حقوق غصب کرنے والے

دنیا میں ساری لڑائیاں زن، زر، زمین کے چکر اور جنون میں ہوتی ہیں


فاطمہ نقوی January 05, 2017
[email protected]

دنیا میں ساری لڑائیاں زن، زر، زمین کے چکر اور جنون میں ہوتی ہیں اورکچھ لوگ تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جنگ میں اور محبت میں سب جائز ہے اور اسی وجہ سے دوسروں کی حق تلفی کرنا، ناجائز قبضہ کرنا، دوسروں کا حق مارنے کو گناہ نہیں اپنی شان سمجھتے ہیں اور اس میں کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے۔ قانون کی دھجیاں اڑانا ایسے لوگوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔

پاکستان میں ہر جگہ جہاں موقع ملا لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ اندرون پنجاب یہ کھیل آجکل اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے جہاں زمین پر قبضہ کرنا، اس پر اپنا حق جتانا معمول کی بات بن گئی ہے۔ قانون کی پیچیدگیوں کو اپنے حق میں استعمال کرنا اور دشمن کو نیچا دکھانا ایسا کھیل بن چکا ہے جس میں لوگوں کو 100 فیصد جیت کی تمنا ہوتی ہے۔ ہمارے ایک کولیگ کے ساتھ بھی پچھلے دنوں ایسا واقعہ ہوا جس نے ثابت کر دیا کہ اب رشتوں کا احترام ختم ہو چکا ہے، زمین کی خاطر مقدس رشتے بھی بدترین دشمنی میں بدل سکتے ہیں۔

ہمارے کولیگ کی کچھ زمین ملتان میں تھی، جس پر کچھ عرصہ پہلے انھوں نے چار دیواری اور تھوڑا بہت رہائشی حصہ بنوا لیا تھا تاکہ کراچی سے جائیں تو قیام میں آسانی پیدا ہو، مگر آسانیاں توکیا پیدا ہونی تھیں الٹا آنتیں گلے پڑگئیں۔ ان کے ایک چچا کو یہ بات پسند نہیں آئی اور انھوں نے اس پر اعتراض شروع کردیا۔ ان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں پر جھوٹے مقدمات بناتا ہے، پھر کچھ لے دے کر راضی نامہ کرلیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہل علاقہ اسے سخت ناپسند کرتے ہیں۔ پہلے تو وہ یہ کارروائی دوسروں کے خلاف کرتے تھے مگر اس فن میں صاحب کمال ہونے کے بعد تو رشتوں کے تقدس کو بھی پامال کرنا شروع کردیا۔ایک دن اچانک اطلاع ملتی ہے کہ انھوں نے تالا توڑ کر پلاٹ پر قبضہ کرلیا اوراب قبضہ ختم کرنے سے انکاری ہیں۔

یہ تمام حالات دیکھ کر صاحب معاملہ ملتان گئے اور اپنی چیزوں اور زمینوں کی وصولی کے لیے باز پرس کی تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، ان پر ہی جھوٹے مقدمات قائم کردیے اور اپنی پشت پناہی کرنے والوں کے بل بوتے پر زمین کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کے لیے تمام تر رشتوں، وضع داری، اخلاق سب ختم کردیے، آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ اتنی جلدی تو خون بھی سفید نہیں ہوتا۔ اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ ہے، حق دار اپنی چیزوں کی وصولی کے لیے تڑپ رہے ہیں مگر ناحق ستایا جا رہا ہے۔

ایسے ان گنت واقعات ہیں جس میں حق داروں کو ان کا حق نہ ملا۔ہمارے ہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ جڑ پکڑ چکا ہے۔ صاحب اقتدار کو تو سو خون بھی معاف ہیں اور اگر کوئی غریب آدمی کسی معاملے میں ملوث ہو تو مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی مجرم وہی ٹھہرتا ہے۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اوراس کو اپنے حق میں موڑ لینا وتیرہ بن چکا ہے۔ مشتاق رئیسانی نے پلی بارگین کے طریقے پر عمل کرکے دوسروں کو ایک نئی راہ دکھائی کہ ملک وقوم کا پیسہ لوٹو، غریبوں کو ان کے حقوق سے محروم کرو اور پھر مک مکا کرکے آٹے میں نمک کے برابر پیسہ واپس کرو اور موجیں کرو۔ نہ کوئی پوچھ گچھ نہ عبرت ناک سزا۔ پکڑے جاؤ تو دے دلا کر چھوٹ جاؤ ۔۔۔بقول شاعر'' لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا'' اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو معمولی چوری کرکے بھی برسوں سے جیل میں بند ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حق دار اپنا حق لینے سے ڈرنے لگے ہیں۔

ملتان ہو یا کراچی ہر جگہ ناجائزقبضہ کرنے والوں نے اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ غریبوں کی اکثریت بے گھر اور جھونپڑیوں میں رہنے سے بھی قاصر ہے، مگر ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے طاقت کے بل بوتے پر حکومت کی زمینوں پر قبضہ کرکے شادی ہالز اورکارخانے وغیرہ قائم کر رکھے ہیں، جب بھتہ نہیں پہنچتا تو ان کو توڑ پھوڑ دیا جاتا ہے مگر پھرکچھ دنوں کے بعد ان پر تعمیرات شروع ہوجاتی ہیں۔ شریف اور قانون پسند شہری اپنے گھر سے آگے دو فٹ بھی جگہ بڑھانے سے ڈرتے ہیں مگر لانڈھی، کورنگی میں تو یہ حال ہے کہ 60 گز زمین خرید کر 200 گز پرگھر، دکانیں تعمیر کروالیے ہیں، اسکولز کے نام پر زمینوں پر قبضہ کرلیا ہے۔

لاکھوں کروڑوں فیس کی مد میں حاصل کرکے بھی حرام کی زمین پر کاروبار جاری ہے،کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حضرت علیؓ کا واقعہ ہے ان کی زرہ بکتر پر پڑوسی یہودی نے قبضہ کرلیا، انھوں نے قاضی وقت کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا، قاضی نے حضرت علیؓ اور یہودی دونوں کو عدالت میں بلوالیا۔ معاملہ سامنے آیا، فریقین کے بیانات سنے گئے جب گواہوں کی باری آئی تو حضرت علیؓ نے اپنے غلام قنبر اور اپنے بیٹے حضرت امام حسنؓ کو پیش کیا۔ قاضی نے کہا یہ گواہیاں قابل قبول نہیں کیونکہ یہ دونوں آپ کے زیر کفالت ہیں، اس لیے ان کی گواہی ناقص ہے اگر کوئی اور گواہ ہے تو سامنے لائیں ۔ مگر حضرت علیؓ کوئی اور گواہ پیش نہ کرسکے جس کی وجہ سے مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں ہوگیا۔

یہودی عدل کا یہ بے بدل معیار دیکھ کر ایمان لے آیا اور زرہ واپس کردی۔ کیا ہمارے ہاں یہ ممکن ہے کہ ہم اس طرح کے طرز عمل سے دوسروں پر اپنا اثر ڈالیں بلکہ ہمارے ہاں تو تحریک ملتی ہے کہ کس طرح سے ملک و قوم کی دولت پر ہاتھ صاف کرو، اور صاف بچ نکلو۔ ایسی مثالیں کم ہیں کہ ہم اپنا حق ہوتے ہوئے صرف نیکی کی خاطر دوسرے فریق کے حق میں چھوڑ دیا جائے۔ ہزاروں ایسی مثالیں ہیں جن میں ناجائز طور پر دوسروں کی املاک پر قبضہ جما کر بیٹھ گئے۔ ایک خاتون کی جائیداد پر ان کے سسرال والوں نے قبضہ کرلیا تھا، وہ بیوہ تھیں، دو یتیم بچیاں بھی تھیں، جس کسمپرسی میں محنت مزدوری کرکے انھوں نے زندگی گزاری وہ ایک الگ داستان ہے، مگر ان کے سسرال والوں کو نہ ہی غیرت آئی کہ غریب بھاوج اور اس کی بچیاں رل رہی ہیں، نہ ہی خوف خدا آیا کہ آخرت میں کیا جواب دیں گے ۔

بلکہ یہ دیکھا گیا کہ جگہ جگہ ان کا مذاق اڑایا جاتا، مگر ضمیر نے کبھی احساس نہ دلایا کہ آج جن کی بدولت بنگلوں میں بیٹھے ہیں وہ اس غریب عورت کی مرہون منت ہے۔ یہی حال ملک کے حکمرانوں کا ہے کہ ترقیاتی فنڈز کھا گئے ڈکار تک نہ لی لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری اپنے عروج پر ہے مگرکوئی پوچھنے والا نہیں ہے یہی وہ لوگ ہیں جو آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے اورکان رکھتے بہرے ہیں ۔ ان کواللہ نے موقع دیا کہ وہ ملک کی تقدیر بدل دیں مگر یہ لوگ اپنی تقدیر بدلنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک کی تقدیر سے کیا مطلب کوئی ڈر و خوف نہیں کہ جس وقت الٹی گنتی شروع ہوگئی تو سب خس وخاشاک میں بہہ جائے گا، سب یہیں دھرا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں