مقامی حکومتیں
پاکستان میں بسنے والا ہرایک پاکستانی چاہے وہ کسی ذات، قبیلے مذہب سے تعلق رکھتا ہو ہمارا پاکستانی بھائی ہے.
اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جاسکتا کہ مقامی حکومتوں کے نظام کی بدولت عام آدمی کو اپنے ووٹ کی طاقت، ذمے داریوں اور اختیارات کا ادراک ہوا۔ اسے یہ احساس ہوا کہ وہ بھی شریک اقتدار ہے، ریاست کے معاملات میں کچھ اس کی بھی ذمے داری ہے۔ اس نظام کی بدولت نا صرف ملک بھر میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے گئے بلکہ یہ ملک کے چھوٹے چھوٹے گائوں، قصبوں، دیہاتوں، بستیوں میں رہنے والے سادہ لوح عوام میں شعور بیدار کرنے کا سبب بھی بنا۔
اس نظام کے طفیل عوام کو سیاست اور ریاست کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی۔ ووٹ کیا ہے؟ اس کی اہمیت اور طاقت کیا ہے، اندازہ ہوا۔ یونین کونسلوں کے زیر انتظام ترقیاتی کام، بنیادی سہولتوں کی فراہمی، ثالثی و مصالحتی کونسلوں کے ذریعے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل، امن کمیٹیاں، سٹیزن کمیونٹی پولیس غرض اس نظام کا ہی کمال تھا کہ عام آدمی کو بہت زیادہ ریلیف ملا۔ مقامی حکومتوں کے نظام کی بدولت جہاں ملک کے پسماندہ ترین علاقوں میں رہنے والے کو یہ معلوم ہوا کہ بنیادی سہولیات بھی کسی شے کا نام ہے، وہاں بڑے بڑے شہروں میں بھی ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے گئے۔ بالخصوص کراچی کا تو مکمل نقشہ ہی تبدیل ہوگیا۔
حق پرست عوامی نمایندوں نے اسے حقیقی معنوں میں روشنیوں کا شہر بنانے میں دن رات ایک کردیا۔ سٹی ناظم کراچی کی شبانہ روز محنت اور عوامی خدمت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، ان کی خدمات، محنت اور قابلیت کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور انھیں دنیا کے دوسرے بہترین میئر کا ایوارڈ بھی ملا۔ انھیں عوامی خدمت کا یہ موقع مقامی حکومتوں کے نظام کی بدولت ہی ملا۔ غرض ملک بھر کے عوام اس نظام کے ثمرات سے فیض یاب ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ نظام کسی بھی علاقے کی ترقی و خوشحالی اور اس کے عوام کو باشعور اور با اختیار بنانے میں انتہائی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اور مختصر یہ کہ ساری دنیا میں یہ نظام کامیاب ترین سمجھا جاتا ہے۔ مگر انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ملک میں اس نظام کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ چند نام نہاد عوامی نمایندے، قوم پرست اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے اقتدار کے حصول اور اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے لیے اس نظام کے خلاف محاذ بنالیا ہے۔
سادہ لوح عوام کو غلط اطلاعات کے ذریعے گمراہ کرکے اس نظام کے خلاف احتجاج پر اکسایا جارہا ہے۔ اگر اقتدار نچلی سطح پرمنتقل ہوگیا، عوام سیاسی طور پر باشعور ہونے لگے، ان کے مسائل حل ہونے لگے، انھیںانصاف دہلیز پر ملنے لگا، وہ خواب غفلت سے جاگ گئے، انھیں اپنے ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہوگیا، اگر ان میں اقتدار کے ایوانوں میں جانے کی جستجو پیدا ہوگئی تو ان کے ڈیروں کا کیا ہوگا؟ اقتدار جسے انھوں نے اپنے گھر اور خاندان کی لونڈی بنا رکھا ہے وہ اگر ان سے غریبوں کو منتقل ہوگیا توان کا کیا انجام ہوگا؟ ان کی غلامی کون کرے گا؟ ان کے بچے جو عوام پر مسلط ہونے کے لیے بے چین ہیں، ان کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ یہ وہ خوف ہے اور یہی وہ ڈر ہے جس نے ملک پر ہمیشہ راج کرنے کا خواب دیکھنے والوں کو کم ظرف، لالچی اور انتہاپسند بنادیا ہے۔
یہ ہر اس بات کی، اس نظام کی مخالفت کرتے ہیں جس سے عوام میں شعور بیدار ہو یا وہ با اختیار ہوسکیں۔ یہی وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ٹولہ ہے جو ملک کے عوام کو گمراہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے نفرت کے بیج بورہا ہے، لسانی، مذہبی اور علاقائی فسادات کی آگ بھڑکا رہا ہے، معصوم بے گناہوں کا قتل عام کرارہا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو استحکام پاکستان اور قومی یکجہتی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا ظرف یہ ہے کہ یہ کبھی انگریزی زبان کی دشمنی میں عوام کو جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، تو کبھی ٹریکٹر کے خلاف مظاہرے کراتے ہیں۔ کبھی اردو کا جنازہ نکالا جاتا ہے، تو کبھی جاگ پنجابی جاگ اور جاگ سرائیکی جاگ کا نعرہ لگوادیتے ہیں۔ کبھی لسانی، مذہبی اور علاقائی سطح پر عوام کو تقسیم کرکے قتل عام کراتے ہیں تو کبھی ادھر ہم اور ادھر تم کا نعرہ لگوا کر ملک کو دو لخت کردیتے ہیں، کبھی مساجد، مزارات، اسکولوں اور اسپتالوں پر خودکش حملے کراتے ہیں، تو کبھی پولیو کے خلاف محاذ کھول کر غریب ملازمین کی موت کا سبب بن جاتے ہیں، کبھی علیحدگی کا نعرہ لگواتے ہیں تو کبھی قومی زبان اردو کو دشمن کی زبان قرار دیا جاتا ہے۔ مقصد و ایجنڈا صرف یہ ہے کہ عوام میں نفرتیں پھیلائی جائیں، انھیں متحد و منظم نہ ہونے دیا جائے۔ نئے بلدیاتی نظام کے خلاف محاذ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
دوسری جانب اگر ہم ایمانداری سے اپنے گریبانوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ حقائق کو جانتے ہوئے بھی ہم حق اور باطل کی پہچان کرنے سے قاصر ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب میں تعصب کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے۔ ہم پہلے بلوچ، سرائیکی، پنجابی، مہاجر اور پٹھان ہیں پھر پاکستانی ہیں اور پھر مسلمان۔ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی ناحق کا ساتھ دیتے ہیں، چوروں اور لٹیروں کو ووٹ دے کر انھیں پھر اگلے پانچ سال کے لیے اپنے اوپر مسلط کرلیتے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ ہماری مثال ایسے مسلمان کی سی ہوگئی ہے جو توحید، رسالت، جزا و سزا پر مکمل یقین رکھتا ہے مگر پھر بھی بے خوف، ہر وقت گناہوں میں مشغول رہتا ہے۔ ہمیں جاگنا ہوگا، اپنی اصلاح کرنا ہوگی اور حقائق ہر ایک تک پہنچانا ہوں گے، یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔
ہم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور پاکستان میں بسنے والا ہرایک پاکستانی چاہے وہ کسی ذات، قبیلے مذہب سے تعلق رکھتا ہو ہمارا پاکستانی بھائی ہے۔ ہمیں ہر قسم کے لسانی و نسلی تعصب کو، نفرت کو مٹانا ہوگا۔ ہمیں ملک اور عوام کے دشمنوں کو پہچاننا ہوگا، محاسبہ کرنا ہوگا مذہبی انتہا پسندوں کا اور ہمیں ایسی سیاسی جماعت کا انتخاب کرنا ہوگا جو غریب و متوسط طبقے کی خیر خواہ ہو، جو غریبوں کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتی ہو، جس کے غریب نمایندے عملی طور پر غربت کاٹ چکے ہوں، جس میں فیصلے میرٹ کی بنیاد پر کیے جاتے ہوں، پارٹی ٹکٹ غریب کارکنوں کو دیے جاتے ہوں، جس کا قائد ملک اور عوام کی خوشحالی اور خود مختاری کے لیے جدوجہد کررہا ہو، جو قانون اور انصاف کی حکمرانی اور مساوات کا درس دیتا ہو، جو عوام کو باشعور و بااختیار بنانا چاہتا ہو۔
اس نظام کے طفیل عوام کو سیاست اور ریاست کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی۔ ووٹ کیا ہے؟ اس کی اہمیت اور طاقت کیا ہے، اندازہ ہوا۔ یونین کونسلوں کے زیر انتظام ترقیاتی کام، بنیادی سہولتوں کی فراہمی، ثالثی و مصالحتی کونسلوں کے ذریعے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل، امن کمیٹیاں، سٹیزن کمیونٹی پولیس غرض اس نظام کا ہی کمال تھا کہ عام آدمی کو بہت زیادہ ریلیف ملا۔ مقامی حکومتوں کے نظام کی بدولت جہاں ملک کے پسماندہ ترین علاقوں میں رہنے والے کو یہ معلوم ہوا کہ بنیادی سہولیات بھی کسی شے کا نام ہے، وہاں بڑے بڑے شہروں میں بھی ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے گئے۔ بالخصوص کراچی کا تو مکمل نقشہ ہی تبدیل ہوگیا۔
حق پرست عوامی نمایندوں نے اسے حقیقی معنوں میں روشنیوں کا شہر بنانے میں دن رات ایک کردیا۔ سٹی ناظم کراچی کی شبانہ روز محنت اور عوامی خدمت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، ان کی خدمات، محنت اور قابلیت کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور انھیں دنیا کے دوسرے بہترین میئر کا ایوارڈ بھی ملا۔ انھیں عوامی خدمت کا یہ موقع مقامی حکومتوں کے نظام کی بدولت ہی ملا۔ غرض ملک بھر کے عوام اس نظام کے ثمرات سے فیض یاب ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ نظام کسی بھی علاقے کی ترقی و خوشحالی اور اس کے عوام کو باشعور اور با اختیار بنانے میں انتہائی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اور مختصر یہ کہ ساری دنیا میں یہ نظام کامیاب ترین سمجھا جاتا ہے۔ مگر انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ملک میں اس نظام کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ چند نام نہاد عوامی نمایندے، قوم پرست اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے اقتدار کے حصول اور اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے لیے اس نظام کے خلاف محاذ بنالیا ہے۔
سادہ لوح عوام کو غلط اطلاعات کے ذریعے گمراہ کرکے اس نظام کے خلاف احتجاج پر اکسایا جارہا ہے۔ اگر اقتدار نچلی سطح پرمنتقل ہوگیا، عوام سیاسی طور پر باشعور ہونے لگے، ان کے مسائل حل ہونے لگے، انھیںانصاف دہلیز پر ملنے لگا، وہ خواب غفلت سے جاگ گئے، انھیں اپنے ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہوگیا، اگر ان میں اقتدار کے ایوانوں میں جانے کی جستجو پیدا ہوگئی تو ان کے ڈیروں کا کیا ہوگا؟ اقتدار جسے انھوں نے اپنے گھر اور خاندان کی لونڈی بنا رکھا ہے وہ اگر ان سے غریبوں کو منتقل ہوگیا توان کا کیا انجام ہوگا؟ ان کی غلامی کون کرے گا؟ ان کے بچے جو عوام پر مسلط ہونے کے لیے بے چین ہیں، ان کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ یہ وہ خوف ہے اور یہی وہ ڈر ہے جس نے ملک پر ہمیشہ راج کرنے کا خواب دیکھنے والوں کو کم ظرف، لالچی اور انتہاپسند بنادیا ہے۔
یہ ہر اس بات کی، اس نظام کی مخالفت کرتے ہیں جس سے عوام میں شعور بیدار ہو یا وہ با اختیار ہوسکیں۔ یہی وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ٹولہ ہے جو ملک کے عوام کو گمراہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے نفرت کے بیج بورہا ہے، لسانی، مذہبی اور علاقائی فسادات کی آگ بھڑکا رہا ہے، معصوم بے گناہوں کا قتل عام کرارہا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو استحکام پاکستان اور قومی یکجہتی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا ظرف یہ ہے کہ یہ کبھی انگریزی زبان کی دشمنی میں عوام کو جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، تو کبھی ٹریکٹر کے خلاف مظاہرے کراتے ہیں۔ کبھی اردو کا جنازہ نکالا جاتا ہے، تو کبھی جاگ پنجابی جاگ اور جاگ سرائیکی جاگ کا نعرہ لگوادیتے ہیں۔ کبھی لسانی، مذہبی اور علاقائی سطح پر عوام کو تقسیم کرکے قتل عام کراتے ہیں تو کبھی ادھر ہم اور ادھر تم کا نعرہ لگوا کر ملک کو دو لخت کردیتے ہیں، کبھی مساجد، مزارات، اسکولوں اور اسپتالوں پر خودکش حملے کراتے ہیں، تو کبھی پولیو کے خلاف محاذ کھول کر غریب ملازمین کی موت کا سبب بن جاتے ہیں، کبھی علیحدگی کا نعرہ لگواتے ہیں تو کبھی قومی زبان اردو کو دشمن کی زبان قرار دیا جاتا ہے۔ مقصد و ایجنڈا صرف یہ ہے کہ عوام میں نفرتیں پھیلائی جائیں، انھیں متحد و منظم نہ ہونے دیا جائے۔ نئے بلدیاتی نظام کے خلاف محاذ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
دوسری جانب اگر ہم ایمانداری سے اپنے گریبانوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ حقائق کو جانتے ہوئے بھی ہم حق اور باطل کی پہچان کرنے سے قاصر ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب میں تعصب کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے۔ ہم پہلے بلوچ، سرائیکی، پنجابی، مہاجر اور پٹھان ہیں پھر پاکستانی ہیں اور پھر مسلمان۔ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی ناحق کا ساتھ دیتے ہیں، چوروں اور لٹیروں کو ووٹ دے کر انھیں پھر اگلے پانچ سال کے لیے اپنے اوپر مسلط کرلیتے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ ہماری مثال ایسے مسلمان کی سی ہوگئی ہے جو توحید، رسالت، جزا و سزا پر مکمل یقین رکھتا ہے مگر پھر بھی بے خوف، ہر وقت گناہوں میں مشغول رہتا ہے۔ ہمیں جاگنا ہوگا، اپنی اصلاح کرنا ہوگی اور حقائق ہر ایک تک پہنچانا ہوں گے، یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔
ہم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور پاکستان میں بسنے والا ہرایک پاکستانی چاہے وہ کسی ذات، قبیلے مذہب سے تعلق رکھتا ہو ہمارا پاکستانی بھائی ہے۔ ہمیں ہر قسم کے لسانی و نسلی تعصب کو، نفرت کو مٹانا ہوگا۔ ہمیں ملک اور عوام کے دشمنوں کو پہچاننا ہوگا، محاسبہ کرنا ہوگا مذہبی انتہا پسندوں کا اور ہمیں ایسی سیاسی جماعت کا انتخاب کرنا ہوگا جو غریب و متوسط طبقے کی خیر خواہ ہو، جو غریبوں کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتی ہو، جس کے غریب نمایندے عملی طور پر غربت کاٹ چکے ہوں، جس میں فیصلے میرٹ کی بنیاد پر کیے جاتے ہوں، پارٹی ٹکٹ غریب کارکنوں کو دیے جاتے ہوں، جس کا قائد ملک اور عوام کی خوشحالی اور خود مختاری کے لیے جدوجہد کررہا ہو، جو قانون اور انصاف کی حکمرانی اور مساوات کا درس دیتا ہو، جو عوام کو باشعور و بااختیار بنانا چاہتا ہو۔