گرد بے گناہ انسانوں اور معصوم بچوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ امریکا میں ہر امریکی کو چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے ہتھیار رکھنے کی آزادی حاصل ہے۔ چونکہ ہتھیار رکھنے کے لیے کسی سرکاری اجازت یا لائسنس وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے تقریباً ہر شہری کے پاس ہتھیار ہوتے ہیں اور یہ ہتھیار قانونی کہلاتے ہیں۔

جنوری 1989 میں امریکا کے شہر Stocktown کیلیفورنیا کے ایک ایلمنٹری اسکول میں جو کم عمر بچوں سے بھرا ہوا تھا، پاگل دہشت گردوں نے سیمی آٹومیٹک گن سے اندھا دھند فائرنگ کی تو اس فائرنگ میں 9-6 سال عمر کے 5 بچے ہلاک اور 29 شدید زخمی ہوگئے تھے۔ اس قتل عام کے خلاف امریکی عوام میں شدید ردعمل ہوا تو امریکی کانگریس میں اس قتل عام کے خلاف ہتھیاروں پر پابندی لگانے میں بحث ہوئی۔ اوہیو کے ایک ڈیموکریٹ سینیٹر M. Metzentonms نے مطالبہ کیا کہ ان قاتلوں اور ہتھیار رکھنے کی آزادی کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ اس حوالے سے قانون سازی کی ''تیز رفتاری'' کا عالم یہ تھا کہ ہتھیارں کے خلاف قانون سازی کا مسئلہ 1994 تک التوا کا شکار رہا۔ ہتھیار رکھنے کے حامیوں کی طرف سے مسلسل رکاوٹ کی وجہ سے یہ سلسلہ 2004 میں اﷲ کو پیارا ہوگیا۔

جدید آٹومیٹک ہتھیاروں کے ذریعے بے گناہ عوام کے قتل کے سانحات امریکا کے علاوہ دوسرے ترقیاتی مغربی ملکوں میں وقفے وقفے سے ہوتے رہتے ہیں۔ قتل عام کے اس تازہ سانحے کے بعد امریکا میں ایک بار پھر جدید اور آٹومیٹک ہتھیار رکھنے کی قانونی آزادی کے خلاف شدت سے آوازیں اٹھائی جارہی ہیں اور امریکی صدر اس حوالے سے ہتھیاروں پر کنٹرول کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں اور کوشش ہورہی ہے کہ ہتھیار رکھنے کی آزادی کے حامیوں کے زبردست دباؤ کے باوجود جنوری 2013 میں اس حوالے سے موثر قانون سازی کرکے ہتھیار رکھنے کی آزادی پر پابندی عائد کردی جائے۔

اس قسم کے اندوہناک واقعات عموماً کسی اشتعال، کسی انتقامی جذبے یا کسی ناانصافی کا نتیجہ ہوتے ہیں، لیکن اس کی اصل وجہ اور محرکات کا اصل پس منظر وہ ریاستی جارحانہ پالیسیاں اور جنگیں ہوتی ہیں جن میں ہزاروں نہیں لاکھوں انسان مارے جاتے ہیں۔ ان جنگوں کو اگرچہ قومی مفادات اور جارحیت کی روک تھام، ملکوں کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا نام دے کر جائز بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، لیکن ان جنگوں کی تباہ کاریوں کا انسانی نفسیات پر ایک منفی اثر پڑتا ہے۔

بیسویں صدی کی دو عالمی جنگوں کا پس منظر دنیا کی منڈیوں پر قبضے کی کوششیں بتایا جاتا ہے اور دوسری عالمی جنگ کو ہٹلری فاشزم کے خلاف ترقی یافتہ مہذب ملکوں کی اجتماعی مزاحمت بھی کہا جاتا ہے۔ وجوہات یا جواز خواہ کچھ بھی ہوں اصل دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ ان جنگوں میں کتنی بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے اور کس بہیمانہ طریقے سے مارے گئے۔ دونوں عالمی جنگوں میں کروڑوں انسان مارے گئے، امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر کروڑوں انسانوں کو جلاکر راکھ کردیا۔ کوریا کی جنگ میں لاکھوں انسان جان سے گئے۔

ویت نام کی جنگ میں ہونے والے جانی نقصان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس جنگ میں صرف امریکا کے 59 ہزار فوجی جان سے گئے۔ عراق اور افغانستان کی جنگ میں دس لاکھ سے زیادہ انسان مارے گئے۔ فلسطین اور کشمیر کی جنگ میں لاکھوں انسان اب تک لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کیا اس بربریت کا مقابلہ امریکی اسکولوں میں مارے جانے والے پچیس پچاس بچوں کی ہلاکت سے کیا جاسکتا ہے؟ انسانوں کا قتل خواہ وہ کسی نام سے ہو ایک ایسا جرم ہے جو انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی نفی کرتا ہے اور اسے وحشی درندوں کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔

کسی بھی انفرادی یا اجتماعی قتل و غارت کے پیچھے معاشی مفادات، رنگ، نسل، قومیت، دین، دھرم کے تعصبات اور نفرتیں بنیادی محرک ہوتی ہیں، لیکن یہ سارے محرکات انسانی عظمت، عقل و دانش اور انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی نفی ہیں۔ جو لوگ ان حقائق کا ادراک کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنے وقت سے سیکڑوں سال پہلے پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ ایک احمقانہ تاویل ہے۔ جینئس لوگ ہمیشہ اپنے وقت پر ہی پیدا ہوتے ہیں، عقل و خرد سے عاری لوگ زمانے اور وقت کو سیکڑوں سال پیچھے دھکیل کر اہل عقل، اہل دانش پر یہ غیر عاقلانہ تہمت لگاتے ہیں کہ وہ اپنے وقت سے بہت پہلے پیدا ہوگئے ہیں۔ سچائی عقل و خرد کسی خاص وقت یا زمانے میں محبوس نہیں ہوتی، وہ توفطرت کا ایک عطیہ ہے جس کے لیے زماں و مکاں کی کوئی قید نہیں اور اس نعمت کے حامل لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر ناموافق حالات میں بھی سچ کا پرچم بلند کرتے ہیں۔ ان کا سچ سقراط، گلیلیو کی شکل میں ہمیشہ زندہ و پایندہ رہتا ہے اور جھوٹ دیر ہی سے سہی سچ کے آگے سرنگوں ہوکر رہتا ہے۔

ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔یہ آفاقی سچائی ہے۔ بات امریکا کے شہر کیلی فورنیا کے ایک اسکول میں بچوں کے قتل سے شروع ہوئی تھی اور پہنچی وقت سے پہلے پیدائش کی تھیوری تک، لیکن چونکہ ان دونوں کا تعلق انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے اعزاز کی نفی اور اثبات سے ہے لہٰذا اس بحث کو ہم غیر متعلقہ نہیں کہہ سکتے۔ امریکا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور اور امریکی قوم دنیا کی مہذب ترین قوم ہے۔ کیا یہ اعزاز انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے اعزاز سے مطابقت رکھتا ہے؟

مجھے حیرت ہے کہ دنیا کے اس سب سے طاقتور ملک اور دنیا کی اس سب سے زیادہ مہذب قوم میں مفکروں، دانشوروں، فلسفیوں کو یہ مسئلہ کیوں نظر نہیں آتا۔ اسکولوں میں ہونے والے اس قتل کو جارحانہ جنگوں میں مارے جانے والے لاکھوں انسانوں کے قتل عام سے الگ کرکے کیوں دیکھا جاتا ہے اور صرف ایک یا چند شہروں میں ہتھیاروں پر پابندی لگانے کی حماقت کیوں کی جاتی ہے۔ کیا امریکا میں ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی سے دنیا بھر میں ہونے والی قتل و غارت گری رک جائے گی؟

کیلی فورنیا میں ہونے والی اس دہشت گردی کا آغاز خود امریکا نے روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے دہشت گردوں کو کاشت کرکے کیا تھا، اب امریکا اپنی یہ فصل کاٹ رہا ہے۔ امریکا پاک افغان بارڈر پر لگائی گئی ایک لاکھ چالیس ہزار پاکستانی فوج کی خدمات کے عوض پاکستان کو دو ارب ستر کروڑ ڈالر دے رہا ہے۔ امریکا افغان جنگ پر اب تک کھربوں ڈالر خرچ کرچکا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ جس کا کوئی فائدہ نہیں۔

دہشت گردی کسی فرد یا افراد کی کارستانی نہیں ہے، یہ ایک منفی سوچ کادھارا ہے جسے نہ ہتھیاروں کے ذریعے روکا جاسکتا ہے نہ لاکھوں فوجوں کے ذریعے۔ اس سوچ کیدھارے کو روکنے یا تبدیل کرنے کے لیے پینٹا گون یا پرو پینٹا گون مشاورت کے بجائے ''وقت سے پہلے پیدا ہونے والے'' اہل دانش ، اہل فکر کی مشاورت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ نفرت کو نفرت، جبر کو جبر کے ذریعے نہیں بلکہ نفرت کو محبت اور جبر کو عقل کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے اور یہ کام فوجی ذہن رکھنے والے نہیں بلکہ انسانیت کا درد رکھنے والے غیر متعصب، غیر جانبدار لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ کیا دنیا کے اس سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک میں ایسے وقت سے پہلے پیدا ہوجانے والے لوگ موجود ہیں جو منفی سوچ کی دھارا کو مثبت سوچ سے ختم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں