پروپیگنڈا کس طرح اور کیونکر ہوتا ہے
اسٹیریو ٹائپ لگے بندھے انداز پروپیگنڈا کرنے والوں کے لیے طاقتور ہتھیار ہیں
آج ہمیں اتفاق سے ایک اورکتاب کا تذکرہ کرنا ہے جو پروپیگنڈے کے بارے میں ہے بلکہ اس کا عنوان ہی یہی ہے کہ پروپیگنڈا کس طرح ہوتا ہے۔ یہ کتاب جیسن اسٹینلے نے لکھی ہے اور جس پر تبصرہ ایک اور ممتاز رائٹر مشیکوکاکوتانی نے اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے۔ ہم بھی آج اپنے کالم میں سی تبصرے کے کچھ اقتباسات پیش کرنا چاہیں گے۔اپنی کتاب ''مین کیمپف'' (Mein Kampf) میں ہٹلر نے یہ استدلال پیش کیا تھا کہ موثر پروپیگنڈا لوگوں کی توجیہ کی صلاحیت کو نہیں بلکہ جذبات کو اپیل کرتا ہے۔ لگے بندھے اسٹیریوٹائپ فارمولے پر مبنی ہوتا ہے جس میں ایک ہی بات کو بار بار دہرایا جاتا ہے تا کہ اپنے مطلب کے نظریات عوام کے ذہنوں میں ٹھونسے جا سکیں، محبت یا نفرت غلط یا صحیح کی ترکیبیں بروئے کار لائی جاتی ہیں اور اس طرح جان بوجھ کر متعصب اور یکطرفہ دلائل کے ذریعے دشمن کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔
اگرچہ پروپیگنڈے کو نازی جرمنی اور سوویت یونین جیسی آمرانہ حکومتوں سے جوڑا جاتا ہے۔ ممتاز اسکالر جیسن اسٹینلے نے جو ییل یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر ہیں اپنی تازہ ترین کتاب میں یہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ پروپیگنڈا جمہوریتوں کے لیے بھی ایک بڑا سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔واقعی یہ موضوع اس وقت خاصا برمحل لگتا ہے جب ہمیں ''ویب'' کے ذریعے پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں اور ''مس انفارمیشن'' کا خیال آتا ہے اور اس پبلک کا بھی جسے کسی بھی طرح اسکینڈلز اور اینٹرٹینمنٹ کے چسکے لینے کی چاٹ لگ گئی ہے پھر وہ میڈیا آؤٹ لیٹس بھی ہیں جو ریٹنگ اورکلک کر جانے کی دھن میں ساری حدیں پھلانگ جاتے ہیں وہ 2016ء کی مہم میں روس کا ٹانگ اڑانا ہو یا اگلے سال کے یورپی انتخابات ہوں ایک منتخب صدر جس نے اپنے حامیوں کے خوف اور شکایات کو بھڑکایا ہوا ہے جو بار بار جھوٹ بولتا ہے اور ٹوئیٹ کے ذریعے کنفیوژن بھی پھیلاتا ہے۔
اپنی نئی کتاب How Propaganda Works میں مسٹر اسٹینلے نے جدید پروپیگنڈے کا جائزہ لیا ہے یعنی اس کا آپریشن تیکنیک اور اثرات اگرچہ ایک ہی بات کو ان کے بار بار دہرانے سے اکتاہٹ سی ہونے لگتی ہے اس کے باوجود انھوں نے ایک اہم اور بروقت موضوع پر خاصی معلومات فراہم کی ہیں، مسٹر اسٹینلے اپنی بات پروپیگنڈے کے مطلب اور تعریف بیان کرنے سے شروع کرتے ہیں جو محض ڈکشنری کے ان جملوں تک محدود نہیں کہ تعصب پر مبنی گمراہ کن اطلاعات جو کسی مخصوص سیاسی کاز یا نقطۂ نظر کو فروغ دینے کے لیے پھیلائی جائیں، بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ اپنی خاصیت کے لحاظ سے پروپیگنڈا ایک مخصوص میکنزم کا حصہ ہے۔
جس کے ذریعے لوگ اس بارے میں کہ وہ اپنے مقاصد کس طرح بہتر طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں دھوکا کھا جاتے ہیں اور وہ یہ نہیں دیکھ پاتے کہ خود ان کے بہترین مفاد میں کیا ہے یہ سب کچھ Time Tested طریقوں سے حاصل کیا جاتا ہے یعنی جذبات کو اس طرح اپیل کیا جائے کہ معقولیت کو سائیڈ لائن یا شارٹ سرکٹ کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی کسی کمیونٹی کا استدلال اور معقولیت کا اسٹینڈرڈ ختم کر دیا جاتا ہے جو ایک دوسرے کے احترام اور باہمی احتساب پر مبنی ہوتا ہے۔
مثلاً جیسا کہ مصنف نے دعویٰ کیا کہ امریکی صدارتی الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے مبالغہ آرائی کی ایسی تیکنیک اپنائی جس کی امریکی انتخابات کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے بار بار بظاہر جھوٹے دعوؤں کی توثیق کی اور بہت سی الٹی سیدھے تردیدیں کیں کھل کر جھوٹے بیانات دیے اور اس طرح امریکا کو ایک ایسے تشدد اور جرم و سزا میں جکڑے ہوئے ملک کے طور پر پیش کر گئے جہاں امن وامان بحال کرنے اور حالات کو سدھارنے کی ضرورت شدت اختیارکر گئی ہے۔
اپنی اس کتاب میں مسٹر اسٹینلے براہ راست ڈونلڈ ٹرمپ کی مبالغہ آرائی سے نہیں نمٹتے نہ اس کردار کا ذکر کرتے ہیں جو جھوٹے اور مصنوعی خبروں نے 2016ء کے انتخابات میں ادا کیا تھا، تاہم ان کی کتاب پروپیگنڈے کے خطرات کے بارے میں خاصی مفید بصیرت فراہم کرتی ہے اور یہ بھی کہ پروپیگنڈا کس طرح مسخ حقائق اور جھوٹے دعوؤں پر انحصارکرتا ہے۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جمہوریتوں میں بعض بازاری لیڈر ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو لبرل ڈیموکریٹک آئیڈیاز کو تقویت پہنچاتی محسوس ہوتی ہے جیسے آزادی، مساوات اور دلیل کے آئیڈیل کو فروغ دے رہی ہو مگر درحقیقت وہ ان ہی اصولوں کو تاراج کرنے کا کام کرتی ہے۔
وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ پروپیگنڈا اکثروبیشتر اس خوف کو بڑھاتا ہے کہ اس سے اعتدال پسندی پر مبنی بحث مباحثے کا خاتمہ ہو گا۔ مثلاً جیسا کہ 11 ستمبر 2011ء کے بعد پروپیگنڈے کے ذریعے صدام حسین کا نام بین الاقوامی دہشتگردی سے منسلک کیا گیا تھا اور یہ خدشہ بھی اپنی جگہ کہ اس سے لسانی اور مذہبی گروپوں کے خلاف تعصب بڑھے گا۔توہین آمیز زبان کے سیکشن میں مسٹر اسٹینلے لکھتے ہیں کہ لسانی گروپوں کے لیے اسٹینڈرڈ بگاڑ Slurs کو وسیع طور پر ایک لبرل ڈیموکریسی میں سیاسی بحث مبالغہ میں واقع ہونے والا بگاڑ Slurs سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ جب لبرل جمہوریت کا تیا پانچا ہوتا ہے جیساکہ جدید دور کے ہنگری میں ہوا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں واضح Slurs زیادہ آسانی سے قابل قبول ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بظاہر غیر قانونی تارکین وطن کو منفی معنی بنائے جا سکتے ہیں کیونکہ بار بار وابستگی کے میکنزم سے انھیں مسئلے والی امیج یا اسٹیریو ٹائپ شکل دے دی جاتی ہے۔
در حقیقت اسٹیریو ٹائپ لگے بندھے انداز پروپیگنڈا کرنے والوں کے لیے طاقتور ہتھیار ہیں کیونکہ وہ مسٹر اسٹینلے کے الفاظ میں ایسا سوشل اسکرپٹ فراہم کرتے ہیں جو اس دنیا میں نہ صرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں بلکہ اس کا مطلب سمجھاتے ہیں اور اس دنیا کے اندر ہمارے اقدامات کو جائز اور قانونی حیثیت دیتے ہیں وہ ہماری اپنی حاصل کردہ معلومات کو متاثر کرتے ہیں۔
ریویژن کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ (متضاد حقائق یا عقلی دلیل پیش کر کے) کیونکہ وہ جذباتی طور پر ہماری شناخت سے منسلک ہیں اور پہلے سے تسلیم کیے ہوئے عقائد کو جواز فراہم کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پروپیگنڈا جو واقعات کو پروسیس کرنے کے لیے ایک سادہ آسان، سہولت والا بیانیہ ڈھانچہ یا آرکیٹکچر فراہم کرتا ہے ایک ایسے دونوں سروں کو چھونے والا پولارائزرڈ ماحول میں پروان چڑھتا ہے جہاں سچ نظریہ اضافت پر مبنی ہوتا ہے اور حقائق کو ناپائیدار سمجھا جاتا ہے اور یہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے اصلیت کو مسخ کرنے والا پروپیگنڈا اس استدلال پر مبنی سوچ بچار کو فنا کر دیتا ہے جو جمہوریت کی روح ہے۔
اگرچہ پروپیگنڈے کو نازی جرمنی اور سوویت یونین جیسی آمرانہ حکومتوں سے جوڑا جاتا ہے۔ ممتاز اسکالر جیسن اسٹینلے نے جو ییل یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر ہیں اپنی تازہ ترین کتاب میں یہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ پروپیگنڈا جمہوریتوں کے لیے بھی ایک بڑا سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔واقعی یہ موضوع اس وقت خاصا برمحل لگتا ہے جب ہمیں ''ویب'' کے ذریعے پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں اور ''مس انفارمیشن'' کا خیال آتا ہے اور اس پبلک کا بھی جسے کسی بھی طرح اسکینڈلز اور اینٹرٹینمنٹ کے چسکے لینے کی چاٹ لگ گئی ہے پھر وہ میڈیا آؤٹ لیٹس بھی ہیں جو ریٹنگ اورکلک کر جانے کی دھن میں ساری حدیں پھلانگ جاتے ہیں وہ 2016ء کی مہم میں روس کا ٹانگ اڑانا ہو یا اگلے سال کے یورپی انتخابات ہوں ایک منتخب صدر جس نے اپنے حامیوں کے خوف اور شکایات کو بھڑکایا ہوا ہے جو بار بار جھوٹ بولتا ہے اور ٹوئیٹ کے ذریعے کنفیوژن بھی پھیلاتا ہے۔
اپنی نئی کتاب How Propaganda Works میں مسٹر اسٹینلے نے جدید پروپیگنڈے کا جائزہ لیا ہے یعنی اس کا آپریشن تیکنیک اور اثرات اگرچہ ایک ہی بات کو ان کے بار بار دہرانے سے اکتاہٹ سی ہونے لگتی ہے اس کے باوجود انھوں نے ایک اہم اور بروقت موضوع پر خاصی معلومات فراہم کی ہیں، مسٹر اسٹینلے اپنی بات پروپیگنڈے کے مطلب اور تعریف بیان کرنے سے شروع کرتے ہیں جو محض ڈکشنری کے ان جملوں تک محدود نہیں کہ تعصب پر مبنی گمراہ کن اطلاعات جو کسی مخصوص سیاسی کاز یا نقطۂ نظر کو فروغ دینے کے لیے پھیلائی جائیں، بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ اپنی خاصیت کے لحاظ سے پروپیگنڈا ایک مخصوص میکنزم کا حصہ ہے۔
جس کے ذریعے لوگ اس بارے میں کہ وہ اپنے مقاصد کس طرح بہتر طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں دھوکا کھا جاتے ہیں اور وہ یہ نہیں دیکھ پاتے کہ خود ان کے بہترین مفاد میں کیا ہے یہ سب کچھ Time Tested طریقوں سے حاصل کیا جاتا ہے یعنی جذبات کو اس طرح اپیل کیا جائے کہ معقولیت کو سائیڈ لائن یا شارٹ سرکٹ کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی کسی کمیونٹی کا استدلال اور معقولیت کا اسٹینڈرڈ ختم کر دیا جاتا ہے جو ایک دوسرے کے احترام اور باہمی احتساب پر مبنی ہوتا ہے۔
مثلاً جیسا کہ مصنف نے دعویٰ کیا کہ امریکی صدارتی الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے مبالغہ آرائی کی ایسی تیکنیک اپنائی جس کی امریکی انتخابات کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے بار بار بظاہر جھوٹے دعوؤں کی توثیق کی اور بہت سی الٹی سیدھے تردیدیں کیں کھل کر جھوٹے بیانات دیے اور اس طرح امریکا کو ایک ایسے تشدد اور جرم و سزا میں جکڑے ہوئے ملک کے طور پر پیش کر گئے جہاں امن وامان بحال کرنے اور حالات کو سدھارنے کی ضرورت شدت اختیارکر گئی ہے۔
اپنی اس کتاب میں مسٹر اسٹینلے براہ راست ڈونلڈ ٹرمپ کی مبالغہ آرائی سے نہیں نمٹتے نہ اس کردار کا ذکر کرتے ہیں جو جھوٹے اور مصنوعی خبروں نے 2016ء کے انتخابات میں ادا کیا تھا، تاہم ان کی کتاب پروپیگنڈے کے خطرات کے بارے میں خاصی مفید بصیرت فراہم کرتی ہے اور یہ بھی کہ پروپیگنڈا کس طرح مسخ حقائق اور جھوٹے دعوؤں پر انحصارکرتا ہے۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جمہوریتوں میں بعض بازاری لیڈر ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو لبرل ڈیموکریٹک آئیڈیاز کو تقویت پہنچاتی محسوس ہوتی ہے جیسے آزادی، مساوات اور دلیل کے آئیڈیل کو فروغ دے رہی ہو مگر درحقیقت وہ ان ہی اصولوں کو تاراج کرنے کا کام کرتی ہے۔
وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ پروپیگنڈا اکثروبیشتر اس خوف کو بڑھاتا ہے کہ اس سے اعتدال پسندی پر مبنی بحث مباحثے کا خاتمہ ہو گا۔ مثلاً جیسا کہ 11 ستمبر 2011ء کے بعد پروپیگنڈے کے ذریعے صدام حسین کا نام بین الاقوامی دہشتگردی سے منسلک کیا گیا تھا اور یہ خدشہ بھی اپنی جگہ کہ اس سے لسانی اور مذہبی گروپوں کے خلاف تعصب بڑھے گا۔توہین آمیز زبان کے سیکشن میں مسٹر اسٹینلے لکھتے ہیں کہ لسانی گروپوں کے لیے اسٹینڈرڈ بگاڑ Slurs کو وسیع طور پر ایک لبرل ڈیموکریسی میں سیاسی بحث مبالغہ میں واقع ہونے والا بگاڑ Slurs سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ جب لبرل جمہوریت کا تیا پانچا ہوتا ہے جیساکہ جدید دور کے ہنگری میں ہوا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں واضح Slurs زیادہ آسانی سے قابل قبول ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بظاہر غیر قانونی تارکین وطن کو منفی معنی بنائے جا سکتے ہیں کیونکہ بار بار وابستگی کے میکنزم سے انھیں مسئلے والی امیج یا اسٹیریو ٹائپ شکل دے دی جاتی ہے۔
در حقیقت اسٹیریو ٹائپ لگے بندھے انداز پروپیگنڈا کرنے والوں کے لیے طاقتور ہتھیار ہیں کیونکہ وہ مسٹر اسٹینلے کے الفاظ میں ایسا سوشل اسکرپٹ فراہم کرتے ہیں جو اس دنیا میں نہ صرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں بلکہ اس کا مطلب سمجھاتے ہیں اور اس دنیا کے اندر ہمارے اقدامات کو جائز اور قانونی حیثیت دیتے ہیں وہ ہماری اپنی حاصل کردہ معلومات کو متاثر کرتے ہیں۔
ریویژن کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ (متضاد حقائق یا عقلی دلیل پیش کر کے) کیونکہ وہ جذباتی طور پر ہماری شناخت سے منسلک ہیں اور پہلے سے تسلیم کیے ہوئے عقائد کو جواز فراہم کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پروپیگنڈا جو واقعات کو پروسیس کرنے کے لیے ایک سادہ آسان، سہولت والا بیانیہ ڈھانچہ یا آرکیٹکچر فراہم کرتا ہے ایک ایسے دونوں سروں کو چھونے والا پولارائزرڈ ماحول میں پروان چڑھتا ہے جہاں سچ نظریہ اضافت پر مبنی ہوتا ہے اور حقائق کو ناپائیدار سمجھا جاتا ہے اور یہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے اصلیت کو مسخ کرنے والا پروپیگنڈا اس استدلال پر مبنی سوچ بچار کو فنا کر دیتا ہے جو جمہوریت کی روح ہے۔