جمہوریت کے نام پر کھلواڑ
پنجاب کی صوبائی حکومت نے ڈیڑھ سو برس پرانا انتظامی ڈھانچہ بحال کرکے اپنی نوآبادیاتی فکر کی تجدید کردی
گزشتہ دنوں پنجاب کی صوبائی حکومت نے ڈیڑھ سو برس پرانا انتظامی ڈھانچہ بحال کرکے اپنی نوآبادیاتی فکر کی تجدید کردی ہے۔ اس سے قبل سندھ حکومت نوآبادیاتی دور کا انتظامی ڈھانچہ بحال کرکے اپنے فیوڈل مائنڈ سیٹ کا مظاہرہ کرچکی ہے۔ بلوچستان بہت پہلے ڈیڑھ سوبرس پرانے نظام کی طرف لوٹ چکا تھا۔ خیبر پختونخوا میں گو کہ قدرے بااختیار بلدیاتی نظام نافذ کیا گیا ہے، مگر وہاں بھی صوبائی حکومت ان اختیارات کی منتقلی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس طرح ملک میں شراکتی جمہوریت اور اختیارات کی حقیقی معنی میں نچلی سطح تک منتقلی محض ایک خواب رہ گیا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی ریاستی انتظام کی عدم مرکزیت میں عدم دلچسپی ان کے فیوڈل مائنڈسیٹ کی عکاس ہے۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ متعلقہ صوبائی حکومتوں نے خاصی پس و پیش اور کئی برس کی ٹال مٹول کے بعد بالآخر عدالت عظمیٰ کے مسلسل دباؤ پر بلدیاتی انتخابات کرائے ہیں، لیکن ان انتخابات سے قبل صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے ایسی قانون سازی کردی،جس کے نتیجے میں بلدیاتی نظام مکمل طورپر صوبائی حکومتوں کا دست نگر بن کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ آئین کی شق140Aکہتی ہے کہ "Each Province shall, by law, establish a local government system and devolve political, administrative and financial responsibility and authority to the elected representatives of the local government.یعنی ہر صوبائی حکومت قانون کے مطابق مقامی حکومتی نظام قائم کرے گی اور سیاسی، انتظامی اورمالیاتی ذمے داریاں اور اختیارات مقامی حکومتوں کے منتخب نمایندوں کو منتقل کریں گی۔
متعلقہ حکومتوں نے by law کی اصطلاح کا سہارا لیتے ہوئے ایسی قانون سازی کی جس کے نتیجے میں مقامی حکومتی نظام صوبائی حکومت کے ایک ماتحت محکمے سے بھی کمتر حیثیت کا حامل ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ متذکرہ بالا آئینی شق میں جس سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمے داری اور اختیار کی بات کی گئی ہے، اسے بھی بری طرح نظر اندازکیا گیا ہے۔ یعنی ہر صوبائی حکومت نے اس آئینی شق کی دھجیاں بکھیرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی حکومتی نظام کے تصور کو سمجھنے اور اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے تسلسل کے ساتھ پھیلائے جانے والے ابہام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے عالمی سطح پر دو طریقے مروج ہیں۔ اول، اختیارات کی تفویض یعنی Delegation of Powers۔دوئم، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی(Devolution of Powers)۔اختیارات کی تفویض ایک قسم کا انتظامی معاملہ ہوتی ہے۔یعنی کوئی مجاز اتھارٹی اپنی ذمے داریوں کا بوجھ ہلکا کرنے کی خاطر کچھ اختیارات نچلی سطح کے کسی عہدیدار یا عہدیداروں کو تفویض کردیتی ہے، لیکن ان اختیارات پر اصل کنٹرول مجاز اتھارٹی ہی کا رہتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اختیارات کی تفویض دراصل اختیارات کی مرکزیت ہی ہوتی ہے جہاں نچلی سطح کے ادارے اور ان کے عہدیدار مجاز اتھارٹی کے احکامات کے پابند رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ یوں ہر قسم کی فیصلہ سازی پر مجاز اتھارٹی کا مکمل کنٹرول رہتا ہے۔ یوں بلدیاتی نظام ایک طرح سے اختیارات کی تفویض کا نظام ہے، جسے کسی بھی طور مقامی حکومتی نظام نہیں کہا جا سکتا۔ بلدیاتی نظام، دراصل حکومت کے دیگر شعبہ جات کی طرح ایک شعبہ ہوتا ہے، جس کی ذمے داریاں منتخب نمایندوں کے علاوہ کسی سرکاری اہلکارکو بھی سونپی جاسکتی ہیں۔
اس کے برعکس اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی (Devolution of Powers)سے مراد نچلی سطح پر ایک مکمل طور پر بااختیار حکومت کاقیام ہے، جو آئین میں متعین دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات اور ذمے داریاں بغیر کسی بیرونی دباؤ، آزادانہ طور پر سرانجام دیتی ہے۔ یہ حکومتیں اپنے آئینی دائرہ کار میں اتنی ہی بااختیار ہوتی ہیں، جتنی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ان کے اختیارات کا دائرہ کار وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ مثلاً برطانیہ میں مقامی حکومتوں کے میئروںکو وزیر اعظم برطانیہ سے زیادہ انتظامی اختیارات حاصل ہیں۔ امریکا میں بڑے شہروں(Mega cities)کے لیے ایک مکمل بااختیارانتظامی ڈھانچہ رائج ہے جس میں ریاستی حکومت کو سوائے مانیٹرنگ کے کسی قسم کی مداخلت کا اختیار نہیں ہوتا۔
اس تناظر میں چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کے لیے بلدیاتی نظام کے جو مسودے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں نے منظور کیے ہیں، وہ کسی بھی طوراقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی نہیں ہیں، بلکہ منتخب ہونے والی کونسلیں، ہر لحاظ سے صوبائی حکومت کی محتاج اور دست نگر رکھی گئی ہیں۔ کراچی اور لاہور سمیت تمام بڑے شہروں کے میئروں کی حیثیت بلدیاتی ادارے کے کلرک سے زیادہ نہیں ہے۔ سندھ حکومت نے صوبائی اسمبلی میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر برطانوی نوآبادیاتی دور کے بلدیاتی نظام سے بھی کم تر اختیارات کا حامل بنادیا ہے۔ جس سے سندھ حکومت ہی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کے مائنڈ سیٹ کا اندازہ ہوتا ہے، جو اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم کرنے کی شدید خواہشمند ہے۔ خاص طو پر کراچی اور حیدرآباد، جہاں ایم کیو ایم اکثریت میں ہے، بلدیاتی کونسلوں کو مکمل طورپر مفلوج رکھا گیا ہے۔
اب پنجاب حکومت نے بھی 1860 سے 1870 کے دوران بنائے جانے والے اس انتظامی ڈھانچے کو بحال کر دیا ہے، جو حکومت برطانیہ نے ہندوستان پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے ترتیب دیا تھا۔ اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے فکری طرز عمل اور آمرانہ سوچ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ دنیا بھر میں پولیس سمیت انتظامی ادارے ہر سطح پر منتخب نمایندوں کے ماتحت کیے جاچکے ہیں۔ مگر پاکستان میں مقتدر اشرافیہ اقتدار و اختیار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے اور سیاسی کنٹرول کی مرکزیت قائم رکھنے کی خاطر اسی فرسودہ نوآبادیاتی ڈھانچے پر انحصار کرتے ہوئے اس کے تسلسل پر اصرار کررہی ہے۔
پاکستان کی سول سوسائٹی یہ سمجھتی ہے کہ ملک میں دو درجاتی(Two tier)کے بجائے تین درجاتی (Three tier) ریاستی انتظامی ڈھانچہ رائج ہونا چاہیے۔ جس میں وفاق، وفاقی یونٹ (صوبہ یا ریاست) اور ضلع مکمل انتظامی یونٹ ہوں۔ اس کے بعد ضلع کو چار درجات(Tier)میں تقسیم کیا جائے، یعنی ضلع، تعلقہ(تحصیل)، یونین کونسل اور وارڈ۔ لیکن انتظامی ڈھانچہ تین درجات یعنی ضلع، تعلقہ اور یونین کونسل پر مشتمل ہو۔ سول سوسائٹی اس بات پر بھی متفق ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں متعارف کیا گیا ، مقامی حکومتی نظام چندضروری تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ رائج کردیا جائے، تاکہ نچلی سطح پر ترقیاتی منصوبہ بندی میں عوام کی براہ راست شرکت کے ذریعے ملک میں شراکتی جمہوریت کے فروغ کے امکانات روشن ہوسکیں۔
اس سلسلے میں PILDATکی جانب سے پیش کردہ تجاویزکو قانون سازی کا حصہ بنانے سے اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے جو کہ درج ذیل ہیں: 1۔ایک یونین کونسل میں ایک کونسلر کا حلقہ زیادہ سے زیادہ 3ہزارووٹرز پر مشتمل ہو۔2۔ حلقوں کی حد بندیاں صوبائی حکومت کے بجائے الیکشن کمیشن جیسا غیر جانبدار اورNon-Partisanادارہ کرے۔3۔منتخب سیاسی نمایندوں اور نوکرشاہی کا کردار واضح ہونا چاہیے تاکہ اختیارات کے غلط استعمال کو روکا جاسکے۔ 4۔اس نظام کو مکمل آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔5۔ تمام کلیدی میونسپل افعال(Functions)،جن میں مقامی ترقی، تعلیم، صحت، جائیداد کی خریدو فروخت، ٹرانسپورٹ اور ریونیوکو مکمل طور پر Devolve کیا جائے۔
6۔ مالیاتی بااختیاریت یونین کونسل کی سطح تک منتقل کی جائے۔7۔ صوبائی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا جائے، تاکہ ضلع اور یونین کونسل تک وسائل کی تقسیم کو منصفانہ بنایا جاسکے۔ 8۔ لوکل گورنمنٹ کمیشن میں صوبائی حکومت اور مقامی نمایندوں کی نمایندگی میں توازن پیدا کیا جائے۔9۔ پولیس کو مقامی حکومت کے احکامات ماننے اور اس کو جوابدہی کا پابند بنایا جائے۔10۔ 2001کے قانون میں سٹیزن کمیونٹی بورڈز کا جو تصور پیش کیا گیا تھا، اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔11۔ منتخب کونسلوں اور اراکین کی کارکردگی کو جانچنے کا واضح اور شفاف طریقہ وضع کیا جائے۔
اس کے علاوہ ترقیاتی منصوبہ بندی کو یونین کونسل کی سطح پر یقینی بنایا جائے۔ سینٹرل سپیرئیر سروسز(CSS) اور پرونشیل سول سروسز(PCS)کی طرز پر میونسپل ایڈمنسٹریشن سروسز(MAS)متعارف کرائی جائے۔ جائیداد اور زمین کی خرید و فروخت اور الاٹمنٹ کے لیے ضلع مئیر کاNoCلازمی قرار دیا جائے تاکہ سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کو روکا جا سکے۔ لہٰذا اب یہ سول سوسائٹی کی ذمے داری ہے کہ وہ ایک حقیقی مقامی حکومتی نظام کے قیام کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر دباؤ بڑھائے کیونکہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ جمہوریت کے نام پر کھلواڑ سے زیادہ کچھ نہیں۔