آدھا سچ

دسمبر کے آتے ہی فطری اداسی ماحول پر چھا جاتی ہے

shabnumg@yahoo.com

دسمبر کے آتے ہی فطری اداسی ماحول پر چھا جاتی ہے۔ خاص طور پر شامیں اداس اور ٹھہری ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ سردیوں کے موسم کا اپنا مخصوص مزاج ہے۔ انسان گم صم اور دور کہیں سوچ کے راستوں کی طرف نکل جاتا ہے۔ خودکلامی کرنے لگتا ہے۔ دسمبر کے ساتھ چند تلخ یادیں بھی وابستہ ہیں جیسے آرمی پبلک اسکول پشاور کا سانحہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی ان ہی دنوں میں ہوئی۔ اس کے علاوہ کئی حادثے بھی ہوئے جو سال کے آخری مہینے سے وابستہ ہیں۔حادثے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ حادثے ہیں جو ظاہری دنیا میں رونما ہوتے ہیں اور ذہنی طور پر مفلوج کردیتے ہیں۔

دوسری طرح کے المیے وہ ہیں جو اندر کی دنیا میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور دل کی دنیا اجاڑ کے خاموشی سے چلے جاتے ہیں۔ یہ ظاہری حادثات سے زیادہ مہلک اور تباہ کن ہیں۔ جن میں صبر سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ ان کہے دکھ، انسان کے اندر کی تازگی چھین لیتے ہیں۔ لیکن میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ دکھ تباہ کن نہیں ہوتے۔ ان میں ایک تعمیری پہلو پوشیدہ ہوتا ہے۔ لیکن صورتحال کا چناؤ انسان خود کرتا ہے۔ وہ چاہے تو دکھ کی طاقت ساتھ لے کر لوگوں کی سوچ کا زاویہ بدل ڈالے یا پھر اپنی زندگی تباہ کر بیٹھے، ذہنی توازن کھو دے یا خودکشی کر ڈالے۔

ارنسٹ ہیمنگوئے، امریکا کا بہت بڑا ناول نگار ہے۔ اس نے مختلف شعبوں میں کام کیا اور زندگی کو قریب سے دیکھا۔ اس کے ناول 'اولڈ مین اینڈ دی سی' کی لائن مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ ''انسان تباہ تو ہو سکتا ہے مگر اسے شکست نہیں ہو سکتی۔'' مطلب یہ کہ جذبے کی گہرائی یا سچائی ایک دائمی حقیقت ہے۔ وجود کا سچ اور گواہی ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ جسم فانی ہے لہٰذا مٹ جاتا ہے۔ مگر مثبت تحریروں کے خالق نے آخر میں خودکشی کر ڈالی۔ حالانکہ اس کے الفاظ نے کئی لوگوں کی سوچ کا زاویہ بدل کے رکھ دیا۔

ہمارے ملک میں اکثر لوگ غربت، بے روزگاری یا بیماری سے تنگ آ کر خودکشی کر لیتے ہیں۔ کیونکہ معاشرے کی بے حسی انھیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جب کہ ترقی یافتہ معاشروں میں فلاح و بہبود کا زیادہ کام ہوتا ہے تاکہ احساس محرومی یا کمتری کی چنگاری راکھ میں دبی نہ رہ جائے اور ایک دن شعلہ بن کر بھڑک اٹھے۔ ہم فقط بھڑکتی آگ سے ڈرتے ہیں، چنگاری سے کسی کو خوف کھاتے نہیں دیکھا۔ جس طرح لوگ کچی بنیادوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں، اوپر محل ایستادہ کرلیتے ہیں۔ چاہے شخصیت کا مینار ہو، نظریے کی عمارت ہو یا رویوں و خواہشات کے قلعے ہوں۔ یہ تمام تر پہلو زندگی کے آدھے سچ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ رویے ہر سطح پر ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔

یہ مصلحت و منافقت روزمرہ زندگی کی ضرورت بن چکے ہیں۔ درحقیقت انسانی زندگی کو غفلت کی راکھ میں جلتی چنگاریوں اور کھوکھلی بنیادوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ احساس محرومی اور احساس کمتری کا وقت پر مداوا نہ کیا جائے تو انسانی قدریں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ بے اطمینانی کی جڑ سے پھوٹتے مسائل ایک دن ناسور بن جاتے ہیں۔ اعلیٰ و ارفع نظریے، فلاحی تنظیمیں، ادارے اگر بنیاد پر توجہ نہیں دیتے، تو کبھی مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کر سکتے۔ معالج پر معالج بدلے جائیں جب کہ ذہن و جسم سے آشنائی نہ ہو۔ خون میں منفی رویوں کی آلودگی شامل ہوتی رہے۔

سانس کے لیے تازہ ہوا درکار نہ ہو۔ بے رخی کا زہر پیتے رہیں تو دنیا کا کوئی بھی طبیب علاج نہیں کر سکتا۔ علاج اس وقت ممکن ہے جب سوچ کا رخ اور ذہنی کیفیت کو تبدیل نہ کیا جائے۔ طبی زندگی کی بقا کے لیے ہر کوئی کوشاں ہو، جب کہ روح کی تازگی کو کوئی نہ سوچتا ہو۔ اور ذہن میں مستقل الجھنیں بڑھتی رہیں۔ لہٰذا لوگ خودکشی کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ نے اپنی طویل بیماری سے عاجز آ کر معالج سے مرسی کلنگ کی درخواست کی، جو قبول کر لی گئی۔ مگر اکثر لوگوں کو مصنوعی تنفس پر زندہ رکھا جاتا ہے۔ چاہے اس شخص کو زندگی میں محض سانس لینے کی مشین بھی نہیں بنا دیا گیا ہو۔


سوشل میڈیا بھی آدھے سچ پر ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ فیس بک نے سماجی زندگی کی سوچ اور معیار کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ جیسے ماروی ہاسٹل کے کمرے سے طالبہ نائلہ رند کی لاش برآمد ہوئی تو ہر طرف قیاس آرائیاں جنم لینے لگیں۔ سندھی شعبے، سندھ یونیورسٹی کی ہونہار طالبہ اور پوزیشن ہولڈر کی المناک موت پر تمام سندھ سوگوار ہے۔ انتظامیہ خودکشی جب کہ ورثا قتل پر مصر ہیں۔

نائلہ کی پنکھے سے لٹکتی لاش اور چہرے کے کلوز اپ پر سماجی حلقوں کی طرف سے مستقل مذمت کی جا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نائلہ کی یہ تصاویر کیسے فیس بک پر شیئر کی گئیں۔ سوشل میڈیا کی پالیسی وضع کرنے والے شاید ہی بتا سکیں۔ خودکشی ہو یا قتل کیا والدین اپنی بیٹیوں کو ہاسٹل بھیجیں گے؟ ایک سانحہ کئی ذہین لڑکیوں کا راستہ روک لیتا ہے۔ فیس بک پر مرے ہوئے لوگوں کی پرتشدد تصاویر، بری خبریں، محاذ آرائی عام ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے پچاس فیصد شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔ سائبر کرائم کا قانون متحرک نہ ہونے کی صورت ان جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔

سائبر کرائم بل کے منظور ہونے کے بعد، سول سوسائٹی اور بلاگرز کو اعتراضات ہیں کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اکثر ویب سائٹس پر جا کر قابل اعتراض تصاویر و ویڈیوز کے لنکس بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سائبر کرائم یا نیٹ فلٹر کا متعلقہ ادارہ اس ضمن میں خاموش ہے۔ نئی نسل مستقل اخلاقی بدتری کا شکار ہو رہی ہے۔اس ضمن میں خفیہ فلٹر لگائے جا سکتے ہیں۔

اخبارات ہوں یا سوشل میڈیا ایسی تصاویر، جس میں ورثا کی اجازت شامل نہ ہو، اخلاقی جرم کے زمرے میں آتی ہیں۔ بچے و نوجوان ہراساں اور والدین بے جا تشویش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنی نوجوان نسل کی آنکھوں میں بدصورت مناظر کی تاریکی بھرنے لگے ہیں۔

مصلحت آمیز رویوں کو متعارف کروایا گیا ہے۔ جھوٹ کو سچ ماننے کی ضد کی جاتی ہے۔ لہٰذا Self Defence Mechanism دفاعی رویے مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ رویے تنقید برائے تنقید کے رجحان سے پنپتے ہیں۔ کھوکھلے اور سطحی رویے اس تضاد کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ہم دل کی بات زبان پر نہیں لاسکتے۔ ایک دوسرے سے اپنی بات یا دکھ بانٹ نہیں سکتے۔ رابطوں کا ایک گہرا خلا ہمارے درمیان پیدا ہوچکا ہے۔ واہموں اور قیاس آرائیاں ہمارے بیچ تفریق کا بیج بو رہی ہیں۔ نفرت کی فصل خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔پشکن نے کیا خوب کہا ہے ''درباری زندگی بھی کیا زندگی ہے۔ دربار میں بیٹھے لوگ سو رہے ہوتے ہیں، اگر کھڑے ہوں تو اونگھ رہے ہوتے ہیں۔''

نئے سال کے ابتدائی دن ہیں۔ یہ خوبصورت دن بھی مایوسی کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔ فطرت بھی انسانی تضادات کے زیر اثر اداسیوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ یہ کتنی اداس کیوں نہ ہو مگر رات کے آنسو صبح پھولوں کے چہروں پر تازگی بن کر جھلملاتے ہیں۔
Load Next Story