عوام کی سوالیہ نگاہیں

ایسی قانون سازی کی جائے کہ جس میں ذاتی املاک کو نقصان پہنچنے کی مد میں جو اخراجات ہیں ان کی ذمے داری حکومت اٹھائے

MULTAN:
اتارو گاڑی سے سب کو۔ جلدی کرو ورنہ سب کے سب مارے جائو گے۔ لگا دو آگ اس کو، جلا کے خاک کر دو۔ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ یہ ڈرائیور کیوں چیخ رہا ہے۔ ہٹ جائو۔ تمھاری کون سی اپنی گاڑی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ ہے۔ اسے جلانا تو ہمارا حق بنتا ہے۔ ہمارے لوگ مارے جارہے ہیں۔ حکومت خاموش ہے۔ جلائو بھائیو۔ ہٹائو اس ڈرائیور کو، یہ بھی ڈرامے باز ہے۔ ہمارا حق ہمیں واپس کرو۔ جلا کے راکھ کردو سب کو۔

غلام نبی جو اس بس کا ڈرائیور تھا چیختا رہ گیا۔ رحم کرو۔ میری زندگی کی ساری جمع پونجی میری گاڑی نہ جلائو۔ مجھے جلادو۔ خدا کے لیے میری جان لے لو۔ میری یہ روزی روٹی ہے۔ میرے معصوم بچوں کی خوشیاں اس سے ہیں، اسے مت جلائو۔ یہ حکومت کا مال نہیں، نہ میں کسی تنظیم سے ہوں ۔ پیسہ پیسہ جمع کیا ہے میں نے اس گاڑی کے لیے، یہ تو میری قسطوں پہ لی ہوئی گاڑی ہے۔ کہاں سے بھروں گا میں اس کا روپیہ۔ غلام نبی فریاد کرتا رہ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی گاڑی جل کے خاک ہو گئی۔

یہ غلام نبی ہے جس کی تمام جمع پونجی مزدا کی شکل میں راکھ کا ڈھیر ہوگئی۔ ہڑتال یا احتجاج کسی کا بھی ہو، مشتعل عوام کا پہلا نشانہ بنتی ہیں... پبلک ٹرانسپورٹ، گاڑیاں اور دوسری املاک۔ اور جلانے والے کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ انھوں نے محض کوئی بس، ویگن یا دیگر املاک کو ہی نہیں، جلنے والی املاک کے توسط سے پلنے والے پورے خاندان کو زندگی بھر سسکنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

پاکستان بھر میں ذرایع نقل و حرکت کے لیے لاکھوں کی تعداد میں پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر دوڑ رہی ہے۔ اس پبلک ٹرانسپورٹ کی وجہ سے لاکھوں افراد اپنی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ شہر کی سڑکوں پر رواں دواں پبلک ٹرانسپورٹ میں کئی بسیں اور ویگنیں بہت قیمتی اور مہنگی ہوتی ہیں۔ آئے دن کی ہڑتالوں میں گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کی خبریں اب اتنی عام ہو چکی ہیں کہ انھیں سن کر اب تو اس پر توجہ بھی نہیں جاتی۔ شہر بھر میں تقریباً 15 ہزار سے زائد پبلک ٹرانسپورٹ چلتی ہے، جنھیں زیادہ تر ڈرائیور حضرات قسطوں پر حاصل کرتے ہیں اور روز کی ہونے والی کمائی سے وہ ایک خطیر رقم اس کی قسط ادا کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ شرپسند عناصر حکومت سے ناراضگی اپنے ذاتی غصے کو بجھانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو آگ تو لگا دیتے ہیں لیکن وہ اس سے واقف ہی نہیں ہوتے کہ ان کا یہ فعل کسی غریب انسان کی زندگی پہ کیا قیامت لاسکتا ہے۔ جب کہ حکومت کی طرف سے جلنے والی گاڑیوں کا معاوضہ دینے کی کوئی خاطر خواہ پالیسی سامنے نہیں آسکی۔

اس سلسلے میں کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری کا موقف ہے کہ ان جلائی جانے والی گاڑیوں کے ذمے دار وہ عناصر ہیں جو ہڑتال کی کال دیتے ہیں اور ہڑتال کی رات سے ہی گاڑیاں جلانا شروع کر دیتے ہیں تاکہ خوف پیدا ہو اور لوگ گھروں سے نہ نکلیں، ایسے میں ہڑتال والے دن بھی گاڑیاں جلائی جاتی ہیں۔ ہمارا یہ موقف ہے کہ جو لوگ گاڑیاں جلاتے ہیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ہڑتال کی کال دینے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔


دوسرا ہمارا یہ موقف ہے کہ جو گاڑیاں جلادی گئی ہیں ان کو معاوضہ دینا حکومت کا کام ہے۔ یہ حکومت کی اخلاقی و قانونی ذمے داری بنتی ہے کہ جن کی گاڑیاں جلائی گئی ہیں انھیں معاوضہ دیا جائے۔ انھوں نے بتایا کہ موجودہ دور حکومت میں اب تک 500 سے زائد گاڑیاں جلائی گئی ہیں انھیں معاوضہ دیا جائے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے صرف 100 کے قریب گاڑیوں کا معاوضہ دیا گیا ہے وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اس سے قبل 2007 میں پرویز مشرف دور حکومت میں ٹرانسپورٹر کو معاوضہ دیا گیا تھا اور فی کس دو لاکھ روپے ایک گاڑی کا معاوضہ دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ٹرانسپورٹ نہ چلائیں تو ہم کیا کریں۔ ہم تو شہریوں کی سفری مشکلات میں کمی کرتے ہیں۔

ایسے میں حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ٹرانسپورٹروں کو تحفظ فراہم کرے۔ 19 نومبر کو قوم پرستوں کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال کے دوران غلام نبی کی ویگن کو آگ لگادی گئی تھی، غلام نبی اس ویگن کا جزوی طور پر مالک تھا اور ایک ہاتھ سے معذور ہے۔ آج کسمپرسی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارتا ہے کیونکہ اس کے بچوں کی معصوم خواہشات کو پوری کرتی ویگن آج خاک ہو گئی ہے۔ یہاں صرف غلام نبی ہی نہیں کتنے ہی ایسے ڈرائیور موجود ہیں جو قسطوں پر ویگن لے کر چلاتے تھے اور ان کی ویگن شرپسندوں کے قہر کا نشانہ بن گئی۔ اگر کوئی بدنصیب کسی یونین کا رکن نہیں تو جلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آخر ان واقعات کا ذمے دار کون ہے؟ کیا ایسی قانون سازی ہونا ضروری نہیں جس میں ہنگاموں کی وجہ بننے والی ہڑتال یا احتجاج کی کال دینے والے ذمے دار کو مجرم سمجھا جائے۔

نائب امیر جماعت اسلامی کراچی اور سابق قومی اسمبلی نصراﷲ شجیح نے اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر حکومت وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ متاثرہ ڈرائیورز کو معاوضہ دیں۔ جس طرح کے حادثات جنم لے رہے ہیں اس میں ٹرانسپورٹرز کے تحفظات بجا ہیں۔

کراچی کے حالات سے آج ہر شخص متاثر ہورہا ہے۔ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے کہ جس میں ذاتی املاک کو نقصان پہنچنے کی مد میں جو اخراجات ہیں ان کی ذمے داری حکومت اٹھائے۔ حکومت معاوضوں کا اعلان ضرور کرتی ہے لیکن اکثریت اس سے محروم ہے۔ حکومت اپنے کاموں کے لیے ٹرانسپورٹرز کی جن گاڑیوں کو روکتی ہے ان کو بھی معاوضہ نہیں دیا جاتا جو کہ بہرحال غریب ڈرائیورز کے لیے پریشانی کا باعث ہے، اس سلسلے میں جلد ہی قانون سازی کرنی ہوگی۔ ورنہ ہمارے مظلوم عوام میں اشتعال بڑھتا رہے گا۔ بیروزگاری ذہنی مسائل کو جنم دے رہی جو کہ بہرحال ایک قومی مسئلہ ہے۔

امن و امان کی دن بدن خراب ہوتی صورتحال سے ہر شخص متاثر ہو رہا ہے، فوری طور پر حکمت عملی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ غلام نبی جیسے کتنے ہی لوگ ہمت ہار کر ذہنی مریض بنتے جائیں گے۔ یہ عوام سوالیہ آنکھوں سے حکمرانوں کو تک رہے ہیں۔
Load Next Story