لاہور سے شاہ پور چاکر تک
حضرت مولانا محمد حسن عباسی نے مرشد کے حکم پر شاہ پور چاکر کو مسکن بنایا ۔
اﷲ کے ایسے بے نیاز بندے بھی ہوتے ہیں جو ساری زندگی کسی کونے میں بیٹھ کر گزار دیتے ہیں۔ مرشد کے حکم پر فرض ادا کرنے کے لیے بتائی گئی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر آخری سانس تک وہیں رہتے ہیں۔ خدا اور اس کے بندوں سے پیار کرنا، یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔
آج میں ایسے ہی ایک بندۂ خدا کا ذکر لے کر بیٹھا ہوں۔ یہ اﷲ کے ولی مرشد کے حکم پر سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر شاہ پور چاکر میں ساری زندگی گزار کر 11 دسمبر 2012 بروز منگل بمطابق 26 محرم الحرام 1434ھ اگلے جہان سدھار گئے۔ انتقال کے وقت حضرت مولانا محمد حسن عباسی کی عمر 91 سال تھی۔ حضرت کا سب سے بڑا اعزاز یہ تھا کہ آپ مرشد کامل حضرت مولانا احمد علی صاحب کے آخری خلیفہ مجاز تھے کہ جنہوں نے حضرت مولانا احمد علی (جو لاہوری بھی کہلاتے تھے) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ شاہ پور چاکر کے ولی میں بھی اپنے مرشد کی تمام عادات پائی جاتی تھیں۔ میں اس موقع پر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے بارے میں چند الفاظ بیان کروں گا، کیونکہ مرشد کے ذکر میں ہی مرید کا ذکر چھپا ہوتا ہے۔
میں 1964 میں میٹرک کا طالب علم تھا، والد صاحب صوم و صلوٰۃ کے پابند انسان تھے، یوں رمضان شریف کے آخری عشرے میں مجھے اعتکاف میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔ محلے کی مسجد کے امام صاحب شیراں والا گیٹ لاہور کے معروف مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور یہی وہ درسگاہ تھی جس کی بنیاد مولانا احمد علی صاحب نے رکھی تھی۔ حضرت مولانا احمد علی صاحب نے درس و تدریس کے کام کو بڑھاوا دینے کے لیے ایک رسالے کا بھی اجرا کیا۔ ''خدام الدین'' نامی یہ رسالہ مذہبی حلقوں کے علاوہ علمی و سیاسی حلقوں میں بھی بہت مقبول تھا۔ اس رسالے کی تقریباً ساٹھ ستر جلدیں دوران اعتکاف میرے زیر مطالعہ رہیں۔ یہ میرا مولانا احمد علی صاحب سے پہلا تعارف تھا۔ مولانا کا انتقال 1962 میں ہوچکا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے مدرسے اور رسالے خدام الدین کو ان کے صاحبزادگان نے سنبھالا۔ مولانا کے تینوں بیٹے اپنے والد کی طرح صاحب کردار تھے، خصوصاً مولانا عبیداﷲ انور کو اﷲ نے بڑا مقام و مرتبہ عطا فرمایا۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے انگریز کے خلاف جنگ لڑی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر حق کے راستے پر چلتے ہوئے آپ کے پاؤں کبھی نہیں ڈگمگائے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے والد گرامی نے دین کا خادم بناکر آپ کو مولانا عبید اﷲ سندھی کے سپرد کیا تھا۔ مولانا عبیداﷲ سندھی ''خلافت تحریک'' کے بانیوں میں شامل تھے۔ مشہور ''ریشمی رومال'' کی تحریک کے دوران سپرنٹنڈنٹ پولیس نے دہلی میں حضرت مولانا عبیداﷲ سندھی کے مدرسے نظارۃ القرآنیہ پر چھاپا مارا اور حضرت مولانا احمد علی کو درس قرآن دیتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا اور پھر گرفتاریوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا ۔
حضرت مولانا ہندوستان کے شہروں کی جیلوں میں بند ہوتے رہے۔ آخر کار شملہ اور جالندھر کی جیلوں سے ہوتے ہوئے انگریز سرکار نے آپ کو لاہور شہر میں لاکر چھوڑ دیا۔ اور پابندی لگادی کہ لاہور کی حدود سے باہر نہیں نکلو گے۔ یہ 1917 کا واقعہ ہے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا کو خفیہ پولیس کی نگرانی میں لاہور لایا گیا اور انھیں دو ضامن پیش کرنے کے لیے کہا گیا، لیکن اس وقت عالم یہ تھا کہ شہر میں کوئی ضمانت دینے والا نہیں تھا اور پھر تقریباً 45 سال بعد جب حضرت مولانا احمد علی کا انتقال ہوا تو پورا شہر جنازے میں شریک تھا۔
یہ سب کیسے ہوا؟ یہ ''دوچار دنوں کی بات نہیں''۔ حضرت مولانا کے بارے میں مختصراً مختصراً لکھتے ہوئے آگے بڑھوں گا۔ وقت کے بڑے علم و فضل والوں نے آپ کے مقام و مرتبے کو تسلیم کیا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی نگاہ میں آپ روشن ضمیر تھے، حضرت مولانا حسین احمد مدنی اپنے شاگردوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ ''علم کی تحصیل آپ نے آٹھ سال دیوبند میں رہ کر لی۔ لیکن آپ کی تکمیل حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ کے دورۂ تفسیر سے ہوگی''۔
مشرق پور شریف کے معروف عالم دین حضرت شیر محمد شرقپوری اکثر و بیشتر حضرت احمد علی لاہوری کے درس قرآن میں تشریف لاتے اور فرماتے ''میں شیرانوالہ کی طرف نگاہ کرتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے فرش زمین سے عرش بریں تک نور کی قندیلیں روشن ہیں۔'' حضرت مولانا کے عقیدت مندوں میں شورش کاشمیری، ڈاکٹر سید عبداﷲ، حضرت عطاء اﷲ شاہ بخاری اور کالج و یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبا بھی شامل تھے۔ اب صرف ایک واقعہ سناتے ہوئے حضرت مولانا احمد علی لاہوری کی بات ختم کروں گا۔
گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان آف کالا باغ کے بیٹے کی شادی تھی، گورنر صاحب کی خواہش تھی کہ نکاح حضرت مولانا احمد علی صاحب پڑھائیں۔ یہ خواہش لیے گورنر صاحب مولانا کے مدرسے تشریف لائے اور حضرت مولانا سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو مولانا نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ''شہر میں بہت سے مشہور مولوی حضرات موجود ہیں، آپ کسی سے بھی نکاح پڑھواسکتے ہیں۔'' انکار سن کر گورنر صاحب نے کہا ''حضرت! اگر آپ نکاح نہیں پڑھائیں گے تو میں بیٹے کی شادی نہیں کروں گا۔'' آخرکار حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اپنی شرائط پر نکاح پڑھانے کے لیے تیار ہوگئے۔
شرائط یہ تھیں۔ 1۔ میں اپنی سواری سے گورنر ہاؤس آؤں گا، اور صرف آپ گورنر ہاؤس کے دروازے پر میرے لیے موجود ہوں گے۔ 2۔ نکاح کا معاوضہ کچھ نہیں لوں گا اور بغیر کھائے پیے واپس ہوجاؤں گا۔ گورنر صاحب نے دونوں شرائط مان لیں، تقریب نکاح والے دن حضرت مولانا تانگے میں بیٹھ کر گورنر ہاؤس پہنچے۔ اپنی جیب سے کرایہ ادا کیا، گورنر نواب کالا باغ تنہا گورنر ہاؤس کے گیٹ پر کھڑے تھے، انھوں نے مولانا کا استقبال کیا اور اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ مولانا صاحب نے نکاح پڑھایا اور واپس چل دیے۔ گورنر صاحب نے مولانا صاحب سے کہا : ''صدر ایوب خان آئے ہوئے ہیں، ان سے ملاقات تو کرلیں۔'' مگر مولانا نے صاف انکار کردیا اور واپس چلے گئے۔ جب کہ شہر کے علما کرام صدر ایوب کے سامنے پیش ہو ہوکر اپنے لیے مراعات کی بھیک مانگ رہے تھے۔
مرشد کامل کے ذکر کے بعد اب صحیح معنی میں شاہ پور چاکر کے ولی اﷲ مولانا محمد حسن عباسی کے مقام و مرتبے کا اندازہ ہوسکے گا۔ حضرت مولانا محمد حسن عباسی نے مرشد کے حکم پر شاہ پور چاکر کو مسکن بنایا تھا۔ مسجد و مدرسہ قائم کیا، ہر حاکم وقت نے حضرت کی خدمت کرنا چاہی، تو شاہ پور چاکر کے ولی نے ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اپنے مرشد مولانا احمد علی لاہوری کی طرز پر تمام زندگی عمل پیرا رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی پیرانہ سالی کے باوجود کلمہ حق بلند کیا اور ضیاء الحق کے غیر جمہوری اقدامات کے خلاف علم بغاوت بلند رکھا۔
حضرت مولانا محمد حسن عباسی اس لڑی کے آخری پھول تھے جس میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری، حضرت مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری، حضرت مولانا مفتی محمود جیسے علمائے حق پروئے ہوئے تھے۔ سنا ہے کہ ہزاروں عقیدت مند شاہ پور چاکر کے آستانے پر حاضری دیتے تھے اور خزانے سمیٹ کر لے جاتے تھے۔
ہم تو پہلے ہی بہت دکھی تھے، ایسے میں ایک صاحب کرامت کا جانا، ہمارا بہت بڑا نقصان ہے۔ مولانا احمد علی لاہوریؒ کے ہاتھ پر بیعت کرنیوالے یہ آخری بزرگ تھے۔ اب یہ نسبت اپنے اختتام کو پہنچی۔ اﷲ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور علمائے حق کے سلسلے کو جاری و ساری رکھے (آمین)