دور اندیشی کی ضرورت
نفرت کے بیج بو کر عوام کے درمیان خلیج اس حد تک گہری نہ کی جائے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا مشکل ہوجائے۔
آج پاکستان جن بدترین اندرونی اور بیرونی خطرات اور مسائل کا شکار ہے، اس موقع پر ملک کے اسٹیک ہولڈرز کو بہت احتیاط سے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کے لیے سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پاکستان اس وقت سیاسی اور سماجی ارتقا کے دور سے گزر رہا ہے ایسے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اندرونی خطرات کا سامنا ہے جب کہ بے پناہ معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے ریاستی ادارے ایک دوسرے کے خلاف محاذآرائی میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنی سپریم حیثیت منوانے کی جدوجہد میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں، ہر کوئی آئین کی حکمرانی کی اپنے طور پر تشریح کرکے بات کر رہا ہے۔
ریاستی ادارے، حکومت اور حکومت سے باہر سیاسی جماعتوں میں جو محاذ آرائی دیکھنے میں آرہی ہے اس سے ملک میں بہتری کے بجائے بدترین انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، مہنگائی کا جن سر چڑھ کر بول رہا ہے، جس کی وجہ سے غریب طبقہ معاشی بدحالی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذآرائی میں نقصان غریب کا ہی ہے۔ ملک رہے یا نہ رہے اشرافیہ کلاس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نان ایشو کو ایشو بنانے سے اجتناب کرتے ہوئے ایک دوسرے کے جمہوری مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہوگا، چاہے اس میں خامیاں ہی کیوں نہ ہوں۔
کالاباغ ڈیم شدید متنازع مسئلہ بنا ہوا ہے، کالا باغ ڈیم پر تین صوبے سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان شدید مخالف ہیں۔ تینوں صوبوں کی اسمبلیوں سے ڈیم کے خلاف قرارداد کی منظوری اس بات کی متقاضی ہے کہ یہ ڈیم نہیں بنایا جائے، اس ڈیم کی تعمیر کو تو سندھ، خیبر پختونخوا کے سیاست دان اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ بد اعتمادی پر مبنی ہے، ان تینوں صوبوں کو پنجاب کی بالادستی کا خوف طاری ہے۔اس کا خاتمہ سیاسی جماعتیں کرسکتی ہیں۔ اس مسئلے کو تو فوجی حکمران بھی حل نہیں کرسکے تھے، بے شک پاکستان کو ڈیم کی اشد ضرورت ہے اس کا کوئی متبادل تلاش کیا جانا چاہیے۔
کراچی میں ووٹرزکی نئے سرے سے تصدیق اور حلقہ بندی کروانے کا فیصلہ درست ہوسکتا ہے مگرہو سکتا ہے کہ اس کے اثرات ویسے مرتب نہ ہوں جیسا سمجھا جا رہا ہے۔ 1970 کے عام انتخابات میں سابق مشرقی پاکستان کے عوام نے عوامی لیگ کو اکثریت سے منتخب کیا۔ سابق مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی 171 سیٹوں میں سے 169 سیٹیں عوامی لیگ نے حا صل کی تھیں جب کہ پی پی پی کو موجودہ پاکستان میں قومی اسمبلی کی 129 سیٹوں میں سے 82 ملی تھیں، جمہوری روح کے مطابق حکومت بنانے کا حق عوامی لیگ کو تھا مگر ہمارے فوجی حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں نے عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے عوامی لیگ کے خلاف مہم چلائی اور قومی اسمبلی کے طلب کردہ اجلاس میں شرکت نہ کرکے بنگالی عوام کی توہین کی گئی اور عوامی لیگ کو اقتدار نہیں دیا گیا، بلکہ 25 مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں غیر منطقی ملٹری ایکشن کی شروعات کردی گئی۔ بنگالی پاکستانی تھے، حکومت کرنا ان کا بھی حق تھا جو نہ ملا۔
ناانصافیاں محرومیوں کو جنم دیتی ہیں اور منفی سوچ کی طرف گامزن کرکے تباہ و برباد اور شرمندگی کا سامان پیدا کرتی ہے، اس لیے بنگالی قوم نے نہ چاہتے ہوئے آزادی کا نعرہ لگایا۔ کہا جا رہا ہے کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹ کی تصدیق مردم شماری کے بعد ہی ممکن ہے اور یہ کام الیکشن کمیشن کے مینڈیٹ کا حصہ ہے۔ درجنوں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کو روکنے کی آئینی ذمے داری موجودہ حکومت کی ہے، اگر حکومت عوام کو تحفظ نہ دے سکے تو اس حکومت کے خلاف آئین کے مطابق فیصلہ آنا چاہیے۔ ان تمام باتوں کا حلقہ بندی، ووٹر لسٹوں کی تصدیق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ہمارے سیاست دان کوتاہ نظر اور حقائق کے معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ کراچی کے حوالے سے معاشی اور معاشرتی مسائل کو حقیقت پسندانہ انداز سے نہیں لیا جا رہا ہے۔ صرف کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کی با تیں تواتر کے ساتھ گونج رہی ہیں۔ قومی جماعتوں کی سوچ اور عمل میں واضح تضاد نظرآرہا ہے۔ ایسی تمام جماعتیں جن کا کراچی میں ووٹ بینک نہیں ہے، وہ تمام جماعتیں 1970 کی طرح ایک ہو کر ایک سیاسی جماعت کے خلاف صف آرا نظر آرہی ہیں۔ اس قسم کا رویہ ایسٹ پاکستان کے عوام کے ساتھ بھی روا رکھا گیا تھا۔ یہ جادوگر سیاسی رہنما ملک کے اعلیٰ اداروں کو بھی غلط اطلاعات دے رہے ہیں۔
اعلیٰ ادارے کراچی کی موجودہ صورت حال کا زمینی حقائق پر مبنی جائزہ لے کر فیصلہ کریں، صرف کراچی میں کبھی فوجی آپریشن کا آپشن، کراچی اسلحہ سے پاک، بغیر مردم شماری حلقہ بندی، ووٹر لسٹس کی تصدیق جیسے اقدامات کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہوے۔ اس شہر کے عوام اس ملک کی تعمیر و ترقی، ٹیکسوں، پروڈکشن اور ریونیو کی صورت میں 70 فیصد اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں صرف سیاست برائے اقتدار حاصل کرنے کے بجائے قوم کو کچھ ڈیلیور کرنے میں سنجیدہ نہیں نظر آرہی ہیں۔ ہم نے 1970 کے واقعات اور سانحات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ یہ ملک مختلف قوموں پر مشتمل ہے، ہمیں اپنا رویہ بحیثیت پاکستانی قوم بنانا ہوگا، ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔ باہمی اختلافات کے باعث نفرت کے بیج بو کر عوام کے درمیان خلیج اس حد تک گہری نہ کی جائے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا مشکل ہوجائے۔