ارکان پارلیمنٹ عوام کے ملازم ہونے کے سوا کچھ نہیںجسٹس جواد
کوشش کررہے ہیں جمہوری نظام چلے اچھائیاں برائیاں خود ہی ٹھیک ہوتی رہیں گی۔
سپریم کورٹ میں توہین عدالت قانون کیخلاف درخواستوں کی سماعت میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ عوام کے ملازم ہونے کے سوا کچھ نہیں۔ کل سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ پیش کر دیا گیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ ہم نے صرف عدالت کے اندر کے معاملات کو دیکھنا ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی کارروائی کہیں چیلنج نہیں ہو سکتی لیکن بحث کا جائزہ لینے سے قانون بنانے کی وجوہات کا پتہ چلے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی بحث سے قانون کی تشریح کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ کوشش کررہے ہیں جمہوری نظام چلے اچھائیاں برائیاں خود ہی ٹھیک ہوتی رہیں گی۔
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس توہین عدالت قانون میں ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت کےدوران دئیے۔انہوں نےکہایہ کہانیاں سنانے کا وقت نہیں، ملک اس مرحلہ سے نہیں گزر رہا کہ باتیں کھول کر بیٹھ جائیں۔
جسٹس تصدق جیلانی نے کہا آرٹیکل دوسوچارکسی کو توہین عدالت سے استثنی نہیں دیتا، ماتحت قانون کے ذریعہ آئین کی شق کو تبدیل کرنا خلاف آئین ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا پارلیمانی ریکارڈ توہین عدالت کے قانون کے قیام میں مدد کرسکتا ہے۔ مزید یہ ریکارڈ توہین عدالت قانون کے تصور کے پیچھے چھپی وجوہات کو اجاگر کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
عدالت نے پارلیمانی بحث کا ریکارڈ جمع کرنے کے لئے فیڈریشن کو حکم دیا تھا۔
جیف جسٹس نے کہا ہے کہ آئینی بحران سے متعلق غلط اور بے بنیاد خبریں گردش کررہی ہیں۔
سپریم کورٹ نے پہلے ہی اس معاملے پر فل بنچ تشکیل دینے کے لئے حکومت سے کی درخواست، اسی طرح طویل مدت کے لئے اس کیس کی سماعت ملتوی کر کے وکلا اطمینان سے اپنے دلائل کی تیاری کسکتے ہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ ہم نے صرف عدالت کے اندر کے معاملات کو دیکھنا ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی کارروائی کہیں چیلنج نہیں ہو سکتی لیکن بحث کا جائزہ لینے سے قانون بنانے کی وجوہات کا پتہ چلے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی بحث سے قانون کی تشریح کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ کوشش کررہے ہیں جمہوری نظام چلے اچھائیاں برائیاں خود ہی ٹھیک ہوتی رہیں گی۔
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس توہین عدالت قانون میں ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت کےدوران دئیے۔انہوں نےکہایہ کہانیاں سنانے کا وقت نہیں، ملک اس مرحلہ سے نہیں گزر رہا کہ باتیں کھول کر بیٹھ جائیں۔
جسٹس تصدق جیلانی نے کہا آرٹیکل دوسوچارکسی کو توہین عدالت سے استثنی نہیں دیتا، ماتحت قانون کے ذریعہ آئین کی شق کو تبدیل کرنا خلاف آئین ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا پارلیمانی ریکارڈ توہین عدالت کے قانون کے قیام میں مدد کرسکتا ہے۔ مزید یہ ریکارڈ توہین عدالت قانون کے تصور کے پیچھے چھپی وجوہات کو اجاگر کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
عدالت نے پارلیمانی بحث کا ریکارڈ جمع کرنے کے لئے فیڈریشن کو حکم دیا تھا۔
جیف جسٹس نے کہا ہے کہ آئینی بحران سے متعلق غلط اور بے بنیاد خبریں گردش کررہی ہیں۔
سپریم کورٹ نے پہلے ہی اس معاملے پر فل بنچ تشکیل دینے کے لئے حکومت سے کی درخواست، اسی طرح طویل مدت کے لئے اس کیس کی سماعت ملتوی کر کے وکلا اطمینان سے اپنے دلائل کی تیاری کسکتے ہیں۔